خودترسی کے نشے سے چھٹکارا پائیں
خود پر ترس کھانے والوں کو یہ دنیا جیتنے کا موقع نہیں دیتی، اس لیے ہمیں اپنے آپ پر ترس کھانا چھوڑنا ہوگا
جب ہمارے اردگرد سب کچھ ہماری توقعات کے برعکس ہورہا ہو تو منفی سوچوں کا پیدا ہوجانا بھی کوئی انہونی بات نہیں۔ ایسی ذہنی کیفیت ہر کسی کو ہی درپیش آتی ہے۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ کوئی فرد کتنی جلدی اس منفی کیفیت سے باہر آتا ہے۔ اپنی ذہنی حالت پر جلدی قابو پالینا ہی مضبوط شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قابو کیسے پایا جائے تو پھر اس بات کو سمجھئے کہ اگر آپ اپنی سوچوں کا فوکس مستقل طور پر منفی باتوں، کاموں، رویوں یا نتائج پر رکھیں گے تو مزید منفی سوچیں ہی پیدا ہوں گی۔ تب ایک سے بڑھ کر ایک منفی خیال ذہن میں ابھرے گا، جو ایک زنجیر کی طرح آپ کو جکڑتا جائے گا۔ جس سے آزاد ہونا وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا جاتا ہے۔
اس لئے کسی ایک غلط رویے یا نتیجہ کے باعث خود سے ہی پہلے سوچتے رہنا، اپنے آپ ہی نتیجہ اخذ کرتے جانا کہ اب فلاں ہوگا، اب اس وجہ سے فلاں کام بھی الٹا ہوگا وغیرہ، ہمیں اس کیفیت میں لے جاتا ہے، جس میں ہم ہمت چھوڑ کر خود پر ترس کھانا شروع ہوجاتے کہ کاش میں مضبوط ہوتا، میں فلاں جیسا ہوتا، میرے پاس فلاں ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا۔ میں تو ہوں ہی ایسا، فلاں بھی میرے بارے یہی رائے رکھتا، میری تو قسمت ہی خراب ہے وغیرہ۔ مطلب کہ پھر ایسی سوچوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بندہ پہلے خود کو دوسرے سے کمتر صرف محسوس کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ واقعی میں ایسا مان لیتا ہے، اور یہیں سے شخصیت کی بربادی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمارے مسلسل رونے دھونے سے اور چہرے پر پریشانی سجائے پھرنے سے کسی دوسرے کو فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ لوگ تو الٹا اکتا جاتے ہیں، ایسے لوگوں سے کہ کیا ہے یار وہ بندہ تو ہمیشہ ہی منہ لٹکائے نظر آتا ہے۔ جب دیکھو مظلومیت کی تصویر بنا پھرتا ہے وغیرہ۔ اب یقین کریں کہ دوسروں کے ہمارے بارے میں ایسے خیالات پیدا ہوجانا لمحہ فکریہ ہے۔ کیا ہماری کوئی عزت نہیں؟ کیا چھ فٹ کے صحت مند انسان کو یہ سب باتیں سننا زیب دیتی ہیں؟ کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی؟
اگر سب علم میں ہے، سب محسوس ہوتا ہے تو پھر کیوں اپنے آپ پر ترس کررہے ہو؟ کس بات کے ہونے کا انتظار ہے؟ اور کتنی بے قدری سہنی ہے؟ اور کتنا خود کو دوسروں کی نظروں میں گرانا ہے؟
زندگی میں مشکلات کا سامنا کس فرد کو نہیں ہے؟ ہر شخص اپنی اپنی مصیبتوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ مگر ہمیں لگتا ہے باقی سب خوش اور ایک ہم ہی زندگی کے برے حالات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہم چونکہ ظاہری حالت و کیفیت پر ہی نظر رکھتے ہیں، تبھی ہم ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا پاتے۔ ورنہ کسی کے پاس بیٹھ کر، دوستانہ انداز میں حال چال لیں تو ہر شخص ہی اپنی پریشانیوں کی پٹاری کھول کر سامنے رکھ دے گا۔ کیا امیر، کیا غریب، ہر کسی کے نصیب میں ہی پریشانیوں اور ناکامیوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔
تو اس لیے صاحبو! اگر ہم اپنے مشکل حالات سے جلد باہر آنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں زبردست طریقے سے دفاع کرنا آنا چاہیے، ٹھیک ایک گول کیپر کی طرح، جو بال لے کر آگے بڑھنے والے کو دیکھ کر بھرپور جوش میں آجاتا ہے۔ پوری توجہ اور توانائی سے اس کو ہر طرف سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی جان لڑا دیتا ہے گول روکنے کےلیے۔ یہ نہیں کہ پہلے سے ہی یہ سوچ کر اپنے مقام سے ہٹ جائے کہ آنے والا تو زبردست کھلاڑی ہے، یہ تو گول کرکے ہی رہے گا، تو کیا ضرورت چوکنا ہونے کی۔ بس آرام سے کھڑے رہو۔ تو صاحب ایسا نہیں چلے گا۔
