امریکا میں فائرنگ کے واقعات نسل پرستی کا تسلسل
امریکی ریاستوں ٹیکساس اور اوہائیو میں فائرنگ کے دو علیحدہ واقعات کے نتیجے میں29 افراد ہلاک ہوگئے۔
امریکی ریاستوں ٹیکساس اور اوہائیو میں فائرنگ کے دو علیحدہ واقعات کے نتیجے میں29 افراد ہلاک ہوگئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واقعے کو'خوفناک' قراردیا ہے۔ فائرنگ کا پہلا واقعہ ریاست ٹیکساس کے شہر ایل پاسوکے ایک سپراسٹور میں پیش آیا، جہاں 20 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن کے ایک بار اور نائٹ کلب میں فائرنگ سے نو افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واقعے کو 'خوفناک' قراردیا ہے۔ حملہ آوروں کو ٹرمپ نے ذہنی مریض قرار دیا ہے ۔
میکسیکوکی سرحد کے قریب دنیا بھر سے پہنچنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے ۔ یہاں پر سوال بڑا سادہ ہے اور اس کا جواب بھی انتہائی آسان ہے کہ سب جانتے ہیں تارکین وطن کے خلاف نفرت کو ہوا صدرڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف اپنی انتخابی مہم میں دی بلکہ اس کے بعد بھی ان کے ٹوئٹ اور بیانات جلتی پر تیل پرکام کرتے رہے ہیں۔
اسی تعصب کو پھیلانے کا نتیجہ کچھ یوں نکلا ہے کہ صرف اکیس سالہ نوجوان پیٹرک کروسس نے سوشل میڈیا پر کئی روز قبل حملے کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا تھا 'یہ وسطی اور جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ٹیکساس پر چڑھائی کا ردعمل ہے۔ حملہ آور نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا تھا ''یہاں تک کہ اگر اس میں دوسرے غیر تارکین وطن افراد بھی نشانہ بنتے ہیں تو بھی اس کا زیادہ اثر پڑے گا۔ میں اپنے ہم وطن امریکیوں کو مارنے کے لیے خود کو یہاں نہیں لا سکتا ہوں۔''
نفرت ، تعصب اور نسل پرستی کی ایسی ہوا چلی ہے کہ دہشت گرد نوجوان نے نیوزی لینڈ کے شہرکرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والی فائرنگ کی حمایت میں بھی بات کی، جس میں 51 نمازی شہید ہوگئے تھے۔ ملزمان کی دیدہ دلیری دیکھیں وہ فیس بک اور انسٹاگرام پر لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے اپنی پوسٹ لگاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
عالمی حقوق کے چمپئین ملک کا یہ حال ہے کہ ایک عام شہری باآسانی کسی بھی دکان سے اسلحہ خریدکر معصوم انسانوں کوگولیوں سے بھون کر اپنے غصے اورجذبات کا بے لگام اظہار کرتا ہے ۔امریکی کی معاشرتی اقدارکہاں ہیں؟ انسان دوستی اور انسانیت کا احترام یہ سب باتیں قصہ پارینہ ہوچلی ہیں،امریکا تارکین وطن کے لیے حصول روزگار کے ساتھ ساتھ ایک پرامن جائے پناہ بھی تھا۔
اسی تناظر میں دایل پاسو سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ پارٹی کی رکنِ کانگریس ویرونیکا ایسکوبار نے کہا ''حملہ آورکا منشور نفرت، نسل پرستی، تعصب اور تفرقہ بازی سے متاثر ہے۔ ایل پاسوکے عوام ہمیشہ اْن کمزور لوگوں کے ساتھ احسان اور فراخ دلی سے پیش آئے جو امریکا کے اس دروازے پر پہنچ رہے ہیں۔'' لیکن اب امریکا کے یہی دروازے بند کرنے کے لیے دہشت گردی کا سہارا لیا جارہا ہے۔
انھیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ امریکی معاشرے کے معیارات کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ تاریخ کا عمل بڑا بے رحم ہوتا ہے،آج امریکا غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے، سوشل میڈیا بھی نفرت کی اس مہم کو ''آزادی اظہار'' کی بنیاد پر مہمیز دے رہا ہے۔
