سینیٹ میں عدم اعتماد

پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے ہر جانب سے وار کیے جارہے ہیں۔

پاکستان کی ''جمی جمائی'' سیاسی جماعتوں کی قیادت موروثی ہے۔ پیپلز پارٹی پر ذوالفقار بھٹو کے ورثاء کا حکم چلتا ہے۔ یہی حال مولانا مفتی محمود اور باچا خان کی پارٹیوں کا ہے اور اب نواز شریف کی جماعت بھی خاندانی جاگیر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اس سے مستثنیٰ ہیں۔

انتخابات میں عمران خان کی کام یابی نے گزشتہ پچاس برسوں سے جاری سیاسی نظام کو چیلنج کیا۔ سیاستدان سیاست کو اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے خوش نما نعروں اور شعلہ بیانی کی آڑ میں قوم کو گمراہ کرتے رہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت ''پارلیمانی جمہوریت'' کے برطانوی تصور کو پوری طرح سمجھتی ہی نہیں کہ یہ نظام دولت کی ہوس میں مبتلا خاندانوں کو اقتدار میں رکھنے کا ذریعہ ہے، جہاں یہ بظاہر تو ایک دوسرے کے خلاف انتخابات کے میدان میں اترتے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے تو ایک دوسرے کے شراکت دار بن جاتے ہیں۔

''میثاقِ جمہوریت'' اقتدار کے حصول کے لیے بنائے گئے ایک شاطرانہ منصوبے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اس کے بعد دو جماعتوں میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری تھا اور اسی لیے اس نظام میں تبدیلی کے لیے اٹھنے والی کسی بھی آواز کے خلاف ایک دہائی سے متحد ہیں۔ مشترکہ مفادات کا تحفظ اس گٹھ جوڑ کی بنیاد تھا۔

2008 سے 2018 کی دہائی میں معیشت زوال پذیر رہی لیکن قومی دولت سے جیبیں بھرنے والے امیر سے امیر تر ہوتے رہے۔ یہ خاندانی سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ کھلی اقربا پروری، سیاسی وفاداریوں اور رشوت کی بنیاد پر ملازمتوں کی فروخت، دھوکا دہی، جھوٹ اور فریب کاری، جائیداد کی غیر قانونی منتقلی وغیرہ کے کلچر کو فروغ دیتی رہیں۔ سیاسی و ذاتی انتقام کے لیے من چاہا ''احتساب'' کرکے انھوں نے اس تصور ہی کو بدنام کردیا۔

ہمارے فوجی حکمران پاکستانی جمہوریت کا درست تجزیہ کرنے میں کام یاب رہے لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش میں ان سے غلطیاں ہوئیں۔ ایوب خان کا خیال تھا پاکستان میں برطانوی طرز کی جمہوریت نہیں چل سکتی اس لیے انھوں نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ''بنیادی جمہوریت'' کا نظام وضع کیا۔ اس کے باوجود ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے اقتدار میں پاکستان نے تاریخی رفتار سے ترقی کی منازل طے کیں اور اسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ماڈل قرار دیا جانے لگا۔ ضیاء الحق نے اسلام کے بارے میں اپنا نقطہ نگاہ ملک پر تھوپنے کے لیے بے پناہ خرابی پیدا کی۔ قانون کو اسلامیانے اور جہادی نظریات کی ترویج میں ان کی غلطیوں کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

جنرل مشرف سیاسی اصلاحات اور احتساب کے واضح ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں آئے لیکن انھوں نے اپنی انا اور مقاصد پر سب کچھ قربان کردیا۔ مشرف دور اتنا خراب ثابت ہوا کہ بالآخر انھیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ریاست چلانا ان کے بس کا کام نہیں۔ مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاست دانوں کی لوٹ مار سے چشم پوشی کرتے ہوئے این آر او جیسا کالا قانون گوارہ کیا۔ اسی قانون کی بدولت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنما ایک دہائی تک برسراقتدار رہے۔


