باؤ نذیر انسانی نفسیات کا پروفیسر ہے

باؤنذیرعدلیہ،انتظامیہ اورسیاستدانوں کے متعلق تجربات اورتجزیہ کاایک نادرذخیرہ ہے۔

raomanzar@hotmail.com

جب پاکستان وجود میں آیا،میری عمر تیرہ برس تھی۔ہم مسلمانوں کی بستی میں رہتے تھے۔حالات درمیانے تھے۔ سفید پوشی اورغربت کے درمیان میں ۔جالندھرمیں اس بستی میںچند ہندوخاندان بھی رہتے تھے۔اندازہ ہی نہیں تھاکہ پاکستان نام کاکوئی ملک بن جائے گااور ہمیں جالندھر سے لاہورآنا پڑے گا۔گھر میں نہانے کا انتظام نہیں تھا۔ میں بستی کے ایک کنواں پرجاکرنہاتا تھا۔زندگی بس ایسے ہی گزررہی تھی۔اچانک اعلان ہواکہ جالندھرہندوستان کا حصہ ہے۔ بلوے شروع ہوگئے۔ایک ہندو ہمارے خاندان کے لیے فرشتہ ثابت ہوا، ہم لوگ زندہ بچ گئے۔باؤ نذیر ماضی میں گم تھا اور میں خاموش بیٹھاہوا تھا۔

باؤنذیرباتیں کرتارہااورمیں سنتارہا۔جب اسٹیشن پر ٹرین آئی تومعلوم ہواکہ یہ لاہورہے اورپاکستان میں ہے۔ باہرنکلے توجیب میں ایک آنہ تک نہیں تھا۔جوکپڑے پہن رکھے تھے،صرف وہی سب کچھ تھا۔لاہوراسٹیشن کے سامنے ایک مسافرخانہ تھا۔پوراخاندان اس میں طویل عرصے تک رہائش پذیررہا۔فرش پرسوتے تھے اورکپڑے بدلنے کی استطاعت نہیں تھی۔اس قدربے بسی تھی کہ بتا نہیں سکتا۔

اکثردوست کہتے ہیں کہ باؤنذیر،تم اپنی غربت کاکیوں ذکر کرتے ہو۔ میراجواب ہے کہ اپنے ماضی کوچھپاناگناہ ہے۔ اچانک میرے ذہن میں پچیس برس پہلے کاایک خاکہ آیا۔اس وقت میں ایل ڈی اے میں ڈائریکٹرپوسٹ ہواتھا۔پتہ نہیں کہ قرہ فال میرے نام کیسے نکلا۔بہرحال بہاولپورسے سیدھا لاہورآگیا۔ سرکاری نوکری کا اعجاز دیکھیے، کہ پورے لاہور کے بڑے لوگ، ایل ڈی اے میں چٹیں دے کردفتروں کے باہرگھنٹوں انتظارکرتے تھے۔اپنی عادت سے مجبور، ہر ایک سے فوراًملتاتھااورکوشش کرتاتھاکہ اس کاکام ہوجائے۔ لاہورکے پراپرٹی کے جنات کاکوئی علم نہیں تھا۔

ایک دن دفتر میں،سفیدکُرتے شلوارمیں ملبوس ایک شخص آیا۔آوازمیں تندی تھی اورہاتھ میں ایک بڑاسابکسہ تھا۔دراصل یہ موبائل فون کی ابتدائی قسم تھی۔لاہورمیں اس وقت بہت کم موبائل ہواکرتے تھے۔میرانام باؤنذیرہے اور فیصل آباد سے تعلق رکھتا ہوں۔ دو تین ملاقاتیں ہوئیں۔ دراصل اسے ڈی جی ایل ڈی اے چوہدری امین اللہ مرحوم سے کام تھا۔پتہ نہیں کام ہواکہ نہیں۔مجھے یادنہیں ہے۔حالیہ ملاقات میں نذیر کو کہاکہ آپ پچیس برس پہلے دفترآئے تھے۔باؤنذیرنے سرہلایااور تین دہائیاں پہلے کی ساری گفتگوسنادی۔اس کی یاداشت دیکھ کرحیران رہ گیا۔اس کے بعدمیری،اس شخص سے دودن پہلے ملاقات ہوئی ہے۔اس وقت باؤنذیر کی عمراَسی برس سے اوپر ہے لیکن اپنے کاروبار کو کامیابی سے دیکھ رہاہے۔

