چائے کی پیالی
آپ جب چائے کی چسکیاں لیں تو اس کے لیے ہونے والی ’’جاسوسی‘‘کو نہ بھولیے گا
ہمارا فقیر ہو یا امیر اس کی صبح چائے کے بغیر نہیں ہوتی۔ فقیر رات کی سوکھی روٹی کو گُڑ یا شکر سے میٹھی چائے میں ڈبو کر کھاتا ہے، اس کی خوشبو دار بھاپ کو چہرے پر محسوس کرتا ہے اور اپنے بنانے والے کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اسے یہ ''ناشتا'' دیا۔
ادھر متوسط اور اعلیٰ طبقے کے لوگ ہیں جو قیمتی ٹی سیٹ میں دم دی ہوئی بیڈ ٹی پیتے ہیں اور خود کو ایک مصروف دن کے لیے تیارکرتے ہیں۔ چائے ہمارے یہاں صبح سے شام تک چلتی ہے۔ دفتروں میں یہ کلرکوں کا ایندھن ہے جو انھیں مٹھاس کے سہارے کھانے کی خواہش سے بھی بڑی حد تک آزاد رکھتا ہے۔
ہمارے افسانے، ناول، فلمیں، ٹیلی ویژن ڈرامے سب ہی چائے کے گرد گھومتے ہیں۔لڑکے والے کسی گھر میں لڑکی دیکھنے جائیں تو چائے کا ایک بنیادی کردار ہوتا ہے۔ لڑکی چائے کی کشتی لے کر اپنے امکانی سسرال والوں کے سامنے آتی ہے، گرم، خوشبودار اور خوش ذائقہ چائے سے ان کا دل موہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ قہوہ خانوں اور چائے خانوں میں لڑکی اور لڑکے کے درمیان رومان چائے کی پیالی پر ہی پروان چڑھتا ہے۔گھر میں تنہا رہ جانے والی بزرگ عورتیں اور مرد چائے کی اس ایک گرم پیالی کی راہ دیکھتے ہیں جو ان کی بہو یا بیٹی ان کے سامنے رکھ دے گی اور اسے وہ اس کی بے پناہ مہربانی خیال کریں گے۔
چائے کی پیالی آج اس لیے بہ طور خاص یاد آئی کہ انگریزی اخباروں یہ خبر شایع ہوئی کہ ہمارے بڑے شہروں میں تندور میں پکائی جانے والی چائے بہت مقبول ہو رہی ہے۔کوئلے کی آنچ پر پکنے والی چائے سے میں لطف اندوز ہوچکی ہوں لیکن تندور میں دم ہونے والی چائے کا ذائقہ ابھی تک نہیں چکھا۔اس وقت چائے کے وہ تمام کلہڑ یاد آرہے ہیں جو ریل کے کسی سفر کے دوران پی کر پٹری پر توڑے تھے۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں خیال تھا کہ ہوسکتا ہے یہ کلہڑ پٹری پر ٹوٹ کر ریل کے ڈبوں کو پٹری سے اتار دیں گے تو کس قدر رونق رہے گی۔ یہ نادر خیال جب امی کو معلوم ہوا تو جو گرما گرم ڈانٹ پڑی، وہ ابھی تک حافظے میں زندہ ہے۔
منہ اندھیرے آنکھ پرائمس اسٹووکی سائیں سائیں سے کھلتی جس کے نیلے شعلے پر چائے کی کتیلی میں پانی کھول رہا ہوتا اور جب وہ چینی کی چائے دان میں انڈیلا جاتا تو اس میں موجود چائے کی پتیوں کی خوشبو کمرے میں راحت کا خوشگوار احساس جگادیتی۔ یہ مانوس خوشبو اس بات کا اشارہ تھی کہ اب اٹھو، بستر چھوڑو، منہ ہاتھ دھو لو۔ اس کے بعد نان خطائی یا نمک پارے کے ساتھ چائے کا گرم گھونٹ ان کے ساتھ انصاف کرتا۔ اس کے بعد سعدی کی کریما یا حالی کی مسدس کو حفظ کرنا لازم تھا۔
