مالاکنڈ کی جواں سالہ ماہرکندہ کار نے سوئی سے چھلنی پر تصاویر بنا دیں
امید کرتی ہوں میرے گاؤں سے مزید خواتین فنون لطیفہ کا حصہ بنیں گی، الماس خانم
خواتین ہنر مندی سے دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوا چکی ہیں تاہم خیبر پختونخوا جیسے قدامت پسند معاشرے میں ان کا کام نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
مالاکنڈ ڈویژن کی الماس خانم اسی قدامت پسند معاشرے سے ابھری ہیں۔ ایمبرائیڈری اور کندہ کاری کی ماہر الماس خانم نے سوئی دھاگے سے چھلنی پرمشہور شخصیات کی تصاویر بنا دی ہیں۔جواں سالہ ماہرکندہ کار الماس خانم چھلنی پر عبدالستار ایدھی، باچا خان اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی جیسی شخصیات کی تصاویربنا چکی ہیں۔یہ الماس خانم کی مہارت ہی ہے کہ ان کی جانب سے چھلنی پر بنائی گئی تصاویر میں جذبات اور چہرے کے تاثرات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
الماس خانم نے آئیڈیا پر اپنے موبائل فون سے ایک تصویر ڈاؤن لوڈ کی اور پھر اسے چھلنی پر اتارنے کے لیے گھنٹوں کام کیا۔ان کا دعویٰ ہے کہ میرا یہ فن منفرد ہے ۔ میرے علاوہ ابھی تک کسی نے بھی سوئی سے چھلنی پر تصاویر نہیں بنائیں۔الماس خانم مالاکنڈ کے ایک گاؤں ہریاںکوٹ کی رہائشی ہیں جو روایتی طور پر قدامت پسند ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہاں خواتین مردوں کی تصاویر بنا سکتی ہیں نہ ہی انھیں پینٹ سے فن پارہ متعارف کرانے کی اجازت ہے تاہم ان کی فیملی نے ان کے کام میں ان کی بھرپور حمایت کی۔میرے والد میرے آئیڈیل ہیں۔ انھوں نے مجھے احساسات کا اظہار کرنا سکھایا۔امید ہے میرے گاؤں سے مزید خواتین فنون لطیفہ کا حصہ بنیں گی۔
مالاکنڈ ڈویژن کی الماس خانم اسی قدامت پسند معاشرے سے ابھری ہیں۔ ایمبرائیڈری اور کندہ کاری کی ماہر الماس خانم نے سوئی دھاگے سے چھلنی پرمشہور شخصیات کی تصاویر بنا دی ہیں۔جواں سالہ ماہرکندہ کار الماس خانم چھلنی پر عبدالستار ایدھی، باچا خان اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی جیسی شخصیات کی تصاویربنا چکی ہیں۔یہ الماس خانم کی مہارت ہی ہے کہ ان کی جانب سے چھلنی پر بنائی گئی تصاویر میں جذبات اور چہرے کے تاثرات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
الماس خانم نے آئیڈیا پر اپنے موبائل فون سے ایک تصویر ڈاؤن لوڈ کی اور پھر اسے چھلنی پر اتارنے کے لیے گھنٹوں کام کیا۔ان کا دعویٰ ہے کہ میرا یہ فن منفرد ہے ۔ میرے علاوہ ابھی تک کسی نے بھی سوئی سے چھلنی پر تصاویر نہیں بنائیں۔الماس خانم مالاکنڈ کے ایک گاؤں ہریاںکوٹ کی رہائشی ہیں جو روایتی طور پر قدامت پسند ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہاں خواتین مردوں کی تصاویر بنا سکتی ہیں نہ ہی انھیں پینٹ سے فن پارہ متعارف کرانے کی اجازت ہے تاہم ان کی فیملی نے ان کے کام میں ان کی بھرپور حمایت کی۔میرے والد میرے آئیڈیل ہیں۔ انھوں نے مجھے احساسات کا اظہار کرنا سکھایا۔امید ہے میرے گاؤں سے مزید خواتین فنون لطیفہ کا حصہ بنیں گی۔