مودی کا صہیونی فارمولا
جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں نئی بستیاں قائم کررہا ہے، مودی کا منصوبہ بھی کشمیر کےلیے ایسا ہی ہے
کشمیریوں کی زندگی میں 5 اگست کا دن اتنا ہی تاریخی دن ثابت ہوا ہے جتنا 26 اکتوبر کا تھا، جب مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈین ریاست کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا۔ ایک پراسرار قسم کی فوجی نقل وحمل، سیاحوں اور زائرین کو کشمیر سے نکلنے کے احکامات، انٹرنیٹ کی بندش، اپنے ہی ہمدردوں عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کی گرفتاریاں، کسی بڑے واقعے کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ اگرچہ سید علی گیلانی نے ٹویٹ کے ذریعے بی جے پی حکومت کے عزائم سے آگاہ کردیا تھا۔
پیر کے دن انڈیا نے ایک اعلان کے تحت کشمیر کو باقی ریاستوں سے علیحدہ حیثیت دینے والی شق370 اور 35A کو ختم کردیا۔ جس کے بعد کشمیر کی موجودہ حیثیت اب ویسی نہیں رہی جو اس ریاست کو انڈیا کے ساتھ الحاق کے بعد حاصل تھی۔ معاہدے کے مطابق دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ باقی کسی معاملے میں انڈین حکومت کشمیر کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی تھی۔ کشمیر کے علاقے پر انڈین آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات کا براہ راست اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی انڈین شہری کشمیر میں مستقل رہائش اور جائیداد وغیرہ نہیں رکھ سکتا تھا۔ کشمیر کا اپنا جھنڈا اور آئین تھا، جو اس خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ختم ہوگیا ہے۔ لداخ کو کشمیر سے علیحدہ کردیا گیا ہے اور کشمیر میں اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے۔ کشمیر سے متعلق یہ تمام تر اقدامات مودی کی الیکشن کیمپین کا حصہ تھے اور مودی کی دوبارہ کامیابی پر ہندونواز حلقوں کا پریشر تھا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے۔
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس کی کوشش رہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو کسی طرح بین الاقوامی منظرنامے سے غائب کردے۔ پہلی تکنیک یہ تھی کہ کشمیری مجاہدین کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے اڑی، پلوامہ اور پٹھان کوٹ جیسے ڈرامے رچائے گئے۔ ان خودساختہ حملوں کا مقصد یہ تھا کہ کشمیریوں کےلئے عالمی سطح پر ہمدردی کو ختم کیا جاسکے اور ان کے خلاف بھرپور ایکشن کےلئے عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے۔ اس میں انڈیا کو ناکامی ہوئی۔
کشمیری مجاہدین کو ان حملوں کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے بھی ایمینسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر رپوٹس شائع کیں۔ ٹرمپ کی حالیہ ثالثی کی پیشکش نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ابھار دیا ہے۔ انڈیا میں کچھ لوگ تو کشمیر کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے تھے جب کہ ٹرمپ کی پیشکش نے ان کے زخم تازہ کردیئے۔
انڈیا کے اس فعل سے لگتا ہے کہ وہ اسرائیلی ماڈل کو کشمیر میں آزمانا چاہتا ہے۔ 35A کو ختم کرنے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ مودی کے کشمیرکے متعلق کیا عزائم ہیں۔ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں نئی بستیاں قائم کرکے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ اور ان کی نسل کشی کررہا ہے، اسی طرح مودی کا منصوبہ بھی اسی طرح کا ہے۔ اس شق کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں ہندوؤں کو کشمیر میں بسایا جائے گا۔ اس طرح ایک طرف تو کشمیریوں کی شناخت کو ختم کیا جائے گا، دوسرا کل اگر انڈیا استصواب رائے کی طرف جاتا ہے تو نتائج اس کی مرضی کے ہوں گے۔ کیوںکہ تب تک کشمیری مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوچکی ہوگی۔ یہ منصوبہ کشمیریوں کی نسل کشی پر محیط ہے۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر کشمیری قیادت کو اس وقت اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ کیوں کہ آج کی کشمیری لیڈرشپ نے اپنی آئندہ نسلوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔ کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد ہوا تھا، جب بھی کوئی معاہدہ ہوتا ہے اور فریقین میں سے کوئی ایک اس سے دستبردار ہوجائے تو معاہدے کی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ انڈیا نے یکطرفہ طور پر الحاق کے معاہدے میں رد وبدل کرکے کشمیر کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے۔ دوسرا اس کی علاقائی حدود میں تبدیلی کی ہے۔ اس صورتحال میں دوسرا فریق جو کشمیری عوام اور ان کی لیڈرشپ ہے، ان کو فیصلہ کرنا ہے کہ انڈیا کی اس خلاف ورزی کے خلاف کیا کرنا چاہئے۔ انڈیا کی موجودہ حیثیت مکمل طور پر قابض کی سی ہوگئی ہے۔
مودی کا یہ صہیونی ماڈل کسی طور کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کشمیریوں کی موجودہ آزادی کی تحریک میں شدت برہان وانی کی شہادت کے بعد آئی، جو بغیر کسی بیرونی مدد کے ابھی تک جاری ہے۔ کشمیریوں کی موجودہ نوجوان نسل جو ظلم وبربریت کے ماحول میں پلی بڑھی ہے، وہ اس فیصلے کو کیسے قبول کرے گی۔ تھوڑے بہت کشمیری جن کے دل میں انڈیا کےلئے ہمدردیاں تھیں، اس فیصلے کے بعد وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔ محبوبہ مفتی، جن کا قبلہ ہمیشہ دہلی کی طرف تھا، وہ بھی بول اٹھیں کہ دو قومی نظریے کو رد کرکے انڈیا کے ساتھ الحاق کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔
انڈین حکومت کے اس فیصلے کے حق میں کشمیر سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ آنے والے دنوں میں آزادی کی تحریک میں اور جان پڑے گی۔ کشمیری قیادت اگر ایک ہوجائے تو یہ نازک مرحلہ تاریخی مرحلے میں بدل سکتا ہے۔ اسرائیل کو ہمیشہ سے امریکا کی پشت پناہی حاصل رہی ہے، اس کے باوجود بھی امریکا کے اپنے اتحادیوں نے اسرائیل کے جارحانہ عزائم کے خلاف اقوام متحدہ میں قراردادیں پاس کروائی ہیں۔ اسرائیل کو آج بھی مہذب دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تو کیا انڈیا بھی اسرائیل بننا چاہتا ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پیر کے دن انڈیا نے ایک اعلان کے تحت کشمیر کو باقی ریاستوں سے علیحدہ حیثیت دینے والی شق370 اور 35A کو ختم کردیا۔ جس کے بعد کشمیر کی موجودہ حیثیت اب ویسی نہیں رہی جو اس ریاست کو انڈیا کے ساتھ الحاق کے بعد حاصل تھی۔ معاہدے کے مطابق دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ باقی کسی معاملے میں انڈین حکومت کشمیر کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی تھی۔ کشمیر کے علاقے پر انڈین آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات کا براہ راست اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی انڈین شہری کشمیر میں مستقل رہائش اور جائیداد وغیرہ نہیں رکھ سکتا تھا۔ کشمیر کا اپنا جھنڈا اور آئین تھا، جو اس خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ختم ہوگیا ہے۔ لداخ کو کشمیر سے علیحدہ کردیا گیا ہے اور کشمیر میں اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے۔ کشمیر سے متعلق یہ تمام تر اقدامات مودی کی الیکشن کیمپین کا حصہ تھے اور مودی کی دوبارہ کامیابی پر ہندونواز حلقوں کا پریشر تھا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے۔
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس کی کوشش رہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو کسی طرح بین الاقوامی منظرنامے سے غائب کردے۔ پہلی تکنیک یہ تھی کہ کشمیری مجاہدین کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے اڑی، پلوامہ اور پٹھان کوٹ جیسے ڈرامے رچائے گئے۔ ان خودساختہ حملوں کا مقصد یہ تھا کہ کشمیریوں کےلئے عالمی سطح پر ہمدردی کو ختم کیا جاسکے اور ان کے خلاف بھرپور ایکشن کےلئے عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے۔ اس میں انڈیا کو ناکامی ہوئی۔