ہم آج کی زندگی کا چائے کے بغیر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ 700 قبل مسیح میں چائے کا ذکر ہمیں رامائین میں ملتا ہے۔آج ہم جس چائے کے ہرگھونٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، وہ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر اپنے ساتھ لائے لیکن اس کے سیکڑوں برس پہلے سے تلسی، الائچی،کالی مرچ، ملہٹی، پودینہ، دار چینی اور ادرک کی چائے ہمارے یہاں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں پر کسی غار میں بیٹھے ہوئے بھکشو ان مصالحوں سے دم دی ہوئی چائے کی تاثیر اور خوشبو سے اپنے سینوں کو گرماتے اور بلندیوں پر گرنے والی برف کی خنکی سے نجات پاتے۔ اس زمانے میں چائے کی پتیاں ابال کر پینے کے ساتھ بھاجی، اچار اور لہسن کے ساتھ بھی کھائی جاتیں۔
چین میں چائے 2 ہزار برس سے استعمال کی جا رہی ہے، اس کا ذکر سیموئیل ہیپی نے اپنی ڈائری میں کیا ہے۔ وہ 26ستمبر 1600 کو لکھتا ہے کہ چائے ایک بہترین اور صحت افزا مشروب ہے جسے پینے کا مشورہ ڈاکٹر بھی دیتے ہیں۔ 1635 میں چائے انگلستان میں آگ کے مول فروخت ہوتی تھی۔ یوں سمجھیں کہ ایک پونڈ چائے آج کے 600 سے 1000 پونڈ میں ملتی تھی۔ چائے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب انگلستان کے شاہ چارلس دوم کی شادی پرتگیزی شہزادی کیتھرین آف برگنزا سے ہوئی تو جہیز میں ممبئی کا جزیرہ جو ان دنوں پرتگیزیوں کے قبضے میں تھا اور ایک صندوق چائے دی گئی تھی۔
انگریز چائے کی کاشت میں بہت دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ ایک طرف جزائر برطانیہ میں اس کی طلب بڑھ رہی تھی، دوسری طرف چین سے چھوٹی موٹی جنگ ہوجائے تو چینی تاجر اس کی قیمت میں پچاس گنا اضافہ کردیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ چائے کے بعض تاجروںنے ''جاسوس'' بھرتی کیے اور انھیں مختلف بھیس بدل کر چین روانہ کیا گیا۔ ان ہی میں سے ایک فارچون تھا جو اپنے ملازم 'وانگ' کے ساتھ 1848 میں شنگھائی پہنچا۔ وانگ کا سرمونڈ دیا گیا تاکہ وہ عین مین منڈیرین (چینی) نظر آئے۔ یہ دونوں شنگھائی سے ہانگہوا اور وہاں سے چائے کے باغات کی سیر کو پہنچے۔ تین مہینے کی اس سیاحت نے ان دونوں کو تھکن سے ہلکان کردیا۔ اس ''سیاحت'' کے دوران انھوں نے چائے کے 13 ہزار پودے اور 10 ہزار بیج اکٹھے کیے۔
اپنے اس ''خزانے'' کے ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ ہندوستان پہنچے۔ یہ پودے اور بیج فار چون نے شیشے کی بوتلوں اور نلکیوں میں رکھے تھے اور نہارت مہارت سے انھیں کلکتہ اسمگل کیا تھا۔ اسی کے بعد برطانوی پلانٹنرز نے چائے کی کاشت میں ایسی ترقی کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے برطانوی چائے کی تجارت 86 ملین پونڈ کو چھونے لگی۔ لندن کی سڑکوں اور بازاروں پر بڑے بڑے بل بورڈز لگ گئے جس پر ''ہندوستانی چائے'' کی تعریف میں زبردست قصیدہ خوانی کی گئی تھی۔ آکسفورڈ اسٹریٹ جو آج بھی لندن کا سب سے فیشن ایبل علاقہ ہے اس پر 1881 میں ہندوستان اور سیلون میں پیدا ہونے والی چائے کے اشتہار لگے ہوئے تھے۔
