جامعہ کراچی صوبے کی پہلی سندھ فارنسک ڈی این اے لیبارٹری تیار
آلات اور مشینری امریکا سے درآمد کی گئی، افتتاح کی منتظر لیب میں کام کرنے والوں کے ڈی این اے محفوظ کرلیے گئے
جامعہ کراچی میں صوبے کی پہلی باقاعدہ''سندھ فارنسک ڈی این اے سیرولوجی تجزیاتی لیب'' تیارکرلی گئی ہے۔
''ایکسپریس'' کو معلوم ہوا ہے کہ پی سی ایم ڈی کے سرپرست ادارے جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹرفار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسزنے صوبائی محکمہ صحت کو باقاعدہ فارنسک ڈی این اے لیب کی تیاری اورتکمیل سے آگاہ کردیاہے اورساتھ ہی بین الاقوامی اصولوں کومدنظررکھتے ہوئے لیب میں کام کرنے والے تمام ٹیکنیکل عملے اورسائنسدانوں کے اپنے ڈی این اے لے کراسے محفوظ کردیاگیاہے تاکہ ڈی این اے کے تجزیاتی عمل کے دوران کسی غلطی سے تجزیاتی عمل کومحفوظ رکھا جا سکے۔
جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹرفار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ لیب کی تیاری تمام بین الاقوامی اصول وضوابط کوسامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے اور لیب میں کام کرنے والے تمام عملے کے ڈی این اے پہلے ہی محفوظ کرلیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ فارنزک ڈی این اے لیب کے لیے سائنسی آلات امریکا سے درآمد کیے گئے ہیں ان میں 2ڈی این اے جینیٹک اینالائیزر 3500(DNA Genetic analyzer) اور 2 ''پی سی آر'' شامل ہیں، ان آلات کی قیمت مجموعی طورپر6 کروڑروپے کے قریب ہے۔
یادرہے کہ حکومت سندھ نے اس فارنسک ڈی این اے لیب کے قیام کے لیے 260ملین روپے کی رقم مختص کی تھی جس میں سے 220 ملین روپے کی رقم رواں سال جنوری میں جاری کی گئی اس بجٹ میں 150ملین روپے سائنسی آلات کی خریداری جبکہ دیگررقم لیب کے اخراجات اورعملے کی تنخواہوں پر خرچ ہونی ہے یہ پروجیکٹ ابتدائی طورپر3 سال کے لیے شروع کیاگیاہے تاہم محکمہ صحت کے ذرائع کاکہناہے کہ ابھی یہ واضح ہوناباقی ہے کہ پروجیکٹ کی مدت کی ابتدااس کے افتتاح سے شروع ہوگی یالیب کے قیام سے اس کی تین سالہ مدت کی ابتداہوگئی ہے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے لیب کوباقی 40ملین روپے کی گرانٹ کااجرابھی باقی ہے جبکہ روپے کی قدرمیں کمی کے سبب اب یہ رقم بھی اس تین سالہ پروجیکٹ کے لیے ناکافی ہوگی۔
ذرائع کے مطابق سندھ فارنسک لیب میں ڈی این اے کے تجزیوں کے لیے ریسرچ آفیسرز،ایسوسی ایٹ ریسرچ آفیسرزاوراسسٹنٹ ریسرچ آفیسرزکی تقرریاں کی جاچکی ہیں جوفارنزک سائنسدانوں کی نگرانی میں کام کریں گے،واضح رہے کہ''ایکسپریس'' کوسندھ فارنزک ڈی این اے سیرولوجی تجزیاتی لیبارٹری تک رسائی حاصل ہوئی جہاں مختلف لیبس پر مشتمل ایک مکمل ڈی این اے لیبارٹری قائم کی گئی ہے۔
دلچسپ امریہ ہے لیب کے قیام میں بین الاقوامی قوائد کومدنظررکھتے ہوئے ڈی این اے کی ہر تجربہ گاہ کو parallel labs ایک دوسرے کے متوازی قائم کیاگیاہے یعنی ڈی این اے کی ہرسیکشن کی دوایک جیسی لیب ہیں ایک تجربہ گاہ میں کسی جائے وقوعہ سے ملنے والے بائیولوجیکل نمونوں یایادیگرشواہدکاتجزیہ کیاجائے گاجبکہ اس کی متوازی دوسری لیب میں کسی مشتبہ suspect کے ڈی این اے کے لیے حاصل کیے گئے بائیولوجیکل نمونے کاتجزیہ ہوگا۔
