عام شہری کے درد انگیز مسائل
راقم کا گزشتہ کالم، جو کراچی شہر میں رہائش کے حوالے سے لکھا گیا تھا
راقم کا گزشتہ کالم، جو کراچی شہر میں رہائش کے حوالے سے لکھا گیا تھا، کے حوالے سے ایک اچھا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ایک صاحب نے بالمشافہ کالم کو حقیقت کا آئینہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقعی اس شہر میں اسسٹیٹ ایجنٹس اور بروکرز کا کردار جائیداد کی قیمتوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے، ان کے مطابق اور بھی کئی طریقوں سے سادہ لوح عوام سے جائیداد کی خرید و فروخت میں لاکھوں روپے بٹور لینا معمول کی بات ہے۔
یہ بات قطعی درست ہے کہ جس طرح دیگر معاملات میں اشیاء کی خرید و فروخت میں ہمارے ہاں کوئی ایسا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے کہ جس سے زائد قیمت وصول کرنے والوں کو کنٹرول کیا جا سکے، بالکل اسی طرح جائیداد کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ چھوٹے پلاٹس یا جائیداد کی خرید و فروخت میں سیاسی عناصر ملوث نہ تھے مگر رفتہ رفتہ یہ عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے۔ پہلے بلدیاتی انتخابات کی سیاست میں کچی آبادیوں کو پکا (لیز) کرانے کا وعدہ منشور میں شامل ہوتا تھا، قطع نظر اس کے کہ یہ کچی آبادیاں مخصوص عناصر اپنے بینک بیلنس بڑھانے کے لیے قائم کرتے رہتے تھے۔
بہر کیف سیاسی عناصر کے شامل ہونے کے بعد پہلے تو اس شہر کا نکاسی آب اور دیگر سہولیات کا نظام درہم برہم ہونا شروع ہوا اور پھر نوبت شہر کے امن و امان کی تباہی تک پہنچ گئی۔ اس عمل میں شہر کی منصوبہ بندی جو تھوڑی بہت تھی وہ بھی تباہ ہو گئی اور آج ایسی آبادیاں اس شہر میں کثرت سے ملیں گی جہاں ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس داخل ہونے کا راستہ بھی دستیاب نہ ہو گا۔ ایسے واقعات کی کمی نہیں کہ جب حادثات کے بعد امدادی کارروائیوں کے لیے راستہ ہی نہ ملا اور ہلاکتیں بروقت امداد نہ ملنے کے باعث زیادہ ہوئیں۔ آج بھی خدانخواستہ زلزلے کا کوئی ہلکا سا جھٹکا کسی عمارت کو گرا دے یا کسی اور سبب فوری طور پر مکینوں کو باہر نکلنا پڑے تو کرب ناک منظر سامنے آئے گا۔ تھوڑے ہی عرصے قبل ہم ایک فیکٹری میں آگ لگنے کے باعث بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا منظر دیکھ چکے ہیں۔ جس شہر میں کروڑوں روپے کمانے والے اپنی فیکٹریوں میں ایمرجنسی راستے ہی نہ رکھتے ہوں وہاں بھلا عام اپارٹمنٹس میں ایمرجنسی راستوں کا کیا تصور ہو گا، اس کا اندازہ کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔
ہمارے ہاں طبقاتی نظام جس طرح جڑ پکڑ گیا ہے اور ہم نے جس طرح ذہنی طور پر اس کو قبول کر لیا ہے اس کے بعد رہائشی معاملات میں ہمیں کوئی خامی بھی محسوس نہیں ہوتی۔ طبقہ واریت کو غیر انسانی سطح پر اس طرح فروغ دیا گیا کہ غریب و پسماندہ علاقوں میں سرکاری سطح پر 60 اور 80 گز کے پلاٹس رہائش کے لیے بڑے فخر سے پیش کیے گئے اور ان کی گلیاں بھی اس قدر تنگ اور چھوٹی رکھی گئیں کہ کوئی ایمبولینس داخل ہونا تو دور کی بات بیک وقت دو موٹر سائیکلیں بھی گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے تنگ و تاریک ماحول میں عوام کی کیا صحت بنے گی؟ پہلے اس قسم کی آبادیوں میں مکانات کے پچھلے حصے میں گندی گلیاں رکھی جاتی تھیں تا کہ آب و ہوا کا باآسانی گزر ہو سکے لیکن یہ بھی سلسلہ 70ء کی دہائی تک ہی رہا۔
