بظاہر آشنا بہ باطن بیگانہ

پاکستان میں بے شک اصلاح کی کوششیں ہو رہی ہیں کچھ انفرادی طور پر ہیں اور کچھ اجتماعی طور پر مگر یہ کافی نہیں ہے۔

مون سون کی جاری مسلسل بارشیں پورے پاکستان اورخصوصاً پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھاری جانی اور مالی نقصانات کا باعث بنی ہیں۔کراچی میں کچرے سے بھرے 550 نالوں کی صفائی نہ ہوسکی۔ بیشتر برساتی نالوں پر عمارتیں قائم ہیں۔دو دن کی مسلسل بارش نے ابر رحمت کو زحمت بنا دیا۔

پہلا قطرہ ٹپکا اور بجلی بند جوکئی کئی گھنٹوں تک غائب رہی۔کراچی جو پہلے ہی کچرا کنڈی بنا ہوا تھا، وہاں نالوں نے اوور فلو ہوکر اور تباہی مچا دی کئی علاقے، سڑکیں اور گلیاں زیر آب آگئیں، گٹر ابل گئے اور پانی مکانوں اور دکانوں میں داخل ہوگیا۔

پہلے ہی کراچی میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے 4 گنا زیادہ ہے، اوپر سے یہ آلودگی جوخطرناک جراثیم اور حشرات الارض کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے خطرناک امراض کا پیش خیمہ ہے۔ بیشتر کاروباری ادارے اور مارکیٹیں بند ہوگئیں۔ ٹرانسپورٹ کا لولا لنگڑا نظام بھی رک گیا۔21 شہریوں اور بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں، اگر بارش ایک دن اور جاری رہتی تو پورا شہر ہی ڈوب جاتا۔ میئر کراچی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے تعاون نہیں کیا اور وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی۔ اس باہمی چپقلش میں جو عوام کا جانی اور مالی نقصان ہوا جسے وہ ابھی تک بھگت رہے ہیں کے ذمے داروں کا تعین ہونا چاہیے۔

سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلدیاتی ادارے، واٹر بورڈ، ڈسٹرکٹ بورڈ اور سب سے اوپر سندھ حکومت آخرکسی پر تو ذمے داری آتی ہے۔آخر فوج ہی مدد کو آئی اور اس نے مختلف امدادی کام کیے اور ریسکیوکرکے متعدد افراد کی جانیں بچائیں۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک مجرمانہ اور سنگین غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔ آخرکہیں تو ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جو اس کے پیچھے ہے۔ ہر سال بارشوں کے موسم میں یہ کہانی دہرائی جاتی ہے اور انتشار پسندوں کے ہاتھ مضبوط کیے جاتے ہیں اور اس کے ذمے داران مختلف حیلوں بہانوں سے بچ کر اگلی دفعہ پھر '' منی پاکستان '' میں یہی کارروائیاں دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور باقی سارا سال مال پانی بنانے میں لگے رہتے ہیں۔

عالمی بینک کی جائزہ رپورٹ میں 2015ء سے 2018ء تک کے مالیاتی سال کا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ پاکستان کے پاس قرضوں کا انتظام رکھنے کا موثر نظام ہی نہیں اور نہ ہی سرکاری اثاثہ جات کو ضابطہ کار میں لانے کا کوئی موثر نظام ہے جس کے باعث اربوں روپوں کے فنڈز میں بے ضابطگیاں اور عدم مطابقت پیدا ہوتی ہے یہ جائزہ رپورٹ وزارت خزانہ کے خلاف چارج شیٹ ہے اور قابل مذمت بات یہ ہے کہ جو افسران 2017ء اور 2018ء کے درمیان ان اقدامات کے ذمے دار تھے وہ آج بھی حکومت کا حصہ ہیں اور ان سے کوئی جواب دہی نہیں ہو رہی۔

اسی بیوروکریسی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 سے 35 ہزار افسران بیرونی شہریت رکھتے ہیں اورکچھ ایسے بھی ہیں جو سال ہا سال سے بیرون ملک چھٹی لے کر وہاں مقیم ہیں اس کے علاوہ بیشترکی بیرون ملک جائیدادیں بھی ہیں۔ یہ لوگ آج بھی مختلف محکموں میں اعلیٰ اور حساس عہدوں پر تعینات ہیں۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے ایسے تمام افراد کے بارے میں رپورٹ مانگی تھی جس میں مختلف وزارتوں سے جن میں خارجہ، داخلہ اور دیگر اہم وزارتیں شامل تھیں مگر ہوا یہ کہ ایک رپورٹ بناکر خانہ پوری تو ہر وزارت نے کردی مگر اس میں بہت سے منظور نظر افراد کے نام چھپا لیے گئے کیا موجودہ حکومت اس معاملے پرکوئی کارروائی کر رہی ہے؟


معاشی دہشتگردی کے علاوہ پچھلی دہائیوں کے حکمران خاندانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے معاشرے کے معاشرتی اور اخلاقی رویوں کا تاروپود بکھیر دیا۔لوگوں میں جھوٹ، منافقت، چوری، بے حسی، بداخلاقی، درندگی، انتقامی رویوں اور اخلاق باختگی کو فروغ دیا۔ مزید غورکیا جائے تو یہ تمام توڑ پھوڑ بہت پہلے سے شروع ہوگیا تھا جس کو پچھلے حکمرانوں نے مہمیزکیا اور اس طرح اپنا الو سیدھا کرتے رہے جس کا خمیازہ اس ملک و قوم کو ایک لمبے عرصے تک بھگتنا پڑے گا۔ ان کے اس مکروہ عمل سے موجودہ معاشرہ کس نہج پر پہنچ چکا ہے ، اس کے لیے مندرجہ ذیل مثالیں ہی کافی ہیں۔

