محبوبہ مفتی کا سچ
ہمیں محبوبہ مفتی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کے اجداد نے نہ سہی، انہوں نے تو یہ سچ قبول کیا
وطن عزیز کی سرزمین سے پھلنے پھولنے والے، قائداعظم کو پوری زندگی لبرل ثابت کرنے میں مصروف رہے۔ ان کے شیعہ، سنی ہونے کی بحث میں الجھے رہے۔ اس بات میں مگن رہے کہ وہ کتنے باعمل مسلمان تھے؟ انہوں نے برطانیہ میں کیسی زندگی گزاری؟ ہمارے ہاں کے نقاد اس حقیقت کی طرف جانا گوارا ہی نہیں کرتے تھے کہ دنیا میں کتنے رہنما ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدلا ہو۔
نیلسن منڈیلا تاریخ کا ایک بڑا آزادی پسند رہنما ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ لیکن نیلسن منڈیلا نے موجودہ جنوبی افریقہ میں ہی انسانی حقوق کےلیے جہدوجہد کی، جبکہ قائد اعظم نے برطانوی و ہندو راج دونوں کے خلاف جہدوجہد کی اور یہ ثابت کیا کہ تہذیب، تمدن، مذہب، رہن، سہن کے حوالے سے ہندو و مسلم الگ ہیں۔ اور کسی بھی طرح سے ایک نہیں ہیں۔ ہندوستان کی آزادی اہم اس لیے نہیں کہ گورا ہندو قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کے قیام کا راستہ روکنا چاہتا تھا۔ یہ تو جب عظیم قائد کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہا تو دو مملکتوں نے وجود میں آنا ہی تھا۔ لیکن قائداعظم دونوں محاذ پر لڑے۔
دونوں محاذ پر قائداعظم کیسے لڑے؟ ایک وہ محاذ جو گورے نے اور متحدہ ہندوستان کے ہندوؤں نے پاکستان کے قیام اور قائداعظم کے خلاف قائم کر رکھا تھا۔ اور دوسرا محاذ وہ تھا جو ہندوستان کے ان مسلمانوں نے قائم کر رکھا تھا جو تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں رہے۔ گورے و بنیے کے باہمی گٹھ جوڑ کو قائد نے شکست دے ڈالی اور تاریخ کے ان چند رہنماؤں میں شمار ہوئے جو دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے کا سبب بنے۔
دو قومی نظریہ وقتی ابال نہیں تھا، یہ محبوبہ مفتی کے اپنے آپ سے، اپنے آباؤ اجداد سے گلہ کرنے سے ثابت ہوگیا ہے۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ جیسے بھارت نواز رہنما بھی آج جس طرح مقبوضہ کشمیر میں حراست میں ہیں، یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ دو قومی نظریے کی مخالفت کرنے والے رفتہ رفتہ اپنی غلطی کا ادراک کریں گے۔ کچھ ایسے ہیں، جنہیں ادراک جلدی ہوا، وہ عقلمندوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو غلطی ماننے کو بزدلی نہیں سمجھتے۔ اور غلطی نہ ماننے والوں نے وقتی عہدوں کی بندربانٹ میں اپنے لیے جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ حقیقتاً دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام لیوا ہیں۔ لیکن ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔
آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا چہرہ ملاحظہ کیجئے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سکھوں، عیسائیوں، مسلمانوں کے گرد عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے، مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے تو دوسری جانب اپنے سینے پر بابری مسجد و گجرات فسادات کا داغ تمغے کی طرح سجائے لوگ حکمران بن جاتے ہیں۔ اور اس سب سے بڑی جمہوریت کے لوگوں کا کیا کہنا کہ ایسے لوگوں کو دوسری مرتبہ بھی موقع فراہم کرتے ہیں۔ (معدودے چند، کچھ روشن چراغ آوازوں کی صورت جو جل رہے ہیں، ان کی آواز اس بے ہنگم شور میں دب سی جاتی ہے)۔
جب کہ دوسری جانب اسلامی نظریاتی مملکت میں آپ ہندو ہیں، عیسائی ہیں، سکھ ہیں، آپ بطور اقلیت ہر طرح کے حقوق رکھتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کچھ مسائل درپیش رہے، لیکن ریاست نہیں بلکہ چند شرپسند عناصر ان مسائل کی وجہ رہے۔