دوسری طرف بڑے پلاٹس یا بڑی سوسائٹیوں میں نہ صرف کشادہ گلیاں بلکہ اطراف میں مزید کشادہ جگہیں بھی دی جاتی ہیں جو کہ اچھی اور معقول بات ہے مگر اس کا موازنہ غریب بستیوں سے کریں تو وہ مرغی یا کبوتر کے دڑبے نما لگیں گی جہاں بجلی اور پانی کے بحران کے علاوہ صفائی کا معقول بندوبست نہ ہونے کے باعث بیماریوں کے ڈیرے لگے ہیں۔ پہلے عام علاقوں میں کھیل کے میدان اور پارکس بھی ہوتے تھے جہاں چھوٹے اور تنگ گھروں میں رہنے والے شام کو تاز ہوا اور تفریح کے لیے نکل جاتے تھے مگر اب یہ بھی کمرشل ازم کی نذر ہو گئے ہیں۔ کھیل کے میدان تقریباً ختم ہو گئے ہیں جب کہ پارکس میں کمرشل جھولے لگا کر سستی تفریح بھی چھین لی گئی ہے۔ اب جگہ جگہ نوجوان لڑکے سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے پر مجبور ہیں جب کہ چھوٹے بچے گھروں میں یا تنگ گلیوں میں ہی وقت گزارتے ہیں اس کے لیے کوئی کھیل کا میدان اور تفریح بھی نہیں۔
شہر میں تعمیراتی سرگرمیوں کو ہر طرف سے سراہا گیا بلکہ اس قدر کہ ایک منصوبے کے افتتاح دو جماعتوں نے کر دیے اور ہر ایک جماعت نے کسی نہ کسی حوالے سے کریڈٹ لینے کی کوشش بھی کی۔ بلاشبہ تعمیر و ترقی کے اس عمل نے شہر کی شکل بدل دی اور ٹریفک جام ہونے کا ایک بڑا مسئلہ بھی حل کیا اور شہر میں سفر کو تیز تر بھی کر دیا مگر اس عمل سے بزرگ، بچوں اور مریضوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ ابھی تک کسی نے اسی مسئلے پر توجہ نہیں دی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس ترقی کی بنیاد کمرشل نوعیت کی ہے، انسانی نوعیت کی نہیں۔ یہ مسئلہ سڑک عبور کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی سب سے پہلے اوور ہیڈ برج بنائے گئے، شاہراہیں کشادہ کی گئیں اور پھر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے سگنل فری کوریڈور کا تصور دیا گیا لیکن جب سگنل فری کوریڈور کے تصور میں سڑک عبور کرنے والے درمیان میں آئے تو ان کے لیے اونچے اونچے پیڈسٹیرین برج تعمیر کر دیے گئے۔
یہ کسی ایک شہر کی تعمیر و ترقی کی بات نہیں، جہاں بھی اس قسم کے پیڈسٹیرین برج سڑک عبور کرنے کے لیے بنائے گئے وہاں سب سے بڑا مسئلہ بزرگ، مریضوں اور بچوں کو پیش آیا کہ وہ کیسے سڑک عبور کریں؟ دیو قامت اور اونچے اونچے ان پیڈسٹیرین برجز پر چڑھنا انتہائی دشوار ہے، جو بزرگ اور مریض محض ایک منزل کی سیڑھیاں چڑھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، بھلا وہ کئی منزلوں کے برابر اس برج پر کیسے چڑھ کر سڑک عبور کریں؟ اگر وہ نیچے سے پیدل سڑک عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حادثہ ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ سگنل فری کوریڈور کے بعد اب ٹریفک پہلے سے زیادہ رفتار سے گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے حادثات کی تعداد میں اب پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اگر آپ کے پاس دولت کی کثرت ہے، ہزاروں گز پر مشتمل رہائش ہے اور پُرآسائش مرسیڈیز ہے تو یہ شہر آپ کے لیے جنت ہے۔ آپ کو تنگ اور گندی گلیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، بچے گھر کے لان ہی میں کھیل لیں گے اور سڑک آپ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے یو ٹرن سے عبور کر لیں گے لیکن اگر آپ کسی چھوٹے علاقے میں رہتے ہیں جہاں آپ اپنے کسی بزرگ کو تنگ و تاریک گلیوں سے لے کر سڑک پر آتے ہیں اور سڑک کے پار جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کیسے سڑک عبور کریں گے؟ یقیناً کسی رکشے والے کو کرایہ دے کر سڑک عبور کریں گے اور اگر مہنگائی نے اس کی اجازت نہ دی ہو تو پھر تیز رفتار ٹریفک میں سے گزر کر سڑک پار کرنا ہو گی جس میں آپ کی جان کو حادثے کا بھی رسک لینا پڑے گا۔ کیا ہماری انتظامیہ، حکومت یا سیاسی رہنما غریب عوام کے مذکورہ مسائل پر کبھی غور کریں گے؟
