بے حرمتی کیس اور DNA شہادت
ڈی این اے شہادت کو inadmissable قرار دینا قانونی ماہرین کے نزدیک انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہے
ابھی ہم شاہ زیب کیس کے حوالے سے قصاص اور دیت پر اٹھتے ہوئے تنقیدی بحث میں مصروف تھے کہ لاہور میں پانچ سالہ بچی کے زنا بالجبر (ریپ کیس) نے DNA ٹیسٹ کے حوالے سے دوبارہ وہ بحث چھیڑ دی جو تازہ ایک آئینی ادارے کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کے یہ کہنے سے اٹھی کہ ایسے کیس میں چار چشم دید گواہ کا ہونا لازمی ہے ورنہ ڈی این اے ٹیسٹ کا بطور شاہدی کردار باقی نہیں رہتا، جس کوکورٹ کی زبان میں Inadmissable کہا جاتا ہے۔ پانچ سالہ بچی سنبل کے ساتھ ہوئے اس غیر انسانی و بے رحم فعل کا اول تو کوئی چشم دید گواہ نہیں اور اگر ہے تو پھر تفتیش کا حصہ بننے اور اس طرح کورٹ میں آنے کے لیے تیار نہیں اور اس طرح اگر ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت بھی ہوجائے کہ مجرم ملزم ہے تو بھی اس کی قانونی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ۔
ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں اسلامی قوانین کا بنیادی محورعدل ہے اور سارے قوانین اس بنیادی نقطے کو یقینی بنانے کے لیے ہیں اس طرح جب کوئی قانونی طریقہ کار اس عدل کے نکتے کو پانے کے دوران بجائے یہ کہ کورٹ کی معاونت کرے ، اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو عدل اہم اور طریقہ کار ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ایک انصاف(عدل) ہوتا ہے اور دوسرا قانون کا پہلو اس عدل کے پانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ خود قانون بھی ٹھوس، جامد و ساکن نہیں ہوتا نہ عدالت کی تشریح یا فیصلے ۔ بس صرف عدل ہے جو یقینی بنایا جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو ہم قانون کی حکمرانی کے نام سے بھی جانتے ہیں جس کا ایک اہم پہلو ٹرائل ہے ۔ اقبال کے لفظوں میں '' ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں '' کی طرح ہم سائنس کے سیارے اور سائنس کو پانا چاہتے ہیں تاکہ سچ پانے کی جستجو جاری رہے۔
چار جون 2013 کو ٹیوٹر پر Jennsysuniga@ نے اپنے ٹی وی چینل پر اپنی فائل کی ہوئی اسٹوری ٹویٹ کی کہ سینٹ انٹانیو ، ٹیکساس میں ، ایک 38 سالہ عورت نے گھر جانے کے لیے ٹیکسی لی تو راستے میں اس پر غنودگی چھا گئی ، جس پر وہ اٹھیں تو وہ اپنے گھر میں تھیں اور یہ محسوس کیا کہ اس کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہے ۔ اس نے پولیس کو فون کیا ، پولیس آئی اور اس نے فوراً اس کے جسم سے ڈی این اے سیمپلس لینا شروع کیے اور اس کے بعد پورے ملک کے موجود مجرموں کے ڈیٹا میں ڈال کر اس کو میچ کرکے دیکھا تو پتہ چلا کے یہ سیمپل مارٹنز نامی شخص کے ہیں جو پچھلی مرتبہ باکسرکاٹونٹی کے علاقے میں ایک عورت پر جنسی حملہ کر نے کے جرم میں سزا کاٹ چکا تھا۔ اس ریپ کیس کا کوئی چشم دید گواہ نہ تھا ۔