چائے کو عوام اور خواص دونوں میں محبوب بنانے میں ریل کے سفر نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ چھوٹے اور بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر سلگتے ہوئے کوئلوں والی انگیٹھی پر تار سے بندھی ہوئی المونیم کی کیتلی مسافروں کے لیے ایک راحت بخش مشروب کا نشان بن گئی۔ یہ کیتلیاں اٹھا کر پلیٹ فارم پر گھومنے والے اور ''چائے گرم'' کی ہانک لگانے و الے کل ہی نہیں، آج بھی لوگوںکو اچھے لگتے ہیں۔ دودھ پتی والی یہ چائے مسافروں کو تازہ دم کردیتی ہے۔ انگریز نے دودھ اور شکر والی چائے سے احتراز کیا، وہ کھولتے ہوئے پانی میں چائے کی مقدار بھی کم ہی ڈالتے ہیں جسے وہ ''ویک ٹی'' کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہم لوگ لطف لینے کے لیے اسے ''کمزور اور نحیف و نزار چائے'' کہتے ہیں۔
ہم ان کا جتنا بھی مذاق اڑائیں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری بے حد میٹھی اور بہت کڑک چائے ہماری ضرورت ہے جب کہ وہ دوسرے گرما دینے والے مشروبات سے بھی شوق کرتے ہیں، ان کے لیے کڑک چائے ضروری نہیں۔آسام، دارجلنگ، نیل گری ، سلہٹ اور دوسرے علاقوں میں پیدا ہونے والی چائے ہمارے لوگوں کے لیے ایک نعمت ہے، تب ہی ہم برصغیر والے اپنی اگائی ہوئی 70 فیصد چائے خود ہی پی جاتے ہیں۔
چائے کے بارے میں لنری کولنگھم نے لکھا ہے کہ برصغیر کی ریل میں سفر کرنے والے مسافر کی آنکھ منہ اندھیرے ''چائے والا'' کی آواز سے کھلتی ہے۔ ریل کے ڈبے کھڑکھڑاتے ہوئے کسی اسٹیشن پر رکنا شروع ہوتے ہیں کہ ''چائے گرم'' کی آواز کے ساتھ ہمیں وہ شخص نظر آتا ہے جو ایک ہاتھ میں کانچ کے گلاس بجاتے ہوئے اور دوسرے ہاتھ میں دہکتی ہوئی چائے کی کیتلی جھلاتا ہوا، ریل کی کھڑکیوں تک آتا ہے اور مسافر کی ٹوٹتی ہوئی نیند اور آلکس کے تھکے ہوئے بدن کو یہ خوشخبری سناتا ہے کہ گرما گرم چائے اس کو جگانے کے لیے آپہنچی ہے۔
ہماری کہانیوں اور ناولوں میں قدم قدم پر چائے کی گرما گرم پیالی سے ملاقات ہوتی ہے۔ یہ قرۃ العین حیدر ہیں جنہوں نے ایک ناولٹ ''چائے کے باغ'' لکھ دیا۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب وہ پاکستان کی شہری تھیں اور فلم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ایک ڈاکومنٹری فلم بنانے سابق مشرقی پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ اس کا نقشہ ہمارے سامنے یوں کھلتا ہے کہ چائے کی جھاڑی، اس کا باغ، مزدور لڑکیاں، جنگل، ندی، فنچوگنج کا پل، دریا، کشتیاں،اسٹیمرگھاٹ، برم چال ریلوے اسٹیشن، کام کرتی ہوئی مزدور عورتیں اور مرد... قراۃ العین حیدر فنا کے گھاٹ اتریں۔ سابق مشرقی پاکستان کے وہ جنگل اورکھیت ہمارے نہیں رہے لیکن چائے آج بھی ہماری ہے۔ وہ سیلون، سلہٹ سے آئے یا آسام سے، دارجلنگ کی ہو، نیل گری یا کینیا کی۔اس کا ذائقہ، اس کی خوشبو سب ہماری ہے۔
