ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد سندھ کابینہ میں توسیع کر دی گئی
گھوٹکی کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے استعفیٰ دینے والے دو وزراء کو نہ صرف دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔
گھوٹکی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۔ 205 کے ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی غیر معمولی کامیابی کے بعد وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی کابینہ میں توسیع کر دی ہے۔
گھوٹکی کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے استعفیٰ دینے والے دو وزراء کو نہ صرف دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے بلکہ مزید تین رہنماؤں کو بھی سندھ کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس سے ایک دن قبل سندھ کابینہ کا ساڑھے سات گھنٹے طویل اجلاس منعقد ہوا، جس میں بہت اہم فیصلے کیے گئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے کام کی رفتار تیز کر دی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں صفائی مہم کا آغاز کر دیاہے ۔ اس مہم کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
سندھ کابینہ میں توسیع بہت پہلے ہونا تھی لیکن گھوٹکی کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے 2 وزراء سید ناصر حسین شاہ اور عبدالباری پتافی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا کیونکہ انہوں نے گھوٹکی میں انتخابی مہم میں حصہ لینا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے اس انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ این اے ۔ 205 کی نشست سردار علی محمد خان مہر کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ 21 مئی 2019 ء کو ان کا انتقال ہوا۔ وہ اس وقت وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات کے عہدے پر فائز تھے۔
وہ گھوٹکی سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے تھے لیکن گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) کے اتحادی تھے۔ سردار علی محمد خان مہر سندھ کے وزیراعلی بھی رہے۔ اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی نے سردار محمد بخش مہر کو اپنا امیدوار نامزد کیا، جو وزیراعلی سندھ کے مشیر تھے۔
ان کے مقابلے میں مہر گروپ نے سردار علی محمد مہر کے صاحبزادے سردار احمد علی کو امیدوار نامزد کیا۔ دونوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ تھا لیکن 23 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں حیران کن نتیجہ سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار محمد بخش مہر نے 89285 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ سردار احمد علی کو 72509 ووٹ ملے۔ اس کامیابی کے بعد 25 جولائی کو کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کی دیگر جماعتوں نے بہت بڑا جلسہ عام منعقد کیا۔ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی اور کراچی کے بڑے جلسہ عام سے سندھ حکومت کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ اگلے روز اسلام آباد میں بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کاکہنا تھاکہ کچھ عناصر 2007 سے سندھ حکومت کو ختم کرنے کے لیے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن وہ ناکام رہیں گے۔ یہ عناصر سندھ حکومت گرا کر دکھائیں۔ 90 دنوں میں پہلے سے زیادہ اکثریت سے واپس آئیں گے۔
سندھ کے سیاسی حالات کے بارے میں اگرچہ غیر یقینی کا خاتمہ نہیں ہوا لیکن سندھ حکومت نے اپنے کام کی رفتار تیز کر دی ہے۔ سید ناصر حسین شاہ اور عبدالباری پتافی کو دوبارہ سندھ کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اکرام اللہ دھاریجو، سہیل انور سیال کو وزیر کی حیثیت سے کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو اور ٹھٹھہ کے اعجاز شاہ شیرازی کو بھی مشیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ جام اکرام دھاریجو پہلے بھی سندھ حکومت میں احسن طریقے سے وزیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ماضی میں ایک اچھے اور ایماندار وزیر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے پر انہیں دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔
توسیع سے ایک روز قبل سندھ کابینہ نے ساڑھے سات گھنٹے تک اپنا طویل ترین اجلاس منعقد کیا، جس میں بہت اہم فیصلے کیے گئے ۔ سندھ کابینہ کی طرف سے صوبوں کی حدود تبدیل کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی مذمت کی گئی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ کشور زہرا اور دیگر 4 ارکان قومی اسمبلی نے آئینی ترمیمی بل 2019 قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ سندھ کابینہ نے کہا کہ صوبوں کی حدود تبدیل کرنے یا نئے صوبے بنانے کا بل قومی اسمبلی میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔ سندھ کابینہ نے پی ایم ڈی سی کے اس فیصلے کی بھی مذمت کی، جس کے تحت میڈیکل یونیورسٹیز یا کالجوں کے لیے سنٹر لائزڈ انٹری ٹیسٹ ہو گا۔ سندھ کابینہ نے اسے آئین اور صوبائی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس کے خلا ف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک برس مکمل ہونے سے پہلے ہی وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی ٹیم میں اہم تبدیلیاں کردی ہیں، 22 رکنی سندھ کابینہ میں کئی وزراء کے قلمدان تبدیل کردیے گئے ہیں۔ نئے وزیروں کی شمولیت کے بعد سندھ کابینہ میں رد و بدل کیا گیا ہے، قلمدانوں میں تبدیلیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر کی گئی ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعلی سندھ کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب سے محکمہ اطلاعات اور اینٹی کرپشن کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔
وہ سندھ حکومت کے ترجمان مقررکیے گئے جبکہ قانون، ماحولیات اور ساحلی ترقی کا قلمدان ان کے پاس رہے گا۔ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کو بلدیات اور سابق وزیر بلدیات سعید غنی سے بلدیات کا قلمدان واپس لیکر انہیں وزارت اطلاعات اور وزارت محنت کے قلمدان سونپ دیئے گئے ہیں۔ سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ سے محکمہ تعلیم کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے وہ سیاحت و ثقافت کے وزیر ہوں گے جبکہ صوبائی مشیر نثار کھوڑو کو اہم ترین قلمدان ورکس اینڈ سروسز کا محکمہ سونپ دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر سہیل انور سیال کو محکمہ آب پاشی کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن کا اضافی قلمدان بھی دے دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق جام اکرام دھاریجو کو امدادِ باہمی اور صنعت و تجارت، صوبائی وزیرعبدالباری پتافی کولائیواسٹاک اور فشریز، ہری رام کو محکمہ خوراک اور اقلیت صوبائی وزیراسماعیل راہو وزیر ایگریکلچر اور شبیر بجارانی کو پبلک ہیلتھ کے قلمدان دیئے گئے ہیں۔ فرازڈیرو کومحکمہ ری ہیبلیٹیشن ''بحالی''صوبائی وزیر تیمور تالپورکو انفارمیشن ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، غلام مرتضٰی بلوچ کو آبادکاری ، مشیر اعجاز علی شاہ شیرازی کو سوشل ویلفیئر اور بنگل خان مہر کو اسپورٹس اور یوتھ افیئرزکا قلمدان دیا گیا ہے۔
سندھ میں تعلیم کی وزارت کا قلمدان فی الحال وزیراعلی سندھ کے پاس رہے گا ۔ سندھ کابینہ میں نئے وزراء اور مشیروں کی شمولیت سمیت مختلف وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت نئے وزراء کی ٹیم کے ساتھ صوبے کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مزید اقدام کرنا چاہتی ہے اور وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنی کابینہ کی نئی ٹیم کے ساتھ صوبے کی ترقی کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔ آئندہ دنوں میں یہ صورت حال واضح ہو جائے گی کہ کس وزیر یا مشیر کی کارکردگی سے پیپلز پارٹی کی قیادت مطمئن یا غیر مطمئن ہے یا سندھ کابینہ میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی میں صفائی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس مہم کو فوٹو سیشن قرار دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مہم کے کراچی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گھوٹکی کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے استعفیٰ دینے والے دو وزراء کو نہ صرف دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے بلکہ مزید تین رہنماؤں کو بھی سندھ کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس سے ایک دن قبل سندھ کابینہ کا ساڑھے سات گھنٹے طویل اجلاس منعقد ہوا، جس میں بہت اہم فیصلے کیے گئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے کام کی رفتار تیز کر دی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں صفائی مہم کا آغاز کر دیاہے ۔ اس مہم کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
سندھ کابینہ میں توسیع بہت پہلے ہونا تھی لیکن گھوٹکی کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے 2 وزراء سید ناصر حسین شاہ اور عبدالباری پتافی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا کیونکہ انہوں نے گھوٹکی میں انتخابی مہم میں حصہ لینا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے اس انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ این اے ۔ 205 کی نشست سردار علی محمد خان مہر کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ 21 مئی 2019 ء کو ان کا انتقال ہوا۔ وہ اس وقت وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات کے عہدے پر فائز تھے۔
وہ گھوٹکی سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے تھے لیکن گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) کے اتحادی تھے۔ سردار علی محمد خان مہر سندھ کے وزیراعلی بھی رہے۔ اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی نے سردار محمد بخش مہر کو اپنا امیدوار نامزد کیا، جو وزیراعلی سندھ کے مشیر تھے۔
ان کے مقابلے میں مہر گروپ نے سردار علی محمد مہر کے صاحبزادے سردار احمد علی کو امیدوار نامزد کیا۔ دونوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ تھا لیکن 23 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں حیران کن نتیجہ سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار محمد بخش مہر نے 89285 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ سردار احمد علی کو 72509 ووٹ ملے۔ اس کامیابی کے بعد 25 جولائی کو کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کی دیگر جماعتوں نے بہت بڑا جلسہ عام منعقد کیا۔ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی اور کراچی کے بڑے جلسہ عام سے سندھ حکومت کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ اگلے روز اسلام آباد میں بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کاکہنا تھاکہ کچھ عناصر 2007 سے سندھ حکومت کو ختم کرنے کے لیے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن وہ ناکام رہیں گے۔ یہ عناصر سندھ حکومت گرا کر دکھائیں۔ 90 دنوں میں پہلے سے زیادہ اکثریت سے واپس آئیں گے۔
