جمہوریت کا مشکل ارتقائی عمل

سیاسی ارتقاء کا یہ عمل زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 2018ء کے عام انتخابات نے صورتحال بالکل تبدیل کردی۔

2006ء میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے مابین ہونے والے معاہدہ میثاقِ جمہوریت کے بعد یہ اُمید ہو چلی تھی کہ اب پاکستان میں سیاسی نظام مستحکم ہوگا۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گی اور ملک میں سیاسی کلچر مثبت انداز میں فروغ پائے گا۔

2008تا 2013پاکستان پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومت اور اس کے بعد 2013تا 2018مسلم لیگ (ن) کی پانچ سالہ حکومت میں کسی حد تک اس کی پاسداری بھی کی گئی جس سے ملک کے جمہوریت پسند عوام نے سکھ کاسانس لیا اور اس اُمید کو تقویت ملی کہ اب پاکستان میں بھی سیاست میرٹ پر ہوا کرے گی، یہاں بھی ملک و قوم کی بہتری کے ایجنڈے پر انتخابات ہوا کریں گے ۔الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں جس کی اکثریت ہوگی اُسے پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔

اس سوچ کو اُس وقت زیادہ تقویت ملی جب 2013کے انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور پنجاب میں حکومت قائم کرلی لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت قائم نہیں کی حالانکہ پختونخوا میں جمیعت علمائے اسلام (ف)کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جاسکتی تھی اور اسی طرح بلوچستان میں آزاد امیدواروں کو ملا کر حکومت سازی ہوسکتی تھی لیکن میاں نواز شریف نے ایسا کرنے سے انکارکیا اور بلوچستان میں دوسری اکثریتی جماعت نیشنل پارٹی کے ساتھ اس فارمولے کے تحت حکومت بنائی کہ ابتدائی ڈھائی سال وزیر اعلیٰ ان کا رہا اور آخری ڈھائی سال مسلم لیگ (ن) کا۔اس کے برعکس خیبر پختونخوا میںواضح اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود سب سے زیادہ نشستوں پرکامیابی حاصل کرنیوالی اپنی سب سے مخالف جماعت تحریک انصاف کی حکومت کی راہ میںکوئی رکاوٹ حائل نہیں کی۔ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے انھیں موقع فراہم کیا کہ وہ نہ صرف حکومت بنائیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کو ناراض کیا ۔

سیاسی ارتقاء کا یہ عمل زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 2018ء کے عام انتخابات نے صورتحال بالکل تبدیل کردی۔ 2018کے انتخابات سے لے کر چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی تک متعدد اقدامات سے یہ واضح کردیا کہ ہم آج بھی 90کے عشرہ میں سیاست کر رہے ہیں اور اس عشرے کی سیاسی روایات کو ایک بار پھر دوام بخشا گیا ہے، جس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب سینیٹ میں حزب اختلاف نے اکثریت کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی لیکن گنتی کے موقع پر اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد 50ووٹوں کے حصّول کے ساتھ ناکام ہوگئی۔ تحریک عدم اعتماد کوکامیابی کے لیے 53ارکانِ سینیٹ کی حمایت کی ضرورت تھی جب کہ حزب اختلاف کو فی الوقت سینیٹ میں 64 ارکان کی واضح اکثریت حاصل تھی، اس کے مقابلہ میں حکومت کے سینیٹرزکی تعداد 32 تھی لیکن تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جب خفیہ رائے شماری کا مرحلہ آیا تو حزب اختلاف کے ووٹ 64 سے کم ہوکر 50 رہ گئے اور حکومت کے حامی ارکان کی تعداد 32 سے بڑھ کر45ہوگئی جب کہ 5 ووٹ مسترد ہوگئے۔

اس طرح چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کامیابی کے تمام تجزیوں کے ساتھ ناکامی پر اختتام پذیر ہوئی۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد نے ماضی بعید کے پرانے پاکستان کی یاد تازہ کردی اُس زمانہ میں بھی اسی طرح کے نتائج دیکھنے کو ملتے تھے جب خفیہ رائے شماری کے موقع پر ارکان اسمبلی کے ضمیر جاگ جایا کرتے تھے اور وہ اپنی جماعت کے فیصلہ کے برخلاف اپنے ضمیرکا فیصلہ قبول کرتے ہوئے اپنی جماعت کے مخالف رکن کی حمایت میں اپنا ووٹ استعمال کردیتے تھے۔


اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ، با ضمیر ارکان اپنے ضمیر کے اس فیصلہ کا برملا اظہار کرتے ہوئے جانے کیوں ہمیشہ سے پس و پیش سے کام لیتے ہیں اور اس بار بھی یہی ہوا اور جب سینیٹ میں ووٹوں کی گنتی کے بعد حزب اختلاف کے ارکان نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تحریک عدم اعتماد میں اپنی رائے کے اظہار کے عمل سے بائیکاٹ کرتے ہوئے سینیٹ کے ہاؤس سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تو ان 14باضمیر ارکان کہ جن کا ضمیر ابھی کچھ وقت پہلے جاگا تھا انھوں نے بھی اپنے دوستوں کی تائیدکی اور وہ بھی ہاؤس سے باہرچلے گئے ۔