آپ جب چائے کی چسکیاں لیں تو اس کے لیے ہونے والی ''جاسوسی''کو نہ بھولیے گا، چسکی کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
ادھر متوسط اور اعلیٰ طبقے کے لوگ ہیں جو قیمتی ٹی سیٹ میں دم دی ہوئی بیڈ ٹی پیتے ہیں اور خود کو ایک مصروف دن کے لیے تیارکرتے ہیں۔ چائے ہمارے یہاں صبح سے شام تک چلتی ہے۔ دفتروں میں یہ کلرکوں کا ایندھن ہے جو انھیں مٹھاس کے سہارے کھانے کی خواہش سے بھی بڑی حد تک آزاد رکھتا ہے۔
ہمارے افسانے، ناول، فلمیں، ٹیلی ویژن ڈرامے سب ہی چائے کے گرد گھومتے ہیں۔لڑکے والے کسی گھر میں لڑکی دیکھنے جائیں تو چائے کا ایک بنیادی کردار ہوتا ہے۔ لڑکی چائے کی کشتی لے کر اپنے امکانی سسرال والوں کے سامنے آتی ہے، گرم، خوشبودار اور خوش ذائقہ چائے سے ان کا دل موہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ قہوہ خانوں اور چائے خانوں میں لڑکی اور لڑکے کے درمیان رومان چائے کی پیالی پر ہی پروان چڑھتا ہے۔گھر میں تنہا رہ جانے والی بزرگ عورتیں اور مرد چائے کی اس ایک گرم پیالی کی راہ دیکھتے ہیں جو ان کی بہو یا بیٹی ان کے سامنے رکھ دے گی اور اسے وہ اس کی بے پناہ مہربانی خیال کریں گے۔
چائے کی پیالی آج اس لیے بہ طور خاص یاد آئی کہ انگریزی اخباروں یہ خبر شایع ہوئی کہ ہمارے بڑے شہروں میں تندور میں پکائی جانے والی چائے بہت مقبول ہو رہی ہے۔کوئلے کی آنچ پر پکنے والی چائے سے میں لطف اندوز ہوچکی ہوں لیکن تندور میں دم ہونے والی چائے کا ذائقہ ابھی تک نہیں چکھا۔اس وقت چائے کے وہ تمام کلہڑ یاد آرہے ہیں جو ریل کے کسی سفر کے دوران پی کر پٹری پر توڑے تھے۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں خیال تھا کہ ہوسکتا ہے یہ کلہڑ پٹری پر ٹوٹ کر ریل کے ڈبوں کو پٹری سے اتار دیں گے تو کس قدر رونق رہے گی۔ یہ نادر خیال جب امی کو معلوم ہوا تو جو گرما گرم ڈانٹ پڑی، وہ ابھی تک حافظے میں زندہ ہے۔
منہ اندھیرے آنکھ پرائمس اسٹووکی سائیں سائیں سے کھلتی جس کے نیلے شعلے پر چائے کی کتیلی میں پانی کھول رہا ہوتا اور جب وہ چینی کی چائے دان میں انڈیلا جاتا تو اس میں موجود چائے کی پتیوں کی خوشبو کمرے میں راحت کا خوشگوار احساس جگادیتی۔ یہ مانوس خوشبو اس بات کا اشارہ تھی کہ اب اٹھو، بستر چھوڑو، منہ ہاتھ دھو لو۔ اس کے بعد نان خطائی یا نمک پارے کے ساتھ چائے کا گرم گھونٹ ان کے ساتھ انصاف کرتا۔ اس کے بعد سعدی کی کریما یا حالی کی مسدس کو حفظ کرنا لازم تھا۔
