مافیا نامہ
یہاں کون سا شعبہ ہے جس کا تعلق عوامی بھلائی اور خدمت سے ہو اور وہاں کوئی نہ کوئی مافیا عوام کا استحصال نہ کر رہی ہو۔ میں بڑی بڑی دانشوارانہ محفلوں میں ڈسکس ہونے والے بڑے بڑے سیاسی داؤ پیچ، حکمت عملیوں اور سیاسی مافیازکی بات نہیں کررہا، بلکہ ان اونچے اونچے عالی شان معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان باتوں کی نشان دہی کرنے کی کوشش کررہا ہوں جو ایک عام آدمی کو روزمرہ کی زندگی میں پیش آیا کرتے ہیں۔
ہم تو ایک سسلین مافیا کو ہی جانتے تھے اور ان کے بارے میں پڑھتے تھے اور ان پر بنی ہوئی فلمیں دیکھا کرتے تھے،لیکن یہاں تو اینٹ اٹھاؤ تو نیچے سے ایک مافیا نکل آتی ہے۔ اور ہر طرف ان کی کھڑکی توڑ قسم کی سپرہٹ فلمیں چل رہی ہیں۔ بڑی والی مافیازکو دیکھ کر ہر سطح پر ان کے بغل بچوں کی طرح مافیاز ہی مافیازکی بہاریں نظرآ رہی ہیں۔
اب ٹرانسپورٹ کے شعبے کو ہی لے لیں کیا یہ کسی مافیا سے کم ہے۔ من مانے کرائے وصول کرنا، انھوں نے اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا ہے اگر حکومت ٹرانسپورٹ سے متعلقہ اشیا یعنی پٹرول، ڈیزل وغیرہ کچھ قیمت پر مثلا ایک روپیہ بڑھاتی ہے تو ہماری مافیا اس سے دس گنا کرایہ یوں بڑھا دیتے ہیں کہ جیسے یہ ان کا آئینی حق ہو۔ عوام بے چارے لڑتے جھگڑتے اسی تنخواہ پرکام کرتے یعنی ان کے بڑھائے ہوئے کرائے قہراً وجبراً دیتے نظر آتے ہیں۔ پھر بجلی پر آجائیں تو سارے ملک میں عوام سے جس طرح قانونی طریقے سے اس شعبے میں لوٹ مارکی جارہی ہے اوور بلنگ اور مختلف اوقات کے من مانے بجلی کے ریٹس طے کرنے سے لے کر تیز ترین میٹر لگا دینے تک کا طریقہ کار جس کی کہیں بھی کسی بھی سطح پرکوئی شنوائی نہیں، یہ سب بھی مافیا سے کم تو نہیں۔ اب حال ہی میں سرکار نے پچھے دس برسوں میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے۔
جس نے آئی پی پیز کے معاملات کی چھان بین سے اپنی تحقیقات کا آغازکیا ہے اور پچھلے دنوں آئی پی پیزکے نمایندوں کو طلب کیا گیا اورگزشتہ سالوں آڈٹ رپورٹس اور فنانشل رپورٹس مانگی گئیں تو بڑے کرو فر اور جیسے احسان کرتے ہوئے سے وہ نمایندے آئے اور مانگی گئی دستاویزات کا صرف دس فیصد بمشکل پیش کیا اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے دبی دبی سی وارننگ بھی دے ڈالی کہ اس طرح کی تفتیش سے بین الاقوامی سرمایہ کاری متاثر ہونے کا اندیشہ ہے کہ اس ملک میں تو پرانے معاہدوں کی بھی جانچ پڑتال شروع ہوجاتی ہے۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ ہم آ توگئے ہیں مگر اس طرح کے معاملات (یعنی آئی پی پیز سے پوچھ گچھ) کسی کمیشن کے دائرہ کار میں پتہ نہیں آتے بھی ہیں یا نہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کمیشن کے پیرا میٹرز اور قواعد و ضوابط طے کرنے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کا دائرہ اختیارکیا ہے۔
اگر یہ چھان بین درست طور انجام پا گئی تو ہوش ربا انکشافات سامنے آسکتے ہیں کہ کس کس طرح سے ایسی ایسی شرائط پر یہ پاور جنرریشن اور ڈسٹری بیوشن کے معاہدے کیے گئے ہیں جو کوئی فاتح ملک بھی کسی مفتوح ملک کے ساتھ نہیں کرتا۔ان معاہدوں کے نتیجے میں سارا ملک عموما اور چند شہر خصوصا جن میں کراچی سر فہرست ہے بجلی مافیا کے چنگل میں پھنسے اپنا اپنا تاوان بذریعہ عوام ادا کررہے ہیں۔