یاد رہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دیس میں ریاست اقلیتوں کے خلاف محاذ قائم کیے رہی، اور کیے ہوئے ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی کبھی بھی ریاستی سطح پر پشت پناہی نہیں کی گئی۔ بلکہ ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے کی بھی کوشش کی گئی جو ایسی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ اور پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف کم و بیش ہر واقعے کے تانے بانے دہشت گردی سے جاملتے ہیں، جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کےلیے ہمارے ازلی دشمن کی جانب سے ہی کی جاتی رہی ہے۔
ہمیں محبوبہ مفتی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کے آبا و اجداد نے نہ سہی، انہوں نے تو یہ سچ قبول کیا۔ اور سچ قبول کرنا تو کسی صورت بزدلی نہیں ہوتی۔ ان کا 1947 کی مقبوضہ خطے کی قیادت کا دو قومی نظریے کو مسترد کرکے بھارت کے حق میں کھڑے ہونے کو غلط کہنا یقینی طور پر تاریخ میں رقم ہوگا۔ اور کئی دہائیوں بعد قائداعظم کے مؤقف کی تائید ہے۔ اور دو قومی نظریے پر بھی مہر ثبت کرتا ہوا مؤقف ہے محبوبہ مفتی کا۔
یہ بیان نہیں ہے، ایک پکار ہے۔ پکار ہے دو قومی نظریے کی صداقت کا اعلان کرتی ہوئی۔ رفتہ رفتہ آوازیں بلند ہوں گی، سچائی کا دامن تھامنے والوں کی فہرست طویل ہوگی۔ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹس میں بجا طور پر ایک پرانا قصہ شیئر کیا کہ ''کٹتے ہوئے درخت اس لیے کلہاڑے کےلیے ووٹ ڈالتے رہے کہ کلہاڑے میں لگا دستہ لکڑی کا تھا''۔ کاش محبوبہ مفتی کا یہ سچ بھی حقیقی ہو، سیاسی نہ ہو۔
اور جہاں تک تعلق ہے کشمیر کا اور کشمیریوں کا... حیران کن طور پر اس آرٹیکل کا ہٹنا اس خطے کےلیے مسائل کا باعث تو بن رہا ہے اور بنے گا بھی۔ لیکن اس آرٹیکل کے ہٹنے یا رہنے سے حریت پسندوں کی سوچ پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا ظلم کے خلاف آواز اٹھنا بند ہوجائے گی؟ کیا کشمیری ماؤں کی کوکھ بزدل بچے پیدا کرنا شروع کردے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نیلسن منڈیلا تاریخ کا ایک بڑا آزادی پسند رہنما ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ لیکن نیلسن منڈیلا نے موجودہ جنوبی افریقہ میں ہی انسانی حقوق کےلیے جہدوجہد کی، جبکہ قائد اعظم نے برطانوی و ہندو راج دونوں کے خلاف جہدوجہد کی اور یہ ثابت کیا کہ تہذیب، تمدن، مذہب، رہن، سہن کے حوالے سے ہندو و مسلم الگ ہیں۔ اور کسی بھی طرح سے ایک نہیں ہیں۔ ہندوستان کی آزادی اہم اس لیے نہیں کہ گورا ہندو قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کے قیام کا راستہ روکنا چاہتا تھا۔ یہ تو جب عظیم قائد کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہا تو دو مملکتوں نے وجود میں آنا ہی تھا۔ لیکن قائداعظم دونوں محاذ پر لڑے۔
دونوں محاذ پر قائداعظم کیسے لڑے؟ ایک وہ محاذ جو گورے نے اور متحدہ ہندوستان کے ہندوؤں نے پاکستان کے قیام اور قائداعظم کے خلاف قائم کر رکھا تھا۔ اور دوسرا محاذ وہ تھا جو ہندوستان کے ان مسلمانوں نے قائم کر رکھا تھا جو تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں رہے۔ گورے و بنیے کے باہمی گٹھ جوڑ کو قائد نے شکست دے ڈالی اور تاریخ کے ان چند رہنماؤں میں شمار ہوئے جو دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے کا سبب بنے۔