ہم آج کی زندگی کا چائے کے بغیر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ 700 قبل مسیح میں چائے کا ذکر ہمیں رامائین میں ملتا ہے۔آج ہم جس چائے کے ہرگھونٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، وہ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر اپنے ساتھ لائے لیکن اس کے سیکڑوں برس پہلے سے تلسی، الائچی،کالی مرچ، ملہٹی، پودینہ، دار چینی اور ادرک کی چائے ہمارے یہاں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں پر کسی غار میں بیٹھے ہوئے بھکشو ان مصالحوں سے دم دی ہوئی چائے کی تاثیر اور خوشبو سے اپنے سینوں کو گرماتے اور بلندیوں پر گرنے والی برف کی خنکی سے نجات پاتے۔ اس زمانے میں چائے کی پتیاں ابال کر پینے کے ساتھ بھاجی، اچار اور لہسن کے ساتھ بھی کھائی جاتیں۔
چین میں چائے 2 ہزار برس سے استعمال کی جا رہی ہے، اس کا ذکر سیموئیل ہیپی نے اپنی ڈائری میں کیا ہے۔ وہ 26ستمبر 1600 کو لکھتا ہے کہ چائے ایک بہترین اور صحت افزا مشروب ہے جسے پینے کا مشورہ ڈاکٹر بھی دیتے ہیں۔ 1635 میں چائے انگلستان میں آگ کے مول فروخت ہوتی تھی۔ یوں سمجھیں کہ ایک پونڈ چائے آج کے 600 سے 1000 پونڈ میں ملتی تھی۔ چائے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب انگلستان کے شاہ چارلس دوم کی شادی پرتگیزی شہزادی کیتھرین آف برگنزا سے ہوئی تو جہیز میں ممبئی کا جزیرہ جو ان دنوں پرتگیزیوں کے قبضے میں تھا اور ایک صندوق چائے دی گئی تھی۔
انگریز چائے کی کاشت میں بہت دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ ایک طرف جزائر برطانیہ میں اس کی طلب بڑھ رہی تھی، دوسری طرف چین سے چھوٹی موٹی جنگ ہوجائے تو چینی تاجر اس کی قیمت میں پچاس گنا اضافہ کردیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ چائے کے بعض تاجروںنے ''جاسوس'' بھرتی کیے اور انھیں مختلف بھیس بدل کر چین روانہ کیا گیا۔ ان ہی میں سے ایک فارچون تھا جو اپنے ملازم 'وانگ' کے ساتھ 1848 میں شنگھائی پہنچا۔ وانگ کا سرمونڈ دیا گیا تاکہ وہ عین مین منڈیرین (چینی) نظر آئے۔ یہ دونوں شنگھائی سے ہانگہوا اور وہاں سے چائے کے باغات کی سیر کو پہنچے۔ تین مہینے کی اس سیاحت نے ان دونوں کو تھکن سے ہلکان کردیا۔ اس ''سیاحت'' کے دوران انھوں نے چائے کے 13 ہزار پودے اور 10 ہزار بیج اکٹھے کیے۔
اپنے اس ''خزانے'' کے ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ ہندوستان پہنچے۔ یہ پودے اور بیج فار چون نے شیشے کی بوتلوں اور نلکیوں میں رکھے تھے اور نہارت مہارت سے انھیں کلکتہ اسمگل کیا تھا۔ اسی کے بعد برطانوی پلانٹنرز نے چائے کی کاشت میں ایسی ترقی کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے برطانوی چائے کی تجارت 86 ملین پونڈ کو چھونے لگی۔ لندن کی سڑکوں اور بازاروں پر بڑے بڑے بل بورڈز لگ گئے جس پر ''ہندوستانی چائے'' کی تعریف میں زبردست قصیدہ خوانی کی گئی تھی۔ آکسفورڈ اسٹریٹ جو آج بھی لندن کا سب سے فیشن ایبل علاقہ ہے اس پر 1881 میں ہندوستان اور سیلون میں پیدا ہونے والی چائے کے اشتہار لگے ہوئے تھے۔
