نوجوان طبقہ او ر قومی بیانیہ
مسئلہ یہ نہیں کہ نوجوان نسل میں صلاحیت نہیں یاوہ کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ اصل مسئلہ عدم مواقعوں اورعدم سازگار ماحول کا ہے۔
پاکستان کا نوجوان طبقہ ایک بڑے بحران یا چیلنجز سے گزرہا ہے۔ بنیادی مسئلہ عدم تحفظ اور غیر یقینی کا ہے اورجس میں معاشی عمل بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔مسئلہ محض پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کا ہی نہیں بلکہ وہ نوجوان جو پڑھ لکھ نہیں سکے ان کو بھی کیسے قومی ترقی کے دھار ے میں لانا بڑا سوال ہے۔ نوجوان طبقہ کے مسائل پر حکومتی اور ریاستی سطح پر گفتگو تو بہت ہوتی ہے لیکن عملی کام نہیں ہوتا۔
یہ جو معاشرے میں ہمیں نوجوانوں کی سطح پر باغیانہ مزاج، غصہ، نفرت،انتہا پسندی، لاتعلقی، مایوسی اور معاملات کو اندھیرے میں دیکھنے کا جو عمل بڑھ رہا ہے وہ سنگین بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عمل پر تشدد رجحانات، عدم برداشت اورعدم سماجی و سیاسی ہم آہنگی کو پیدا کرتا ہے۔ مسئلہ ریاست کے مجموعی نظام اور حکمرانی کے بحران کا ہے۔ نوجوان طبقہ سے جڑے مسائل ہماری سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی منصوبہ بندی کے فقدان کا شکار ہیں۔ اگر کچھ منصوبہ بندی کی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں تو اس میں ترجیحات کے مسائل اہم ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر نوجوان طبقات کی ترجیحات اور ریاستی و حکومتی سطح پر ترجیحات میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔
پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس پی آر کے سالانہ انٹرن شپ پروگرام میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کچھ بنیادی نوعیت کے معاملات پر توجہ دلائی ہے۔ آئی ایس پی آر کا یہ سالانہ انٹرن شپ پروگرام کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جہاں چاروں صوبوں سے مختلف طلبہ و طالبات کو اکھٹا کرکے ان میں سیاسی، سماجی شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ فوجی سربراہ نے جو نوجوانوں کو پیغام دیا ہے وہ اہم ہے۔ اول قانون کی بالادستی اور میرٹ کو اپنا وتیرہ بنائیں۔ دوئم پاکستان کا مستقبل نوجوان طبقہ سے جڑا ہوا ہے۔ سوئم نوجوان اپنے اندر اعتماد پیدا کریں اور ہر طرح کے حالات میں مقابلہ کرنا سیکھیں۔ چہارم نوجوان شارٹ کٹ اختیار کرنے کے بجائے اپنے معاملات میں عملا مستقل مزاجی پیدا کریں۔ پنجم پاکستان نے اپنے بے شمار چیلنجز کا مقابلہ نوجوان طبقہ کی مدد سے کیا ہے اور وہی ہمیں بحران سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
فوج کے سربراہ اس سے قبل بھی وقتا فوقتا نوجوان طبقہ کے مسائل پر اپنا مقدمہ پیش کرتے رہے ہیں۔ بالخصوص انتہا پسندی، شدت پسندی اور پر تشدد رجحانات کے مقابلے میں امن، رواداری، سماجی اہم آہنگی پر زور دیتے رہے ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں تعلیمی اداروں کی اہمیت، استاد، نصاب اور تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے کی بات بھی کرتے رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار پر بھی وہ فوقیت دیتے رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں حکومتی سطح پر نوجوان طبقات سے جڑے مسائل کے حل میں کوئی ایسا عملی مضبوط بیانیہ نظر نہیں آتا جو واقعی اس نئی نسل کو درپیش مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکے۔
آرمی چیف نے جن خواہشات کا اظہار کیا وہ بجا ہے، لیکن جو مسائل حکومتی سطح پر ہیں ان کا حل کیسے ہو گا اور کیسے ہم بطورمعاشرہ نوجوان طبقہ کے مسائل کے تناظر میں ایک ذمے دار حکمرانی کے نظام سے مستفید ہو سکیں گے۔کیونکہ نوجوان نسل کو یہ ترغیب دینا کہ وہ آگے بڑھیں، مگر جب وہ آگے بڑھیں گے تو کون ان کا ہاتھ تھامے گا اورکونسا نظام ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہ ہی اہم سوال ہے جس کا جواب ہمارے ریاستی، حکومتی اداروں اورپالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا۔
