ضرورت ہے سماجی آزادی کی

معیار تعلیم ہر برس گر رہا ہے گویا یہ شعبہ نجی اداروں کو منتقل ہونے کے بعد عام شہری تعلیم سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔

ماہ رواں جسے ماہ آزادی بھی کہا جاتا ہے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسی ماہ میں یعنی 14 اگست 1947ء کو ہمیں آزادی جیسی نعمت عطا ہوئی ، یہ آزادی ہمیں کسی نے تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کی بلکہ یہ آزادی مرہون منت ہے کروڑوں لوگوں کی جدوجہد و لاکھوں لوگوں کی شہادت کی۔ یہ آزادی ثمر ہے ٹیپو سلطان جیسے شہدا کی جنھوں نے ایک جملہ بول کر پورے ہندوستان کے باسیوں کو نیا ولولہ عطا کردیا وہ جملہ یہ تھا '' گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔'' یہ جنگ آزادی کا پہلا سپاہی ہے۔

جس نے 4 مئی 1799ء کو جام شہادت نوش کیا پھر سندھ کے عظیم سپوت ہوش محمد شیدی کو کون فراموش کرسکتا ہے جس نے 1843ء میں 43 برس کی عمر میں شہادت کا رتبہ پایا۔ شہادت کے وقت اس کے لبوں پر یہ الفاظ تھے ''مر ویسوں مر ویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں'' جب کہ جھانسی کی رانی و حضرت محل کی جدوجہد کو تسلیم نہ کرنا بھی کیا زیادتی نہ ہوگی؟ یہ ان لوگوں میں شمار تھے جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں سے لڑائی کرتے ہوئے بہادری کی نئی نئی مثالیں قائم کیں۔ پھر 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی اور ہندوستان پر برٹش سرکارکے 90 سالہ دور اقتدار میں کتنے ہی اس دھرتی کے جیالوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

عرض کرتا چلوں کہ 1857ء سے قبل تقریباً سو برس تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر اپنا قبضہ جمائے رکھا اور 1857ء کے بعد برٹش سرکار نے تمام ہندوستانی امور اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ 1857ء سے چودہ اگست 1947ء تک بے شمار جنگ آزادی کے مجاہدین میدان عمل میں آئے اور آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اور قید وبند کے ساتھ ساتھ جام شہادت بھی نوش کیا، ایسے لوگوں میں نامور صحافی سیاسی و سماجی کارکن حسرت موہانی بھی شامل ہیں جنھوں نے اسیری کے دوران ایک من گندم یومیہ چکی سے پیسنا قبول کیا مگر آزادی کا پرچم ایسا تھاما کہ اسے جھکنے نہ دیا۔

پانچ دریاؤں کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے رائے احمد کھرل، ملنگی، نظام لوہار بھگت سنگھ سندھ دھرتی کے عظیم روحانی بزرگ سوریہ شاہ المعروف پیر صاحب پگاڑو۔کون ہے جو ان مجاہدین کی قربانیوں سے انحراف کرسکتا ہے؟ جب کہ دیس پنجاب سے آزادی کی تحریکوں غدر پارٹی کی تحریک وپگڑی سنبھال جٹا و تحریک ریشمی رومال نے بھی جنگ آزادی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پھر ایک قابل ذکر نام سبھاش چندر بھوش کا بھی ہے جنھوں نے باقاعدہ اپنی جلا وطن حکومت قائم کی اور آزادی کی جنگ لڑی۔

یہ ضرور ہے کہ قیام پاکستان کا کریڈٹ قائد اعظم و مسلم لیگ کو دیا جاتا ہے جب کہ ہندوستان میں آزادی کا کریڈٹ گاندھی جی و موتی لال کے سپوت جواہر لال نہرو کو دیا جاتا ہے، جب کہ انٹرنیشنل کانگریس بھی آزادی کے کریڈٹ کی حصہ دار ہے۔ بہرکیف رواں برس ہم 73 واں یوم آزادی و 72 ویں آزادی کی سالگرہ منا رہے ہیں ان آزادی کے 72 برسوں کا اگر ہم تجزیہ کریں تو ایک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ لاتعداد لوگوں کی قربانیوں سے حاصل کردہ اس ملک کے حاصل کرنے کے جو مقاصد تھے ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہ امر اس لیے بھی قابل افسوس ہے کہ اس ملک میں 16 وزیر اعظم اس جماعت کے برسر اقتدار آئے جوکہ اس ملک کی بانی جماعت ہے۔ یعنی کہ مسلم لیگ۔ جب کہ دوسری سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے یہ جماعت عوامی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔


پانچ وزرا اعظم کا تعلق اس جماعت سے بھی تھا جب کہ موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اولین وزیر اعظم عمران احمد خان عصر حاضر میں برسر اقتدار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے ایک برس ہوا ہے گویا ملک میں 22 واں وزیر اعظم حکومت میں ہے جب کہ چھ نگران وزرا اعظم بھی برسر اقتدار آئے یوں کل ملاکر اس ملک کو 28 وزرا اعظم نصیب ہوئے مگر ان تمام تر حقائق کے باوجود اس خطے کے مسائل سے دوچار عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ ہر نیا سورج طلوع ہونے کے ساتھ مزید مسائل ہی لے کر آتا ہے۔

عام لوگوں کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اشیا خوردنی تک حصول میں عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ معیار تعلیم ہر برس گر رہا ہے گویا یہ شعبہ نجی اداروں کو منتقل ہونے کے بعد عام شہری تعلیم سے محروم ہوتا جا رہا ہے یوں بھی تین قسم کا تعلیمی نصاب رائج ہے جب کہ ضرورت اس امرکی ہوتی ہے کہ پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم ہو، صحت کا شعبہ بھی قابل ذکر کارکردگی کا حامل نہیں ہے۔ اس شعبے کی اس کیفیت کا باعث یہ ہے کہ یہ شعبہ نجی شعبے میں جاچکا ہے جو سرکاری ادارے عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں وہ بہرکیف غنیمت ہیں۔

اشرافیہ چونکہ اپنا علاج ان اسپتالوں میں کروانا پسند نہیں کرتے اور سالانہ چیک اپ تک غیر ممالک سے کرواتے ہیں وہ بھی حکومتی اخراجات پر۔ پھر وہ کیوں ان اسپتالوں میں بہتر سہولیات فراہم کرنے لگے؟ روزگارکا یہ عالم ہے کہ جب سے صنعتی ادارے نجی شعبے میں دینے کا عمل شروع ہوا ہے گویا بیروزگاری کا ایک جن ہے جوکہ بوتل سے باہر آچکا ہے بیروزگاری کا یہ عالم ہے کہ اس وقت بھی ستر سے اسی لاکھ پاکستانی دیار غیر میں اپنے پیاروں سے دور فقط روزگار کی خاطر مقیم ہیں تصور کریں اگر دیار غیر میں مقیم پاکستانی واپس آ جائیں تو پھر بیروزگاری کی کیفیت کیا ہوگی۔ سرمایہ داری و وڈیرہ شاہی جبر و استحصال کے ساتھ ساتھ پولیس گردی ایک الگ مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے ملک میں اگرچہ جمہوری حکومت ہے مگر تمام تر مصائب کے باوجود کسی قسم کے کھلے عام احتجاج کرنے کی اجازت نہیں۔

فقط ایک مثال دوں گا 21 جولائی 2019ء کو مزدور کسان پارٹی کی جانب سے ایک لانگ مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ پیدل لانگ مارچ تھا جسے مہنگائی مکاؤ لانگ مارچ کا نام دیا گیا تھا جب یہ لانگ مارچ دبئی ٹاؤن لاہور سے روانہ ہوا تو اسے جگہ جگہ رکاوٹیں ڈال کر روکا گیا جب کہ اس لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد انتہائی قلیل تھی، البتہ یہ ضرور تھا کہ اس لانگ مارچ میں شرکا کی منزل تھی اسلام آباد پریس کلب، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اس لانگ مارچ کو اسلام آباد پریس کلب میں جانے کی اجازت نہیں ملی اور شرکا کو دینہ شہر میں روک لیا گیا۔

بہرکیف ان لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد تو نہیں نیشنل پریس کلب میں جلسے کی اجازت دی گئی جہاں ایک کثیر تعداد میں 28 جولائی 2019ء کو ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس سے مرکزی رہنماؤں افضل شاہ خاموش، ڈاکٹر تیمور الرحمن ، عوامی ورکرز پارٹی کے کراچی سے تشریف لانے والے یوسف مستی خان نے بھی خطاب کیا۔ بہرکیف یہ تمام حالات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ ہم نے جغرافیائی آزادی تو حاصل کرلی تھی البتہ سماجی آزادی حاصل نہیں کرسکے چنانچہ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ اس جبر و استحصال سے نجات تک مکمل سماجی آزادی تک جدوجہد کریں گے بالخصوص لیفٹ کے حضرات۔
Load Next Story