جہاں گشت دیوانگی کا آخری دَر چُھوکے آئیں ہیں ۔۔۔۔۔۔
وہ کانٹا اب بھی اس کے دل میں پیوست ہے، اسی لیے وہ مُسکراتا اور گنگناتا رہتا ہے
قسط نمبر55
تین دن تک تو میں مہمان بنا رہا اور آس پاس گھومتا رہا، بابا میرا بہت خیال رکھتے اور میں اپنی ہر سرگرمی سے انہیں آگاہ رکھتا تھا۔ اس دوران کئی لوگوں سے میری ملاقات بھی ہوئی، کسی سے سرسری اور کسی سے تفصیلی، ان میں سے بھی اکثر میرے حلیے کی وجہ سے مجھ سے بات کرنے کے خواہاں تھے، لیکن پھر مجھے ان کی غلط فہمی دُور کرنا پڑی۔
انہی میں سے ایک نوجوان دُکان دار تھے، ہزارہ کے کسی دور افتادہ گاؤں کے مکین، پڑھے لکھے اور ہم درد انسان، موٹے عدسے کا عینک لگائے ہوئے، ان کی کہانی بھی انوکھی تھی، وہ بچپن سے ہی بہت پڑھاکُو اور ذہین تھے، سوچتے تھے کہ لکھ پڑھ کر سرکاری افسر بنیں گے اور پھر اپنے والدین اور گاؤں کا نام روشن کرنے کے ساتھ ان کی خدمت بھی کریں گے، لیکن پھر انہیں ٹائیفائیڈ ہوگیا اور ان کی بینائی شدید متاثر ہوئی، اس وقت طبّی دنیا میں اتنی جدت نہیں آئی تھی جیسی اب ہے، تو وہ کسی کام کاج کے نہیں رہے، اسی دوران کسی نے انہیں کرسچن اسپتال ٹیکسلا سے رابطے کا مشورہ دیا، تو وہ ٹیکسلا پہنچے، اس زمانے میں آنکھوں کے جملہ امراض کا علاج بہ شمول آپریشن اس اسپتال میں برائے نام اخراجات اور اکثر تو بلامعاوضہ ہوتا تھا، اور یہاں ایک سرجن جن کا نام ڈاکٹر نوروِِل کرسٹی تھا، خلق خدا کی خدمت میں جُتے ہوئے تھے۔
اس نوجوان نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان کی آنکھوں کے معائنے کے بعد یہ خوش خبری سنائی کہ ان کی بینائی اس قدر ضرور بحال ہوسکتی ہے کہ وہ آسانی سے اپنی ذمے داریاں ادا کرسکیں۔ بس پھر کیا تھا، امید کا دیا روشن ہوا اور وہ آپریشن کے مراحل سے گزرے، آپریشن کے بعد ان کی بینائی کچھ بحال ہوچکی تھی، پھر ان کی شادی ہوگئی تو انہوں نے ڈاکٹر کرسٹی کی محبت میں ٹیکسلا ہی کو مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کیا اور اس لیے بھی کہ کبھی فوری ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر کرسٹی ان کی دست رس میں ہوں گے۔
اب وہ پرچون کی دکان کرتے تھے اور خوش تھے۔ خدا کے بعد وہ سب سے زیادہ ڈاکٹر کرسٹی کے مشکور تھے کہ ان کی انسان دوستی اور توجّہ سے انہیں مشکلات سے نجات ملی اور وہ جیون گزارنے کے قابل ہوئے۔ ان کی زبانی ڈاکٹر کرسٹی کی تعریف نے فقیر کو بھی ان سے ملنے پر اکسایا اور پھر فقیر ٹیکسلا کرسچن اسپتال پہنچا۔
اسپتال مفلس و نادار مریضوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، لیکن ان میں سے کچھ متمول لوگ بھی تھے، جو ڈاکٹر کرسٹی کی انسان دوستی اور مہارت کی وجہ سے انہی سے آپریشن کرانے کو ترجیح دیتے تھے۔ ڈاکٹر کرسٹی کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ وہ کسی امیر غریب کا فرق روا نہیں رکھتے۔ میں نے ڈاکٹر کرسٹی کا معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ عصر کے وقت فارغ ہوتے ہیں تو ان سے ملا جاسکتا ہے، میں نے انتظار کیا اور پھر وہ میرے سامنے تھے۔
ڈھیلی ڈھالی پتلون، کھلی بش شرٹ میں ملبوس کشادہ اور روشن پیشانی، میانہ قد اور مسکراتے ہوئے، ان کی پوری کہانی ان کی جبیں پر رقم تھی، میرے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے کہا: بس آپ کو دیکھنے آیا ہوں۔ مسکرائے اور کہا: تو دیکھ لیا مجھے۔ میں نے کہا: جی شُکر خدا کا کہ آپ جیسے انسان کو دیکھنے کی سعادت ملی، آپ بہت مصروف ہیں ورنہ میں بہت تفصیل سے آپ کو دیکھتا بھی اور سنتا بھی۔ یہ سن کر انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنی رہائش گاہ جو اسپتال میں ہی تھی، پہنچے۔
اور رہائش گاہ بھی کیا بس ایک کمرا جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا، ایک کونے میں بجلی سے جلنے والا ہیٹر اور چائے کا سامان رکھا ہوا تھا، انہوں نے خود ہی چائے بنانا شروع کی اور پھر میرے سامنے پیالی رکھتے ہوئے کہا: چلو چائے پیتے ہیں اور تفصیل سے بات بھی کرتے ہیں، وہ انسانیت کے لیے خود کو وقف کرچکے تھے، غالباً امریکا سے ان کا تعلق تھا، ایک خوش حال اور لکھے پڑھے گھر سے تعلق رکھتے تھے، طبی تعلیم کی تحصیل کے بعد انہوں نے امراض چشم میں تخصیص کیا اور عملی تجربہ حاصل کرنے کے بعد یہاں پاکستان چلے آئے تھے اور اب وہ اس اسپتال میں بلا کسی صلے و ستائش کے دکھی انسانوں کے کام آتے تھے۔
