وزارت سائنس کے ساتھ مذاق
فواد چوہدری پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں لیکن انہیں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی دی گئی ہے
2018 کے الیکشن کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سوشل میڈیا پر مخالف سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے دکھائی دیے۔ جہاں نون لیگی سپورٹرز پی ٹی آئی والوں سے 'تبدیلی' نافذ کرنے کی باتیں کرتے رہے تو وہیں ایوان سے یہ گزارشات سننے کو ملیں کہ تبدیلی لانے کےلیے وقت درکار ہوتا ہے، لہٰذا صبروتحمل کا مظاہرہ کیجئے۔ ایسے ہی ان پانچ سال میں سے پہلا سال گزرا اور ملک میں چیزوں کی قیمتوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ کچھ وزرا کی تبدیلی بھی دیکھنے کو ملی۔
رواں سال اپریل میں فواد چوہدری کو، جو کچھ ماہ پہلے تک وزیر اطلاعات تھے، وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ فواد چوہدری پیشے کے لحاظ سے تو وکیل ہیں، لیکن ان کی دلچسپی سیاست میں ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام نے سوشل میڈیا پر انہیں مذاق کا نشانہ بنایا، کیونکہ اگر کسی شخص کا کسی مضمون سے تعلق ہی نہیں تو وہ اس کی بہتری کےلیے کیا اقدامات کرے گا۔
رمضان المبارک کے آغاز سے قبل رویت ہلال کے مسئلے پر بات کرنے کےلیے مختلف ٹی وی چننلز نے فواد چوہدری کو مدعو کیا، جس میں انہوں نے چاند کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھنے اور ہبل دوربین کو خلا میں بھیجنے کا سہرا امریکی خلائی ادارے ناسا کے سر باندھنے کے بجائے پاکستان کے ایک ایسے ادارے کے سر باندھا جس کی رفتار اس خلائی دوڑ میں کچھوے سے بھی کم ہے، لیکن ہر سال قومی بجٹ میں اس کا حصہ ضرور رکھا جاتا ہے۔ جی ہاں میں پاکستانی خلائی ادارے سپارکو کی بات کررہا ہوں۔ فواد صاحب کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کے شور میں اور تیزی آگئی۔
واضح رہے کہ ہبل خلائی دوربین کو امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے آج سے 29 سال قبل اپریل 1990 کو زمین کر گرد مدار میں بھیجا گیا تھا اور ان 29 سال میں اس دوربین کو فلکیاتی میدان میں ہونے والی بہت سی نئی تحقیقات کے لیے استعمال کرکے آج ہمیں بگ بینگ سے لے کر ڈارک انرجی اور دوسرے ستاروں کے گرد گھومتے سیاروں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہے۔
جہاں تک رویت ہلال کے مسئلے کا تعلق ہے تو جیسا کہ فواد چوہدری نے دس سالہ کلینڈر بنانے اور اس کے مطابق چاند کا فیصلہ کرنے کی بات کی ہے تو اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے، کیونکہ ایسے کلینڈر تو پہلے بھی نجی سطح پر بنائے جاچکے ہیں اور علما ان سے رویت کے امکانات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت نے ایک مرکزی کمیٹی بنائی ہے اور اسے شرعی اور سائنسی اعتبار سے رویت ہلال کے ہونے یا نہ ہونے کی ذمے داری دی ہے تو پاکستان کے تمام نجی اداروں کو مرکزی کمیٹی کے فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔
اگر پچھلے پانچ سال کے سائنسی حسابات سے تیار کردہ کلینڈر کو دیکھیں تو پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات اس کے عین مطابق ہوتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کمیٹی میں نہیں بلکہ ملک میں ایک فیصلے کے نفاذ کا ہے۔ اس لیے حکومت کو ان تمام نجی کمیٹیوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تاکہ پورے ملک میں اسلامی مہینے ایک ہی دن شروع ہوں اور دنیا کو یکجہتی کا درس ملے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو اس سب میں صرف فواد چوہدری صاحب کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہاں بہتر حکومت سازی کی بہت گنجائش باقی ہے، کیونکہ ماضی میں بھی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو وزیر انفارمیشن و ٹیکنالوجی بنایا گیا. حکومت کو وزارتیں ان افراد کو دینی چاہئیں جو کم از کم متعلقہ شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، تاکہ وزرا دل سے کام کریں اور پاکستان بہتری کی راہ پر گامزن ہو۔ لیکن اگر ہم اس سارے نظام کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ایک چیز جس کی کمی ہر جگہ نمایاں دکھائی دیتی ہے وہ ہے ''بہتر تعلیمی نظام''۔
اگر ہم قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کے اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پچھلے ستر سال سے اس ملک میں 'تعلیم' تو دی جاتی رہی ہے مگر اسکولوں اور کالجوں سے نکلنے والے طلبا میں 'علمی قابلیت' بہت کم نظر آئی۔ 1947 میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی شرح خواندگی (لٹریسی ریٹ) 17 فیصد تھی، جبکہ آج 58 فیصد ہے۔ لیکن اس شرح کے بڑھنے کی وجہ پاکستان کے تعلیمی نظام کی حالت بہتر ہونے سے زیادہ پاکستانی آئین میں لفظ ''خواندگی'' کی تعریف میں تبدیلیاں ہیں۔ 1947 سے 1998 تک اس شخص کو تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا جسے اخبار پڑھنا اور اپنا نام لکھنا آتا ہو۔ ان پچاس سال میں شرح خواندگی 17 فیصد سے 43 فیصد تک تو آئی، لیکن پہلے جہاں عمر کی کوئی قید نہیں تھی وہاں 1998 میں 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کو ہی تعلیم یافتہ گنا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کے بعد دوسری بڑی تعداد بچوں کی ہے اور جب اس کثیر تعداد کو ہی نہ گنا جائے تو پھر شرح میں اضافہ تو خودبخود ہوجائے گا۔
یہ بات حیران کن ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی اس جیسے دوسرے ممالک کی نسبت سب سے کم ہے۔ پاکستان میں بہت سے سرکاری و نجی اسکول موجود ہیں جن میں قابل اساتذہ پڑھاتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نقص یہ ہے کہ آج بھی تیس سال پہلے پڑھائے جانے والا نصاب رائج ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ 1980 میں پڑھائے جانے والے نصاب میں اس وقت کی سائنسی ایجادات و دریافتیں موجود نہ تھیں، بلکہ تب بھی سائنس کی بنیادی باتوں کو سمجھ لینا بہت بڑی بات سمجھا جاتا تھا۔
ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ پاکستانی طالب علموں کو 'تعلیم' کے نام پر سلیبس رٹایا جاتا ہے اور جس کے 95 فیصد سے زیادہ نمبر آجائیں اسے 'ہونہار طالبعلم' کہا جاتا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ 'تعلیم' کے مطلب کو سمجھا جائے۔ اگر کوئی بھی شخص اپنی جانچ کرنا چاہتا ہے کہ کیا وہ تعلیم حاصل کررہا ہے یا نہیں، تو اسے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ: ''تعلیم ہمیشہ انسان میں خود اعتمادی، اچھا کردار اور خود سے کچھ تخلیق کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے''۔
آج پاکستانی تعلیم کا یہ معیار ہے کہ اگر ایک طالبعلم بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کےلیے جاتا ہے تو اسے وہ کورس دوبارہ (بین الاقوامی معیار کے مطابق) پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی بیرون ملک پاکستانی تعلیم کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ پاکستان کو بے شک حکومت سازی کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے، لیکن بہت سے حکومتی حلقے ایسے بھی ہیں جو اس ملک میں موجود قابل نوجوانوں کو سراہنے کےلیے انعامات دیتے ہیں۔ ان حلقوں میں اردو سائنس بورڈ (جو کہ وزارت اطلاعات کی ایک ڈویژن ہے) کا نام بھی آتا ہے جو پاکستان میں سائنسی کتب کے فروغ کےلیے کام کررہا ہے۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ صرف قابل حکمرانوں کی آس لگانے سے ملکی ترقی نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اپنی نسل کو بہتر زندگی گزارتے دیکھنے کےلیے آج سے ہی محنت کرنا ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