لیبارٹری میں موجود ڈی این اے فارنزک لیب کے پروجیکٹ ڈائریکٹرڈاکٹراشتیاق احمد نے "ایکسپریس" کوبتایاکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں جائے وقوع سے پولیس کی جانب سے بھجوائے گئے نمونوں کوسب سے پہلے evedance room میں شواہد کے طورپرجمع کیاجاتاہے، اس جگہ کادرجہ حرارت26 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتاہے جس کے بعد شواہد کوڈی این اے شروع کرنے سے قبل کولڈ روم( cold room )میں منتقل کیاجاتاہے اورڈی این اے لیبارٹری سے قبل دوعددکولڈ روم بنائے گئے ہیں جن میں ایک روم کادرجہ حرارت 4ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ دوسرے کامنفی 20ڈگری سینٹری گریڈ ہوتاہے جائے حادثہ سے ملنے والے جسم کے کسی ٹکڑے body partکو4ڈگری سینٹری گریڈ کے حامل کولڈ روم جبکہ اس کے ڈی این اے کومنفی 20ڈگری میں رکھاجاتاہے۔
ڈی این اے کے آغاز میں سب سے پہلی لیبscreening and serologyلیب بنائی گئی ہے جہاں جائے حادثہ سے ملنے والے کسی بھی شواہد کی اسکریننگ کاعمل ہوتاہے، ان شواہد میں بائیولوجیکل نمونوں کے علاوہ دیگرsamples مثلاًکپڑے یادیگراشیائبھی شامل ہوسکتی ہیں، ان شواہدکومذکورہ لیب میں پھیلاکررکھاجاتاہے اور light sources alternative کے ذریعے سے اس کی اسکریننگ کی جاتی ہے جس میں چیزیں مزیدواضح نظرآتی ہے، اس کے بعد اگلے مرحلے میں موجودdark room میں شواہد کی مزید اسکریننگ کی جاتی ہے اس ڈارک روم کے بعد DNA abstraction avidance کے نام سے لیب موجودہے جبکہ اسی لیب کے متوازی یہی لیب کسی مشتبہ کے ڈی این اے کے لیے موجودہے جس reference abstraction DNAکانام دیاگیاہے۔
جس کے بعدریفرنس (مشتبہ)کے ڈی این اے اورجائے حادثہ سے ملنے والے نمونے کے ڈی این اے کامتوازی سلسلہ شروع ہوجاتاہے abstraction DNA کے بعدPre PCRمتوازی لیبس قائم کی گئی ہیں جس میں پی سی آرری ایکشن کی تیاری کی جاتی ہے نمونوں کوپی سی آرمشین پربھیجاجاتاہے جس میں ڈی این اے کی مقدارکاجائزہ لیاجاتاہے اوریہ جائزہ لیاجاتاہے کہ اس سیمپل سے کتناڈی این اے نکلاہے جس کے بعدآخری بڑی لیب لیب Post PCRلیب قائم ہے یہاں جینیٹکس اینلائزرپرڈی این اے کی پروفائل سامنے آجاتی ہے ڈی این اے کے مارکرز(شناختی علامات)سامنے آجاتی ہیں اورvictim اورreference کی پروفائل سامنے آ جاتی ہے، آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹرپروفیسرڈاکٹراقبال چوہدری نے بتایاکہ لیب میں بیک وقت 60 کے قریب نمونوں کے ڈی این اے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ یہ ڈی این اے کسی بھی جائے حادثہ " crime scene {"سے ملنے والے انسانی جسم کے نمونوں سے کیاجاسکے گاجس میں انسانی جسم کے ٹشوز، سرکے بال، جلد یا پھر خون سمیت دیگر اجزا شامل ہو، علاوہ ازیں پروفیسرڈاکٹراقبال چوہدری کے مطابق ان کے ادارے نے حکومت سندھ سے کے گئے معاہدے کی مدت سے ایک ماہ قبل ریکارڈوقت میں ڈی این اے لیبارٹری تیارکرلی ہے اورحکومت سندھ کواس سے آگاہ بھی کردیاگیاہے امکان ہے کہ اس پروجیکٹ کا افتتاح حکومت سندھ کی جانب سے آئندہ ماہ میں کسی وقت ہوجائے گا۔