تو آپ نے جناب مسیح ابن مریمؑ کے نقش قدم پر چلنے کو شعار کیا، میری یہ بات سن کر وہ پہلے خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے اور کہا: میں نے تو تمہیں بس کوئی بچہ ہی سمجھا تھا لیکن تم تو بہت کچھ جانتے ہو۔ نہیں، بالکل بھی نہیں، میں نے برملا تردید کی اور کہا: میں کچھ نہیں جانتا اور بالکل درست کہا، میں جاننے کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں، میں نے تو جناب عیسیٰ ابن مریمؑ کے دکھوں بھرے جیون کی روداد اپنے ایک بابا سے سنی ہے کہ جناب مسیح ابن مریمؑ تو مادرزاد نابینا کو بینا کرتے تھے۔
وہ تو مُردوں کو خدا کے اذن سے دوبارہ زندگی دیتے تھے، وہ کوڑھیوں کی بستی میں جانکلتے اور انہیں شفایاب کرتے، وہ واقعی روح اﷲ تھے، وہ جب اپنے گدھے پر سوار یروشیلم میں داخل ہوئے تو مجبوروں، بے بسوں اور جبر و ستم میں پسے ہوئے لوگوں نے ان کے سامنے دیدہ و دل فرش راہ کیے، اس زمانے میں کوئی اگر گدھے پر سوار ہوکر آتا تھا تو یہ اس بات کی منادی تھی کہ وہ نہتّا ہے اور امن و سلامتی کا پیام بر بن کر آیا ہے، اس سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، اور جب کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر آتا تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ مسلح ہے اور آمادۂ جنگ، لوگ کسی بھی گھڑ سوار کو دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے تھے۔
آپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ ان کا ایک پیروکار ان کے مشن پر آج بھی کاربند ہے اور انہیں کی طرح بے ریا۔ میری بات سن کر وہ کھڑے ہوئے اور کہا: جب تمہارا جی چاہے اور فرصت ملے تو بلاتکلّف چلے آنا، انہوں نے میرے متعلق بھی پوچھا تھا تو میں نے انہیں مختصر بتایا تھا، لیکن وہ مطمعن نہیں ہوئے تھے۔ فقیر کے ٹیکسلا کے قیام کے دوران ان سے کئی مرتبہ ملاقاتیں رہیں اور طویل بھی، ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ فقیر گواہی دیتا ہے کہ وہ انتہائی مخلص، ایثارکیش، ہم درد، دانا اور خدمت انساں کے جذبے سے سرشار تھے۔
ایسے ایثار کیش و بے ریا لوگ نایاب نہ بھی ہوں تو انتہائی کم یاب ضرور ہیں، جیسے ہمارے ہاں ماں روتھ فاؤ تھیں۔ لوگ انہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کہتے تھے لیکن فقیر نے کبھی اس نام سے انہیں نہیں پکارا، ہمیشہ ماں کہا کہ وہ تھیں ہی ماں، وہ آج ایک اجلی صلیب کے نیچے آسودہ ہیں، سعادت ملی تو ماں روتھ فاؤ کی باتیں بھی کریں گے۔ لوگ ڈاکٹر کرسٹی سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کوئی ان کے لیے انڈے لا رہا ہے، کوئی مرغیاں اور کوئی دیسی گھی، وہ سب کو منع بھی کرتے رہتے لیکن سادہ لوح لوگوں کے خلوص کو کوئی کیسے ٹھکرا سکتا ہے۔ مجھے ایک سجن بیلی نے بتایا ہے کہ آج کل ڈاکٹر کرسٹی کیلیفورنیا امریکا میں مقیم ہیں۔
میں نے ان سے ملاقات کی تفصیل سے بابا کو آگاہ کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بس اتنا ہی کہا کہ خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا سعادت ہے کہ ساری انسانیت خدا کا کنبہ ہے، ہمیں تو بس خدمت کا حکم ہے تو اسے بجا لانا چاہیے اور وہ لوگ ہی قابل عزت و احترام ہیں جو دوسروں کے دُکھ کو سُکھ میں بدلنے کی کوشش کریں۔
وہ چوتھا دن تھا جب میری مہمانی ختم ہوچکی تھی، اب میں بابا کے ساتھ ایک مزدور کی حیثیت سے کام پر روانہ ہوا۔ میرا کام یہ تھا کہ شہتیر بنانے کے دوران جو لکڑی ٹکڑوں کی شکل میں بچ جاتی انہیں ایک جگہ جمع کروں اور بُرادے کو بوری میں بھروں۔ بابا نے ہدایت دی کہ میں انہیں کام کرتا بہ غور دیکھوں، اس لیے کہ یہ بہت احتیاط طلب کام ہے، اس میں ذرا سی چُوک سے بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے جس سے انسان اپنے کسی اعضاء سے بھی محروم ہوسکتا ہے، سو میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمارے ساتھ ایک اور نوجوان بھی کام کرتا تھا، حنیف نام تھا اس کا، توانا اور چوکس، وہ درخت کے تنے کو ایسا اٹھا لیتا تھا جیسے وہ کوئی تنکا ہو، کام کرتے ہوئے کوئی گیت گنگناتا رہتا اور مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی۔ ہر ایک سے ہنسی مذاق کرنا اس کا شغل تھا۔
