قومی تاریخ کا المیہ جس کا کوئی اختتام نہیں
ہمیں ہمارے حکمراں جوکہہ دیتے ہیں ہم بلا سوچے سمجھے اُس پر یقین اور اعتماد کر لیتے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم صرف خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں ہی کے سہارے زندگی بسرکرتے آئے ہیں۔ معاملہ اندرونی سیاست کا ہو یاپھر بیرونی دنیا سے تعلقات استوار کرنے کا، ہر معاملے میں ہم بہت سادہ اور معصوم واقعے ہوئے ہیں۔
ہمیں ہمارے حکمراں جوکہہ دیتے ہیں ہم بلا سوچے سمجھے اُس پر یقین اور اعتماد کر لیتے ہیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بچانے کے لیے ساتویں بحری بیڑے کی آمد سے لے کرکشمیر میں ثالثی کا کردارنبھانے تک ہم ایسی ساری خوش فہمیوں اورخوش گمانیوں کو اپنا مقدر سمجھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔
عقدہ تو بعد میں کھلتا ہے کہ یہ سب کچھ اپناالّوسیدھا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نہ 1971ء میں کوئی بحری بیڑہ ہمیں بچانے کے لیے تشریف لایا تھا اورنہ اب کوئی ملک کشمیر کے معاملے میں ثالثی کا کردار نبھانے کے لیے آگے بڑھے گا۔ ہمیں اپنی اوقات کا اچھی طرح پتا ہونا چاہیے۔2002ء میں جب پاکستان اور بھارت کی افواج ایک دوسرے کے سامنے جنگ کے لیے مکمل تیار کھڑی تھیں تو اُس وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر مسز وینڈی چیمبرلین کا یہ معنی خیز بیان ہمیں اپنی حیثیت اور اوقات یاد دلانے کے لیے بہت کافی تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت تو اسلام آباد کو بھی نہیں بچا سکتی۔
ہم پاکستانی اُس وقت تک بڑے زعم اور فخر سے یہ سمجھ رہے تھے اورشاید ابھی تک سمجھتے ہیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت نے ہمیں تاحال اپنے دشمن کے ناپاک عزائم سے بچا رکھا ہے۔ یہ ایک ایسے طاقتور ملک کے سفیر کی ذرّہ نوازی تھی جس کی کسی بات کو ہم غلط اور بے بنیاد قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ یہی وہ معزز اور بااثر شخصیت تھیں ،جن کی ایک ملاقات نے ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں کے لیے اپنے تمام تر دیدی بیانوں کے باوجود یہ تسلیم کرنا انتہائی ضروری قرار پایا تھا کہ اُسامہ بن لادن پاکستان ہی میں موجود ہے۔ یہی وجہ تھی کہ محترم سفیرکی اِس واضح تنبیہ کے بعد ہمیںاپنی ایٹمی صلاحیت سے متعلق پھر کسی بلند بانگ دعوے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
کشمیر میں معاملے میں ثالثی توکجا بھارت جب تک نہ چاہے تو امریکا سلامتی کونسل میں ہمارا مقدمہ بھی لڑ نہیں سکتا۔ اِسے ہماری معصومیت ہی کہا جائے کہ ہم ہر چار پانچ سال بعد ایسی ہی خوش کن خبروں پریقین کرکے بے شمار اُمیدیں وابستہ کر لیا کرتے ہیں۔ امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے ہی بیان میں یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ ثالثی دونوں فریق کی رضامندی سے منسلک ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت اِس کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہوگا۔
