ترقی پسند تنظیموں کی میڈیا سے شکایت
ترقی پسند طاقتیں بھی ہمیشہ سامراجی ملکوں کے خلاف جدوجہد کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتی تھیں۔
پاکستانی سیاست میں بائیں بازو کا ایک اہم رول رہا ہے بلکہ قیام پاکستان کے بعد تقریباً تین عشروں تک پاکستانی سیاست میں بایاں بازو فعال بھی رہا ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی بائیں بازو کا ایک مستحکم سیاسی پلیٹ فارم تھی اور اس جماعت سے طلباء، مزدوروں، ڈاکٹروں، وکلاء وغیرہ کی نو تنظیمیں جڑی ہوئی تھیں، وہ بھی انتہائی فعال اور طاقتور تھیں، چونکہ بائیں بازو کے نظریات سوشلسٹ ملکوں کے نظریات سے ہم آہنگ تھے اور امریکا اور اس کے حواری سوشلسٹ ملکوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک زبردست خطرہ سمجھتے تھے لہٰذا یہ ملک سوشلسٹ ملکوں کے ساتھ سوشلزم پر یقین رکھنے والی دنیا میں موجود ہر تنظیم، ہر جماعت کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور انھیں ختم کرنے، ان کی طاقت توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے اور ترقی پسند طاقتیں بھی ہمیشہ سامراجی ملکوں کے خلاف جدوجہد کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتی تھیں۔ پاکستان میں لیاقت علی خان کے دور میں پرو امریکا بیوروکریسی نے سازش کر کے لیاقت علی خان کا روس کا دورہ منسوخ کروا کر انھیں امریکا کے دورے پر بھجوا کر پاکستان کو امریکا کی غلامی میں جس طرح دے دیا، پاکستان 65 سال میں بھی ان غلامی کی زنجیروں کو نہ توڑ سکا۔
پاکستان کی سیاست پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا نے پاکستان کی پٹھو حکومتوں کے ذریعے بائیں بازو کو ریاستی طاقت سے کچلنے کا باضابطہ آغاز پنڈی سازش کیس سے کیا۔ اس نام نہاد کیس کی آڑ میں پاکستان کی بائیں بازو کی تمام تنظیموں کو اس بری طرح کچلنے کی کوشش کی گئی کہ بایاں بازو غیر فعال ہو گیا اور بائیں بازو کے رہنماؤں اور کارکنوں سے پاکستان کی جیلیں بھر دی گئیں، فیض احمد فیض، حسن ناصر سمیت سیکڑوں رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ یہ سلسلہ ایوب دور میں بھی اسی شدت سے جاری رہا بلکہ بھٹو دور میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، ولی خان ، غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل، سردار اسلم، مرزا ابراہیم، معراج محمد خان سمیت سیکڑوں رہنما ریاستی جبر کا شکار ہو کر برسوں تک زندان میں قید رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی سب سے زیادہ نشانہ بائیں بازو کو ہی بنایا گیا لیکن ایم آر ڈی تحریک میں بایاں بازو پیش پیش رہا۔
بائیں بازو کو دوسرا نقصان بھٹو کے نعروں نے پہنچایا۔ اسلامی سوشلزم، مزدور کسان راج کے پرفریب نعروں نے بائیں بازو کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں چلی گئی، معراج محمد خان، شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر سمیت بے شمار لوگ پیپلز پارٹی میں چلے گئے اگرچہ ان کو بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ پیپلز پارٹی پر وڈیروں کی اجارہ داری ہے اور یہ حضرات بددل ہو کر پیپلز پارٹی سے نکل گئے لیکن جو نقصان بائیں بازو کو پیپلز پارٹی کی طرف سے پہنچا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بایاں بازو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں موقع پرستوں کو یہ موقع ملا کہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر اسے پارٹی کا نام دے کر چوہدری بن بیٹھے۔ یہ خلفشار اگرچہ وقت کے ساتھ بڑھتا گیا لیکن اس کے باوجود آج بھی ہر گروہ ترقی پسند نظریات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس گروہ بندی کو ختم کرنے کے لیے بار بار کوششیں کی گئیں لیکن یہ کوششیں ابھی تک بار آور اس لیے نہ ہو سکیں کہ یہ کوششیں عملی جدوجہد کے بغیر میٹنگوں، کانفرنسوں اور ڈرائنگ روموں تک محدود رہیں اور انقلاب کے رومانی تصور میں اس طرح غرق رہیں کہ قومی مسائل پر سیاست کرنے کی ضرورت کا انھیں ادراک ہی نہ رہا۔
اس دوران ہونے والے مرجر اور الائنس وغیرہ اس لیے ناکام ہوتے رہے کہ ان کی بنیاد عملی جدوجہد اور عوام میں جانے کے بجائے فضول کی نظریاتی بحث بازی پر رکھی گئی۔ بائیں بازو کے سیاسی میدان میں غیر فعالیت کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اسے مختلف نعرے باز قوتوں نے پُر کیا لیکن چونکہ ان خلا بازوں کے پاس نہ عوامی مسائل کا کوئی حل تھا نہ معاشرتی تضادات کا انھیں ادراک تھا اس کے ساتھ ساتھ ان بہروپیوں نے قومی دولت کی لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا اس سے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام اس حد تک مایوس ہو گئے کہ ان کا اعتماد نہ سیاست پر رہا نہ جمہوریت پر۔ ان شعبدہ بازوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو اس طرح تقسیم کر دیا کہ ان کا طبقاتی کردار ہی ختم ہو کر رہ گیا۔
اگر کسی ملک میں معاشی، معاشرتی اور سیاسی پیش رفت رک جاتی ہے تو ملک و ملت کے مفادات اور ان کے بہتر مستقبل کی خواہشمند سیاسی پارٹیاں اس جمود کی وجہ تلاش کرتی ہیں اور اس جمود کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اس جمود کی ایک اہم اور بڑی وجہ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ یہ کیسی سیاسی بددیانتی ہے کہ ہماری کوئی سیاسی پارٹی اس رکاوٹ کو ہٹانے کی کوشش تو درکنار اس پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بڑی پارٹی میں نہ صرف جاگیردار موجود ہیں بلکہ پارٹیوں پر ان کی ہی اجارہ داری ہے۔ اس جمود کو اب میڈیا شدت سے محسوس کرنے لگا ہے، بعض چینل اس حوالے سے باضابطہ اس جمود یعنی Status Quo کو توڑنے کی مہم چلا رہے ہیں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ جمود محض میڈیا کی مہم سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے۔ جو چینل ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے کی بات کر رہے ہیں وہ رات دن اپنے ٹاک شوز میں ان ہی سیاست دانوں کو عوام کے سامنے حکمران اور اپوزیشن کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں جو اپنا سارا وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی ایک دوسرے کے جرائم اور کرپشن کی پول کھولنے میں لگے رہتے ہیں، اس بے معنی گفتگو سے عوام ہی نہیں بلکہ خود سیاستدان بھی بے زار ہیں۔ ایک معروف سیاسی رہنما نے ٹی وی اسکرین پر کہا کہ ''عوام اب ٹاک شوز میں مستقل ہماری بکواس سن کر ہم سے نفرت کرنے لگے ہیں''۔