مجھے وہ چھوٹا استاد کہنے لگا اور ساتھ ہی کہتا میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔ میں نے کہا میں تو کچھ نہیں جانتا تو چھوٹا استاد کہاں سے ہوگیا۔ میری بات سنی تو مسکرا کر کہا: ہم تو تمہیں ہی اپنا استاد کہیں گے۔ نہ جانے ایسی کتنی ہی باتیں۔ باقی لوگ تو شاید اس کی باتوں کے عادی ہوگئے تھے، میرا تو پہلا دن تھا تو میں نے چِِڑ کر کہا: مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں اتنا چھوٹا اور کم زوز ہوں۔ تو سب کو مخاطب کرکے کہنے لگا: بھائیو! چھوٹے استاد نے کہا ہے کہ وہ چھوٹا نہیں ہے اور نہ ہی کم زور تو آج سے سب اسے بس استاد ہی کہیں گے۔
سب اس کی بات پر ہنسنے لگے، بس ایسا تھا وہ۔ مغرب کے وقت جب ہم کام سے فارغ ہوکر واپس آرہے تھے تو میں نے بابا سے اس کے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے کہا: سب کی کہانی سننے کا شوق ہے تمہیں، تو تم خود کیوں نہیں اس سے معلوم کرلیتے۔ ٹھیک ہے جی! میں معلوم کروں گا، میں نے کہا۔ اپنے ٹھکانے پہنچ کر ہم اپنے معمولات سے فارغ ہوئے، بابا کھانا کھانے اور نماز ادا کرکے فوراً سوجاتے تھے، اس لیے انہیں نصف شب کو جاگنا ہوتا تھا۔ اس دوران میں باہر آکر بیٹھ جاتا اور آس پاس کے منظر میں کھو جاتا۔ سر جھکائے درخت اور آسمان پر گھومتی پھرتی آوارہ بدلیاں مجھے ویسے بھی اچھی لگتی ہیں۔
میں اس نوجوان کے بارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہے کون اور پھر بابا نے بھی اس کے متعلق مجھے کچھ نہیں بتایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ صبح پہلا کام یہی کروں گا کہ اس سے اس کی رُوداد سنوں۔ اس کے بعد میں سوگیا۔ نصف شب سے زیادہ بیت گیا تھا کہ بابا نے مجھے جگا دیا۔ اس وقت تو وہ مجھے نہیں جگاتے، فجر سے کچھ دیر پہلے ہی وہ جگاتے تھے، میں سوچ ہی رہا تھا کہ آج ایسا کیوں ہوا کہ بابا وضو کرکے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: بیٹا! مہمانی بس تین دن کی ہوتی ہے، اب تمہیں اپنے معمولات بدلنے چاہییں، اٹھو رب تعالی سے لو لگاؤ، بس وہی ہے جسے ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے اور اسے ہی اولیّت دینا چاہیے۔ بابا یہ کہہ کر کُھلے میدان میں اپنے رب کے حضور جا کھڑے ہوئے۔
فقیر آپ کو بتانا بُھول گیا تھا کہ بابا کسی مُصلّے پر نماز ادا نہیں کرتے تھے، بل کہ وہ زمین پر ہی سجدہ ریز ہوجاتے اور ان کے قیام، رکوع و سجود طویل ہوتے تھے، فقیر نے اپنے سب بابوں کو اسی طرح سے مصروف عبادت دیکھا ہے۔
میں کیا اور میری نماز کیا، بس اقتداء ضرور کی، آپ اسے نقل کہہ لیں۔ فجر کی نماز بابا کی اقتداء میں ادا کرکے ہم نے ناشتا کیا اور پھر اپنے کام پر۔ بابا نے جانے سے پہلے کہا: تو آج میرے بیٹے نے طے کرلیا ہے کہ حنیف سے اس کی رُوداد ضرور سنے گا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا: اگر میں تمہیں اس سے منع کروں تب بھی۔ نہیں، نہیں بابا! آپ کے حکم کی ہر حال میں تعمیل کی جائے گی، میرے جواب پر بابا نے مسکرا کر دیکھا اور ہم اپنے کام پر روانہ ہوئے۔ آج بابا بالکل ہی خاموش تھے، پھر جب ہم آرا مشین کے قریب تھے کہ انہوں نے سائیکل روکی اور ہم پیدل چلنے لگے تب بابا بولے: حنیف کی کہانی میں تمہیں خود سناؤں گا۔ بابا اگر آپ مناسب سمجھیں تو سنائیے گا ورنہ میرا اصرار نہیں ہے۔ میری بات پر بابا پھر مسکرائے اور ہم اپنے کارخانے جا پہنچے۔ حنیف پہلے سے وہاں موجود تھا، اس نے بابا کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور چائے لینے چلا گیا۔ ہم نے چائے پی اور پھر کام شروع۔
وہ دن بھی آخر ختم ہوگیا اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔ اپنے معمولات سے فارغ ہوکر بابا نے سونے کے بہ جائے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر آکر بیٹھ گئے پھر انہوں نے بتایا: دیکھو بیٹا! ہر انسان بہ ذات خود ایک کہانی ہے، بس اگر واقعی کوئی ہم درد مل جائے تو جیون آسان ہوجاتا ہے، لیکن ایسا ہم درد ملتا بس قسمت سے ہے۔