جب نوجوان نسل کا بیانیہ بنایا جائے گا تو اس میں فوقیت ہی نوجوان طبقہ ہوگا۔ اس نوجوان طبقہ میں پڑھے لکھے یا ناخواندہ سمیت معذور، دیہات، چھوٹے شہروں، خواجہ سرا سمیت کمزور طبقات شامل ہیں ۔ ان کی اصل طاقت ہی ریاستی و حکومتی نظام ہوتا ہے کیونکہ اس نظام کی مضبوطی کا عمل ہی ان کمزور طبقات کی سرپرستی کرکے ان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرتا ہے۔ لیکن یہاں طاقتور طبقات کے مقابلے میں عملی طور پر کمزور طبقات کو زیادہ سیاسی، سماجی اورمعاشی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نظام کی کمزوری یہ ہے کہ نوجوان طبقوں تک اول تو اداروں تک رسائی ہی نہیں ہوتی اوراگر مل جائے تو وہاں سے سماجی انصاف کا فقدان ان کو پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے۔ طبقاتی طرز پر قائم معاشروں کی خرابی یہ ہی ہوتی ہے کہ اس کے فیصلہ سازی کے عمل میں کمزور طبقات ترجیحات کا حصہ نہیں بنتے ۔
نوجوان طبقہ کے مسائل پر نظر ڈالیں تو اس میں بیروزگاری سمیت کھیل کودکے مواقع، سازگار ماحول، سماجی و عدالتی انصاف، تفریق کے پہلو، متعصب رویے، روزگار کا عدم تحفظ، استحصالی نظام سے جڑے مسائل، ترقی کے مواقع شامل ہیں۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لڑکیاں بھی پڑھ بھی رہی ہیں اورگھر سے باہر بھی نکلی ہیں مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کو آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ بیروزگاروں کی فوج درفوج نے ایک سنگین بحران نوجوانوں کے اندر پیدا کیا ہے اور وہ اس بحران سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر حالات ان کے حق میں نہیں۔ یہ کام ہماری وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کا ہے کہ ان کی پالیسیوں میں ہمیں Youth Based Policy کا اظہار عملی طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی، صوبائی اورمقامی سطح پر اسمبلیوں میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے عوامی منتخب نمایندے بھی نظر آتے ہیں۔ مگر پارلیمنٹ سمیت سیاست اورجمہوریت سے جڑی روایات میں نوجوان طبقہ زیادہ سیاسی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔کئی اسمبلیوں میں یوتھ پارلیمانی فورم بھی بنائے گئے ہیں مگر ان کا کوئی عملی اقدام نہیں نظر آتا۔ ایک طرف ہماری ریاست انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے اپنے نئے بیانیہ کی کامیابی میں سرگرداں ہے۔ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان اسی سلسلے کی کڑی بھی ہے مگر حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم نے اپنے ہی بنائے گئے بیانیہ پر ایک متحرک اور فعال کردار ادا نہ کیا تو علمی اورفکری بنیادوں پر لڑی جانے والی بیانیہ کی جنگ کا کوئی عملی نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔
مسئلہ یہ نہیں کہ نوجوان نسل میں صلاحیت نہیں یا وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ اصل مسئلہ عدم مواقعوں اور عدم سازگار ماحول کا ہے۔ نوجوانوں پر اعتماد کرنا اور ان کو کسی بڑی ذمے داری میں شامل کرنے کی حکمت عملی کا فقدان نوجوانوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ آرمی چیف نے میرٹ کی بات کی ہے مگر کیا واقعی اس ملک میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی کی بالادستی ہے۔ نوجوان نسل عملی طورپر تضادات میں جی رہی ہے کیونکہ اس کے چاروں اطراف خوشنما نعروں اورکتابی باتوں کی حکمرانی کے مقابلے میں ایک ایسی حکمرانی ہے جو ان کے لیے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ، جسے ہر صورت میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ میرٹ کی بات وہیں ہوسکتی ہے جہاں اداروں کی بالادستی ہو۔
نوجوانوں سے جڑے مسائل کا حل ایک پرامن، منصفانہ اورشفاف نظام ہے۔ اصل کام حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہے۔ جمہوری سیاست سے جڑے افراد، ادارے اور سیاسی قیادتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوان طبقہ کو بنیاد بنا کر ایک ایسے بیانیہ کی طرف توجہ دیں جو واقعی نوجوانوں کو خود مختار بناسکے۔ وزیر اعظم عمران خان کا تو بڑا مینڈیٹ ہی نوجوان نسل سے جڑا ہوا ہے۔ لوگوں اور بالخصوص نوجوان نسل کو عمران خان سے بہت سی امیدیں ہیں مگر ایک برس کی اس حکمرانی میں ہمیں ابھی تک کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں مل سکا جو واقعی نوجوانوں میں امید کو پیدا کر سکے ۔ اس لیے موجودہ حکومت کو نوجوان طبقہ کے مسائل پر اولین توجہ دینی چاہیے اور کمزور طبقات یا کمزورنوجوان ان کی سیاست اور منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر نوجوان نسل کو ہم جان بوجھ کر انتہا پسندی کی طرف دھکیلیں گے اور اس کی ذمے داری ہم پر ہی عائد ہو گی۔