سفید فام نسل پرستی اور تعصب پرستی کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر تارکین وطن پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ امریکا کے لیے مہلک ترین ہیں ، یہ ایک ایسی دیمک ہے جو امریکا کوکھا جائے گی۔امریکا کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں کو بڑھتی ہوئی سفیدفام نسل پرستی پرقابوپانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوںگے کیونکہ ورنہ نسل پرستی انسانیت کو نگل جائے گی۔
میکسیکوکی سرحد کے قریب دنیا بھر سے پہنچنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے ۔ یہاں پر سوال بڑا سادہ ہے اور اس کا جواب بھی انتہائی آسان ہے کہ سب جانتے ہیں تارکین وطن کے خلاف نفرت کو ہوا صدرڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف اپنی انتخابی مہم میں دی بلکہ اس کے بعد بھی ان کے ٹوئٹ اور بیانات جلتی پر تیل پرکام کرتے رہے ہیں۔
اسی تعصب کو پھیلانے کا نتیجہ کچھ یوں نکلا ہے کہ صرف اکیس سالہ نوجوان پیٹرک کروسس نے سوشل میڈیا پر کئی روز قبل حملے کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا تھا 'یہ وسطی اور جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ٹیکساس پر چڑھائی کا ردعمل ہے۔ حملہ آور نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا تھا ''یہاں تک کہ اگر اس میں دوسرے غیر تارکین وطن افراد بھی نشانہ بنتے ہیں تو بھی اس کا زیادہ اثر پڑے گا۔ میں اپنے ہم وطن امریکیوں کو مارنے کے لیے خود کو یہاں نہیں لا سکتا ہوں۔''
نفرت ، تعصب اور نسل پرستی کی ایسی ہوا چلی ہے کہ دہشت گرد نوجوان نے نیوزی لینڈ کے شہرکرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والی فائرنگ کی حمایت میں بھی بات کی، جس میں 51 نمازی شہید ہوگئے تھے۔ ملزمان کی دیدہ دلیری دیکھیں وہ فیس بک اور انسٹاگرام پر لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے اپنی پوسٹ لگاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
عالمی حقوق کے چمپئین ملک کا یہ حال ہے کہ ایک عام شہری باآسانی کسی بھی دکان سے اسلحہ خریدکر معصوم انسانوں کوگولیوں سے بھون کر اپنے غصے اورجذبات کا بے لگام اظہار کرتا ہے ۔امریکی کی معاشرتی اقدارکہاں ہیں؟ انسان دوستی اور انسانیت کا احترام یہ سب باتیں قصہ پارینہ ہوچلی ہیں،امریکا تارکین وطن کے لیے حصول روزگار کے ساتھ ساتھ ایک پرامن جائے پناہ بھی تھا۔
اسی تناظر میں دایل پاسو سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ پارٹی کی رکنِ کانگریس ویرونیکا ایسکوبار نے کہا ''حملہ آورکا منشور نفرت، نسل پرستی، تعصب اور تفرقہ بازی سے متاثر ہے۔ ایل پاسوکے عوام ہمیشہ اْن کمزور لوگوں کے ساتھ احسان اور فراخ دلی سے پیش آئے جو امریکا کے اس دروازے پر پہنچ رہے ہیں۔'' لیکن اب امریکا کے یہی دروازے بند کرنے کے لیے دہشت گردی کا سہارا لیا جارہا ہے۔
انھیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ امریکی معاشرے کے معیارات کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ تاریخ کا عمل بڑا بے رحم ہوتا ہے،آج امریکا غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے، سوشل میڈیا بھی نفرت کی اس مہم کو ''آزادی اظہار'' کی بنیاد پر مہمیز دے رہا ہے۔
سفید فام نسل پرستی اور تعصب پرستی کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر تارکین وطن پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ امریکا کے لیے مہلک ترین ہیں ، یہ ایک ایسی دیمک ہے جو امریکا کوکھا جائے گی۔امریکا کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں کو بڑھتی ہوئی سفیدفام نسل پرستی پرقابوپانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوںگے کیونکہ ورنہ نسل پرستی انسانیت کو نگل جائے گی۔