دنیاکاکوئی ملک بھی اگر ثالث بنتا ہے تو بھارت کی کشمیر کے معاملے میں ساری ہٹ دھرمیاں اور ناجائزکارروائیاں کھل کر دنیا کے سامنے واضح ہوجائیں گی۔لہذا وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ دنیا کا کوئی ملک اِس معاملے میں ثالث بنے۔ ہمیں تو بس اسی سے اندازہ کرلینا چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس بیان کے بعد بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ہم اب چیخ چیخ کر دنیا کی توجہ اِس جانب مبذول کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں اورکوئی سننے والا نہیں۔ ہمیں تواپنی حیثیت کا تعین دنیا کے اِسی رویہ سے کرلینا چاہیے۔
مسز وینڈی چیمبر لین کی 2002ء میں کی جانے والی اور بھی کئی باتیں ایسی تھیں جسے نظر انداز کر دینا ہماری مصلحت کوشی اور مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن دانشمندی یا عقلمندی ہرگز نہیں۔ اُن کے بقول دہشت گردی کی عالمی جنگ میں اگر پاکستانی ہوائی اڈے اتحادی افواج کے زیر استعمال ہیں تو اِس پر پاکستانی قوم کو کسی تشویش میں مبتلاہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اُسے تو بلکہ اپنے مہمانوں کا شکرگذار ہونا چاہیے کہ اُن کے یہاں قیام کرنے سے پاکستان کو ڈالر ملیں گے وہ ڈالر جن کے لیے ہم اُس وقت بھی بہت بے چین اور حاجت مند تھے اور آج بھی اُتنے ہی ضرورت مند ہیں۔ ہماری یہ مجبوری اور ضرورتیں کبھی ختم نہ ہونگی۔اِس کے لیے قوم کو انا اور غیرت کے نام پر شور مچانے کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح بے حسی اورخاموشی سے سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔
ہم نے 2001ء میں نائن الیون کے موقع پر بھی ایسا ہی کچھ کیا تھا اور اب بھی اس کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ ہم نے افغانستان میں امریکا کو داخل ہونے میں بھی مدد دی تھی اور اب اُسے باعزت باہر نکالنے کے لیے بھی ایسا ہی کریگے۔ ہمیں تو اُلٹا امریکا کا احسان مند ہونا چاہیے کہ 2002ء پاک بھارت کشیدہ صورتحال میں وہ اگر درپردہ مداخلت نہیں کرتا تو اسلام آباد کو اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ ہوجاتا۔یہی بات سفیر وینڈی چیمبر لین نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان اوربھارت کے بیچ کسی وقت بھی کوئی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے ۔ اِس کے لیے کسی بڑے ایشو کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بس ایک معمولی ساکوئی بم دھماکہ جس کا الزام پاکستان کے سر تھوپ کر یہ خوفناک ایٹمی جنگ شروع کی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد اگر آج تک اِس خونی جنگ سے محفوظ رہا ہے تو اِس میں اُس کی اپنی صلاحیت کی بجائے صرف ایک عالمی طاقت کی مہربانیاں اور کرم نوازیاں ہی ہیں۔جب تک گھی سیدھی انگلیوں سے ہی نکل رہا ہو تو اُنہیں ٹیڑھا کرنے کی قطعاً ضرورت نہیںہوا کرتی۔ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا ہے کہ کسی مسلح جارحیت کے ذریعے پاکستان کو راہ راست پر لایا جائے اور شاید یہ مرحلہ کبھی بھی نہ آئے ۔ ہم خود ہی اپنے معاشی واقتصادی حالات ہر چند سال بعد اِس قدر خراب اوردگرگوں کردیتے ہیں کہ ہمیں سر اُٹھاکے غیرت و حمیت کے ساتھ چلنے کی ہمت ہی نہیں رہتی۔ ملکی مفادات اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ اگر ہمارا کوئی حکمراں ایسا کرنے کی کوئی جرات وہمت بھی دکھاتا ہے تو اُسے فوراً ہی ذلت و رسوائی کے اندھیروں میں ڈال کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ ستّر 72سالوں سے ہمارے یہاں یہی ہوتا آیا ہے۔