یہ جو معاشرے میں ہمیں نوجوانوں کی سطح پر باغیانہ مزاج، غصہ، نفرت،انتہا پسندی، لاتعلقی، مایوسی اور معاملات کو اندھیرے میں دیکھنے کا جو عمل بڑھ رہا ہے وہ سنگین بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عمل پر تشدد رجحانات، عدم برداشت اورعدم سماجی و سیاسی ہم آہنگی کو پیدا کرتا ہے۔ مسئلہ ریاست کے مجموعی نظام اور حکمرانی کے بحران کا ہے۔ نوجوان طبقہ سے جڑے مسائل ہماری سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی منصوبہ بندی کے فقدان کا شکار ہیں۔ اگر کچھ منصوبہ بندی کی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں تو اس میں ترجیحات کے مسائل اہم ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر نوجوان طبقات کی ترجیحات اور ریاستی و حکومتی سطح پر ترجیحات میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔
پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس پی آر کے سالانہ انٹرن شپ پروگرام میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کچھ بنیادی نوعیت کے معاملات پر توجہ دلائی ہے۔ آئی ایس پی آر کا یہ سالانہ انٹرن شپ پروگرام کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جہاں چاروں صوبوں سے مختلف طلبہ و طالبات کو اکھٹا کرکے ان میں سیاسی، سماجی شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ فوجی سربراہ نے جو نوجوانوں کو پیغام دیا ہے وہ اہم ہے۔ اول قانون کی بالادستی اور میرٹ کو اپنا وتیرہ بنائیں۔ دوئم پاکستان کا مستقبل نوجوان طبقہ سے جڑا ہوا ہے۔ سوئم نوجوان اپنے اندر اعتماد پیدا کریں اور ہر طرح کے حالات میں مقابلہ کرنا سیکھیں۔ چہارم نوجوان شارٹ کٹ اختیار کرنے کے بجائے اپنے معاملات میں عملا مستقل مزاجی پیدا کریں۔ پنجم پاکستان نے اپنے بے شمار چیلنجز کا مقابلہ نوجوان طبقہ کی مدد سے کیا ہے اور وہی ہمیں بحران سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
فوج کے سربراہ اس سے قبل بھی وقتا فوقتا نوجوان طبقہ کے مسائل پر اپنا مقدمہ پیش کرتے رہے ہیں۔ بالخصوص انتہا پسندی، شدت پسندی اور پر تشدد رجحانات کے مقابلے میں امن، رواداری، سماجی اہم آہنگی پر زور دیتے رہے ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں تعلیمی اداروں کی اہمیت، استاد، نصاب اور تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے کی بات بھی کرتے رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار پر بھی وہ فوقیت دیتے رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں حکومتی سطح پر نوجوان طبقات سے جڑے مسائل کے حل میں کوئی ایسا عملی مضبوط بیانیہ نظر نہیں آتا جو واقعی اس نئی نسل کو درپیش مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکے۔
آرمی چیف نے جن خواہشات کا اظہار کیا وہ بجا ہے، لیکن جو مسائل حکومتی سطح پر ہیں ان کا حل کیسے ہو گا اور کیسے ہم بطورمعاشرہ نوجوان طبقہ کے مسائل کے تناظر میں ایک ذمے دار حکمرانی کے نظام سے مستفید ہو سکیں گے۔کیونکہ نوجوان نسل کو یہ ترغیب دینا کہ وہ آگے بڑھیں، مگر جب وہ آگے بڑھیں گے تو کون ان کا ہاتھ تھامے گا اورکونسا نظام ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہ ہی اہم سوال ہے جس کا جواب ہمارے ریاستی، حکومتی اداروں اورپالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا۔
جب نوجوان نسل کا بیانیہ بنایا جائے گا تو اس میں فوقیت ہی نوجوان طبقہ ہوگا۔ اس نوجوان طبقہ میں پڑھے لکھے یا ناخواندہ سمیت معذور، دیہات، چھوٹے شہروں، خواجہ سرا سمیت کمزور طبقات شامل ہیں ۔ ان کی اصل طاقت ہی ریاستی و حکومتی نظام ہوتا ہے کیونکہ اس نظام کی مضبوطی کا عمل ہی ان کمزور طبقات کی سرپرستی کرکے ان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرتا ہے۔ لیکن یہاں طاقتور طبقات کے مقابلے میں عملی طور پر کمزور طبقات کو زیادہ سیاسی، سماجی اورمعاشی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نظام کی کمزوری یہ ہے کہ نوجوان طبقوں تک اول تو اداروں تک رسائی ہی نہیں ہوتی اوراگر مل جائے تو وہاں سے سماجی انصاف کا فقدان ان کو پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے۔ طبقاتی طرز پر قائم معاشروں کی خرابی یہ ہی ہوتی ہے کہ اس کے فیصلہ سازی کے عمل میں کمزور طبقات ترجیحات کا حصہ نہیں بنتے ۔
