بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا

برادرممالک کوفون کرکے کشمیر کی قابل مذمت عمل کی تفاصیل بتانے کوصرف’’ کھسیانی بلی کھمبانوچے‘‘ سے ہی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

Warza10@hotmail.com

بھلا ہو سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا کہ اس کے عددی نتائج کی جادوگری دیکھ کر ہم بھونچکا رہ گئے اور اسی دم ہمیں پرانی کہاوت '' بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے'' یاد آگئی ۔

اسی لمحے ہمیں خیال آیا کہ آج کل ہماری ریاست میں عوام کی زبان بندی ، عوامی احتجاج کو خاطر میں نہ لانے کا چلن اور اظہار رائے کو ریاستی قید خانے میں بند کر دینے کی غیر آئینی روایت عام ہے سو ایسا نہ ہوکہ ہماری اس پرانی اور دانش بھری کہاوت '' بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے'' پر ہی پابندی لگ جائے، اس خطرے کے پیش نظر سوچا کہ فوری طور پر نئی نسل کو اس کہاوت کی موجودہ اہمیت سمجھا دی جائے۔

یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہمارے بزرگ '' ان پڑھ '' تھے مگر آج کے پڑھے لکھے افراد کی مانند ''جہل سوچ'' کے علمبردار ہرگز نہ تھے، ان کی دانائی اور دانش سے بھری پری کہاوتیں اور فیصلے آج بھی روشنی کا استعارہ ہیں ، یہ ان کی دانائی اور مستقبل بینی ہی تھی کہ انھوں نے ''ان پڑھ'' ہونے کے باوجود دانش مندی سے اپنی نسل کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا تاکہ وہ سماج کی تہذیبی ، سیاسی اور سماجی قدروں کو آگے بڑھائے، اب انھیں کیا معلوم تھا کہ جدید علوم کی نسل جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ سماجیات اور باہمی رشتوں سے اس قدر دور ہو جائے گی کہ وہ صرف آؤٹ لیٹ میں داخل ہوکر جنک فوڈ کی رسیا اور شیشے پینے میں مصروف مکمل '' لیٹ '' کر تہذیب اور باہمی دکھ سکھ بانٹنے کے برخلاف خوش گپیوں اور بے سروپا باتوں میں ہی سکون کی متلاشی ہوگی۔

بیتے زمانے میں باورچی خانے کی اشیا کو محفوظ رکھنے کے لیے لکڑی کی الماری مانند '' نعمت خانہ'' ہوتا تھا کہ جس کی جگہ اب جدید دور میں '' فرج'' نے لے لی ہے جب کہ سالن کو محفوظ اور تازہ رکھنے خاطر گھر کے دالان میں ''چھینکا'' ڈال کر سالن کو مفت خور جانور اور بطور خاص بلی سے محفوظ کیا جاتا تھا،گو اب چھینکے کی جگہ '' فریزر'' نے لے لی ہے مگر سالن کا سواد اور تازگی تقریباً رخصت ہو چلی ہے۔ اب گھر یا پڑوس کی لالچی بلیاں '' فرج'' کے گرد صرف منڈلاتی ہیں جب کہ بلیوں کے کھانے کے ذرایع محدود کردیے گئے ہیں، مگر دوسری جانب حضرت انسان کا پیٹ اتنا وسیع ہو چلا ہے کہ وہ جتھوں اور بٹالین کی طرح زمین اور جائیداد اس بری طرح کھا رہے ہیں کہ مجال ڈکار بھی لے لیں۔


اس کہاوت'' بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ''کی وجہ نزول یوں بیان کی گئی ہے کہ چھینکے پرگوشت کے سالن کی خوشبو سونگھ کر بلی نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح دالان میں لٹکے چھینکے تک رسائی حاصل کی جاسکے تاکہ بلی کے گوشت کھانے کی خواہش پوری ہوسکے، تمام تر کوششوں اور ناکامیوں کے بعد بلی نے گوشت تک رسائی نہ پاکر احتجاجاً چھینکے کے نیچے'' دھرنا'' دے ڈالا، کہ اچانک چھینکے کا کنڈا ٹوٹا اور پوری ہنڈیا بلی کے سامنے خود بخود آگئی ، بلی نے اسے غنیمت جان کر پیٹ بھرا اور خاموشی سے اپنی راہ لی ۔

مجھے سینیٹ الیکشن کے روز صادق سنجرانی کی گھبراہٹ اور پریشانی کے بعد اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے میں ایک مایوسی کی جھلک دکھائی دی کہ اچانک شبلی فراز نے انھیں بلایا اور شبلی فراز الیکشن بوتھ کی جانب بھاگے اور واپسی پر صادق سنجرانی کی جیت کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے جس پر پریذائیڈنگ کرنے والے سینیٹر بیرسٹر سیف نے شبلی فراز سے کہا کہ جب نتیجے کا اعلان ہی نہیں ہوا تو آپ یہ اعلان کیونکر کر رہے ہیں۔ اس کے بعد صادق سنجرانی کے چہرے پر خوشی کے آثار اس چھینکے ٹوٹنے والی بلی کی طرح نمودار ہوئے جو چھیکا ٹوٹنے کو اپنا ''بھاگ'' یعنی قسمت اور فتح سمجھ رہی تھی۔ بالکل سی طرح ہمارے سیلکیٹ کیے گئے صادق سنجرانی نے بھی'' لبیک'' کے نظر کرم کرنے والوں کو اپنا '' بھاگ'' سمجھ کر خوب خوب دعائیں دی ہوں گی '' لبیک'' کے معاہدے کے داتا کی ذرہ نوازی تھی ہی اس لائق کہ بلوچ روایات کے تحت صادق سنجرانی ان کے شکر گزار ہوں۔

بلی کے چھینکے ٹوٹنے مانند '' لبیک بھاگوان '' کی فہرست میں وہ فرمانبردار سینیٹر بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے ہدایات کے تحت ووٹ مسترد کروائے اور نہایت ڈھٹائی سے اپوزیشن کے 64 افراد کی اکثریت کے ساتھ کھڑے رہے'' بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے'' کی نوید امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کو دھوکے میں رکھنے کو بھی مودی جی اپنا '' بھاگ'' ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ ٹرمپ کے '' ٹریپ'' میں عمران خان کو کشمیر پر بھارتی صدرکی نئی قانون سازی پرایک خاص پریشانی سے گذرنا پڑا۔ اب برادر ممالک کو فون کرکے کشمیر کی قابل مذمت عمل کی تفاصیل بتانے کو صرف'' کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' سے ہی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

موجودہ حکومت کی خارجہ محاذ کی ناکامی کے بعد مجھے آج سوڈان کی عوام کے حق مانگنے اور مسلسل جدوجہد بعد قابض فوج کو مجبورکیے جانے پر رشک آ رہا ہے کہ جنہوں نے فوج کو اپنی مسلسل جدوجہد سے مجبور کیا کہ وہ'' سویلین حکومت '' کو اقتدار دے ، جو فوج کی ہائی کمان کو ماننا پڑا اور سوڈان میں عوامی حکومت قائم کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ سوڈان میں '' عوامی لہر '' کی کامیابی کے بعد کوئی بعید نہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ پاکستانی عوام جمہوریت کی آزادی خاطر سوڈان میں آج گونجنے والے اس نعرے کہ'' ہم اب عوامی راج کے علاوہ کسی بھی راج یا طاقت کو قبول نہیں کریں گے'' کو کل اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں؟
Load Next Story