آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنا مشکل ہے

چوتھی دستاویز جس پر کل مودی حکومت نے موت دیا، وہ انیس سو باون کا دہلی سمجھوتہ ہے۔

بالاخر کل پانچ اگست دو ہزار انیس کو مسئلہ کشمیر اکہتر برس بعد حل ہو ہی گیا۔سب کنفیوژن ختم ، سب پردے چاک ، بلی پوری طرح تھیلے سے باہر۔کسی اور نے نہیں خود حکومت ِ بھارت نے اپنے ہی محسنوں نہرو اور پٹیل کے دستخطی وعدوں پر پیشاب پھیر دیا۔

جو جو دستاویزات اس پیشاب سے گیلی ہوئیں ان میں مہاراجہ ہری سنگھ اور انڈین گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے مابین چھبیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو ہونے والا الحاقی معاہدہ بھی ہے کہ جس میں دفاع ، امورِ خارجہ اور کرنسی کو چھوڑ کر باقی تمام معاملات میں ریاست جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے قوانین کو بالا دست تسلیم کیا گیا۔اقوامِ متحدہ نے رائے شماری سے متعلق جو قرار دادیں پنڈت نہرو کے اصرار پر منظور کی تھیں،کل مودی نے انھیں بھی ٹائلٹ پیپر بنانے کی اپنی سی کوشش کر لی۔

کل جو تیسری دستاویز گیلی ہوئی وہ خود بھارت کا آئین ہے کہ جس کے آرٹیکل تین سو ستر کے ذریعے ریاستِ جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کے معاہدے کو نہ صرف تحفظ دیا گیا بلکہ انیس سو ستائیس کے کشمیری شہریت کے قانون کو بھی تحفظ ملا جس کے تحت کوئی غیر کشمیری ریاست میں نہ مستقل رہائش کا حق دار ہوگا اور نہ ہی املاک خرید سکے گا۔حتیٰ کہ کسی کشمیری خاتون نے غیر کشمیری مرد سے شادی کی تو خاتون کی ریاستی شہریت بھی ختم ہو جائے گی۔

چوتھی دستاویز جس پر کل مودی حکومت نے موت دیا، وہ انیس سو باون کا دہلی سمجھوتہ ہے جس کے تحت کشمیریوں کو تو بھارتی شہری تسلیم کیا گیا تاکہ وہ بھارتی پاسپورٹ اور املاکی قوانین سے فائدہ اٹھا سکیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہ ہوگا کہ اس رعایت کے بدلے ریاست کشمیر بھی کسی بھارتی شہری کو مقامی شہریت سے نواز سکے۔

کیا آرٹیکل تین سو ستر صدارتی حکم نامے کے ذریعے ختم ہو سکتا ہے ؟ بالکل ہو سکتا ہے۔مگر اس کا طریقہ بھی خود اسی آرٹیکل میں موجود ہے۔ مرکزی حکومت کسی صورت یہ آرٹیکل کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی رضامندی کے بغیر یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتی۔مگر کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تو انیس سو ستاون میں ختم ہو گئی۔اس کے بعد ریاست میں جو صوبائی اسمبلیاں آج تک وجود میں آئیں ان کی حیثیت قانون ساز اسمبلی کی تو ہے مگر آئین ساز اسمبلی کی نہیں۔چنانچہ مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ نے اس بابت ایک پیٹیشن کے فیصلے میں لکھا کہ آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہونے کے بعد آرٹیکل تین سو ستر میں تبدیلی یا تنسیخ کا باب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔حتیٰ کہ کشمیر کی کوئی نئی مجلسِ آئین ساز وجود میں آئے جو موجودہ آئین کی جگہ نیا آئین بنانے کی مجاز ہو۔

اگر آرٹیکل تین سو ستر یا اس میں موجود آرٹیکل پینتیس اے میں تبدیلی یا تنسیخ محض ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے ممکن ہوتی تو پھر بی جے پی دو برس پہلے سپریم کورٹ میں آرٹیکل پینتیس اے کو کیوں چیلنج کرتی ؟

اس بارے میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کیے بغیر گزشتہ روز جس طرح آرٹیکل تین سو ستر کی تنسیخ اور کشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں رد و بدل کا اعلان کیا گیا ، قانون کی نظر میں اس کی حیثیت ردی برابر بھی نہیں۔بس اتنا ہوا ہے کہ مودی سرکار کے چہرے پر فاشزم کا جو مکھوٹا شروع سے لگا ہوا ہے اس کی چمک دو چند ہو گئی۔


پچھلے چوبیس گھنٹے سے منتظر ہوں کہ کوئی ایک کشمیری مسلمان تو مودی حکومت کے اس اقدام کو سراہے۔ پرسوں تک بھارت نواز رہنے والی سابق وزیرِ اعلی محبوبہ مفتی اور عمر فاروق عبداللہ اور ان کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بیانات بھی اس نوعیت کے آ رہے ہیں گویا تینوں صلاح الدین کی حزبِ المجاہدین یا حریت کانفرنس میں شامل ہو گئے ہوں۔ اور تو اور کانگریس کے سینیر کشمیری نژاد رہنما اور ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد بھی چیخ پڑے کہ بی جے پی حکومت نے پانچ اگست کو بھارتی آئین قتل کر دیا۔