سندھ کے سیاسی حالات کے بارے میں اگرچہ غیر یقینی کا خاتمہ نہیں ہوا لیکن سندھ حکومت نے اپنے کام کی رفتار تیز کر دی ہے۔ سید ناصر حسین شاہ اور عبدالباری پتافی کو دوبارہ سندھ کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اکرام اللہ دھاریجو، سہیل انور سیال کو وزیر کی حیثیت سے کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو اور ٹھٹھہ کے اعجاز شاہ شیرازی کو بھی مشیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ جام اکرام دھاریجو پہلے بھی سندھ حکومت میں احسن طریقے سے وزیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ماضی میں ایک اچھے اور ایماندار وزیر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے پر انہیں دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔
توسیع سے ایک روز قبل سندھ کابینہ نے ساڑھے سات گھنٹے تک اپنا طویل ترین اجلاس منعقد کیا، جس میں بہت اہم فیصلے کیے گئے ۔ سندھ کابینہ کی طرف سے صوبوں کی حدود تبدیل کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی مذمت کی گئی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ کشور زہرا اور دیگر 4 ارکان قومی اسمبلی نے آئینی ترمیمی بل 2019 قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ سندھ کابینہ نے کہا کہ صوبوں کی حدود تبدیل کرنے یا نئے صوبے بنانے کا بل قومی اسمبلی میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔ سندھ کابینہ نے پی ایم ڈی سی کے اس فیصلے کی بھی مذمت کی، جس کے تحت میڈیکل یونیورسٹیز یا کالجوں کے لیے سنٹر لائزڈ انٹری ٹیسٹ ہو گا۔ سندھ کابینہ نے اسے آئین اور صوبائی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس کے خلا ف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک برس مکمل ہونے سے پہلے ہی وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی ٹیم میں اہم تبدیلیاں کردی ہیں، 22 رکنی سندھ کابینہ میں کئی وزراء کے قلمدان تبدیل کردیے گئے ہیں۔ نئے وزیروں کی شمولیت کے بعد سندھ کابینہ میں رد و بدل کیا گیا ہے، قلمدانوں میں تبدیلیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر کی گئی ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعلی سندھ کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب سے محکمہ اطلاعات اور اینٹی کرپشن کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔
وہ سندھ حکومت کے ترجمان مقررکیے گئے جبکہ قانون، ماحولیات اور ساحلی ترقی کا قلمدان ان کے پاس رہے گا۔ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کو بلدیات اور سابق وزیر بلدیات سعید غنی سے بلدیات کا قلمدان واپس لیکر انہیں وزارت اطلاعات اور وزارت محنت کے قلمدان سونپ دیئے گئے ہیں۔ سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ سے محکمہ تعلیم کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے وہ سیاحت و ثقافت کے وزیر ہوں گے جبکہ صوبائی مشیر نثار کھوڑو کو اہم ترین قلمدان ورکس اینڈ سروسز کا محکمہ سونپ دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر سہیل انور سیال کو محکمہ آب پاشی کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن کا اضافی قلمدان بھی دے دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق جام اکرام دھاریجو کو امدادِ باہمی اور صنعت و تجارت، صوبائی وزیرعبدالباری پتافی کولائیواسٹاک اور فشریز، ہری رام کو محکمہ خوراک اور اقلیت صوبائی وزیراسماعیل راہو وزیر ایگریکلچر اور شبیر بجارانی کو پبلک ہیلتھ کے قلمدان دیئے گئے ہیں۔ فرازڈیرو کومحکمہ ری ہیبلیٹیشن ''بحالی''صوبائی وزیر تیمور تالپورکو انفارمیشن ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، غلام مرتضٰی بلوچ کو آبادکاری ، مشیر اعجاز علی شاہ شیرازی کو سوشل ویلفیئر اور بنگل خان مہر کو اسپورٹس اور یوتھ افیئرزکا قلمدان دیا گیا ہے۔
سندھ میں تعلیم کی وزارت کا قلمدان فی الحال وزیراعلی سندھ کے پاس رہے گا ۔ سندھ کابینہ میں نئے وزراء اور مشیروں کی شمولیت سمیت مختلف وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت نئے وزراء کی ٹیم کے ساتھ صوبے کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مزید اقدام کرنا چاہتی ہے اور وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنی کابینہ کی نئی ٹیم کے ساتھ صوبے کی ترقی کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔ آئندہ دنوں میں یہ صورت حال واضح ہو جائے گی کہ کس وزیر یا مشیر کی کارکردگی سے پیپلز پارٹی کی قیادت مطمئن یا غیر مطمئن ہے یا سندھ کابینہ میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی میں صفائی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس مہم کو فوٹو سیشن قرار دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مہم کے کراچی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