خان صاحب کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی یہ قدر منزلت اُسی وقت تک قائم ہے، جب تک وہ بلاچوںوچرا ہر حکم پر تابع فرمان اتھارٹی کے طور پر عملدرآمد کرتے رہیںگے۔ جس دن اُنہوں نے کوئی تذبذب یا ہچکچاہٹ دکھائی یا ملکی مفادات کی خاطر کسی بات پر ڈٹ جانے کی کوشش کی اُسی دن اُن کا بھی کام تمام کردیاجائے گا۔کیکڑا ون جس کی کامیابی کے لیے خان صاحب کتنے پر اُمید تھے کہ تین ماہ پہلے ہی قوم کو خوشخبری سنا دی لیکن اُس کے مشکوک انداز میں اچانک بند کیے جانے پر اُنہیں کوئی حیرانی اور تشویش بھی نہ ہوئی۔
اُن کا یہی اندازِحکومت کچھ طاقتوں کے لیے انتہائی پسندیدہ اور قابل قبول ہے۔ وہ جب تک اِس طریقے ہر قائم اوردائم رہیں گے اُنہیں کوئی لانگ مارچ اور کوئی دھرنا اقتدار سے محروم نہیں کرسکتا۔ محروم اقتدار تو بہت دورکی بات ہے اُن کو اپنے مخالفوں سے کسی بات کا خوف اور ڈر بھی محسوس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ابھی سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی ہی اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔64نشتیں رکھنے والے کس طرح 35نشتوں والوں سے بری طرح مات کھا گئے۔
سینیٹ میں اپوزیشن کی ناکامی نے خود اُن کی اپنی صفوں میں دڑاریں ڈال دی ہیں۔ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے نکلے تھے خود اپنے ٹف ٹائم میں پھنس کر اور الجھ کررہ گئے ہیں۔ سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے پیچھے بھی ہماری سیاسی تاریخ کے وہی راز پوشیدہ ہیں جنھیں عیاں کرتے ہوئے اب ہمارے ہاتھ اور قلم بھی کانپنے لگے ہیں۔ دیکھاجائے توہماری قومی تاریخ کا سارا المیہ بھی یہی ہے جس کا ماتم کرتے کرتے 72سال بیت چکے ہیں اورنجانے اگلے کتنے سال اور بھی ایسے ہی بیتیں گے۔
ہمیں ہمارے حکمراں جوکہہ دیتے ہیں ہم بلا سوچے سمجھے اُس پر یقین اور اعتماد کر لیتے ہیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بچانے کے لیے ساتویں بحری بیڑے کی آمد سے لے کرکشمیر میں ثالثی کا کردارنبھانے تک ہم ایسی ساری خوش فہمیوں اورخوش گمانیوں کو اپنا مقدر سمجھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔
عقدہ تو بعد میں کھلتا ہے کہ یہ سب کچھ اپناالّوسیدھا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نہ 1971ء میں کوئی بحری بیڑہ ہمیں بچانے کے لیے تشریف لایا تھا اورنہ اب کوئی ملک کشمیر کے معاملے میں ثالثی کا کردار نبھانے کے لیے آگے بڑھے گا۔ ہمیں اپنی اوقات کا اچھی طرح پتا ہونا چاہیے۔2002ء میں جب پاکستان اور بھارت کی افواج ایک دوسرے کے سامنے جنگ کے لیے مکمل تیار کھڑی تھیں تو اُس وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر مسز وینڈی چیمبرلین کا یہ معنی خیز بیان ہمیں اپنی حیثیت اور اوقات یاد دلانے کے لیے بہت کافی تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت تو اسلام آباد کو بھی نہیں بچا سکتی۔