رواں سال اپریل میں فواد چوہدری کو، جو کچھ ماہ پہلے تک وزیر اطلاعات تھے، وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ فواد چوہدری پیشے کے لحاظ سے تو وکیل ہیں، لیکن ان کی دلچسپی سیاست میں ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام نے سوشل میڈیا پر انہیں مذاق کا نشانہ بنایا، کیونکہ اگر کسی شخص کا کسی مضمون سے تعلق ہی نہیں تو وہ اس کی بہتری کےلیے کیا اقدامات کرے گا۔
رمضان المبارک کے آغاز سے قبل رویت ہلال کے مسئلے پر بات کرنے کےلیے مختلف ٹی وی چننلز نے فواد چوہدری کو مدعو کیا، جس میں انہوں نے چاند کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھنے اور ہبل دوربین کو خلا میں بھیجنے کا سہرا امریکی خلائی ادارے ناسا کے سر باندھنے کے بجائے پاکستان کے ایک ایسے ادارے کے سر باندھا جس کی رفتار اس خلائی دوڑ میں کچھوے سے بھی کم ہے، لیکن ہر سال قومی بجٹ میں اس کا حصہ ضرور رکھا جاتا ہے۔ جی ہاں میں پاکستانی خلائی ادارے سپارکو کی بات کررہا ہوں۔ فواد صاحب کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کے شور میں اور تیزی آگئی۔
واضح رہے کہ ہبل خلائی دوربین کو امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے آج سے 29 سال قبل اپریل 1990 کو زمین کر گرد مدار میں بھیجا گیا تھا اور ان 29 سال میں اس دوربین کو فلکیاتی میدان میں ہونے والی بہت سی نئی تحقیقات کے لیے استعمال کرکے آج ہمیں بگ بینگ سے لے کر ڈارک انرجی اور دوسرے ستاروں کے گرد گھومتے سیاروں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہے۔
جہاں تک رویت ہلال کے مسئلے کا تعلق ہے تو جیسا کہ فواد چوہدری نے دس سالہ کلینڈر بنانے اور اس کے مطابق چاند کا فیصلہ کرنے کی بات کی ہے تو اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے، کیونکہ ایسے کلینڈر تو پہلے بھی نجی سطح پر بنائے جاچکے ہیں اور علما ان سے رویت کے امکانات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت نے ایک مرکزی کمیٹی بنائی ہے اور اسے شرعی اور سائنسی اعتبار سے رویت ہلال کے ہونے یا نہ ہونے کی ذمے داری دی ہے تو پاکستان کے تمام نجی اداروں کو مرکزی کمیٹی کے فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔
اگر پچھلے پانچ سال کے سائنسی حسابات سے تیار کردہ کلینڈر کو دیکھیں تو پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات اس کے عین مطابق ہوتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کمیٹی میں نہیں بلکہ ملک میں ایک فیصلے کے نفاذ کا ہے۔ اس لیے حکومت کو ان تمام نجی کمیٹیوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تاکہ پورے ملک میں اسلامی مہینے ایک ہی دن شروع ہوں اور دنیا کو یکجہتی کا درس ملے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو اس سب میں صرف فواد چوہدری صاحب کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہاں بہتر حکومت سازی کی بہت گنجائش باقی ہے، کیونکہ ماضی میں بھی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو وزیر انفارمیشن و ٹیکنالوجی بنایا گیا. حکومت کو وزارتیں ان افراد کو دینی چاہئیں جو کم از کم متعلقہ شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، تاکہ وزرا دل سے کام کریں اور پاکستان بہتری کی راہ پر گامزن ہو۔ لیکن اگر ہم اس سارے نظام کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ایک چیز جس کی کمی ہر جگہ نمایاں دکھائی دیتی ہے وہ ہے ''بہتر تعلیمی نظام''۔