جس حنیف کو تم آج دیکھ رہے ہو، وہ ایسا تھا نہیں۔ وہ ایک بہت امیر گھرانے کا ہے، جہاں دنیا کی ہر آسائش اسے میسر تھی، نہ جانے ہم تباہی کے سامان کو آسائش کیوں شمار کرتے ہیں۔ جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ اپنے علاقے کی ایک دوشیزہ کو دل دے بیٹھا تھا، ابتداء میں تو اس کے گھر والے یہی سمجھے کہ تھوڑے دن کا بھوت ہے، اتر جائے گا لیکن بیٹا! کبھی کوئی بھوت واقعی آپ کو اپنے دام میں گرفتار کرلیتا ہے، لوگ عشق و محبت کو بھی ایک بھوت ہی سمجھتے ہیں ناداں، تو بہ جائے اس کے کہ اس کی بات سُنی جاتی اسے لعن طعن کا نشانہ بنایا جانے لگا، گھر میں وہ تھا بھی سب سے چھوٹا تو کسی نے بھی اس کی نہیں سنی، کسی دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہونا کوئی گناہ تو نہیں ہے ناں، لیکن اسے گناہ سمجھا جاتا ہے، جب رب تعالی نے اس کی اجازت دی ہے کہ کوئی پسند آجائے تو اس سے نکاح کرلو تو پھر سماج کون ہوتا ہے اس کے راستے میں دیوار۔ دیکھو! رب تعالی نے تو زندگی آسان بنائی ہے، ہم نے ہی اسے اجیرن بنایا ہوا ہے۔
پھر ایک اور مسئلہ بھی ہم نے بنا لیا ہے کہ فلاں خاندان اور قبیلے کی لڑکی سے کسی دوسرے خاندان و قبیلے کا فرد شادی نہیں کرسکتا، جہالت نہیں تو اور کیا ہے یہ، خیر حنیف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اس محبت کے مارے کو پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر اسے گھر میں قید کردیا گیا، یہ تو کوئی علاج نہیں ہے اس روگ کا، ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن گیا تھا، سات سال کوئی کم مدت نہیں ہوتی، اسے یہ عذاب سہتے ہوئے، پھر وہ دن آیا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ کسی نے مجھے یہ سب کچھ بتایا تو میں اس کے گھر پہنچا۔ اس کے گھر والوں سے ملا تو انہوں نے تو صاف انکار کردیا کہ میں اس مسئلے میں نہ آؤں، میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ ظلم ہے، باز رہیں وہ اس سے، لیکن وہ تو اپنی دولت، جاگیر اور اپنی خاندانی وجاہت و اثر و رسوخ کے نشے میں تھے، مان کر ہی نہیں دیے، میں نے ان سے کہا کہ ان کے لیے تو حنیف ویسے بھی کسی کام کا نہیں تو اسے مجھے دے دیا جائے، لیکن میری ساری کوشش رائیگاں جارہی تھی، ایک ماہ تک مجھے وہاں رکنا پڑا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے، اور پھر مجھے کچھ اور کرنا پڑا، آخر کار وہ حنیف کو مجھے اس شرط پر دینے پر آمادہ ہوئے کہ اب وہ اس سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھیںگے۔
میں حنیف کو لے کر آگیا، اس کی نوزائیدہ بچے کی طرح نگہہ داشت کی، مجھے اب تجربہ ہے کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے، ایک ماں ہی کو زیبا ہے کہ اس کے پاؤں میں جنّت کو رکھا جائے۔ مجھے حنیف کی ماں بننا پڑا، پورے چھے سال لگے ہیں اس پر، جب کہیں جاکر وہ تمہیں اس حالت میں نظر آرہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں نے ہی اسے جنم دیا ہے۔ اس کے دل میں جو کانٹا چبھ گیا ہے، اس کانٹے نے اپنی جگہ تو تھوڑی سے ضرور چھوڑی ہے لیکن وہ اب بھی اس کے دل میں پیوست ہے، اسی لیے وہ مسکراتا رہتا اور گنگناتا رہتا ہے، وہ بھی یہیں رہتا ہے لیکن کچھ دن سے اس نے مجھ سے اجازت لی ہے کہ وہ وہیں کارخانے میں رہے گا تو اس کی خوشی میں بھی خوش ہوں، لیکن کچھ دن بعد وہ اسی جگہ ہمارے ساتھ ہوگا۔ میں نے اسی لیے تمہیں منع کیا تھا اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ تمہیں اپنی رُوداد سنا سکے۔ اس کے ساتھ ہی بابا نے مجھے حکم دیا کہ میں حنیف کے ساتھ ایک حقیقی چھوٹے بھائی کی طرح سے رہوں، تاکہ وہ مزید تیزی سے زندگی کی جانب لوٹ سکے۔
دیکھیے! آپ کو حنیف کی بپتا سناتے ہوئے کیا یاد آگیا۔ ہاں یہ بھی ایک صوفی باصفا کا شعر ہے، تھا تو وہ مستند ڈاکٹر، جی، ایم بی بی ایس، پھر دنیا سے جلد رخصت ہوا، اس کا لہو آج بھی فقیر کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ سانس کی آمد و رفت جاری رہی تو بتاؤں گا۔