''ایکسپریس'' کو معلوم ہوا ہے کہ پی سی ایم ڈی کے سرپرست ادارے جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹرفار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسزنے صوبائی محکمہ صحت کو باقاعدہ فارنسک ڈی این اے لیب کی تیاری اورتکمیل سے آگاہ کردیاہے اورساتھ ہی بین الاقوامی اصولوں کومدنظررکھتے ہوئے لیب میں کام کرنے والے تمام ٹیکنیکل عملے اورسائنسدانوں کے اپنے ڈی این اے لے کراسے محفوظ کردیاگیاہے تاکہ ڈی این اے کے تجزیاتی عمل کے دوران کسی غلطی سے تجزیاتی عمل کومحفوظ رکھا جا سکے۔
جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹرفار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ لیب کی تیاری تمام بین الاقوامی اصول وضوابط کوسامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے اور لیب میں کام کرنے والے تمام عملے کے ڈی این اے پہلے ہی محفوظ کرلیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ فارنزک ڈی این اے لیب کے لیے سائنسی آلات امریکا سے درآمد کیے گئے ہیں ان میں 2ڈی این اے جینیٹک اینالائیزر 3500(DNA Genetic analyzer) اور 2 ''پی سی آر'' شامل ہیں، ان آلات کی قیمت مجموعی طورپر6 کروڑروپے کے قریب ہے۔
یادرہے کہ حکومت سندھ نے اس فارنسک ڈی این اے لیب کے قیام کے لیے 260ملین روپے کی رقم مختص کی تھی جس میں سے 220 ملین روپے کی رقم رواں سال جنوری میں جاری کی گئی اس بجٹ میں 150ملین روپے سائنسی آلات کی خریداری جبکہ دیگررقم لیب کے اخراجات اورعملے کی تنخواہوں پر خرچ ہونی ہے یہ پروجیکٹ ابتدائی طورپر3 سال کے لیے شروع کیاگیاہے تاہم محکمہ صحت کے ذرائع کاکہناہے کہ ابھی یہ واضح ہوناباقی ہے کہ پروجیکٹ کی مدت کی ابتدااس کے افتتاح سے شروع ہوگی یالیب کے قیام سے اس کی تین سالہ مدت کی ابتداہوگئی ہے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے لیب کوباقی 40ملین روپے کی گرانٹ کااجرابھی باقی ہے جبکہ روپے کی قدرمیں کمی کے سبب اب یہ رقم بھی اس تین سالہ پروجیکٹ کے لیے ناکافی ہوگی۔
ذرائع کے مطابق سندھ فارنسک لیب میں ڈی این اے کے تجزیوں کے لیے ریسرچ آفیسرز،ایسوسی ایٹ ریسرچ آفیسرزاوراسسٹنٹ ریسرچ آفیسرزکی تقرریاں کی جاچکی ہیں جوفارنزک سائنسدانوں کی نگرانی میں کام کریں گے،واضح رہے کہ''ایکسپریس'' کوسندھ فارنزک ڈی این اے سیرولوجی تجزیاتی لیبارٹری تک رسائی حاصل ہوئی جہاں مختلف لیبس پر مشتمل ایک مکمل ڈی این اے لیبارٹری قائم کی گئی ہے۔
دلچسپ امریہ ہے لیب کے قیام میں بین الاقوامی قوائد کومدنظررکھتے ہوئے ڈی این اے کی ہر تجربہ گاہ کو parallel labs ایک دوسرے کے متوازی قائم کیاگیاہے یعنی ڈی این اے کی ہرسیکشن کی دوایک جیسی لیب ہیں ایک تجربہ گاہ میں کسی جائے وقوعہ سے ملنے والے بائیولوجیکل نمونوں یایادیگرشواہدکاتجزیہ کیاجائے گاجبکہ اس کی متوازی دوسری لیب میں کسی مشتبہ suspect کے ڈی این اے کے لیے حاصل کیے گئے بائیولوجیکل نمونے کاتجزیہ ہوگا۔