آگے چلیے تو پھر تاجر مافیا بھی سینہ تانے کھڑی نظر آتی ہے۔ حکومت اگر ایک روپیہ مہنگائی کرتی ہے تو یہ اس مہنگائی کو اپنا نفع کم نہ ہوجانے کی وجہ سے دس گنا بڑھا دیتے ہیں ، جس کا آخرکار لوڈ گھوم پھرکر عوام کالانعام پر ہی آتا ہے۔ یہ ایک دکاندار کی سطح سے لے کر بڑے ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز پر مشتمل مافیا ہے جو آج کل ذرا ناراض ناراض اس لیے ہیں کہ سرکار نے ان کے کاروباروں کو دستاویزی بنانے کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ یہ حضرات کچھ ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ''سرکٹا'' دیں گے مگرکاروبارکو دستاویزی شکل میں منضبط نہیں ہونے دیں گے۔ اس معاملے میں معدودے چندکے سوا کراچی تا خیبر سب تاجر برادری ایک ہی موقف رکھتی ہے کہ ہمیں اندھا منافع کمانے دو، ہم کوئی ٹیکس نہیں دیں گے کوئی دستاویز نہیں بننے دیں گے، جس سے ہمارے کاروباری حجم کا کسی طرح سے بھی اندازہ ہو پائے۔ یہ بھی مافیائی انداز ہے۔
اس کے علاوہ مافیاؤں نے اپنی ٹیم میں چند نئے اضافے بھی کیے ہیں اورکچھ نئے اسٹار کھلاڑی بھی تشریف لائے ہیں جن میں فی الوقت پانی مافیا کا مستقبل بڑا روشن ہے۔ برسوں سے جگہ جگہ ، قصبوں ، دیہاتوں ، شہروں میں پانی کی مصنوعی قلتیں پیدا کرکے اس نئے طالع آزما کی جگہ بنائی گئی ہے، اور اب پانی بیچنے کا دھندا عروج پر ہے۔ بڑی بڑی برانڈڈ کمپنیز سے لے کر گلی محلے میں لگنے والے آر او پلانٹس کا مجموعی بزنس اب اربوں سے نکل کرکھربوں کی وسعت اختیارکرتا جا رہا ہے اورکوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد آر او پلانٹس زیر زمین کھارے پانی کو میٹھا بنانے میں کتنا پانی ضایع ہوتا ہے، یہ آر او پلانٹس کی ذرا سی بھی جانکاری رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے اور اس کے کتنے تباہ کن اثرات پانی کے زیر زمیں ذخائر پر مرتب ہورہے ہیں اس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں لیکن متعلقہ ادارے جو ان معاملات کی دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں حسب روایت چین کی بنسی بجا رہے ہیں۔
اسی طرح اور بھی کئی مافیاز دھڑلے سے اپنے اپنے شعبوں میں دندنا رہے ہیں کہ انھیں کوئی خوف احتساب جیسے ہے ہی نہیں ، مثلاً طبی مافیا جس میں دوا ساز کمپنیوں، ڈاکٹروں ، میڈیسنز ہول سیلرز، میڈیکل اسٹوز سے لے کرہاسپٹلز اور لیبارٹریز کی ایک پوری چین ہے، جس نے علاج کو ایک عام بندے کے لیے کار محال بنا دیا ہے۔ جینے کے ساتھ ساتھ مرنا بھی آسان نہیں رہا۔ پھر تعلیمی مافیا کے کارنامے بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ کس کس طریقے سے کورس کی کتابوں، فیسوں اور دیگر اخراجات کی مد میں لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔ ایسے ہی اور بھی چھوٹے بڑے گروہ ہیں جو حصہ بقدر جثہ اپنے اپنے شعبوںمیں دھڑلے سے وصول کررہے ہیں کیونکہ وطن عزیز میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہت ہی کمزور ہے۔
لہذا، ضرورت اس امرکی ہے کہ ان مافیازکو لگام دی جائے ورنہ بگاڑ اس سطح تک پہنچنے کا اندیشہ ہے کہ معاملات کنٹرول سے باہر نہ ہوجائیں اور یہ مافیاز عوام الناس کی طرح حکومت کو بھی اپنے زیر اثر نہ لے لیں جوکہ بڑی حد تک وہ لے ہی چکی ہیں۔ اپنے سے بڑی مافیاز یعنی سیاسی بازی گروں کے تعاون سے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کرنے کے ذریعے سے لیکن ابھی بگاڑ ناقابل اصلاح کی سطح پر نہیں آیا ہے۔کسی بھی فلاحی مملکت کی اولین ذمے داری اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور نچلے طبقات کو اٹھانا ہوتی ہے جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس قسم کی مافیاز ہوا کرتی ہیں۔لہذا توجہ فرمائیے۔