دیوانگی کا آخری دَر چُھوکے آئے ہیں
اس دوڑ میں بھی قیس سے پیچھے نہیں رہے
تین دن تک تو میں مہمان بنا رہا اور آس پاس گھومتا رہا، بابا میرا بہت خیال رکھتے اور میں اپنی ہر سرگرمی سے انہیں آگاہ رکھتا تھا۔ اس دوران کئی لوگوں سے میری ملاقات بھی ہوئی، کسی سے سرسری اور کسی سے تفصیلی، ان میں سے بھی اکثر میرے حلیے کی وجہ سے مجھ سے بات کرنے کے خواہاں تھے، لیکن پھر مجھے ان کی غلط فہمی دُور کرنا پڑی۔
انہی میں سے ایک نوجوان دُکان دار تھے، ہزارہ کے کسی دور افتادہ گاؤں کے مکین، پڑھے لکھے اور ہم درد انسان، موٹے عدسے کا عینک لگائے ہوئے، ان کی کہانی بھی انوکھی تھی، وہ بچپن سے ہی بہت پڑھاکُو اور ذہین تھے، سوچتے تھے کہ لکھ پڑھ کر سرکاری افسر بنیں گے اور پھر اپنے والدین اور گاؤں کا نام روشن کرنے کے ساتھ ان کی خدمت بھی کریں گے، لیکن پھر انہیں ٹائیفائیڈ ہوگیا اور ان کی بینائی شدید متاثر ہوئی، اس وقت طبّی دنیا میں اتنی جدت نہیں آئی تھی جیسی اب ہے، تو وہ کسی کام کاج کے نہیں رہے، اسی دوران کسی نے انہیں کرسچن اسپتال ٹیکسلا سے رابطے کا مشورہ دیا، تو وہ ٹیکسلا پہنچے، اس زمانے میں آنکھوں کے جملہ امراض کا علاج بہ شمول آپریشن اس اسپتال میں برائے نام اخراجات اور اکثر تو بلامعاوضہ ہوتا تھا، اور یہاں ایک سرجن جن کا نام ڈاکٹر نوروِِل کرسٹی تھا، خلق خدا کی خدمت میں جُتے ہوئے تھے۔
اس نوجوان نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان کی آنکھوں کے معائنے کے بعد یہ خوش خبری سنائی کہ ان کی بینائی اس قدر ضرور بحال ہوسکتی ہے کہ وہ آسانی سے اپنی ذمے داریاں ادا کرسکیں۔ بس پھر کیا تھا، امید کا دیا روشن ہوا اور وہ آپریشن کے مراحل سے گزرے، آپریشن کے بعد ان کی بینائی کچھ بحال ہوچکی تھی، پھر ان کی شادی ہوگئی تو انہوں نے ڈاکٹر کرسٹی کی محبت میں ٹیکسلا ہی کو مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کیا اور اس لیے بھی کہ کبھی فوری ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر کرسٹی ان کی دست رس میں ہوں گے۔
اب وہ پرچون کی دکان کرتے تھے اور خوش تھے۔ خدا کے بعد وہ سب سے زیادہ ڈاکٹر کرسٹی کے مشکور تھے کہ ان کی انسان دوستی اور توجّہ سے انہیں مشکلات سے نجات ملی اور وہ جیون گزارنے کے قابل ہوئے۔ ان کی زبانی ڈاکٹر کرسٹی کی تعریف نے فقیر کو بھی ان سے ملنے پر اکسایا اور پھر فقیر ٹیکسلا کرسچن اسپتال پہنچا۔
اسپتال مفلس و نادار مریضوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، لیکن ان میں سے کچھ متمول لوگ بھی تھے، جو ڈاکٹر کرسٹی کی انسان دوستی اور مہارت کی وجہ سے انہی سے آپریشن کرانے کو ترجیح دیتے تھے۔ ڈاکٹر کرسٹی کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ وہ کسی امیر غریب کا فرق روا نہیں رکھتے۔ میں نے ڈاکٹر کرسٹی کا معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ عصر کے وقت فارغ ہوتے ہیں تو ان سے ملا جاسکتا ہے، میں نے انتظار کیا اور پھر وہ میرے سامنے تھے۔
ڈھیلی ڈھالی پتلون، کھلی بش شرٹ میں ملبوس کشادہ اور روشن پیشانی، میانہ قد اور مسکراتے ہوئے، ان کی پوری کہانی ان کی جبیں پر رقم تھی، میرے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے کہا: بس آپ کو دیکھنے آیا ہوں۔ مسکرائے اور کہا: تو دیکھ لیا مجھے۔ میں نے کہا: جی شُکر خدا کا کہ آپ جیسے انسان کو دیکھنے کی سعادت ملی، آپ بہت مصروف ہیں ورنہ میں بہت تفصیل سے آپ کو دیکھتا بھی اور سنتا بھی۔ یہ سن کر انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنی رہائش گاہ جو اسپتال میں ہی تھی، پہنچے۔
اور رہائش گاہ بھی کیا بس ایک کمرا جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا، ایک کونے میں بجلی سے جلنے والا ہیٹر اور چائے کا سامان رکھا ہوا تھا، انہوں نے خود ہی چائے بنانا شروع کی اور پھر میرے سامنے پیالی رکھتے ہوئے کہا: چلو چائے پیتے ہیں اور تفصیل سے بات بھی کرتے ہیں، وہ انسانیت کے لیے خود کو وقف کرچکے تھے، غالباً امریکا سے ان کا تعلق تھا، ایک خوش حال اور لکھے پڑھے گھر سے تعلق رکھتے تھے، طبی تعلیم کی تحصیل کے بعد انہوں نے امراض چشم میں تخصیص کیا اور عملی تجربہ حاصل کرنے کے بعد یہاں پاکستان چلے آئے تھے اور اب وہ اس اسپتال میں بلا کسی صلے و ستائش کے دکھی انسانوں کے کام آتے تھے۔