اگر یہ ریپ پاکستان میں ہوتا تو اس کے باوجود کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت بھی ہوجاتا لیکن چونکہ چشم دید گواہ نہ ہوتا تو ملزم مجرم ہونے سے پہلے چھوٹ جاتا۔ میرے بہت سے دوست وکلاء حال ہی میں سپریم کورٹ کے فیصلے 2013 S.C.M.K.207 ، طاہر عبداللہ کے کیس کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کورٹ نے ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیدیا ہے کہ پولیس ایف آئی آر کاٹنے کے فوراً بعد ایسی فارن نسک شہادت حاصل کرے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی شہادت حاصل کرنے کی حیثیت ثانوی ہے کیونکہ اگر چشم دیدگواہ نہیں ہوں گے تو یہ شواہد دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ حدود آرڈیننس میں موجود اس طریقہ کارکا کوئی ٹیسٹ واضح نہیں کیا جس سے ہمارے اسلامی قانون کے غلط استعمال کو روکا جاسکے اور نا ہی قانون سازی کی گئی ہے۔ ہمیں بنیادی طور پر ڈی این اے بحیثیت ریپ کیس میں شہادت کو سمجھنا پڑے گا کہ یہ فارنسک ، Cirumstancial اور Corroboratory ہے یعنی کہ یہ ایک ایسی شہادت ہے جو اس موضوع کا ماہر ڈاکٹر اپنے حلفیہ بیان کے ساتھ جج کے سامنے جمع کرواتا ہے اور ملزم کے وکیل کا یہ قانونی حق ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے اس سے جرح کر سکے، اور یہ عمل جج کی معاونت کرتا ہے تاکہ سچ و حقیقت تک پہنچا جا سکے۔
جب کہ چشم دید گواہی جن کو Ocular evidence بھی کہا جاتا ہے ، تین قسموں کی ہوتی ہیں ، ایک ہوتی ہے بلا امتیاز اعتماد والی ، دوسری بالکل جھوٹی اور تیسری کچھ سچی اور کچھ جھوٹی ، تیسری والی Corroboratory نوعیت کی ہوتی ہے ۔ پاکستان، ہندوستان وپوری دنیا کی عدالتوں کا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ جب چشم دید گواہ جھوٹ بولتا ہے وہاں Circumtantialقرائنی شہادت بہ بانگ دہل سچ بول رہی ہوتی ہے ۔ اس طرح ڈی این اے شہادت بھی Circumtantial شہادت کی ایک قسم ہے۔ ریپ کیس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ چونکہ متاثر عورت اس عمل کے دوران شدید نفسیاتی و جسمانی اضطراب سے گزر رہی ہوتی ہے وہ یہ یاد نہیں رکھ سکتی کہ اس پر حملہ کرنے والے مرد کی شکل وصورت اور حلیہ کیسا تھا ۔ ساٹھ کی دہائی میں ڈی این اے کا استعمال ہونا شروع ہوا اور اس کو اب تمام فارنسک شہادتوں میں کرائون (Crown) شہادت کہا جاتا ہے ۔
امریکا کی سپریم کورٹ نے آزاد اور شفاف ٹرائل کے معیار کو ناپنے کے لیے اپنے آئین میں کی ہوئی پانچویں ترمیم کی لفظ بہ لفظ تشریح کے واضح تحریر یا دوسرے معنوں میں Literal Interpretation کو اپنے کیس Schemerben v california ((384 us 757 (1166) میں ثانوی کر دیا ۔ یعنی ملزم کی مرضی حاصل کیے بغیر اس کے جسم سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ ملزم کو ایسا حق ہمارے آئین کے آرٹیکل 13(b) میں بھی دیا گیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ بنیادی شہادت کون سی ہے یا ثانوی شہادت کونسی ہے اس کا فیصلہ عدالت ہر کیس کی جداگانہ حیثیت ، بہت سارے حقائق کی روشنی میں اس وقت کرتی ہے جب کیس کی سماعت ہوتی ہے اور ایسا فیصلہ ایک اصول کی صورت میں بحیثیت طریقہ کار نہیں ڈالا جاسکتا ۔ خواہ مشرقی قوانین ہوں یا مغربی ۔ ہوسکتا ہے کہ ٹرائل کے دوران یہ حقیقت سامنے آجائے کہ ڈی این اے شہادت کو صحیح طرح ان کے اپنے طبعی اصولوں کے تحت نہیں تیار کیا گیا تو کورٹ ایسی شہادت کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے ۔ اس لیے شروع سے اس ڈی این اے شہادت کو inadmissable قرار دینا قانونی ماہرین کے نزدیک انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جس سے ایسے گھنائونے جرم کو کرنے والے ملزموں کی ہمت افزائی ہوگی ۔