خود پر ترس کھانے والوں کو یہ دنیا جیتنے کا موقع نہیں دیتی۔ اس لیے ہمیں اپنے آپ پر ترس کھانا چھوڑنا ہوگا۔ نئی ہمت جگانی ہوگی، مثبت سوچوں سے دوستی کرنی ہوگی، تبھی کچھ پانے کا، کر دکھانے کا حوصلہ عطا ہوگا۔
پھر کیا ہوگا؟ پھر سب سیٹ ہوجائے گا، میں پھر سے بھرپور کوشش کروں گا، جیسی سوچیں اپنا کر اور سب سے پہلے اپنے آپ کو اہمیت و عزت دے کر ہی ہم خودترسی کے نشے سے جلد چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس لئے کسی ایک غلط رویے یا نتیجہ کے باعث خود سے ہی پہلے سوچتے رہنا، اپنے آپ ہی نتیجہ اخذ کرتے جانا کہ اب فلاں ہوگا، اب اس وجہ سے فلاں کام بھی الٹا ہوگا وغیرہ، ہمیں اس کیفیت میں لے جاتا ہے، جس میں ہم ہمت چھوڑ کر خود پر ترس کھانا شروع ہوجاتے کہ کاش میں مضبوط ہوتا، میں فلاں جیسا ہوتا، میرے پاس فلاں ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا۔ میں تو ہوں ہی ایسا، فلاں بھی میرے بارے یہی رائے رکھتا، میری تو قسمت ہی خراب ہے وغیرہ۔ مطلب کہ پھر ایسی سوچوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بندہ پہلے خود کو دوسرے سے کمتر صرف محسوس کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ واقعی میں ایسا مان لیتا ہے، اور یہیں سے شخصیت کی بربادی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمارے مسلسل رونے دھونے سے اور چہرے پر پریشانی سجائے پھرنے سے کسی دوسرے کو فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ لوگ تو الٹا اکتا جاتے ہیں، ایسے لوگوں سے کہ کیا ہے یار وہ بندہ تو ہمیشہ ہی منہ لٹکائے نظر آتا ہے۔ جب دیکھو مظلومیت کی تصویر بنا پھرتا ہے وغیرہ۔ اب یقین کریں کہ دوسروں کے ہمارے بارے میں ایسے خیالات پیدا ہوجانا لمحہ فکریہ ہے۔ کیا ہماری کوئی عزت نہیں؟ کیا چھ فٹ کے صحت مند انسان کو یہ سب باتیں سننا زیب دیتی ہیں؟ کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی؟
اگر سب علم میں ہے، سب محسوس ہوتا ہے تو پھر کیوں اپنے آپ پر ترس کررہے ہو؟ کس بات کے ہونے کا انتظار ہے؟ اور کتنی بے قدری سہنی ہے؟ اور کتنا خود کو دوسروں کی نظروں میں گرانا ہے؟
زندگی میں مشکلات کا سامنا کس فرد کو نہیں ہے؟ ہر شخص اپنی اپنی مصیبتوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ مگر ہمیں لگتا ہے باقی سب خوش اور ایک ہم ہی زندگی کے برے حالات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہم چونکہ ظاہری حالت و کیفیت پر ہی نظر رکھتے ہیں، تبھی ہم ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا پاتے۔ ورنہ کسی کے پاس بیٹھ کر، دوستانہ انداز میں حال چال لیں تو ہر شخص ہی اپنی پریشانیوں کی پٹاری کھول کر سامنے رکھ دے گا۔ کیا امیر، کیا غریب، ہر کسی کے نصیب میں ہی پریشانیوں اور ناکامیوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔
تو اس لیے صاحبو! اگر ہم اپنے مشکل حالات سے جلد باہر آنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں زبردست طریقے سے دفاع کرنا آنا چاہیے، ٹھیک ایک گول کیپر کی طرح، جو بال لے کر آگے بڑھنے والے کو دیکھ کر بھرپور جوش میں آجاتا ہے۔ پوری توجہ اور توانائی سے اس کو ہر طرف سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی جان لڑا دیتا ہے گول روکنے کےلیے۔ یہ نہیں کہ پہلے سے ہی یہ سوچ کر اپنے مقام سے ہٹ جائے کہ آنے والا تو زبردست کھلاڑی ہے، یہ تو گول کرکے ہی رہے گا، تو کیا ضرورت چوکنا ہونے کی۔ بس آرام سے کھڑے رہو۔ تو صاحب ایسا نہیں چلے گا۔
خود پر ترس کھانے والوں کو یہ دنیا جیتنے کا موقع نہیں دیتی۔ اس لیے ہمیں اپنے آپ پر ترس کھانا چھوڑنا ہوگا۔ نئی ہمت جگانی ہوگی، مثبت سوچوں سے دوستی کرنی ہوگی، تبھی کچھ پانے کا، کر دکھانے کا حوصلہ عطا ہوگا۔
پھر کیا ہوگا؟ پھر سب سیٹ ہوجائے گا، میں پھر سے بھرپور کوشش کروں گا، جیسی سوچیں اپنا کر اور سب سے پہلے اپنے آپ کو اہمیت و عزت دے کر ہی ہم خودترسی کے نشے سے جلد چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