تو آپ نے جناب مسیح ابن مریمؑ کے نقش قدم پر چلنے کو شعار کیا، میری یہ بات سن کر وہ پہلے خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے اور کہا: میں نے تو تمہیں بس کوئی بچہ ہی سمجھا تھا لیکن تم تو بہت کچھ جانتے ہو۔ نہیں، بالکل بھی نہیں، میں نے برملا تردید کی اور کہا: میں کچھ نہیں جانتا اور بالکل درست کہا، میں جاننے کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں، میں نے تو جناب عیسیٰ ابن مریمؑ کے دکھوں بھرے جیون کی روداد اپنے ایک بابا سے سنی ہے کہ جناب مسیح ابن مریمؑ تو مادرزاد نابینا کو بینا کرتے تھے۔
وہ تو مُردوں کو خدا کے اذن سے دوبارہ زندگی دیتے تھے، وہ کوڑھیوں کی بستی میں جانکلتے اور انہیں شفایاب کرتے، وہ واقعی روح اﷲ تھے، وہ جب اپنے گدھے پر سوار یروشیلم میں داخل ہوئے تو مجبوروں، بے بسوں اور جبر و ستم میں پسے ہوئے لوگوں نے ان کے سامنے دیدہ و دل فرش راہ کیے، اس زمانے میں کوئی اگر گدھے پر سوار ہوکر آتا تھا تو یہ اس بات کی منادی تھی کہ وہ نہتّا ہے اور امن و سلامتی کا پیام بر بن کر آیا ہے، اس سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، اور جب کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر آتا تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ مسلح ہے اور آمادۂ جنگ، لوگ کسی بھی گھڑ سوار کو دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے تھے۔
آپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ ان کا ایک پیروکار ان کے مشن پر آج بھی کاربند ہے اور انہیں کی طرح بے ریا۔ میری بات سن کر وہ کھڑے ہوئے اور کہا: جب تمہارا جی چاہے اور فرصت ملے تو بلاتکلّف چلے آنا، انہوں نے میرے متعلق بھی پوچھا تھا تو میں نے انہیں مختصر بتایا تھا، لیکن وہ مطمعن نہیں ہوئے تھے۔ فقیر کے ٹیکسلا کے قیام کے دوران ان سے کئی مرتبہ ملاقاتیں رہیں اور طویل بھی، ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ فقیر گواہی دیتا ہے کہ وہ انتہائی مخلص، ایثارکیش، ہم درد، دانا اور خدمت انساں کے جذبے سے سرشار تھے۔
ایسے ایثار کیش و بے ریا لوگ نایاب نہ بھی ہوں تو انتہائی کم یاب ضرور ہیں، جیسے ہمارے ہاں ماں روتھ فاؤ تھیں۔ لوگ انہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کہتے تھے لیکن فقیر نے کبھی اس نام سے انہیں نہیں پکارا، ہمیشہ ماں کہا کہ وہ تھیں ہی ماں، وہ آج ایک اجلی صلیب کے نیچے آسودہ ہیں، سعادت ملی تو ماں روتھ فاؤ کی باتیں بھی کریں گے۔ لوگ ڈاکٹر کرسٹی سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کوئی ان کے لیے انڈے لا رہا ہے، کوئی مرغیاں اور کوئی دیسی گھی، وہ سب کو منع بھی کرتے رہتے لیکن سادہ لوح لوگوں کے خلوص کو کوئی کیسے ٹھکرا سکتا ہے۔ مجھے ایک سجن بیلی نے بتایا ہے کہ آج کل ڈاکٹر کرسٹی کیلیفورنیا امریکا میں مقیم ہیں۔
میں نے ان سے ملاقات کی تفصیل سے بابا کو آگاہ کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بس اتنا ہی کہا کہ خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا سعادت ہے کہ ساری انسانیت خدا کا کنبہ ہے، ہمیں تو بس خدمت کا حکم ہے تو اسے بجا لانا چاہیے اور وہ لوگ ہی قابل عزت و احترام ہیں جو دوسروں کے دُکھ کو سُکھ میں بدلنے کی کوشش کریں۔
وہ چوتھا دن تھا جب میری مہمانی ختم ہوچکی تھی، اب میں بابا کے ساتھ ایک مزدور کی حیثیت سے کام پر روانہ ہوا۔ میرا کام یہ تھا کہ شہتیر بنانے کے دوران جو لکڑی ٹکڑوں کی شکل میں بچ جاتی انہیں ایک جگہ جمع کروں اور بُرادے کو بوری میں بھروں۔ بابا نے ہدایت دی کہ میں انہیں کام کرتا بہ غور دیکھوں، اس لیے کہ یہ بہت احتیاط طلب کام ہے، اس میں ذرا سی چُوک سے بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے جس سے انسان اپنے کسی اعضاء سے بھی محروم ہوسکتا ہے، سو میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمارے ساتھ ایک اور نوجوان بھی کام کرتا تھا، حنیف نام تھا اس کا، توانا اور چوکس، وہ درخت کے تنے کو ایسا اٹھا لیتا تھا جیسے وہ کوئی تنکا ہو، کام کرتے ہوئے کوئی گیت گنگناتا رہتا اور مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی۔ ہر ایک سے ہنسی مذاق کرنا اس کا شغل تھا۔