ہم پاکستانی اُس وقت تک بڑے زعم اور فخر سے یہ سمجھ رہے تھے اورشاید ابھی تک سمجھتے ہیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت نے ہمیں تاحال اپنے دشمن کے ناپاک عزائم سے بچا رکھا ہے۔ یہ ایک ایسے طاقتور ملک کے سفیر کی ذرّہ نوازی تھی جس کی کسی بات کو ہم غلط اور بے بنیاد قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ یہی وہ معزز اور بااثر شخصیت تھیں ،جن کی ایک ملاقات نے ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں کے لیے اپنے تمام تر دیدی بیانوں کے باوجود یہ تسلیم کرنا انتہائی ضروری قرار پایا تھا کہ اُسامہ بن لادن پاکستان ہی میں موجود ہے۔ یہی وجہ تھی کہ محترم سفیرکی اِس واضح تنبیہ کے بعد ہمیںاپنی ایٹمی صلاحیت سے متعلق پھر کسی بلند بانگ دعوے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
کشمیر میں معاملے میں ثالثی توکجا بھارت جب تک نہ چاہے تو امریکا سلامتی کونسل میں ہمارا مقدمہ بھی لڑ نہیں سکتا۔ اِسے ہماری معصومیت ہی کہا جائے کہ ہم ہر چار پانچ سال بعد ایسی ہی خوش کن خبروں پریقین کرکے بے شمار اُمیدیں وابستہ کر لیا کرتے ہیں۔ امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے ہی بیان میں یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ ثالثی دونوں فریق کی رضامندی سے منسلک ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت اِس کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہوگا۔
دنیاکاکوئی ملک بھی اگر ثالث بنتا ہے تو بھارت کی کشمیر کے معاملے میں ساری ہٹ دھرمیاں اور ناجائزکارروائیاں کھل کر دنیا کے سامنے واضح ہوجائیں گی۔لہذا وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ دنیا کا کوئی ملک اِس معاملے میں ثالث بنے۔ ہمیں تو بس اسی سے اندازہ کرلینا چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس بیان کے بعد بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ہم اب چیخ چیخ کر دنیا کی توجہ اِس جانب مبذول کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں اورکوئی سننے والا نہیں۔ ہمیں تواپنی حیثیت کا تعین دنیا کے اِسی رویہ سے کرلینا چاہیے۔
مسز وینڈی چیمبر لین کی 2002ء میں کی جانے والی اور بھی کئی باتیں ایسی تھیں جسے نظر انداز کر دینا ہماری مصلحت کوشی اور مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن دانشمندی یا عقلمندی ہرگز نہیں۔ اُن کے بقول دہشت گردی کی عالمی جنگ میں اگر پاکستانی ہوائی اڈے اتحادی افواج کے زیر استعمال ہیں تو اِس پر پاکستانی قوم کو کسی تشویش میں مبتلاہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اُسے تو بلکہ اپنے مہمانوں کا شکرگذار ہونا چاہیے کہ اُن کے یہاں قیام کرنے سے پاکستان کو ڈالر ملیں گے وہ ڈالر جن کے لیے ہم اُس وقت بھی بہت بے چین اور حاجت مند تھے اور آج بھی اُتنے ہی ضرورت مند ہیں۔ ہماری یہ مجبوری اور ضرورتیں کبھی ختم نہ ہونگی۔اِس کے لیے قوم کو انا اور غیرت کے نام پر شور مچانے کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح بے حسی اورخاموشی سے سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔
ہم نے 2001ء میں نائن الیون کے موقع پر بھی ایسا ہی کچھ کیا تھا اور اب بھی اس کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ ہم نے افغانستان میں امریکا کو داخل ہونے میں بھی مدد دی تھی اور اب اُسے باعزت باہر نکالنے کے لیے بھی ایسا ہی کریگے۔ ہمیں تو اُلٹا امریکا کا احسان مند ہونا چاہیے کہ 2002ء پاک بھارت کشیدہ صورتحال میں وہ اگر درپردہ مداخلت نہیں کرتا تو اسلام آباد کو اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ ہوجاتا۔یہی بات سفیر وینڈی چیمبر لین نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان اوربھارت کے بیچ کسی وقت بھی کوئی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے ۔ اِس کے لیے کسی بڑے ایشو کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بس ایک معمولی ساکوئی بم دھماکہ جس کا الزام پاکستان کے سر تھوپ کر یہ خوفناک ایٹمی جنگ شروع کی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد اگر آج تک اِس خونی جنگ سے محفوظ رہا ہے تو اِس میں اُس کی اپنی صلاحیت کی بجائے صرف ایک عالمی طاقت کی مہربانیاں اور کرم نوازیاں ہی ہیں۔جب تک گھی سیدھی انگلیوں سے ہی نکل رہا ہو تو اُنہیں ٹیڑھا کرنے کی قطعاً ضرورت نہیںہوا کرتی۔ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا ہے کہ کسی مسلح جارحیت کے ذریعے پاکستان کو راہ راست پر لایا جائے اور شاید یہ مرحلہ کبھی بھی نہ آئے ۔ ہم خود ہی اپنے معاشی واقتصادی حالات ہر چند سال بعد اِس قدر خراب اوردگرگوں کردیتے ہیں کہ ہمیں سر اُٹھاکے غیرت و حمیت کے ساتھ چلنے کی ہمت ہی نہیں رہتی۔ ملکی مفادات اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ اگر ہمارا کوئی حکمراں ایسا کرنے کی کوئی جرات وہمت بھی دکھاتا ہے تو اُسے فوراً ہی ذلت و رسوائی کے اندھیروں میں ڈال کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ ستّر 72سالوں سے ہمارے یہاں یہی ہوتا آیا ہے۔
خان صاحب کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی یہ قدر منزلت اُسی وقت تک قائم ہے، جب تک وہ بلاچوںوچرا ہر حکم پر تابع فرمان اتھارٹی کے طور پر عملدرآمد کرتے رہیںگے۔ جس دن اُنہوں نے کوئی تذبذب یا ہچکچاہٹ دکھائی یا ملکی مفادات کی خاطر کسی بات پر ڈٹ جانے کی کوشش کی اُسی دن اُن کا بھی کام تمام کردیاجائے گا۔کیکڑا ون جس کی کامیابی کے لیے خان صاحب کتنے پر اُمید تھے کہ تین ماہ پہلے ہی قوم کو خوشخبری سنا دی لیکن اُس کے مشکوک انداز میں اچانک بند کیے جانے پر اُنہیں کوئی حیرانی اور تشویش بھی نہ ہوئی۔
اُن کا یہی اندازِحکومت کچھ طاقتوں کے لیے انتہائی پسندیدہ اور قابل قبول ہے۔ وہ جب تک اِس طریقے ہر قائم اوردائم رہیں گے اُنہیں کوئی لانگ مارچ اور کوئی دھرنا اقتدار سے محروم نہیں کرسکتا۔ محروم اقتدار تو بہت دورکی بات ہے اُن کو اپنے مخالفوں سے کسی بات کا خوف اور ڈر بھی محسوس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ابھی سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی ہی اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔64نشتیں رکھنے والے کس طرح 35نشتوں والوں سے بری طرح مات کھا گئے۔
سینیٹ میں اپوزیشن کی ناکامی نے خود اُن کی اپنی صفوں میں دڑاریں ڈال دی ہیں۔ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے نکلے تھے خود اپنے ٹف ٹائم میں پھنس کر اور الجھ کررہ گئے ہیں۔ سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے پیچھے بھی ہماری سیاسی تاریخ کے وہی راز پوشیدہ ہیں جنھیں عیاں کرتے ہوئے اب ہمارے ہاتھ اور قلم بھی کانپنے لگے ہیں۔ دیکھاجائے توہماری قومی تاریخ کا سارا المیہ بھی یہی ہے جس کا ماتم کرتے کرتے 72سال بیت چکے ہیں اورنجانے اگلے کتنے سال اور بھی ایسے ہی بیتیں گے۔