کل کے بعد سے مسئلہ کشمیر سفارت و بحث کی حدود سے حتمی طور پر نکل گیا۔اب یہ سیدھا سیدھا ایک ننگی قابض طاقت اور مقبوضہ نوآبادی کا معاملہ ہے۔یہ فاشزم اور تہذیب کی جنگ ہے۔فاشزم اگر سمجھانے بجھانے سے قائل کیا جا سکتا تو ہٹلر کے ہاتھوں اتنی بربادی نہ ہوتی۔ فاشزم کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا وہ خود تباہ ہو جائے یا پھر سامنے والا تباہ ہو جائے۔ اب بھارت تب ہی مجبور کیا جا سکتا ہے جب کشمیری بھارتی قبضے کو اتنا مہنگا بنا دیں کہ بھارت کو جان چھڑوانے میں ہی فائدہ نظر آئے۔

نتیجہ کچھ بھی نکلے۔جلد نکلے کہ بدیر۔ایک بات طے ہے کہ کشمیر کا بھارت کی جائز ریاست بننا ممکن ہی نہیں۔ بھلے کوئی بھی قانون بنا لیں یا آئین میں کوئی بھی ترمیم کر لیں، حرام کاری حرام کاری ہی رہے گی۔اس بابت تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔

اٹھارہ سو تیس میں فرانس نے الجزائر پر فوجی قبضہ کر لیا۔اٹھارہ برس بعد ( اٹھارہ سو اڑتالیس ) فرانس نے الجزائر کے مقامی باشندوں سے پوچھے بغیر اسے فرانس کا اٹوٹ انگ صوبہ قرار دے دیا۔گورے فرانسیسی جوق در جوق الجزائر میں آباد ہونے لگے ، انھوں نے کانکنی شروع کر دی ، بڑے بڑے زرعی فارم بنا لیے اور معیشت کو پوری طرح قبضا لیا۔مگر الجزائری کبھی بھی فرانس کا قبضہ ہضم نہ کر سکے۔چنانچہ ایک سو چوبیس برس بعد انیس سو چون میں الجزائر پھٹ پڑا۔ حریت پسندوں اور قابض فوج کے مابین آٹھ برس تک خونی لڑائی ہوئی جس میں ایک ملین الجزائری اور ہزاروں فرانسیسی فوجی مارے گئے۔بالاخر انیس سو باسٹھ میں الجزائر کو آزاد کرنا پڑا۔

انیس سو پچھتر میں پرتگال نے مشرقی تیمور کے جزیرے پر سے اپنا نو آبادیاتی قبضہ ختم کر دیا۔سات آٹھ لاکھ آبادی والے مشرقی تیمور کی آبادی کرسچن تھی۔مگر پرتگال کے جاتے ہی مشرقی تیمور کے طاقتور ہمسائے انڈونیشیا نے قبضہ کر لیا اور ایک ہی برس بعد انیس سو چھہتر میں مشرقی تیمور کو انڈونیشیا کا ستائیسواں صوبہ قرار دے دیا۔مگر تیموریوں نے ہمت نہ ہاری اور لڑتے رہے۔بالاخر انیس سو ننانوے میں اقوامِ متحدہ کے تحت اس سوال پر ریفرنڈم ہوا کہ تیموری انڈونیشیا کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا پھر آزادی چاہتے ہیں۔ننانوے فیصد نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا اور دو ہزار دو میں مشرقی تیمور ایک آزاد ملک بن گیا۔یہ الگ بات کہ اس آزادی کی قیمت ہر خاندان نے کم ازکم ایک شہید کی شکل میں ادا کی ۔

اسرائیل کب سے فلسطین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی ہر قرار داد جوتے کی نوک پر رکھ رہا ہے۔گولان پر قبضے ، مشرقی یروشلم کو اسرائیل میں ضم کرنے اور مقببوضہ علاقوں میں لاکھوں یہودیوں کی آباد کاری بھی اسرائیل قبضے کو جائز نہیں بنا سکی۔یہ درست ہے کہ فلسطینی اب تک آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور جانے کب تک لڑتے رہیں۔مگر اسرائیل کبھی بھی حرام زدگی کو حلال کاری قرار نہیں دلوا سکے گا۔دنیا لاکھ بے حس سہی مگر اس گئی گذری حالت میں بھی عالمی برادری کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنا اب بھی مشکل ہے۔

بھارت کو پانچ اگست کبھی ہضم نہ ہو پائے گا۔اور یہ منظر ہماری اگلی نسلیں نہیں یہی نسل دیکھے گی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story