حکومت چلانے کا سیاسی تجربہ نہ ہونے کے باوجود عمران خان کی صورت میں ہمیں ایسا متبادل میسر آیا جو جاگیردارانہ خاندانی پس منظر نہیں رکھتا۔ سیاسی اصلاحات کے بارے میں عمران خان کے ظاہر کردہ عزائم نے سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو اس قدر خوف زدہ کردیا کہ وہ ''جمہوری کھیل'' کے تحفظ کے لیے ایک صف میں آکھڑے ہوئے۔ انھیں جب اندازہ ہوا کہ 2018کے انتخابی نتائج کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کی کوششیں بے اثر ثابت ہورہی ہیں تو انھوں نے حکومت کو نامعتبر کرنے کے لیے جان مارنے کی ٹھانی۔

2018کے سینیٹ انتخابات میں، تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں، آزاد امیدوار کی حیثیت سے صادق سنجرانی بلوچستان کی جنرل سیٹ پر منتخب ہوئے اور 103میں سے57ووٹ حاصل کرکے سینیٹ کے آٹھویں چیئرمین منتخب ہوئے۔ پرانے کھلاڑیوں نے سینیٹ کو ''جمہوریت'' کی آڑ میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے والے سیاستدانوں کے ہاتھ کی چھڑی بنانے کے لیے صادق سنجرانی کی مخالفت کا فیصلہ کیا۔ پارلیمنٹ کو کمزور بنانے کے لیے لائی گئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی حکومت کی بڑی کام یابی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سنجرانی کو بچانے کے لیے وہی طور طریقے اختیار کیے گئے، عمران خان اور تحریک انصاف جن کے خاتمے کا دَم بھرتے ہیں۔

عدم اعتماد کی ناکامی کو یقینی بنانے کی کوشش سے جمہوریت متاثر ہوئی تاہم ''نیا پاکستان'' کی تشکیل کا ایجنڈہ جاری رکھنے کے لیے یہ مجبوری تھی۔ سینیٹ میں انتخاب کا بالواسطہ طریقہ کار ''ہارس ٹریڈنگ''، خرید و فروخت، اثرورسوخ کے استعمال اور مداخلت کی راہیں فراہم کرتا ہے۔ سینیٹرز اپنے ضمیر کی آواز پر ملک کے لیے ووٹ نہیں دیتے، وہ اپنے فائدے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ جب تک سینیٹ کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کریں گے، سینیٹر اپنی زیادہ سے زیادہ بولیاں لگواتے رہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے حاصل بزنجو کی جانب سے سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں ڈی جی آئی ایس آئی کی مداخلت کے الزام کو مسترد کردیا۔ پارلیمنٹ کو غیر مؤثر بنانے سے ملک کا معاشی بحران مزید شدید ہوگا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انتشار سڑکوں پر بھی آسکتا ہے۔ موجودہ حالت 2013اور 2018کے انتخابی نتائج کا ملغوبہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ 2013کے انتخابات کے دوران پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے من مانے نتائج حاصل کیے تھے۔

ایک طبقے کا خیال ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے عزائم میں کام یاب ہوجاتی تو حکومت کو اچھا خاصا دباؤ میں لا سکتی تھیں۔ خطے کی موجوہ صورت حال میں جب ہمیں بھارت کی جانب سے ہائیبرڈ وار فیئر کا سامنا ہے وہ ہمیں کشمیر اور ایل او اسی پر کیے گئے اقدامات سے مسلسل اکسانے کی کوشش کررہا ہے ، پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے ہر جانب سے وار کیے جارہے ہیں۔ اندرونی و بیرونی خطرات کے مقابلے میں ہر قیمت پر قومی سلامتی کا تحفظ اور بھارتی سازشوں کو ناکام بنانا ہمارے اداروں کے فرائض میں شامل ہے۔ ان انتخابات میں ایک جمہوری سقم دور کردیا گیا اور دوسرا سینیٹ کے نام پر قوم سے کیا گیا مذاق بھی آشکار ہوگیا۔جب سوال قومی سلامتی کا ہو تو اس کے لیے کام یابی ہی واحد جواز ہوتی ہے۔

( فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story