لیبارٹری میں موجود ڈی این اے فارنزک لیب کے پروجیکٹ ڈائریکٹرڈاکٹراشتیاق احمد نے "ایکسپریس" کوبتایاکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں جائے وقوع سے پولیس کی جانب سے بھجوائے گئے نمونوں کوسب سے پہلے evedance room میں شواہد کے طورپرجمع کیاجاتاہے، اس جگہ کادرجہ حرارت26 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتاہے جس کے بعد شواہد کوڈی این اے شروع کرنے سے قبل کولڈ روم( cold room )میں منتقل کیاجاتاہے اورڈی این اے لیبارٹری سے قبل دوعددکولڈ روم بنائے گئے ہیں جن میں ایک روم کادرجہ حرارت 4ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ دوسرے کامنفی 20ڈگری سینٹری گریڈ ہوتاہے جائے حادثہ سے ملنے والے جسم کے کسی ٹکڑے body partکو4ڈگری سینٹری گریڈ کے حامل کولڈ روم جبکہ اس کے ڈی این اے کومنفی 20ڈگری میں رکھاجاتاہے۔
ڈی این اے کے آغاز میں سب سے پہلی لیبscreening and serologyلیب بنائی گئی ہے جہاں جائے حادثہ سے ملنے والے کسی بھی شواہد کی اسکریننگ کاعمل ہوتاہے، ان شواہد میں بائیولوجیکل نمونوں کے علاوہ دیگرsamples مثلاًکپڑے یادیگراشیائبھی شامل ہوسکتی ہیں، ان شواہدکومذکورہ لیب میں پھیلاکررکھاجاتاہے اور light sources alternative کے ذریعے سے اس کی اسکریننگ کی جاتی ہے جس میں چیزیں مزیدواضح نظرآتی ہے، اس کے بعد اگلے مرحلے میں موجودdark room میں شواہد کی مزید اسکریننگ کی جاتی ہے اس ڈارک روم کے بعد DNA abstraction avidance کے نام سے لیب موجودہے جبکہ اسی لیب کے متوازی یہی لیب کسی مشتبہ کے ڈی این اے کے لیے موجودہے جس reference abstraction DNAکانام دیاگیاہے۔
جس کے بعدریفرنس (مشتبہ)کے ڈی این اے اورجائے حادثہ سے ملنے والے نمونے کے ڈی این اے کامتوازی سلسلہ شروع ہوجاتاہے abstraction DNA کے بعدPre PCRمتوازی لیبس قائم کی گئی ہیں جس میں پی سی آرری ایکشن کی تیاری کی جاتی ہے نمونوں کوپی سی آرمشین پربھیجاجاتاہے جس میں ڈی این اے کی مقدارکاجائزہ لیاجاتاہے اوریہ جائزہ لیاجاتاہے کہ اس سیمپل سے کتناڈی این اے نکلاہے جس کے بعدآخری بڑی لیب لیب Post PCRلیب قائم ہے یہاں جینیٹکس اینلائزرپرڈی این اے کی پروفائل سامنے آجاتی ہے ڈی این اے کے مارکرز(شناختی علامات)سامنے آجاتی ہیں اورvictim اورreference کی پروفائل سامنے آ جاتی ہے، آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹرپروفیسرڈاکٹراقبال چوہدری نے بتایاکہ لیب میں بیک وقت 60 کے قریب نمونوں کے ڈی این اے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ یہ ڈی این اے کسی بھی جائے حادثہ " crime scene {"سے ملنے والے انسانی جسم کے نمونوں سے کیاجاسکے گاجس میں انسانی جسم کے ٹشوز، سرکے بال، جلد یا پھر خون سمیت دیگر اجزا شامل ہو، علاوہ ازیں پروفیسرڈاکٹراقبال چوہدری کے مطابق ان کے ادارے نے حکومت سندھ سے کے گئے معاہدے کی مدت سے ایک ماہ قبل ریکارڈوقت میں ڈی این اے لیبارٹری تیارکرلی ہے اورحکومت سندھ کواس سے آگاہ بھی کردیاگیاہے امکان ہے کہ اس پروجیکٹ کا افتتاح حکومت سندھ کی جانب سے آئندہ ماہ میں کسی وقت ہوجائے گا۔