خیر،باؤنذیر اپنی زندگی کی کہانی سنارہاتھااورمیں سن رہا تھا۔مسافرخانے سے ہم لوگ لائل پورآگئے۔وہاں گمٹی چوک پراسپیئرپارٹس کی دکان پرپچھترروپے ماہوارپرنوکری کرلی۔ محنت کی اورمالکان کی نظرمیں آگیا۔مجھ پرحددرجہ اعتمادکرنے لگے۔اس دکان پر میرے پاس ایک اجنبی شخص آیا۔وہ بھی میراہم نام تھا۔کہنے لگاکہ آپ مجھے کچھ اسپیئر پارٹس دے دیں۔میرے پاس سرمایہ نہیں ہے۔لاری اڈہ میں ایک دکان ہے۔سامان بیچ کرآپ کوپیسے دے دیا کروں گا۔

میں نے بات مان لی۔کام چل پڑا۔یہ شخص دیکھتے ہی دیکھتے،فیصل آبادکااہم ترین ٹرانسپوٹربن گیا۔ چوہدری نذیر، فیصل آبادمیں کوہستان بس سروس کامالک بنا اور سیاست میں بھی کامیاب رہا۔ باؤنذیر، اس کو کامیاب بنانے میں معاون رہا۔چندایسی ذاتی باتیں ہیں جومیں لکھ نہیں سکتا۔ بعدمیں متعددوجوہات کی بدولت دونوں ہم نام، ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ باؤنذیر اپنا دل کھول کرمجھ سے بات کررہاتھا۔

کہنے لگا،آپ توبچے ہیں۔آج سے پچاس ساٹھ سال پرانا پاکستان بالکل مختلف تھا۔آج کافیصل آباد،اس وقت کالائل پورحددرجہ بہترین شہرتھا۔باؤنذیرنے نوکری چھوڑ کر ٹرانسپورٹ کاچھوٹاساکام شروع کرلیااورآہستہ آہستہ قسمت کی دیوی اس پربھی مہربان ہوتی گئی۔کاروبارمیں کامیابی کی بدولت روپے پیسے کی ریل پیل ہوگئی۔افسران اوراہم لوگوں سے تعلق بنتے چلے گئے۔لائل پورمیں عدلیہ اورانتظامیہ کے لوگ دم بھرنے لگے۔دوکاریں خریدیں،جو افسران کواستعمال کے لیے وقتاًفوقتاًدیتارہتاتھا۔ویسے یہ چالیس برس پہلے،عام سی بات تھی۔بہرحال متعددوجوہات کی بدولت، فیصل آباد سے لاہورآگیا۔ایک دن چنددوستوں نے آنا تھا۔


لاہور میں واحدچائنیزریسٹورنٹ میں فون کرکے ٹیبل مختص کرانے کی کوشش کی۔صرف ایک ہی چینی ریسٹورنٹ تھااوراس کے مالک کانام سٹیوتھا۔سٹیونے پوچھا کہ مہمان کون ہیں۔اسے بتایاکہ سینئرافسران ہیں۔ کوئی ڈی سی ہے،کوئی ایس پی ہے۔ سٹیونے قہقہہ لگایااورکہاکیاتم ان کو سینئر افسران کہتے ہو۔آج میراپوراریسٹورنٹ بُک ہے۔کوئی ٹیبل نہیں مل سکتی۔ اَزحد ندامت ہوئی۔وقت گزرگیا۔

اپناچائنیز ریسٹورنٹ کھولنے کا فیصلہ کیا۔مصیبت یہ تھی کہ پورے شہرمیں ایک بھی چائینز شیف نہیں تھا۔ فوراً ہانگ کانگ گیااوروہاں سے دوشیف لے کرآیا۔ لاہور میں، مقامی چائینزکھانے شروع کرنے کاکام میں نے شروع کیا۔ باؤنذیر،پتہ نہیں،مجھے سب کچھ کیوںبتارہاتھا۔شائدکوئی غم،کوئی دکھ،تھا۔میرے پوچھنے پر آرام سے کہا، میرے پانچ بیٹے ہیں۔ہربچہ اپنی زندگی میں کامیاب ہے۔مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔گفتگوجاری رہی۔ پوچھاکہ جنرل رانی کانام سناہے۔اثبات کے جواب پر باؤنذیرنے حیران کن بات کی۔ کہاکہ وہ ایک عظیم عورت تھی۔

میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کیونکہ جنرل یحییٰ سے ان کے تعلقات ہرخاص وعام کے علم میں ہیں۔ باؤ کہنے لگا، جنرل رانی کے پاس بہت لوگ جاتے تھے۔ ہمارا فلاں کام پھنسا ہوا ہے۔ خدارا، کروا دیجئے۔آپ جتنے پیسے کہیںگی،ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ جنرل رانی کاکمال یہ تھاکہ وہ کسی کام کے پیسے نہیں لیتی تھی۔ فائل اپنے پاس رکھ لیتی تھی۔کام کرانے کے بعدخاموش ہو جاتی تھی۔پھرموقع محل دیکھ کربڑی تہذیب سے ''مٹھائی'' طلب کرتی تھی۔ غریبوں اورمفلسوں کے کام تو ویسے ہی کرادیتی تھیں۔ باؤنذیر کی یہ بات سن کرمیں سوچنے لگاکہ خدا،اپنے ہربندے اور بندی سے کام لیتا ہے۔ قدرت کے کارخانے میں کون اچھا ہے،یہ صرف وہی جانتا ہے۔