ہم حیران ہیں کہ کیا ٹی وی اینکرز یہ نہیں سمجھتے کہ اس جمود کو توڑنے کے لیے ایسی سیاسی پارٹیوں، ایسے سیاسی رہنماؤں، ایسے دانشوروں، ایسے مفکروں کو ٹاک شوز میں بلانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اس Status Quo کو ملک و قوم کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسے توڑنے کو اپنی سیاسی ذمے داری اور نظریاتی فرض سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسی طاقتیں بوجوہ عوام کی نظروں سے دور ہیں اور انتہائی کمزور ہیں۔ بعض طاقتور سیاسی پارٹیاں جاگیردارانہ نظام کو توڑنے کی رات دن بات کرتی ہیں اور اسے اپنے منشور کا حصہ بتاتی ہیں لیکن اس حقیقت کو سمجھنے سے دانستہ یا نادانستہ قاصر ہیں کہ جاگیردارانہ نظام نہ بیانات سے ٹوٹ سکتا ہے نہ اپنے منشور کا حصہ بنانے سے ٹوٹ سکتا ہے، اسے توڑنے کے لیے اور ملک کے 66 سالہ پہیہ جام Status Quo کو توڑنے کے لیے ایک بڑا اتحاد بنانے اور سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پسند طاقتیں اس حوالے سے اس ضرورت کو سمجھتی بھی ہیں اور اس کے لیے عملی جدوجہد پر یقین بھی رکھتی ہیں لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی صفوں میں انتشار، وسائل کی کمی اور میڈیا کی طرف سے غفلت کی وجہ سے وہ بے دست و پا ہو کر رہ گئی ہیں۔
پچھلے دنوں ایک اجلاس میں جو آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوا سیاسی جماعتوں کے علاوہ ٹریڈ یونینز اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان سب کی یہ اجتماعی شکایت تھی کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان کی سیاسی سرگرمیوں کو قطعی کوریج نہیں دیتا۔ کوئی چھوٹا سا گروہ کسی نان ایشو پر دھرنا دیتا ہے یا مظاہرہ کرتا ہے تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کی خوب تشہیر ہوتی ہے اور ترقی پسند تنظیمیں اگر ملک کے بنیادی مسائل پر سڑکوں پر آتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ میڈیا انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا بلکہ ان کے پریس ریلیز کو بھی ردی کی ٹوکریوں کی نذر کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ عوام میں متعارف ہونے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ Status Quo کو توڑنے کی ضرورت محسوس کرنے والا میڈیا Status Quo کو توڑنے میں مخلص قوتوں کو آگے لانے میں کیوں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب تو ہمارے پاس نہیں لیکن ہم اس حقیقت سے بہرحال پوری طرح واقف ہیں کہ میڈیا کے تعاون کے بغیر نہ ترقی پسند طاقتیں عوام میں متعارف ہو سکتی ہیں نہ میڈیا صرف اسٹیٹس کو توڑنے کی باتیں کر کے اسٹیٹس کو توڑ سکتا ہے۔ میڈیا اگر اسٹیٹس کو کو توڑنے میں مخلص ہے تو پھر اسے چوروں، لٹیروں کو اپنا سارا وقت دینے کے بجائے اسٹیٹس کو کو توڑنے میں مخلص طاقتوں کو عوام میں بھرپور طریقے سے متعارف کرانا اور ان کی سرگرمیوں کو کوریج دینا ہو گا۔
پاکستان کی سیاست پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا نے پاکستان کی پٹھو حکومتوں کے ذریعے بائیں بازو کو ریاستی طاقت سے کچلنے کا باضابطہ آغاز پنڈی سازش کیس سے کیا۔ اس نام نہاد کیس کی آڑ میں پاکستان کی بائیں بازو کی تمام تنظیموں کو اس بری طرح کچلنے کی کوشش کی گئی کہ بایاں بازو غیر فعال ہو گیا اور بائیں بازو کے رہنماؤں اور کارکنوں سے پاکستان کی جیلیں بھر دی گئیں، فیض احمد فیض، حسن ناصر سمیت سیکڑوں رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ یہ سلسلہ ایوب دور میں بھی اسی شدت سے جاری رہا بلکہ بھٹو دور میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، ولی خان ، غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل، سردار اسلم، مرزا ابراہیم، معراج محمد خان سمیت سیکڑوں رہنما ریاستی جبر کا شکار ہو کر برسوں تک زندان میں قید رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی سب سے زیادہ نشانہ بائیں بازو کو ہی بنایا گیا لیکن ایم آر ڈی تحریک میں بایاں بازو پیش پیش رہا۔