٭۔ بجلی کا بل زیادہ آنے پر جھگڑے میں بیٹے نے ماں کو قتل اور باپ کو شدید زخمی کردیا۔خاتون نے بے وفا آشنا کی دو سالہ بیٹی کو منہ پرکپڑا ڈال کر قتل کردیا۔

٭۔ تھرپارکر میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 5 بچے دم توڑگئے وجہ غذائی کمی اور مناسب دیکھ بھال اور طبی امداد بروقت نہ ملنا۔ رواں ماہ ہلاک بچوںکی تعداد 46 اور رواں سال 482 تک جا پہنچی اور اس وقت بھی 54 بچے زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا۔ گھر سے فائرنگ کرنے والا وکیل پکڑا گیا۔کمسن بچیوں کی آبرو ریزی اور قتل۔احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو۔ تمام غذائی اشیا میں طرح طرح کی ملاوٹ کا مسلسل جاری رہنا۔

٭۔ استاد کا طالب علم کے ہاتھوں قتل، بیشتر سرکاری محکموں میں بے دریغ رشوت کا چلن،کئی ملزموں کا دس دس سال بیس بیس سال مقدمات کا چلنا اور بعد از مرگ عدالتوں سے بے گناہ ثابت ہونا۔ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر بے گناہ افراد کا پھانسی پر چڑھنا۔ پرائیوٹ اسپتالوں اور سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی حالت زار۔ بیشتر ڈاکٹروں کا ہوس زر میں مبتلا ہوکر مریضوں کی جانوں سے کھیلنا۔ مجبور اور بے کس افراد کا مارے مارے پھرنا اور داد رسی نہ ہونے پر خودکشیاں۔ مزدوروں اور کسانوں کا بد ترین استحصال موجودہ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر دنیا کے برعکس مملکت اسلامی جمہوریت پاکستان میں جاگیرداری، سرداری اور ایک مخصوص طبقہ اشرافیہ کو جمہوریت کا نام دے کر خرید و فروخت کا بازار گرم کرنا اور عوام کو طرح طرح کے نعرے لگا کر اور بے وقوف بنا کر حکومت کرنا اور سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنا۔ یہ ہے ہماری 70 سال ترقی معکوس۔ دعوے ہمارے بڑے بڑے مگر یہ معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے اور بغیر کسی انقلابی تبدیلی کے اس کی اصلاح کا امکان مفقود ہوتا جا رہا ہے۔آزادی کی نعمت کوئی فلسطینیوں، شام، عراق اورکشمیریوں سے پوچھے جو بد ترین حالات کا شکار ہیں۔

پاکستان میں بے شک اصلاح کی کوششیں ہو رہی ہیں کچھ انفرادی طور پر ہیں اور کچھ اجتماعی طور پر مگر یہ کافی نہیں ہے۔ ملک میں جس بڑے پیمانے پر اصلاح کی ضرورت ہے وہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ بیرونی محاذ پر پاکستان کو دوطرف سے گھیرا جا رہا ہے۔ بیرونی طاقتیں اس سے وہ اقدامات کروانے کی طالب ہیں جو وہ شاید پورا نہ کرسکے اور اسی کو جواز بناکر اس کے خلاف بھرپور اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت جیسا ازلی دشمن ہے جس کو ہشکارکر سرحدوں پر محاذ گرم کیا جا رہا ہے تاکہ معاشی طور پر کمزور پاکستان پر بھرپور وار کیا جاسکے ادھر اندرونی طور پر ناتجربہ کار حکومت بجائے عوام کو ریلیف دینے کے ان کی ہڈیوں کا گودا بھی نکالنے کی فکر میں ہے کیونکہ کھال اورگوشت تو پچھلے حکمران لے گئے پہ در پہ پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو امڈا چلا آرہا ہے۔ طبقہ اشرافیہ حکومت کے قابو میں نہیں آرہا، اس میں حکومت کی ناقص پالیسیوں کا بھی دخل ہے جو لوگ ملک میں 60 سے 65 فیصد بلیک اکانومی چلا رہے تھے وہ اتنی آسانی سے قابو میں آنے والے نہیں ہیں۔ وہ ہڑتالیں اور صنعتی پہیہ جام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ملک میں بیروزگاری کا سیلاب آجائے اور حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے۔

اس میں مفاد پرست سیاستدان اور ان کے کارندے شامل ہیں وہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کے اربوں روپوں کو بچانے کے لیے عوام کو ورغلا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ احتساب کا عمل رک جائے اور ان کی اندرون ملک و بیرون ملک چھپی ہوئی دولت اور جائیدادیں تھوڑا بہت دے دلا کر بچ جائیں۔ ان حالات میں ملک کے مقتدر حلقوں کی دانش مندی کا امتحان ہے ملک اپنی تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے وقت اور تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، اس کا واحد حل عوام کو ریلیف دے کر انھیں مطمئن کرنا ہے تاکہ وہ اس نازک وقت میں کسی انتشارکا شکار نہ ہوجائیں۔
Load Next Story