ہاں،باؤنذیرنے ایک بہت عجیب بات بتائی۔ ملک کے ایک وزیراعظم پنجاب کے گورنرسے ناراض ہوگئے۔ کسی کانام نہیں لکھ رہا۔وزیراعظم نے لوگوں سے پچھوایاکہ اس کا کام تمام کون کرے گا۔کئی لوگوں کے انٹرویوکیے گئے۔قرعہ فال،فیصل آبادہی کے ایک طاقتورآدمی کے نام نکلا۔ کھڑیانوالہ کے نزدیک گورنرکی گاڑی پربس چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ مگرخداکی قدرت کہ گورنربچ گیا۔اس کے بعد گورنرنے فیصل آباد کیا، پورے صوبے میں جرائم پیشہ لوگوں کو مکمل ختم کر ڈالا۔ جزئیات میں نہیں جاناچاہتا۔کیونکہ یہ باؤنذیرکابیانیہ ہے۔ اس ڈرامہ کے اکثرکرداراب دنیا میں نہیں ہیں۔

پولیس کے متعلق باؤنذیرنے ایک منفردبات کی۔ دراصل ثابت کرناچاہتاتھاکہ شہرت اوراصلیت میں اکثر اوقات زمین آسمان کافرق ہوتاہے۔نواب امیرمحمدخان گورنر تھا۔ اس نے ساہیوال سے ایک بہت اچھے گھرکے نوجوان کواے ایس آئی بھرتی کیا۔ اے ایس آئی،ذاتی کارمیں لائل پورآیا۔وہاں اس کی شہرت ایک انتہائی ایماندارافسرکی تھی۔باؤنذیرسے اس کی دوستی ہوگئی۔ اے ایس آئی ترقی کرتاکرتاانسپکٹربنااورپھر نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔ایک دن، باؤنذیر نے پوچھاکہ آپ اتنے ایماندار کیسے ہیں۔پولیس والے کاجواب تھا، میں سال میں صرف دوتین کیسوں میں پیسے لیتاہوں۔باقی پوراسال کسی سے پانی کاگلاس تک نہیں پیتا۔

میری شہرت صرف اس لیے اچھی ہے کہ میں ہرجگہ منہ کالا نہیں کرتا۔باؤنذیرکہنے لگا،کہ پاکستان میں سو فیصد ایماندار کوئی بھی نہیں ہے۔ ذہین افسران اوراہلکاران ایمانداری کے اس کلیے پرعمل کرتے ہیں کہ ہرجگہ منہ کالا نہیں کرانا، ہر ایک سے پیسے نہیں لینے۔وہ سال میں ایک آدھے کیس میں تگڑے پیسے لے لیتے ہیں اور پھر ایمانداری کا ڈھول پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔باؤکی اس بات میں مجھے حددرجہ وزن نظرآیا۔ واقعی، یہ بات حقیقت تھی۔

باؤنذیرعدلیہ،انتظامیہ اورسیاستدانوں کے متعلق تجربات اورتجزیہ کاایک نادرذخیرہ ہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ حمیدسیٹھی کاذکر،باؤنے بڑے احترام سے کیا۔ سیٹھی صاحب سے میری بھی شناسائی ہے۔حددرجہ، انسان دوست آدمی ہیں۔ اب اس طرح کے افسرمعدوم ہوچکے ہیں۔ویسے سیٹھی صاحب ماشاء اللہ،کالم بھی لکھتے ہیں اورخوب لکھتے ہیں۔ باؤ سے ایک سوال کیا،کہ باؤجوشخص،پچیس سال پہلے میرے دفترآیاتھااورآج میرے سامنے باتیں کررہاہے۔وہ توماضی سے بالکل بدل چکاہے۔دونوں میں کوئی بھی مماثلت نہیں ہے۔

باؤ نذیرنے کہا،کہ ڈاکٹرآپ ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں واقعی ماضی کاباؤنہیں ہوں۔واپسی پر،میں سوچ رہاتھاکہ کیا سرکاری اکابرین کوباؤنذیراوراس جیسے لوگوں کے تجربات سے فائدہ نہیں اُٹھاناچاہیے۔میراخیال ہے کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود،باؤ،ہاروڈیونیورسٹی کے تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ سیانا ہے۔ہمیں لائق نہیں، باؤنذیر جیسے سیانے لوگ چاہئیں۔ میری نظرمیں وہ انسانی نفسیات کا ایک کامیاب پروفیسرہے!
Load Next Story