یہ بات قطعی درست ہے کہ جس طرح دیگر معاملات میں اشیاء کی خرید و فروخت میں ہمارے ہاں کوئی ایسا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے کہ جس سے زائد قیمت وصول کرنے والوں کو کنٹرول کیا جا سکے، بالکل اسی طرح جائیداد کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ چھوٹے پلاٹس یا جائیداد کی خرید و فروخت میں سیاسی عناصر ملوث نہ تھے مگر رفتہ رفتہ یہ عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے۔ پہلے بلدیاتی انتخابات کی سیاست میں کچی آبادیوں کو پکا (لیز) کرانے کا وعدہ منشور میں شامل ہوتا تھا، قطع نظر اس کے کہ یہ کچی آبادیاں مخصوص عناصر اپنے بینک بیلنس بڑھانے کے لیے قائم کرتے رہتے تھے۔
بہر کیف سیاسی عناصر کے شامل ہونے کے بعد پہلے تو اس شہر کا نکاسی آب اور دیگر سہولیات کا نظام درہم برہم ہونا شروع ہوا اور پھر نوبت شہر کے امن و امان کی تباہی تک پہنچ گئی۔ اس عمل میں شہر کی منصوبہ بندی جو تھوڑی بہت تھی وہ بھی تباہ ہو گئی اور آج ایسی آبادیاں اس شہر میں کثرت سے ملیں گی جہاں ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس داخل ہونے کا راستہ بھی دستیاب نہ ہو گا۔ ایسے واقعات کی کمی نہیں کہ جب حادثات کے بعد امدادی کارروائیوں کے لیے راستہ ہی نہ ملا اور ہلاکتیں بروقت امداد نہ ملنے کے باعث زیادہ ہوئیں۔ آج بھی خدانخواستہ زلزلے کا کوئی ہلکا سا جھٹکا کسی عمارت کو گرا دے یا کسی اور سبب فوری طور پر مکینوں کو باہر نکلنا پڑے تو کرب ناک منظر سامنے آئے گا۔ تھوڑے ہی عرصے قبل ہم ایک فیکٹری میں آگ لگنے کے باعث بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا منظر دیکھ چکے ہیں۔ جس شہر میں کروڑوں روپے کمانے والے اپنی فیکٹریوں میں ایمرجنسی راستے ہی نہ رکھتے ہوں وہاں بھلا عام اپارٹمنٹس میں ایمرجنسی راستوں کا کیا تصور ہو گا، اس کا اندازہ کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔
ہمارے ہاں طبقاتی نظام جس طرح جڑ پکڑ گیا ہے اور ہم نے جس طرح ذہنی طور پر اس کو قبول کر لیا ہے اس کے بعد رہائشی معاملات میں ہمیں کوئی خامی بھی محسوس نہیں ہوتی۔ طبقہ واریت کو غیر انسانی سطح پر اس طرح فروغ دیا گیا کہ غریب و پسماندہ علاقوں میں سرکاری سطح پر 60 اور 80 گز کے پلاٹس رہائش کے لیے بڑے فخر سے پیش کیے گئے اور ان کی گلیاں بھی اس قدر تنگ اور چھوٹی رکھی گئیں کہ کوئی ایمبولینس داخل ہونا تو دور کی بات بیک وقت دو موٹر سائیکلیں بھی گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے تنگ و تاریک ماحول میں عوام کی کیا صحت بنے گی؟ پہلے اس قسم کی آبادیوں میں مکانات کے پچھلے حصے میں گندی گلیاں رکھی جاتی تھیں تا کہ آب و ہوا کا باآسانی گزر ہو سکے لیکن یہ بھی سلسلہ 70ء کی دہائی تک ہی رہا۔