دہلی کے اس نوعیت کے مشہور کیس میں چار دن پہلے وہاں کی عدالت نے چار ملزموں کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی اور اس طرح پورے ہندوستان کے مجموعی ضمیر کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے سات ماہ کے اندر فیصلہ سنادیا۔ ہمارے ہاں 1979 سے جب سے حدود آرڈیننس کے ذریعے ریپ کے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے بہت کم کیسز ہیں جس میں ملزم کو سزاہوئی ہو اس کے برعکس بہت کیسوں میں متاثرہ عورت کو سزا ہوئی ہے ۔ کسی متاثرہ عورت کا جرح کرکے سامنے آنا ہمارے جیسے مردوں کی حاکمیت رکھنے والے سماج میں بہت بڑی جرات ہے۔تاہم اگر عدل و انصاف ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں تو ایسے لوگ بھی سامنے آنے کی دوبارہ ہمت نہیں کریں گے ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ بھی اک شہادت ہے تو اور چشم دید گواہ بھی ، جتنی شہادت معیاری ہوگی اتنی ہی عدالت کو انصاف کے حصول میں معاونت ملے گی ۔
ایک سال قبل جب ایسا واقع دلی میں ہوا تھا تو پورا دلی سڑکوں پر نکل آیا تھا بلکہ پورا ہندوستان غم و غصہ کی آگ میں لپٹ گیا تھا ۔ یوں کہیے کہ ہم سے زیادہ انھوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، نتیجتاً قوانین میں نہ صرف ترامیم کرکے انھیں سخت بنایا گیا بلکہ عدالت نے بھی فوری عمل کیا لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے ، یہ حقیقت ہمارا چہرہ ہمیں اپنے آئینے میں دکھاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہم کتنے بے حس ہوگئے ہیں ۔
ہمیں مائی مختاراں کے ساتھ ہونے والے حشر کا بھی علم ہے اور وہ کلمات جو ایسے کیسز کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے امریکا میں ارشاد فرمائے تھے ہمارے کانوں میں اب بھی گونج رہے ہیں ۔
ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں اسلامی قوانین کا بنیادی محورعدل ہے اور سارے قوانین اس بنیادی نقطے کو یقینی بنانے کے لیے ہیں اس طرح جب کوئی قانونی طریقہ کار اس عدل کے نکتے کو پانے کے دوران بجائے یہ کہ کورٹ کی معاونت کرے ، اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو عدل اہم اور طریقہ کار ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ایک انصاف(عدل) ہوتا ہے اور دوسرا قانون کا پہلو اس عدل کے پانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ خود قانون بھی ٹھوس، جامد و ساکن نہیں ہوتا نہ عدالت کی تشریح یا فیصلے ۔ بس صرف عدل ہے جو یقینی بنایا جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو ہم قانون کی حکمرانی کے نام سے بھی جانتے ہیں جس کا ایک اہم پہلو ٹرائل ہے ۔ اقبال کے لفظوں میں '' ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں '' کی طرح ہم سائنس کے سیارے اور سائنس کو پانا چاہتے ہیں تاکہ سچ پانے کی جستجو جاری رہے۔