چائے کو عوام اور خواص دونوں میں محبوب بنانے میں ریل کے سفر نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ چھوٹے اور بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر سلگتے ہوئے کوئلوں والی انگیٹھی پر تار سے بندھی ہوئی المونیم کی کیتلی مسافروں کے لیے ایک راحت بخش مشروب کا نشان بن گئی۔ یہ کیتلیاں اٹھا کر پلیٹ فارم پر گھومنے والے اور ''چائے گرم'' کی ہانک لگانے و الے کل ہی نہیں، آج بھی لوگوںکو اچھے لگتے ہیں۔ دودھ پتی والی یہ چائے مسافروں کو تازہ دم کردیتی ہے۔ انگریز نے دودھ اور شکر والی چائے سے احتراز کیا، وہ کھولتے ہوئے پانی میں چائے کی مقدار بھی کم ہی ڈالتے ہیں جسے وہ ''ویک ٹی'' کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہم لوگ لطف لینے کے لیے اسے ''کمزور اور نحیف و نزار چائے'' کہتے ہیں۔
ہم ان کا جتنا بھی مذاق اڑائیں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری بے حد میٹھی اور بہت کڑک چائے ہماری ضرورت ہے جب کہ وہ دوسرے گرما دینے والے مشروبات سے بھی شوق کرتے ہیں، ان کے لیے کڑک چائے ضروری نہیں۔آسام، دارجلنگ، نیل گری ، سلہٹ اور دوسرے علاقوں میں پیدا ہونے والی چائے ہمارے لوگوں کے لیے ایک نعمت ہے، تب ہی ہم برصغیر والے اپنی اگائی ہوئی 70 فیصد چائے خود ہی پی جاتے ہیں۔
چائے کے بارے میں لنری کولنگھم نے لکھا ہے کہ برصغیر کی ریل میں سفر کرنے والے مسافر کی آنکھ منہ اندھیرے ''چائے والا'' کی آواز سے کھلتی ہے۔ ریل کے ڈبے کھڑکھڑاتے ہوئے کسی اسٹیشن پر رکنا شروع ہوتے ہیں کہ ''چائے گرم'' کی آواز کے ساتھ ہمیں وہ شخص نظر آتا ہے جو ایک ہاتھ میں کانچ کے گلاس بجاتے ہوئے اور دوسرے ہاتھ میں دہکتی ہوئی چائے کی کیتلی جھلاتا ہوا، ریل کی کھڑکیوں تک آتا ہے اور مسافر کی ٹوٹتی ہوئی نیند اور آلکس کے تھکے ہوئے بدن کو یہ خوشخبری سناتا ہے کہ گرما گرم چائے اس کو جگانے کے لیے آپہنچی ہے۔
ہماری کہانیوں اور ناولوں میں قدم قدم پر چائے کی گرما گرم پیالی سے ملاقات ہوتی ہے۔ یہ قرۃ العین حیدر ہیں جنہوں نے ایک ناولٹ ''چائے کے باغ'' لکھ دیا۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب وہ پاکستان کی شہری تھیں اور فلم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ایک ڈاکومنٹری فلم بنانے سابق مشرقی پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ اس کا نقشہ ہمارے سامنے یوں کھلتا ہے کہ چائے کی جھاڑی، اس کا باغ، مزدور لڑکیاں، جنگل، ندی، فنچوگنج کا پل، دریا، کشتیاں،اسٹیمرگھاٹ، برم چال ریلوے اسٹیشن، کام کرتی ہوئی مزدور عورتیں اور مرد... قراۃ العین حیدر فنا کے گھاٹ اتریں۔ سابق مشرقی پاکستان کے وہ جنگل اورکھیت ہمارے نہیں رہے لیکن چائے آج بھی ہماری ہے۔ وہ سیلون، سلہٹ سے آئے یا آسام سے، دارجلنگ کی ہو، نیل گری یا کینیا کی۔اس کا ذائقہ، اس کی خوشبو سب ہماری ہے۔
آپ جب چائے کی چسکیاں لیں تو اس کے لیے ہونے والی ''جاسوسی''کو نہ بھولیے گا، چسکی کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