کاش پاکستان جیت جاتا
ہم عارضی جشن تو منا سکتے ہیں کہ چیئرمین بچالیا، لیکن دوررس نتائج دیکھیے کہ جمہوریت کو اس سے فائدہ ہوگا کہ نقصان
پاکستان میں جمہوریت کی سربلندی کےلیے آمریت نے بھی اپنا پورا زور لگایا اور سیاسی جماعتوں نے بھی۔ تمام سیاسی جماعتیں ہمیشہ نعرہ بلند کرتی ہیں کہ ہم اپنی پوری کوشش میں ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا علم بلند ہو۔ آمریت کے سرخیل ہمیشہ اس نعرے پر اقتدار سے چمٹے رہے کہ ہم ملک میں حقیقی جمہوریت لائیں گے، لیکن یہ جمہوریت بھی کبھی کنونشنل لیگ، کبھی آئی جے آئی، اور کبھی ق لیگ کی صورت میں سامنے آئی۔ اور سیاسی جماعتوں کے تو کیا کہنے۔ الیکشن کسی اور پارٹی کی ٹکٹ پر جیتتے ہیں، وفاداری کا یقین کسی اور کو دلا رہے ہوتے ہیں، اور نعرہ بھی بلند کرتے ہیں کہ ہم ہیں جمہوری نمائندے۔ کبھی چھانگا مانگا سیاست کا مرکز بنتا ہے۔ کبھی فائیو اسٹار ہوٹلز مسکن ٹھہرتے ہیں جمہوری نمائندوں کے۔ لیکن پھر بھی جمہوریت بے چاری کو ہم پھینٹا لگائے رکھتے ہیں۔
سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت حقیقت میں بدلی، اور اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ حقیقتاً یہ تحریک ان ہاؤس تبدیلی کا ایک جمہوری راستہ تھی اور ناکامی یا کامیابی دونوں ہی جمہوریت کےلیے ہوتیں، لیکن جس انداز سے یہ تحریک ناکام ہوئی وہ اپنی جگہ پر جمہوریت کی خدمت کسی صورت نہیں کہلائی جاسکتی۔
موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جب چیئرمین سینٹ بنے تھے تو بظاہر اپوزیشن اتحاد، جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف و دیگر حمایتیوں پر مشتمل تھا، نے حکمران جماعت کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے اپنا چیئرمین منتخب کروایا تھا۔ اس وقت اکثریت کی رائے تھی کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بہت بڑا معرکہ سر انجام دیا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق عرض اس وقت بھی کی تھی کہ یہ جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی بلکہ ہارس ٹریڈنگ جیت گئی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک کھلا راز تھا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں معاملات کیسے طے ہوتے رہے۔ اور کس طرح تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی، جو کل ایک دوسرے کے مخالف تھے یکایک ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور دوستی بھی ایسی چھائی کہ الامان والحفیظ۔۔
موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف ابھی وہی پاکستان پیپلز پارٹی اب نواز لیگ کے ساتھ مل کے تحریک عدم اعتماد لائی، یا یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ہی چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے چیئرمین سینیٹ کو مدد فراہم کی۔ اور حکومتی وزرا، مشرا، اراکین، رہنماؤں کے بیانات سنجرانی صاحب کے حق میں ہی تھے۔ تمام جائزے مگر یہ نوید دے رہے تھے کہ سنجرانی صاحب کےلیے اپنا عہدہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ سب جائزے ناکام ہوئے اور چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ لیکن اس پورے معاملے میں بھی افسوس کا پہلو یہ ہے کہ جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی بلکہ ہارس ٹریڈنگ جیت گئی۔
جب تحریک پیش کی گئی تو کھڑے ہونے والے اپوزیشن اراکین 64 تھے، لیکن ووٹنگ میں 50 ووٹ تحریک کو ملے۔ 14 ووٹ کہاں گئے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر پاکستان کی جمہوریت کی ترقی کا دارومدار ہے۔ یقینی طور پر ضمیر اگر کسی کا جاگتا تو سینیٹر کلثوم پروین کی طرح کھلم کھلا جاگتا۔ یہ کچھ اور جگایا گیا ہے۔ کیوں کہ اگر 64 سینیٹرز موجود تھے تو ایسے سینیٹرز بھی ان میں موجود تھے جو کھڑے تو اپنی پارٹی کی صفوں میں تھے لیکن وعدے مخالف لشکر سے کرچکے تھے۔ اور حکمت عملی کے تحت انہوں نے ووٹ بھی دوسری جانب دیا۔ اس کے علاوہ سوال اٹھتا ہے کہ 5 ووٹ مسترد کردیے گئے۔ یہ غلطی سے تو کسی صورت ہو نہیں سکتا۔ بھئی ایوان بالا کے اراکین ہیں، قانون کو فائنل کرنے والے لوگ، یہ بھلا کیسے غلط ووٹ ڈال سکتے ہیں یا ووٹ پر اگڑم دگڑم کرسکتے کہ ووٹ ہی مسترد ہوجائے۔ ہاں ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ جان بوجھ کر ووٹ کے ساتھ ایسا کر دیا جائے کہ ووٹ کی پہچان نہ ہوپائے کہ کس جانب دیا ہے۔ اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب بھی رہیں کہ نہیں جی ہم نے مخالف کو تو ووٹ دیا ہی نہیں۔ یہ الگ بات کہ مسترد ووٹ مخالف کو فائدہ دے گیا ہو۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ جو نشستوں پر کھڑے ہوئے ان میں یقیناً سارے اپوزیشن کے تھے۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ وعدے کہاں کیے گئے تھے کہ ووٹ دوسری جانب ڈالنا پڑگیا۔ جب صادق سنجرانی منتخب ہوئے تھے تب بھی روایت اچھی نہیں تھی، اور روایت اب بھی اچھی نہیں ڈالی گئی۔ ہم عارضی جشن تو منا سکتے ہیں کہ چیئرمین بچالیا۔ لیکن دوررس نتائج دیکھیے کہ جمہوریت کو اس سے فائدہ ہوگا کہ نقصان۔