چار جون 2013 کو ٹیوٹر پر Jennsysuniga@ نے اپنے ٹی وی چینل پر اپنی فائل کی ہوئی اسٹوری ٹویٹ کی کہ سینٹ انٹانیو ، ٹیکساس میں ، ایک 38 سالہ عورت نے گھر جانے کے لیے ٹیکسی لی تو راستے میں اس پر غنودگی چھا گئی ، جس پر وہ اٹھیں تو وہ اپنے گھر میں تھیں اور یہ محسوس کیا کہ اس کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہے ۔ اس نے پولیس کو فون کیا ، پولیس آئی اور اس نے فوراً اس کے جسم سے ڈی این اے سیمپلس لینا شروع کیے اور اس کے بعد پورے ملک کے موجود مجرموں کے ڈیٹا میں ڈال کر اس کو میچ کرکے دیکھا تو پتہ چلا کے یہ سیمپل مارٹنز نامی شخص کے ہیں جو پچھلی مرتبہ باکسرکاٹونٹی کے علاقے میں ایک عورت پر جنسی حملہ کر نے کے جرم میں سزا کاٹ چکا تھا۔ اس ریپ کیس کا کوئی چشم دید گواہ نہ تھا ۔
اگر یہ ریپ پاکستان میں ہوتا تو اس کے باوجود کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت بھی ہوجاتا لیکن چونکہ چشم دید گواہ نہ ہوتا تو ملزم مجرم ہونے سے پہلے چھوٹ جاتا۔ میرے بہت سے دوست وکلاء حال ہی میں سپریم کورٹ کے فیصلے 2013 S.C.M.K.207 ، طاہر عبداللہ کے کیس کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کورٹ نے ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیدیا ہے کہ پولیس ایف آئی آر کاٹنے کے فوراً بعد ایسی فارن نسک شہادت حاصل کرے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی شہادت حاصل کرنے کی حیثیت ثانوی ہے کیونکہ اگر چشم دیدگواہ نہیں ہوں گے تو یہ شواہد دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ حدود آرڈیننس میں موجود اس طریقہ کارکا کوئی ٹیسٹ واضح نہیں کیا جس سے ہمارے اسلامی قانون کے غلط استعمال کو روکا جاسکے اور نا ہی قانون سازی کی گئی ہے۔ ہمیں بنیادی طور پر ڈی این اے بحیثیت ریپ کیس میں شہادت کو سمجھنا پڑے گا کہ یہ فارنسک ، Cirumstancial اور Corroboratory ہے یعنی کہ یہ ایک ایسی شہادت ہے جو اس موضوع کا ماہر ڈاکٹر اپنے حلفیہ بیان کے ساتھ جج کے سامنے جمع کرواتا ہے اور ملزم کے وکیل کا یہ قانونی حق ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے اس سے جرح کر سکے، اور یہ عمل جج کی معاونت کرتا ہے تاکہ سچ و حقیقت تک پہنچا جا سکے۔
جب کہ چشم دید گواہی جن کو Ocular evidence بھی کہا جاتا ہے ، تین قسموں کی ہوتی ہیں ، ایک ہوتی ہے بلا امتیاز اعتماد والی ، دوسری بالکل جھوٹی اور تیسری کچھ سچی اور کچھ جھوٹی ، تیسری والی Corroboratory نوعیت کی ہوتی ہے ۔ پاکستان، ہندوستان وپوری دنیا کی عدالتوں کا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ جب چشم دید گواہ جھوٹ بولتا ہے وہاں Circumtantialقرائنی شہادت بہ بانگ دہل سچ بول رہی ہوتی ہے ۔ اس طرح ڈی این اے شہادت بھی Circumtantial شہادت کی ایک قسم ہے۔ ریپ کیس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ چونکہ متاثر عورت اس عمل کے دوران شدید نفسیاتی و جسمانی اضطراب سے گزر رہی ہوتی ہے وہ یہ یاد نہیں رکھ سکتی کہ اس پر حملہ کرنے والے مرد کی شکل وصورت اور حلیہ کیسا تھا ۔ ساٹھ کی دہائی میں ڈی این اے کا استعمال ہونا شروع ہوا اور اس کو اب تمام فارنسک شہادتوں میں کرائون (Crown) شہادت کہا جاتا ہے ۔