دو قومی نظریہ وقتی ابال نہیں تھا، یہ محبوبہ مفتی کے اپنے آپ سے، اپنے آباؤ اجداد سے گلہ کرنے سے ثابت ہوگیا ہے۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ جیسے بھارت نواز رہنما بھی آج جس طرح مقبوضہ کشمیر میں حراست میں ہیں، یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ دو قومی نظریے کی مخالفت کرنے والے رفتہ رفتہ اپنی غلطی کا ادراک کریں گے۔ کچھ ایسے ہیں، جنہیں ادراک جلدی ہوا، وہ عقلمندوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو غلطی ماننے کو بزدلی نہیں سمجھتے۔ اور غلطی نہ ماننے والوں نے وقتی عہدوں کی بندربانٹ میں اپنے لیے جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ حقیقتاً دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام لیوا ہیں۔ لیکن ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔
آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا چہرہ ملاحظہ کیجئے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سکھوں، عیسائیوں، مسلمانوں کے گرد عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے، مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے تو دوسری جانب اپنے سینے پر بابری مسجد و گجرات فسادات کا داغ تمغے کی طرح سجائے لوگ حکمران بن جاتے ہیں۔ اور اس سب سے بڑی جمہوریت کے لوگوں کا کیا کہنا کہ ایسے لوگوں کو دوسری مرتبہ بھی موقع فراہم کرتے ہیں۔ (معدودے چند، کچھ روشن چراغ آوازوں کی صورت جو جل رہے ہیں، ان کی آواز اس بے ہنگم شور میں دب سی جاتی ہے)۔
جب کہ دوسری جانب اسلامی نظریاتی مملکت میں آپ ہندو ہیں، عیسائی ہیں، سکھ ہیں، آپ بطور اقلیت ہر طرح کے حقوق رکھتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کچھ مسائل درپیش رہے، لیکن ریاست نہیں بلکہ چند شرپسند عناصر ان مسائل کی وجہ رہے۔
یاد رہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دیس میں ریاست اقلیتوں کے خلاف محاذ قائم کیے رہی، اور کیے ہوئے ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی کبھی بھی ریاستی سطح پر پشت پناہی نہیں کی گئی۔ بلکہ ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے کی بھی کوشش کی گئی جو ایسی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ اور پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف کم و بیش ہر واقعے کے تانے بانے دہشت گردی سے جاملتے ہیں، جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کےلیے ہمارے ازلی دشمن کی جانب سے ہی کی جاتی رہی ہے۔
ہمیں محبوبہ مفتی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کے آبا و اجداد نے نہ سہی، انہوں نے تو یہ سچ قبول کیا۔ اور سچ قبول کرنا تو کسی صورت بزدلی نہیں ہوتی۔ ان کا 1947 کی مقبوضہ خطے کی قیادت کا دو قومی نظریے کو مسترد کرکے بھارت کے حق میں کھڑے ہونے کو غلط کہنا یقینی طور پر تاریخ میں رقم ہوگا۔ اور کئی دہائیوں بعد قائداعظم کے مؤقف کی تائید ہے۔ اور دو قومی نظریے پر بھی مہر ثبت کرتا ہوا مؤقف ہے محبوبہ مفتی کا۔
یہ بیان نہیں ہے، ایک پکار ہے۔ پکار ہے دو قومی نظریے کی صداقت کا اعلان کرتی ہوئی۔ رفتہ رفتہ آوازیں بلند ہوں گی، سچائی کا دامن تھامنے والوں کی فہرست طویل ہوگی۔ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹس میں بجا طور پر ایک پرانا قصہ شیئر کیا کہ ''کٹتے ہوئے درخت اس لیے کلہاڑے کےلیے ووٹ ڈالتے رہے کہ کلہاڑے میں لگا دستہ لکڑی کا تھا''۔ کاش محبوبہ مفتی کا یہ سچ بھی حقیقی ہو، سیاسی نہ ہو۔
اور جہاں تک تعلق ہے کشمیر کا اور کشمیریوں کا... حیران کن طور پر اس آرٹیکل کا ہٹنا اس خطے کےلیے مسائل کا باعث تو بن رہا ہے اور بنے گا بھی۔ لیکن اس آرٹیکل کے ہٹنے یا رہنے سے حریت پسندوں کی سوچ پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا ظلم کے خلاف آواز اٹھنا بند ہوجائے گی؟ کیا کشمیری ماؤں کی کوکھ بزدل بچے پیدا کرنا شروع کردے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