بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب

پاکستان اورانڈیاکے ماہرین قانون وآئین کاکہنا ہے کہ اس اقدام سے کشمیرکادیرینہ مسئلہ مزیدقانونی پیچیدگیاں اختیارکرلے گا

پاکستان اور انڈیا کے ماہرین قانون وآئین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ مزید قانونی پیچیدگیاں اختیار کرلے گا۔ فوٹو: فائل

پاکستان نے مقبوضہ جموں کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے انھیں مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی یکطرفہ اقدام بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ اس متنازع علاقے کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔

پیر کو ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں مقبوضہ جموں کشمیر کے بارے میں بھارتی اقدامات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے۔بھارت کی طرف سے کیے گئے اقدامات جموں کشمیر اور پاکستان کے عوام کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہونگے۔

ترجمان نے کہا کہ بین الاقوامی تنازع کے ایک فریق کی حیثیت سے پاکستان ان غیر قانونی اقدامات سے نمٹنے کے لیے تمام ممکنہ راستے اختیار کرے گا۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے لیے اپنی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کے پختہ عزم کا اعادہ کرتا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے پیر کو ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر طیب اردوان کو فون کرکے انھیں کشمیر کی حالیہ صورتحال سے آگاہ کیا ۔

واضح رہے بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کی طرف سے جہاں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا گیا ہے، تو وہیں اب قانونی سوالات نے بھی جنم لیا ہے،گزشتہ روز بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرنے کا اعلان کرکے کشمیر اور پاکستان میں سیاسی ہل چل پیدا کردی ہے، تاہم جموں وکشمیر کی موجودہ قانونی حیثیت اب بھی سوالیہ نشان ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے ماہرین قانون وآئین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ مزید قانونی پیچیدگیاں اختیار کرلے گا، قانونی ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر کا بھارت سے الحاق خود مختاری کی شرط پر ہوا تھا ، وہ یہاں پر تحلیل ہوگیا ہے، جس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر 1947 کی پوزیشن پر چلاگیا ہے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے کہا کہ انٹرنیشنل لاء میں کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے، بھارت کے سینئر وکیل ایم ایم انصاری بھی بلال احمر کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں کہ کشمیر بدستور متنازعہ علاقہ ہے۔ اور بین ا لاقوامی سطح پر اس کی حیثیت تبدیل نہیں ہوئی۔ادھر مودی کی چیرہ دستیوں کے تناظر میں ملکی سیاست میں بھی ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے باقاعدہ اعلان جنگ کیا ہے ، ہماری حکومت کی پالیسی کہاں ہے، انسانی حقوق کی تنظیم (ایمنسٹی انٹر نیشنل) انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ جموں وکشمیر پر یک طرفہ بھارتی فیصلے سے کشیدگی بڑھے گی، مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کی مرضی کے بغیر فیصلے کیے جارہے ہیں ۔ پاکستان نے امریکا کو بھی بتا دیا ہے کہ کشمیر پر بھارتی فیصلے سے افغان امن متاثر ہوسکتا ہے۔

امریکا نے بھی بھارتی اقدامات کا جائزہ لینے کا تاثر دیا ہے، وفاقی وزرا نے کہا ہے کہ کشمیر کاز کو کچلنے کی کوشش خطے کے امن کو داؤ پر لگا سکتی ہے۔ کشمیری قوم مزاحمت کریگی۔ میڈیا کے مطابق چین، روس سمیت مختلف ممالک کے دفاعی اتاشیوں نے کنٹرول لائن کا دورہ کیا ،صحافیوں نے بھی متاثرہ مقامات کا دورہ کیا جہاں بھارت کی جانب سے کلسٹر بموں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر انھیں آگاہ کیا گیا۔


اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور نے کہا کہ بھارتی اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردار ی نے اپنے بیان میں کہا کہ مودی کشمیر کا قصائی بن گیا ہے جب کہ ن لیگ کے رہنما شہباز شریف نے مودی کے اقدامات کو عالمی قرادادوں کے خلاف اعلان جنگ قراردیا ہے۔

دریں اثنا کشمیری قیادت نے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ جنگی جرم ہے، جس سے بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے، واضح رہے سیاسی حلقوں نے زور دیا ہے کہ حکومت وقت کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے بھارت کو وقت لینے کی مہلت نہ دے بلکہ عالمی سفارت کاری کی مہم شدت کے ساتھ شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی ضمیر کو کشمیر کاز کے لیے بھرپور انداز میں متحرک کیا جا سکے۔حقیقت میں بھارت نے اپنے جابرانہ عمل کے ذریعے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کو اب وفاقی اکائی بنالیا ہے۔یہ دیدہ دلیری کی انتہا ہے۔

منگل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر بھارتی اقدامات کو مسترد اور حکومتی اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔میڈیا کے مطابق پیر کو پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو دفتر خارجہ طلب کرکے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قانون سازی پر شدید احتجاج کیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کو مسترد کردیا۔سیکریٹری خارجہ نے اس موقعے پرکہا کہ کشمیر پر بھارت کی طرف سے یہ اقدام عالمی قوانین اور عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کیے گئے تمام ایسے اقدامات واپس لے۔ مسئلہ کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل در آمد کیا جائے۔

ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان نے مقبوضہ کشمیرمیں لاک ڈاؤن اور ایک لاکھ اسّی ہزار نئی فوج کی تعیناتی کی بھی مذمت کرتے ہوئے کشمیری قیادت کو گھروں پر نظر بند کرنے، کرفیواور مواصلاتی ذرایع منقطع کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی سیاسی سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ بھارت کے ان اقدامات کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب طاہر اندرابی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے موقف اختیارکیا ہے کہ بھارت کا یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی، غیر آئینی اوراقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روح کے منافی ہے۔ بھارتی فیصلے سے بر صغیر کے لیے تباہ کن نتائج رونما ہوں گے۔کشمیریوں سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر اظہار یک جہتی کے لیے ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں، مودی کے پتلے نذر آتش، بھارتی فوج کے خلاف نعرے اور بھارت سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے کے گئے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا۔ امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی کے منصوبے کے سامنے آنے کے بعد پوری مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت نے اپنے اقدام کو اندرونی معاملہ کہا ہے تاہم امریکا نے گرفتاریوں اور نظربندیوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔ وادی میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے اور کشمیری رہنما نظر بند ہیں۔

دریں اثنا شیوسینا نے ہرزہ سرائی کی کہ آج کشمیر لیا ہے کل بلوچستان لیں گے۔ قائمہ کمیٹی دفاع نے بھارتی اقدامات کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرلی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھ کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں فیکٹ فائنڈگ مشن بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
Load Next Story