مجھے وہ چھوٹا استاد کہنے لگا اور ساتھ ہی کہتا میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔ میں نے کہا میں تو کچھ نہیں جانتا تو چھوٹا استاد کہاں سے ہوگیا۔ میری بات سنی تو مسکرا کر کہا: ہم تو تمہیں ہی اپنا استاد کہیں گے۔ نہ جانے ایسی کتنی ہی باتیں۔ باقی لوگ تو شاید اس کی باتوں کے عادی ہوگئے تھے، میرا تو پہلا دن تھا تو میں نے چِِڑ کر کہا: مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں اتنا چھوٹا اور کم زوز ہوں۔ تو سب کو مخاطب کرکے کہنے لگا: بھائیو! چھوٹے استاد نے کہا ہے کہ وہ چھوٹا نہیں ہے اور نہ ہی کم زور تو آج سے سب اسے بس استاد ہی کہیں گے۔
سب اس کی بات پر ہنسنے لگے، بس ایسا تھا وہ۔ مغرب کے وقت جب ہم کام سے فارغ ہوکر واپس آرہے تھے تو میں نے بابا سے اس کے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے کہا: سب کی کہانی سننے کا شوق ہے تمہیں، تو تم خود کیوں نہیں اس سے معلوم کرلیتے۔ ٹھیک ہے جی! میں معلوم کروں گا، میں نے کہا۔ اپنے ٹھکانے پہنچ کر ہم اپنے معمولات سے فارغ ہوئے، بابا کھانا کھانے اور نماز ادا کرکے فوراً سوجاتے تھے، اس لیے انہیں نصف شب کو جاگنا ہوتا تھا۔ اس دوران میں باہر آکر بیٹھ جاتا اور آس پاس کے منظر میں کھو جاتا۔ سر جھکائے درخت اور آسمان پر گھومتی پھرتی آوارہ بدلیاں مجھے ویسے بھی اچھی لگتی ہیں۔
میں اس نوجوان کے بارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہے کون اور پھر بابا نے بھی اس کے متعلق مجھے کچھ نہیں بتایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ صبح پہلا کام یہی کروں گا کہ اس سے اس کی رُوداد سنوں۔ اس کے بعد میں سوگیا۔ نصف شب سے زیادہ بیت گیا تھا کہ بابا نے مجھے جگا دیا۔ اس وقت تو وہ مجھے نہیں جگاتے، فجر سے کچھ دیر پہلے ہی وہ جگاتے تھے، میں سوچ ہی رہا تھا کہ آج ایسا کیوں ہوا کہ بابا وضو کرکے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: بیٹا! مہمانی بس تین دن کی ہوتی ہے، اب تمہیں اپنے معمولات بدلنے چاہییں، اٹھو رب تعالی سے لو لگاؤ، بس وہی ہے جسے ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے اور اسے ہی اولیّت دینا چاہیے۔ بابا یہ کہہ کر کُھلے میدان میں اپنے رب کے حضور جا کھڑے ہوئے۔
فقیر آپ کو بتانا بُھول گیا تھا کہ بابا کسی مُصلّے پر نماز ادا نہیں کرتے تھے، بل کہ وہ زمین پر ہی سجدہ ریز ہوجاتے اور ان کے قیام، رکوع و سجود طویل ہوتے تھے، فقیر نے اپنے سب بابوں کو اسی طرح سے مصروف عبادت دیکھا ہے۔
میں کیا اور میری نماز کیا، بس اقتداء ضرور کی، آپ اسے نقل کہہ لیں۔ فجر کی نماز بابا کی اقتداء میں ادا کرکے ہم نے ناشتا کیا اور پھر اپنے کام پر۔ بابا نے جانے سے پہلے کہا: تو آج میرے بیٹے نے طے کرلیا ہے کہ حنیف سے اس کی رُوداد ضرور سنے گا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا: اگر میں تمہیں اس سے منع کروں تب بھی۔ نہیں، نہیں بابا! آپ کے حکم کی ہر حال میں تعمیل کی جائے گی، میرے جواب پر بابا نے مسکرا کر دیکھا اور ہم اپنے کام پر روانہ ہوئے۔ آج بابا بالکل ہی خاموش تھے، پھر جب ہم آرا مشین کے قریب تھے کہ انہوں نے سائیکل روکی اور ہم پیدل چلنے لگے تب بابا بولے: حنیف کی کہانی میں تمہیں خود سناؤں گا۔ بابا اگر آپ مناسب سمجھیں تو سنائیے گا ورنہ میرا اصرار نہیں ہے۔ میری بات پر بابا پھر مسکرائے اور ہم اپنے کارخانے جا پہنچے۔ حنیف پہلے سے وہاں موجود تھا، اس نے بابا کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور چائے لینے چلا گیا۔ ہم نے چائے پی اور پھر کام شروع۔
وہ دن بھی آخر ختم ہوگیا اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔ اپنے معمولات سے فارغ ہوکر بابا نے سونے کے بہ جائے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر آکر بیٹھ گئے پھر انہوں نے بتایا: دیکھو بیٹا! ہر انسان بہ ذات خود ایک کہانی ہے، بس اگر واقعی کوئی ہم درد مل جائے تو جیون آسان ہوجاتا ہے، لیکن ایسا ہم درد ملتا بس قسمت سے ہے۔