چیئرمین سینیٹ کو اپنا عہدہ بچانا بہت بہت مبارک ہو۔ لیکن کاش پاکستان بھی جیت جاتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت حقیقت میں بدلی، اور اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ حقیقتاً یہ تحریک ان ہاؤس تبدیلی کا ایک جمہوری راستہ تھی اور ناکامی یا کامیابی دونوں ہی جمہوریت کےلیے ہوتیں، لیکن جس انداز سے یہ تحریک ناکام ہوئی وہ اپنی جگہ پر جمہوریت کی خدمت کسی صورت نہیں کہلائی جاسکتی۔
موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جب چیئرمین سینٹ بنے تھے تو بظاہر اپوزیشن اتحاد، جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف و دیگر حمایتیوں پر مشتمل تھا، نے حکمران جماعت کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے اپنا چیئرمین منتخب کروایا تھا۔ اس وقت اکثریت کی رائے تھی کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بہت بڑا معرکہ سر انجام دیا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق عرض اس وقت بھی کی تھی کہ یہ جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی بلکہ ہارس ٹریڈنگ جیت گئی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک کھلا راز تھا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں معاملات کیسے طے ہوتے رہے۔ اور کس طرح تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی، جو کل ایک دوسرے کے مخالف تھے یکایک ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور دوستی بھی ایسی چھائی کہ الامان والحفیظ۔۔
موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف ابھی وہی پاکستان پیپلز پارٹی اب نواز لیگ کے ساتھ مل کے تحریک عدم اعتماد لائی، یا یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ہی چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے چیئرمین سینیٹ کو مدد فراہم کی۔ اور حکومتی وزرا، مشرا، اراکین، رہنماؤں کے بیانات سنجرانی صاحب کے حق میں ہی تھے۔ تمام جائزے مگر یہ نوید دے رہے تھے کہ سنجرانی صاحب کےلیے اپنا عہدہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ سب جائزے ناکام ہوئے اور چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ لیکن اس پورے معاملے میں بھی افسوس کا پہلو یہ ہے کہ جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی بلکہ ہارس ٹریڈنگ جیت گئی۔
جب تحریک پیش کی گئی تو کھڑے ہونے والے اپوزیشن اراکین 64 تھے، لیکن ووٹنگ میں 50 ووٹ تحریک کو ملے۔ 14 ووٹ کہاں گئے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر پاکستان کی جمہوریت کی ترقی کا دارومدار ہے۔ یقینی طور پر ضمیر اگر کسی کا جاگتا تو سینیٹر کلثوم پروین کی طرح کھلم کھلا جاگتا۔ یہ کچھ اور جگایا گیا ہے۔ کیوں کہ اگر 64 سینیٹرز موجود تھے تو ایسے سینیٹرز بھی ان میں موجود تھے جو کھڑے تو اپنی پارٹی کی صفوں میں تھے لیکن وعدے مخالف لشکر سے کرچکے تھے۔ اور حکمت عملی کے تحت انہوں نے ووٹ بھی دوسری جانب دیا۔ اس کے علاوہ سوال اٹھتا ہے کہ 5 ووٹ مسترد کردیے گئے۔ یہ غلطی سے تو کسی صورت ہو نہیں سکتا۔ بھئی ایوان بالا کے اراکین ہیں، قانون کو فائنل کرنے والے لوگ، یہ بھلا کیسے غلط ووٹ ڈال سکتے ہیں یا ووٹ پر اگڑم دگڑم کرسکتے کہ ووٹ ہی مسترد ہوجائے۔ ہاں ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ جان بوجھ کر ووٹ کے ساتھ ایسا کر دیا جائے کہ ووٹ کی پہچان نہ ہوپائے کہ کس جانب دیا ہے۔ اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب بھی رہیں کہ نہیں جی ہم نے مخالف کو تو ووٹ دیا ہی نہیں۔ یہ الگ بات کہ مسترد ووٹ مخالف کو فائدہ دے گیا ہو۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ جو نشستوں پر کھڑے ہوئے ان میں یقیناً سارے اپوزیشن کے تھے۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ وعدے کہاں کیے گئے تھے کہ ووٹ دوسری جانب ڈالنا پڑگیا۔ جب صادق سنجرانی منتخب ہوئے تھے تب بھی روایت اچھی نہیں تھی، اور روایت اب بھی اچھی نہیں ڈالی گئی۔ ہم عارضی جشن تو منا سکتے ہیں کہ چیئرمین بچالیا۔ لیکن دوررس نتائج دیکھیے کہ جمہوریت کو اس سے فائدہ ہوگا کہ نقصان۔
چیئرمین سینیٹ کو اپنا عہدہ بچانا بہت بہت مبارک ہو۔ لیکن کاش پاکستان بھی جیت جاتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