بائیں بازو کو دوسرا نقصان بھٹو کے نعروں نے پہنچایا۔ اسلامی سوشلزم، مزدور کسان راج کے پرفریب نعروں نے بائیں بازو کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں چلی گئی، معراج محمد خان، شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر سمیت بے شمار لوگ پیپلز پارٹی میں چلے گئے اگرچہ ان کو بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ پیپلز پارٹی پر وڈیروں کی اجارہ داری ہے اور یہ حضرات بددل ہو کر پیپلز پارٹی سے نکل گئے لیکن جو نقصان بائیں بازو کو پیپلز پارٹی کی طرف سے پہنچا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بایاں بازو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں موقع پرستوں کو یہ موقع ملا کہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر اسے پارٹی کا نام دے کر چوہدری بن بیٹھے۔ یہ خلفشار اگرچہ وقت کے ساتھ بڑھتا گیا لیکن اس کے باوجود آج بھی ہر گروہ ترقی پسند نظریات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس گروہ بندی کو ختم کرنے کے لیے بار بار کوششیں کی گئیں لیکن یہ کوششیں ابھی تک بار آور اس لیے نہ ہو سکیں کہ یہ کوششیں عملی جدوجہد کے بغیر میٹنگوں، کانفرنسوں اور ڈرائنگ روموں تک محدود رہیں اور انقلاب کے رومانی تصور میں اس طرح غرق رہیں کہ قومی مسائل پر سیاست کرنے کی ضرورت کا انھیں ادراک ہی نہ رہا۔
اس دوران ہونے والے مرجر اور الائنس وغیرہ اس لیے ناکام ہوتے رہے کہ ان کی بنیاد عملی جدوجہد اور عوام میں جانے کے بجائے فضول کی نظریاتی بحث بازی پر رکھی گئی۔ بائیں بازو کے سیاسی میدان میں غیر فعالیت کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اسے مختلف نعرے باز قوتوں نے پُر کیا لیکن چونکہ ان خلا بازوں کے پاس نہ عوامی مسائل کا کوئی حل تھا نہ معاشرتی تضادات کا انھیں ادراک تھا اس کے ساتھ ساتھ ان بہروپیوں نے قومی دولت کی لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا اس سے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام اس حد تک مایوس ہو گئے کہ ان کا اعتماد نہ سیاست پر رہا نہ جمہوریت پر۔ ان شعبدہ بازوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو اس طرح تقسیم کر دیا کہ ان کا طبقاتی کردار ہی ختم ہو کر رہ گیا۔
اگر کسی ملک میں معاشی، معاشرتی اور سیاسی پیش رفت رک جاتی ہے تو ملک و ملت کے مفادات اور ان کے بہتر مستقبل کی خواہشمند سیاسی پارٹیاں اس جمود کی وجہ تلاش کرتی ہیں اور اس جمود کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اس جمود کی ایک اہم اور بڑی وجہ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ یہ کیسی سیاسی بددیانتی ہے کہ ہماری کوئی سیاسی پارٹی اس رکاوٹ کو ہٹانے کی کوشش تو درکنار اس پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بڑی پارٹی میں نہ صرف جاگیردار موجود ہیں بلکہ پارٹیوں پر ان کی ہی اجارہ داری ہے۔ اس جمود کو اب میڈیا شدت سے محسوس کرنے لگا ہے، بعض چینل اس حوالے سے باضابطہ اس جمود یعنی Status Quo کو توڑنے کی مہم چلا رہے ہیں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ جمود محض میڈیا کی مہم سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے۔ جو چینل ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے کی بات کر رہے ہیں وہ رات دن اپنے ٹاک شوز میں ان ہی سیاست دانوں کو عوام کے سامنے حکمران اور اپوزیشن کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں جو اپنا سارا وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی ایک دوسرے کے جرائم اور کرپشن کی پول کھولنے میں لگے رہتے ہیں، اس بے معنی گفتگو سے عوام ہی نہیں بلکہ خود سیاستدان بھی بے زار ہیں۔ ایک معروف سیاسی رہنما نے ٹی وی اسکرین پر کہا کہ ''عوام اب ٹاک شوز میں مستقل ہماری بکواس سن کر ہم سے نفرت کرنے لگے ہیں''۔