جس حنیف کو تم آج دیکھ رہے ہو، وہ ایسا تھا نہیں۔ وہ ایک بہت امیر گھرانے کا ہے، جہاں دنیا کی ہر آسائش اسے میسر تھی، نہ جانے ہم تباہی کے سامان کو آسائش کیوں شمار کرتے ہیں۔ جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ اپنے علاقے کی ایک دوشیزہ کو دل دے بیٹھا تھا، ابتداء میں تو اس کے گھر والے یہی سمجھے کہ تھوڑے دن کا بھوت ہے، اتر جائے گا لیکن بیٹا! کبھی کوئی بھوت واقعی آپ کو اپنے دام میں گرفتار کرلیتا ہے، لوگ عشق و محبت کو بھی ایک بھوت ہی سمجھتے ہیں ناداں، تو بہ جائے اس کے کہ اس کی بات سُنی جاتی اسے لعن طعن کا نشانہ بنایا جانے لگا، گھر میں وہ تھا بھی سب سے چھوٹا تو کسی نے بھی اس کی نہیں سنی، کسی دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہونا کوئی گناہ تو نہیں ہے ناں، لیکن اسے گناہ سمجھا جاتا ہے، جب رب تعالی نے اس کی اجازت دی ہے کہ کوئی پسند آجائے تو اس سے نکاح کرلو تو پھر سماج کون ہوتا ہے اس کے راستے میں دیوار۔ دیکھو! رب تعالی نے تو زندگی آسان بنائی ہے، ہم نے ہی اسے اجیرن بنایا ہوا ہے۔
پھر ایک اور مسئلہ بھی ہم نے بنا لیا ہے کہ فلاں خاندان اور قبیلے کی لڑکی سے کسی دوسرے خاندان و قبیلے کا فرد شادی نہیں کرسکتا، جہالت نہیں تو اور کیا ہے یہ، خیر حنیف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اس محبت کے مارے کو پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر اسے گھر میں قید کردیا گیا، یہ تو کوئی علاج نہیں ہے اس روگ کا، ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن گیا تھا، سات سال کوئی کم مدت نہیں ہوتی، اسے یہ عذاب سہتے ہوئے، پھر وہ دن آیا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ کسی نے مجھے یہ سب کچھ بتایا تو میں اس کے گھر پہنچا۔ اس کے گھر والوں سے ملا تو انہوں نے تو صاف انکار کردیا کہ میں اس مسئلے میں نہ آؤں، میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ ظلم ہے، باز رہیں وہ اس سے، لیکن وہ تو اپنی دولت، جاگیر اور اپنی خاندانی وجاہت و اثر و رسوخ کے نشے میں تھے، مان کر ہی نہیں دیے، میں نے ان سے کہا کہ ان کے لیے تو حنیف ویسے بھی کسی کام کا نہیں تو اسے مجھے دے دیا جائے، لیکن میری ساری کوشش رائیگاں جارہی تھی، ایک ماہ تک مجھے وہاں رکنا پڑا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے، اور پھر مجھے کچھ اور کرنا پڑا، آخر کار وہ حنیف کو مجھے اس شرط پر دینے پر آمادہ ہوئے کہ اب وہ اس سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھیںگے۔
میں حنیف کو لے کر آگیا، اس کی نوزائیدہ بچے کی طرح نگہہ داشت کی، مجھے اب تجربہ ہے کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے، ایک ماں ہی کو زیبا ہے کہ اس کے پاؤں میں جنّت کو رکھا جائے۔ مجھے حنیف کی ماں بننا پڑا، پورے چھے سال لگے ہیں اس پر، جب کہیں جاکر وہ تمہیں اس حالت میں نظر آرہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں نے ہی اسے جنم دیا ہے۔ اس کے دل میں جو کانٹا چبھ گیا ہے، اس کانٹے نے اپنی جگہ تو تھوڑی سے ضرور چھوڑی ہے لیکن وہ اب بھی اس کے دل میں پیوست ہے، اسی لیے وہ مسکراتا رہتا اور گنگناتا رہتا ہے، وہ بھی یہیں رہتا ہے لیکن کچھ دن سے اس نے مجھ سے اجازت لی ہے کہ وہ وہیں کارخانے میں رہے گا تو اس کی خوشی میں بھی خوش ہوں، لیکن کچھ دن بعد وہ اسی جگہ ہمارے ساتھ ہوگا۔ میں نے اسی لیے تمہیں منع کیا تھا اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ تمہیں اپنی رُوداد سنا سکے۔ اس کے ساتھ ہی بابا نے مجھے حکم دیا کہ میں حنیف کے ساتھ ایک حقیقی چھوٹے بھائی کی طرح سے رہوں، تاکہ وہ مزید تیزی سے زندگی کی جانب لوٹ سکے۔
دیکھیے! آپ کو حنیف کی بپتا سناتے ہوئے کیا یاد آگیا۔ ہاں یہ بھی ایک صوفی باصفا کا شعر ہے، تھا تو وہ مستند ڈاکٹر، جی، ایم بی بی ایس، پھر دنیا سے جلد رخصت ہوا، اس کا لہو آج بھی فقیر کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ سانس کی آمد و رفت جاری رہی تو بتاؤں گا۔
دیوانگی کا آخری دَر چُھوکے آئے ہیں
اس دوڑ میں بھی قیس سے پیچھے نہیں رہے