اس طرزِ عمل سے اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ جن 14ارکان نے حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کو اپنی تائید سے محروم رکھا وہ ان کے ضمیرکا فیصلہ نہیں تھا کیونکہ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جب انسان کوئی کام اپنے ضمیر کے اطمینان کے لیے کرتا ہے تو پھر اُسے'' حُر'' بننا پڑتا ہے ،کبھی زہر کا پیالہ حلق سے اُتارنا پڑتا ہے۔ ضمیر جاگنے کا وصف کوئی معمولی نہیں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے پھرکہیں تاریخ اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ کس مرحلہ پر کس شخص نے مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ضمیرکے مطابق فیصلہ کیا۔

جب کوئی شخص اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر کوئی اقدام اُٹھاتا ہے تو اُسے نہ خوف لاحق ہوتا ہے ،نہ کسی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے اور نہ کوئی مجبوری اُس کے فیصلوں کو کمزورکرپاتی ہے وہ بلا خوف و خطر نفع و نقصان کی تمام سرحدوں کو عبور کرکے بر ملا اپنے ضمیر کی آواز اور اس کے فیصلہ کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے لیکن سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد یہاں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج با ضمیر ارکان کو تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہر سینیٹر کا یہی کہنا ہے کہ وہ قطعی طور پر ضمیر کے ہاتھوں مجبور نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے اپنی جماعت کے فیصلہ کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ایسے میں اس عمل کو کیا کہا جائے؟اسے تو پھر یقینی طور پر ہارس ٹریڈنگ ہی کا نام دیا جاسکتا ہے۔

ویسے تو تحریک انصاف اور اس کی حکومت سے اب سب کچھ متوقع ہے کیونکہ انھوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے جو جو دعوے کیے اور جن جن سنہری اصولوں پر چلنے اور ان پر کار بند رہنے کے عزم کا اظہار کیا اور ان اصولوں پر چلتے ہوئے پاکستان میں نئی صحت مند سیاسی روایات پیدا کرکے اور ان پر قائم رہنے کے قوم سے جتنے بھی وعدے کیے تھے ان سب سے وہ ایک ایک کرکے منحرف ہوچکے ہیں۔ انھوں نے عہد کیا تھا کہ وہ ایلیکٹیبلزکو اپنی جماعت کا ٹکٹ نہیں دیں گے اور جماعت کے پرانے نظریاتی کارکنان ہی کو ٹکٹ دیں گے انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی اور بڑی تعداد میں الیکشن سے قبل ایلیکٹیبلزکو تحریک انصاف میں شامل کیا اور ٹکٹ دیے۔

انھوں نے کہا تھا کہ آزاد ارکان کوکامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی جماعت میں شامل نہیں کریں گے لیکن انھوں نے کامیاب آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شامل کیا۔انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت نہیں بنائیں گے کیونکہ اس سے حکومت ہر وقت بلیک میل ہوتی ہے لیکن انھوں نے چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت قائم کی ۔انہو ں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ بہت مختصر اور چھوٹی کابینہ بنائیں گے جس کی تعداد زیادہ سے زیادہ 20ارکان پر مشتمل ہوگی لیکن اب تین درجن سے بھی زیادہ وفاقی وزراء اور مشیران پر مشتمل کابینہ تشکیل دی۔انھوں نے کہا تھا کہ ارکان اسمبلی کا ترقیاتی بجٹ ختم کریں گے لیکن مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ختم کیے گئے ارکان اسمبلی کے ترقیاتی بجٹ کو ایک بار پھر بحال کردیا ۔

انھوں نے قوم سے عہد کیا تھا کہIMF نہیں جاؤں گا اور مہنگائی کا خاتمہ کروں گا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ ہوا ان سب کے برعکس، غرض یہ کہ تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں جن جن روایتی سیاسی چلن کے خلاف علم بغاوت سر بلند کیا تھا اور قوم سے توجہ حاصل کی تھی گزشتہ ایک سالہ دور حکومت میں ان سب سے انحراف کرتے ہوئے وہ روایتی سیاستدانوں سے بڑھ کر روایت پسند واقع ہوئے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ غلط نہیںہوگا کہ انھوں نے جو اصول اپنایاشاید وہ یہ تھا کہ اپنی کامیابی کے حصول کے لیے اگر غلط بیانی بھی کردی جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے پاکستان کے جمہوریت پسند طبقہ کو کافی مایوسی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کا سفر ابھی تمام نہیں ہوا اور اس کی راہ میں بڑی مشکلیں حائل ہیں۔
Load Next Story