دوسری طرف بڑے پلاٹس یا بڑی سوسائٹیوں میں نہ صرف کشادہ گلیاں بلکہ اطراف میں مزید کشادہ جگہیں بھی دی جاتی ہیں جو کہ اچھی اور معقول بات ہے مگر اس کا موازنہ غریب بستیوں سے کریں تو وہ مرغی یا کبوتر کے دڑبے نما لگیں گی جہاں بجلی اور پانی کے بحران کے علاوہ صفائی کا معقول بندوبست نہ ہونے کے باعث بیماریوں کے ڈیرے لگے ہیں۔ پہلے عام علاقوں میں کھیل کے میدان اور پارکس بھی ہوتے تھے جہاں چھوٹے اور تنگ گھروں میں رہنے والے شام کو تاز ہوا اور تفریح کے لیے نکل جاتے تھے مگر اب یہ بھی کمرشل ازم کی نذر ہو گئے ہیں۔ کھیل کے میدان تقریباً ختم ہو گئے ہیں جب کہ پارکس میں کمرشل جھولے لگا کر سستی تفریح بھی چھین لی گئی ہے۔ اب جگہ جگہ نوجوان لڑکے سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے پر مجبور ہیں جب کہ چھوٹے بچے گھروں میں یا تنگ گلیوں میں ہی وقت گزارتے ہیں اس کے لیے کوئی کھیل کا میدان اور تفریح بھی نہیں۔
شہر میں تعمیراتی سرگرمیوں کو ہر طرف سے سراہا گیا بلکہ اس قدر کہ ایک منصوبے کے افتتاح دو جماعتوں نے کر دیے اور ہر ایک جماعت نے کسی نہ کسی حوالے سے کریڈٹ لینے کی کوشش بھی کی۔ بلاشبہ تعمیر و ترقی کے اس عمل نے شہر کی شکل بدل دی اور ٹریفک جام ہونے کا ایک بڑا مسئلہ بھی حل کیا اور شہر میں سفر کو تیز تر بھی کر دیا مگر اس عمل سے بزرگ، بچوں اور مریضوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ ابھی تک کسی نے اسی مسئلے پر توجہ نہیں دی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس ترقی کی بنیاد کمرشل نوعیت کی ہے، انسانی نوعیت کی نہیں۔ یہ مسئلہ سڑک عبور کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی سب سے پہلے اوور ہیڈ برج بنائے گئے، شاہراہیں کشادہ کی گئیں اور پھر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے سگنل فری کوریڈور کا تصور دیا گیا لیکن جب سگنل فری کوریڈور کے تصور میں سڑک عبور کرنے والے درمیان میں آئے تو ان کے لیے اونچے اونچے پیڈسٹیرین برج تعمیر کر دیے گئے۔
یہ کسی ایک شہر کی تعمیر و ترقی کی بات نہیں، جہاں بھی اس قسم کے پیڈسٹیرین برج سڑک عبور کرنے کے لیے بنائے گئے وہاں سب سے بڑا مسئلہ بزرگ، مریضوں اور بچوں کو پیش آیا کہ وہ کیسے سڑک عبور کریں؟ دیو قامت اور اونچے اونچے ان پیڈسٹیرین برجز پر چڑھنا انتہائی دشوار ہے، جو بزرگ اور مریض محض ایک منزل کی سیڑھیاں چڑھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، بھلا وہ کئی منزلوں کے برابر اس برج پر کیسے چڑھ کر سڑک عبور کریں؟ اگر وہ نیچے سے پیدل سڑک عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حادثہ ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ سگنل فری کوریڈور کے بعد اب ٹریفک پہلے سے زیادہ رفتار سے گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے حادثات کی تعداد میں اب پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اگر آپ کے پاس دولت کی کثرت ہے، ہزاروں گز پر مشتمل رہائش ہے اور پُرآسائش مرسیڈیز ہے تو یہ شہر آپ کے لیے جنت ہے۔ آپ کو تنگ اور گندی گلیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، بچے گھر کے لان ہی میں کھیل لیں گے اور سڑک آپ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے یو ٹرن سے عبور کر لیں گے لیکن اگر آپ کسی چھوٹے علاقے میں رہتے ہیں جہاں آپ اپنے کسی بزرگ کو تنگ و تاریک گلیوں سے لے کر سڑک پر آتے ہیں اور سڑک کے پار جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کیسے سڑک عبور کریں گے؟ یقیناً کسی رکشے والے کو کرایہ دے کر سڑک عبور کریں گے اور اگر مہنگائی نے اس کی اجازت نہ دی ہو تو پھر تیز رفتار ٹریفک میں سے گزر کر سڑک پار کرنا ہو گی جس میں آپ کی جان کو حادثے کا بھی رسک لینا پڑے گا۔ کیا ہماری انتظامیہ، حکومت یا سیاسی رہنما غریب عوام کے مذکورہ مسائل پر کبھی غور کریں گے؟