اگر ہم قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کے اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پچھلے ستر سال سے اس ملک میں 'تعلیم' تو دی جاتی رہی ہے مگر اسکولوں اور کالجوں سے نکلنے والے طلبا میں 'علمی قابلیت' بہت کم نظر آئی۔ 1947 میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی شرح خواندگی (لٹریسی ریٹ) 17 فیصد تھی، جبکہ آج 58 فیصد ہے۔ لیکن اس شرح کے بڑھنے کی وجہ پاکستان کے تعلیمی نظام کی حالت بہتر ہونے سے زیادہ پاکستانی آئین میں لفظ ''خواندگی'' کی تعریف میں تبدیلیاں ہیں۔ 1947 سے 1998 تک اس شخص کو تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا جسے اخبار پڑھنا اور اپنا نام لکھنا آتا ہو۔ ان پچاس سال میں شرح خواندگی 17 فیصد سے 43 فیصد تک تو آئی، لیکن پہلے جہاں عمر کی کوئی قید نہیں تھی وہاں 1998 میں 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کو ہی تعلیم یافتہ گنا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کے بعد دوسری بڑی تعداد بچوں کی ہے اور جب اس کثیر تعداد کو ہی نہ گنا جائے تو پھر شرح میں اضافہ تو خودبخود ہوجائے گا۔
یہ بات حیران کن ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی اس جیسے دوسرے ممالک کی نسبت سب سے کم ہے۔ پاکستان میں بہت سے سرکاری و نجی اسکول موجود ہیں جن میں قابل اساتذہ پڑھاتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نقص یہ ہے کہ آج بھی تیس سال پہلے پڑھائے جانے والا نصاب رائج ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ 1980 میں پڑھائے جانے والے نصاب میں اس وقت کی سائنسی ایجادات و دریافتیں موجود نہ تھیں، بلکہ تب بھی سائنس کی بنیادی باتوں کو سمجھ لینا بہت بڑی بات سمجھا جاتا تھا۔
ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ پاکستانی طالب علموں کو 'تعلیم' کے نام پر سلیبس رٹایا جاتا ہے اور جس کے 95 فیصد سے زیادہ نمبر آجائیں اسے 'ہونہار طالبعلم' کہا جاتا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ 'تعلیم' کے مطلب کو سمجھا جائے۔ اگر کوئی بھی شخص اپنی جانچ کرنا چاہتا ہے کہ کیا وہ تعلیم حاصل کررہا ہے یا نہیں، تو اسے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ: ''تعلیم ہمیشہ انسان میں خود اعتمادی، اچھا کردار اور خود سے کچھ تخلیق کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے''۔
آج پاکستانی تعلیم کا یہ معیار ہے کہ اگر ایک طالبعلم بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کےلیے جاتا ہے تو اسے وہ کورس دوبارہ (بین الاقوامی معیار کے مطابق) پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی بیرون ملک پاکستانی تعلیم کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ پاکستان کو بے شک حکومت سازی کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے، لیکن بہت سے حکومتی حلقے ایسے بھی ہیں جو اس ملک میں موجود قابل نوجوانوں کو سراہنے کےلیے انعامات دیتے ہیں۔ ان حلقوں میں اردو سائنس بورڈ (جو کہ وزارت اطلاعات کی ایک ڈویژن ہے) کا نام بھی آتا ہے جو پاکستان میں سائنسی کتب کے فروغ کےلیے کام کررہا ہے۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ صرف قابل حکمرانوں کی آس لگانے سے ملکی ترقی نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اپنی نسل کو بہتر زندگی گزارتے دیکھنے کےلیے آج سے ہی محنت کرنا ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