کشمیری مجاہدین کو ان حملوں کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے بھی ایمینسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر رپوٹس شائع کیں۔ ٹرمپ کی حالیہ ثالثی کی پیشکش نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ابھار دیا ہے۔ انڈیا میں کچھ لوگ تو کشمیر کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے تھے جب کہ ٹرمپ کی پیشکش نے ان کے زخم تازہ کردیئے۔
انڈیا کے اس فعل سے لگتا ہے کہ وہ اسرائیلی ماڈل کو کشمیر میں آزمانا چاہتا ہے۔ 35A کو ختم کرنے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ مودی کے کشمیرکے متعلق کیا عزائم ہیں۔ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں نئی بستیاں قائم کرکے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ اور ان کی نسل کشی کررہا ہے، اسی طرح مودی کا منصوبہ بھی اسی طرح کا ہے۔ اس شق کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں ہندوؤں کو کشمیر میں بسایا جائے گا۔ اس طرح ایک طرف تو کشمیریوں کی شناخت کو ختم کیا جائے گا، دوسرا کل اگر انڈیا استصواب رائے کی طرف جاتا ہے تو نتائج اس کی مرضی کے ہوں گے۔ کیوںکہ تب تک کشمیری مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوچکی ہوگی۔ یہ منصوبہ کشمیریوں کی نسل کشی پر محیط ہے۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر کشمیری قیادت کو اس وقت اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ کیوں کہ آج کی کشمیری لیڈرشپ نے اپنی آئندہ نسلوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔ کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد ہوا تھا، جب بھی کوئی معاہدہ ہوتا ہے اور فریقین میں سے کوئی ایک اس سے دستبردار ہوجائے تو معاہدے کی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ انڈیا نے یکطرفہ طور پر الحاق کے معاہدے میں رد وبدل کرکے کشمیر کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے۔ دوسرا اس کی علاقائی حدود میں تبدیلی کی ہے۔ اس صورتحال میں دوسرا فریق جو کشمیری عوام اور ان کی لیڈرشپ ہے، ان کو فیصلہ کرنا ہے کہ انڈیا کی اس خلاف ورزی کے خلاف کیا کرنا چاہئے۔ انڈیا کی موجودہ حیثیت مکمل طور پر قابض کی سی ہوگئی ہے۔
مودی کا یہ صہیونی ماڈل کسی طور کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کشمیریوں کی موجودہ آزادی کی تحریک میں شدت برہان وانی کی شہادت کے بعد آئی، جو بغیر کسی بیرونی مدد کے ابھی تک جاری ہے۔ کشمیریوں کی موجودہ نوجوان نسل جو ظلم وبربریت کے ماحول میں پلی بڑھی ہے، وہ اس فیصلے کو کیسے قبول کرے گی۔ تھوڑے بہت کشمیری جن کے دل میں انڈیا کےلئے ہمدردیاں تھیں، اس فیصلے کے بعد وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔ محبوبہ مفتی، جن کا قبلہ ہمیشہ دہلی کی طرف تھا، وہ بھی بول اٹھیں کہ دو قومی نظریے کو رد کرکے انڈیا کے ساتھ الحاق کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔
انڈین حکومت کے اس فیصلے کے حق میں کشمیر سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ آنے والے دنوں میں آزادی کی تحریک میں اور جان پڑے گی۔ کشمیری قیادت اگر ایک ہوجائے تو یہ نازک مرحلہ تاریخی مرحلے میں بدل سکتا ہے۔ اسرائیل کو ہمیشہ سے امریکا کی پشت پناہی حاصل رہی ہے، اس کے باوجود بھی امریکا کے اپنے اتحادیوں نے اسرائیل کے جارحانہ عزائم کے خلاف اقوام متحدہ میں قراردادیں پاس کروائی ہیں۔ اسرائیل کو آج بھی مہذب دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تو کیا انڈیا بھی اسرائیل بننا چاہتا ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