نوجوان طبقہ کے مسائل پر نظر ڈالیں تو اس میں بیروزگاری سمیت کھیل کودکے مواقع، سازگار ماحول، سماجی و عدالتی انصاف، تفریق کے پہلو، متعصب رویے، روزگار کا عدم تحفظ، استحصالی نظام سے جڑے مسائل، ترقی کے مواقع شامل ہیں۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لڑکیاں بھی پڑھ بھی رہی ہیں اورگھر سے باہر بھی نکلی ہیں مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کو آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ بیروزگاروں کی فوج درفوج نے ایک سنگین بحران نوجوانوں کے اندر پیدا کیا ہے اور وہ اس بحران سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر حالات ان کے حق میں نہیں۔ یہ کام ہماری وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کا ہے کہ ان کی پالیسیوں میں ہمیں Youth Based Policy کا اظہار عملی طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی، صوبائی اورمقامی سطح پر اسمبلیوں میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے عوامی منتخب نمایندے بھی نظر آتے ہیں۔ مگر پارلیمنٹ سمیت سیاست اورجمہوریت سے جڑی روایات میں نوجوان طبقہ زیادہ سیاسی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔کئی اسمبلیوں میں یوتھ پارلیمانی فورم بھی بنائے گئے ہیں مگر ان کا کوئی عملی اقدام نہیں نظر آتا۔ ایک طرف ہماری ریاست انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے اپنے نئے بیانیہ کی کامیابی میں سرگرداں ہے۔ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان اسی سلسلے کی کڑی بھی ہے مگر حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم نے اپنے ہی بنائے گئے بیانیہ پر ایک متحرک اور فعال کردار ادا نہ کیا تو علمی اورفکری بنیادوں پر لڑی جانے والی بیانیہ کی جنگ کا کوئی عملی نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔
مسئلہ یہ نہیں کہ نوجوان نسل میں صلاحیت نہیں یا وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ اصل مسئلہ عدم مواقعوں اور عدم سازگار ماحول کا ہے۔ نوجوانوں پر اعتماد کرنا اور ان کو کسی بڑی ذمے داری میں شامل کرنے کی حکمت عملی کا فقدان نوجوانوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ آرمی چیف نے میرٹ کی بات کی ہے مگر کیا واقعی اس ملک میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی کی بالادستی ہے۔ نوجوان نسل عملی طورپر تضادات میں جی رہی ہے کیونکہ اس کے چاروں اطراف خوشنما نعروں اورکتابی باتوں کی حکمرانی کے مقابلے میں ایک ایسی حکمرانی ہے جو ان کے لیے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ، جسے ہر صورت میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ میرٹ کی بات وہیں ہوسکتی ہے جہاں اداروں کی بالادستی ہو۔
نوجوانوں سے جڑے مسائل کا حل ایک پرامن، منصفانہ اورشفاف نظام ہے۔ اصل کام حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہے۔ جمہوری سیاست سے جڑے افراد، ادارے اور سیاسی قیادتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوان طبقہ کو بنیاد بنا کر ایک ایسے بیانیہ کی طرف توجہ دیں جو واقعی نوجوانوں کو خود مختار بناسکے۔ وزیر اعظم عمران خان کا تو بڑا مینڈیٹ ہی نوجوان نسل سے جڑا ہوا ہے۔ لوگوں اور بالخصوص نوجوان نسل کو عمران خان سے بہت سی امیدیں ہیں مگر ایک برس کی اس حکمرانی میں ہمیں ابھی تک کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں مل سکا جو واقعی نوجوانوں میں امید کو پیدا کر سکے ۔ اس لیے موجودہ حکومت کو نوجوان طبقہ کے مسائل پر اولین توجہ دینی چاہیے اور کمزور طبقات یا کمزورنوجوان ان کی سیاست اور منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر نوجوان نسل کو ہم جان بوجھ کر انتہا پسندی کی طرف دھکیلیں گے اور اس کی ذمے داری ہم پر ہی عائد ہو گی۔