ہم حیران ہیں کہ کیا ٹی وی اینکرز یہ نہیں سمجھتے کہ اس جمود کو توڑنے کے لیے ایسی سیاسی پارٹیوں، ایسے سیاسی رہنماؤں، ایسے دانشوروں، ایسے مفکروں کو ٹاک شوز میں بلانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اس Status Quo کو ملک و قوم کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسے توڑنے کو اپنی سیاسی ذمے داری اور نظریاتی فرض سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسی طاقتیں بوجوہ عوام کی نظروں سے دور ہیں اور انتہائی کمزور ہیں۔ بعض طاقتور سیاسی پارٹیاں جاگیردارانہ نظام کو توڑنے کی رات دن بات کرتی ہیں اور اسے اپنے منشور کا حصہ بتاتی ہیں لیکن اس حقیقت کو سمجھنے سے دانستہ یا نادانستہ قاصر ہیں کہ جاگیردارانہ نظام نہ بیانات سے ٹوٹ سکتا ہے نہ اپنے منشور کا حصہ بنانے سے ٹوٹ سکتا ہے، اسے توڑنے کے لیے اور ملک کے 66 سالہ پہیہ جام Status Quo کو توڑنے کے لیے ایک بڑا اتحاد بنانے اور سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پسند طاقتیں اس حوالے سے اس ضرورت کو سمجھتی بھی ہیں اور اس کے لیے عملی جدوجہد پر یقین بھی رکھتی ہیں لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی صفوں میں انتشار، وسائل کی کمی اور میڈیا کی طرف سے غفلت کی وجہ سے وہ بے دست و پا ہو کر رہ گئی ہیں۔
پچھلے دنوں ایک اجلاس میں جو آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوا سیاسی جماعتوں کے علاوہ ٹریڈ یونینز اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان سب کی یہ اجتماعی شکایت تھی کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان کی سیاسی سرگرمیوں کو قطعی کوریج نہیں دیتا۔ کوئی چھوٹا سا گروہ کسی نان ایشو پر دھرنا دیتا ہے یا مظاہرہ کرتا ہے تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کی خوب تشہیر ہوتی ہے اور ترقی پسند تنظیمیں اگر ملک کے بنیادی مسائل پر سڑکوں پر آتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ میڈیا انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا بلکہ ان کے پریس ریلیز کو بھی ردی کی ٹوکریوں کی نذر کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ عوام میں متعارف ہونے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ Status Quo کو توڑنے کی ضرورت محسوس کرنے والا میڈیا Status Quo کو توڑنے میں مخلص قوتوں کو آگے لانے میں کیوں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب تو ہمارے پاس نہیں لیکن ہم اس حقیقت سے بہرحال پوری طرح واقف ہیں کہ میڈیا کے تعاون کے بغیر نہ ترقی پسند طاقتیں عوام میں متعارف ہو سکتی ہیں نہ میڈیا صرف اسٹیٹس کو توڑنے کی باتیں کر کے اسٹیٹس کو توڑ سکتا ہے۔ میڈیا اگر اسٹیٹس کو کو توڑنے میں مخلص ہے تو پھر اسے چوروں، لٹیروں کو اپنا سارا وقت دینے کے بجائے اسٹیٹس کو کو توڑنے میں مخلص طاقتوں کو عوام میں بھرپور طریقے سے متعارف کرانا اور ان کی سرگرمیوں کو کوریج دینا ہو گا۔