امریکا کی سپریم کورٹ نے آزاد اور شفاف ٹرائل کے معیار کو ناپنے کے لیے اپنے آئین میں کی ہوئی پانچویں ترمیم کی لفظ بہ لفظ تشریح کے واضح تحریر یا دوسرے معنوں میں Literal Interpretation کو اپنے کیس Schemerben v california ((384 us 757 (1166) میں ثانوی کر دیا ۔ یعنی ملزم کی مرضی حاصل کیے بغیر اس کے جسم سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ ملزم کو ایسا حق ہمارے آئین کے آرٹیکل 13(b) میں بھی دیا گیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ بنیادی شہادت کون سی ہے یا ثانوی شہادت کونسی ہے اس کا فیصلہ عدالت ہر کیس کی جداگانہ حیثیت ، بہت سارے حقائق کی روشنی میں اس وقت کرتی ہے جب کیس کی سماعت ہوتی ہے اور ایسا فیصلہ ایک اصول کی صورت میں بحیثیت طریقہ کار نہیں ڈالا جاسکتا ۔ خواہ مشرقی قوانین ہوں یا مغربی ۔ ہوسکتا ہے کہ ٹرائل کے دوران یہ حقیقت سامنے آجائے کہ ڈی این اے شہادت کو صحیح طرح ان کے اپنے طبعی اصولوں کے تحت نہیں تیار کیا گیا تو کورٹ ایسی شہادت کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے ۔ اس لیے شروع سے اس ڈی این اے شہادت کو inadmissable قرار دینا قانونی ماہرین کے نزدیک انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جس سے ایسے گھنائونے جرم کو کرنے والے ملزموں کی ہمت افزائی ہوگی ۔
دہلی کے اس نوعیت کے مشہور کیس میں چار دن پہلے وہاں کی عدالت نے چار ملزموں کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی اور اس طرح پورے ہندوستان کے مجموعی ضمیر کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے سات ماہ کے اندر فیصلہ سنادیا۔ ہمارے ہاں 1979 سے جب سے حدود آرڈیننس کے ذریعے ریپ کے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے بہت کم کیسز ہیں جس میں ملزم کو سزاہوئی ہو اس کے برعکس بہت کیسوں میں متاثرہ عورت کو سزا ہوئی ہے ۔ کسی متاثرہ عورت کا جرح کرکے سامنے آنا ہمارے جیسے مردوں کی حاکمیت رکھنے والے سماج میں بہت بڑی جرات ہے۔تاہم اگر عدل و انصاف ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں تو ایسے لوگ بھی سامنے آنے کی دوبارہ ہمت نہیں کریں گے ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ بھی اک شہادت ہے تو اور چشم دید گواہ بھی ، جتنی شہادت معیاری ہوگی اتنی ہی عدالت کو انصاف کے حصول میں معاونت ملے گی ۔
ایک سال قبل جب ایسا واقع دلی میں ہوا تھا تو پورا دلی سڑکوں پر نکل آیا تھا بلکہ پورا ہندوستان غم و غصہ کی آگ میں لپٹ گیا تھا ۔ یوں کہیے کہ ہم سے زیادہ انھوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، نتیجتاً قوانین میں نہ صرف ترامیم کرکے انھیں سخت بنایا گیا بلکہ عدالت نے بھی فوری عمل کیا لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے ، یہ حقیقت ہمارا چہرہ ہمیں اپنے آئینے میں دکھاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہم کتنے بے حس ہوگئے ہیں ۔
ہمیں مائی مختاراں کے ساتھ ہونے والے حشر کا بھی علم ہے اور وہ کلمات جو ایسے کیسز کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے امریکا میں ارشاد فرمائے تھے ہمارے کانوں میں اب بھی گونج رہے ہیں ۔