امن کی کوششیں مگر

جو حکومت کہے گی کیونکہ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے، ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔

mjgoher@yahoo.com

وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے اس موقف کے حق میں کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جانے چاہئیں، ملک کی جملہ سیاسی قیادت کو آل پارٹیز کانفرنس میں جمع کرنے میں کامیاب تو ہو گئے۔ میاں صاحب کے لیے یہ امر یقیناً قابل اطمینان ہے کہ شرکائے کانفرنس نے باہمی مشاورت اور مکمل اتفاق رائے سے حکومت کو یہ اختیار تفویض کر دیا کہ وہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے طالبان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کا آغاز کرے۔ اے پی سی میں ملک کی عسکری قیادت نے بھی شرکت کی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حالات و واقعات کے پس منظر میں شرکائے کانفرنس کو بریفنگ بھی دی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس موقع پر کہا کہ ملکی سلامتی و دفاع کے حوالے سے فوجی و سول قیادت میں مکمل ہم آہنگی ہے اور فوج وہی کرے گی جو حکومت کہے گی کیونکہ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے، ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔

عسکری قیادت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات سیاسی قائدین کے فیصلے کی تائید و حمایت سے سر دست تو یہ تاثر زائل ہوتا نظر آ رہا ہے کہ فوج شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حامی نہیں بلکہ ان سے طاقت کی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ کم از کم اے پی سی میں تو عسکری و سیاسی قیادت کے درمیان طالبان شدت پسندوں سے مذاکراتی عمل شروع کرنے پر اتفاق رائے پایا گیا ہے جو بلاشبہ نواز حکومت بالخصوص وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اپنے حوصلے کا باعث ہے۔ میاں صاحب نے بھی اے پی سی میں واضح طور پر کہا کہ ملکی سلامتی، دہشت گردی اور توانائی کے بحران پر کوئی سیاست نہیں کی جائے گی۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی وزیر اعظم کو یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ پانچ سال تک سیاست نہیں کریں گے اور نواز حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔

گویا ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین علاقائی و عالمی حالات کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے ملک کو درپیش اہم اور حساس مسائل پر ''سیاست چمکانے'' کے بجائے ایک دوسرے کے ہم قدم چلنے پر آمادہ ہیں، جو ملک کی خدمت کے حوالے سے ان کی مثبت سوچ کی علامت ہے اس مفاہمانہ طرز عمل سے انتقامی سیاست کا خاتمہ اور جمہوریت کو استحکام حاصل ہو گا۔ اے پی سی میں امریکی ڈرون حملوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے پر اتفاق کیا گیا، ملک کے سب سے اہم معاشی ہب کراچی اور بلوچستان اور کے پی کے میں پائے جانے والی سنگین بد امنی پر بھی شرکائے کانفرنس نے گہری تشویش اور فکر مندی ظاہر کی اس حوالے سے متعلقہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اپنے اپنے صوبوں میں امن کی بحالی اور بدامنی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کا اختیار دیا گیا۔


چونکہ مذکورہ کانفرنس ان کیمرہ اجلاس تھا، اس لیے میڈیا میں وہ تمام باتیں سامنے نہیں آ سکیں جو شرکائے اجلاس نے اپنے اپنے خطاب میں کہی ہوں گی، بہرحال کانفرنس کے اختتام پر حسب روایت ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ شدت پسندوں سے مذاکرات اور ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے ہر ممکن اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ اہل وطن جانتے ہیں کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ حکومت نے ملک کے طول و ارض میں پھیلی ہوئی آگ و خون اگلتی دہشت گردی، شدت پسندی، خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری و دیگر سنگین جرائم کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی و حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور اس میں قومی سلامتی و دفاع وطن کے حساس معاملات اور مسائل زیر بحث نہ آئے ہوں، داخلی و خارجی حوالوں سے ایک دوسرے سے منسلک کڑیوں کو الگ الگ کرنے کے لیے تدابیر نہ سوچی گئی ہوں۔

پڑوسی ملک بھارت اور افغانستان کے مشتبہ کردار اور ہمارے داخلی معاملات میں ان کی مبینہ مداخلت کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر غور و فکر نہ ہوا ہو، شرکائے کانفرنس نے ہر دو زاویوں سے حساس قومی مسائل پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار نہ کیا ہو اور پھر سفارشات مرتب کر کے اعلامیے جاری نہ کیے گئے ہوں کہ بس ہم سب کا قومی فرض پورا ہو گیا اب حکومت جانے اور اس کا کام، آپ زیادہ دور نہ جائیے گزشتہ 5/6 سال کا جائزہ لے لیجیے جن میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی کوششوں اور خواہشوں کے مطابق حکومتی و غیر حکومتی ہر دو سطح پر منفرد آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا جن میں وہ سارے معاملات، مسائل اور موضوعات زیر بحث لائے گئے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

حسب معمول مشترکہ اعلامیے بھی جاری کیے گئے یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ مشترکہ اجلاسوں میں بھی قراردادیں منظور کی گئیں لیکن کسی اے پی سی اور قرارداد پر عمل درآمد کے حوالے سے مثبت اور قابل ذکر نتیجہ برآمد نہ ہوا اور بات نشستند، گفتند اور برخاستند پر ختم ہو گئی اور ملکی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔وزیر اعظم میاں نواز شریف نے شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کا نعرہ لگایا لیکن ان کے برسر اقتدار آتے ہی شدت پسند عناصر نے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا، کراچی تا خیبر آگ و خون کا ایک الائو روشن ہے اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اب نواز حکومت نے اے پی سی کے ذریعے طالبان سے مذاکرات اور بحالی امن کے اپنے ایک قدم آگے بڑھایا ہے جس پر ملک کے ایک وسیع حلقے میں اظہار اطمینان پایا جاتا ہے، تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھی مذاکرات کے حوالے سے مثبت رد عمل سامنے آیا ہے جو حوصلہ افزا امر ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ طالبان کے مختلف گروپ مذاکرات کے حوالے سے کلی طور پر متحد و متفق نہیں ہیں بعینہ ملک کے بعض حلقوں کی جانب سے بھی اے پی سی اعلامیے کو ''سرینڈر کرنے'' اور شہداء کے لہو کا ''سودا کرنے'' سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول ان کے علم میں کچھ ایسی باتیں آئی ہیں اور شواہد بھی ملے ہیں جن سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ بعض بااثر حلقے اور پس پردہ قوتیں آل پارٹیز کانفرنس کے پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کی حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے حکومت اور طالبان دونوں پر زور دیا کہ وہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کے آغاز کے لیے کوششوں کو آگے بڑھائیں تا کہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔ وزیر داخلہ کی تشویش بجا لیکن تنقید نگاروں کی رائے میں موجود وزن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ شدت پسندوں کا اپنا ''مخصوص ایجنڈا'' ہے، وہ پاکستان کے آئین و جمہوریت کو نہیں مانتے بلکہ ''اپنی شریعت'' کو طاقت کے زور پر ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے ماضی میں ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا قابل ذکر نتیجہ نہیں نکلا۔ بہرحال قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کی ہر مکتب فکر کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے مگر طالبان کے مطالبات اور اپر دیر کے سانحے نے صورت حال کو مایوس کن بنا دیا ہے۔
Load Next Story