کراچی… کرچی کرچی
اے کراچی! کبھی تیری حالت ایسی تو نہ تھی۔ میں کیا، میرے جیسے لاکھوں لوگ ہوں گے
یہ موضوع اب اتنا دردناک ہوگیا ہے کہ اس پر قلم اٹھانا بڑے دل گردے کا کام بن گیا ہے۔ ایک تو ذہن پر اس کی بدحالی کا بوجھ رہتا ہے تو دوسری طرف آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا۔ اے کراچی! کبھی تیری حالت ایسی تو نہ تھی۔ میں کیا، میرے جیسے لاکھوں لوگ ہوں گے جو قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے یہاں آئے اور مستقل قیام شروع دن سے یہیں پر کیے ہوئے ہیں، وہی لوگ کراچی کا ماضی و حال بہتر جانتے ہی، اور وہی کراچی کی 66 سالہ زندگی میں اس سے وابستہ ہیں۔ اس کے نشیب و فراز، اس کے سمندر، اس کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں، اس کے سبز باغات، اس کے تفریحی مقامات، اس کے تعلیمی، مذہبی، معاشرتی اور سماجی اداروں کا جتنا ادراک یہ لوگ رکھتے ہیں اتنا اندرون سندھ اور اندرون ملک کے باشندے جو یہاں سکونت اختیار کرلیتے ہیں، اتنا ادراک نہیں رکھتے۔
کراچی شہر (کیماڑی سے لے کر لانڈھی سے آگے سندھ کے دیہاتوں تک) کا کونہ کونہ آباد ہوگیا ہے، بقول شخصے تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، زمین تو زمین اطراف کے پہاڑ بھی پورے نہیں پڑ رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کراچی نے تمام آبادیوں (چاہے علاقائی ہوں یا سرحدی) کو اپنے دل میں سمو لیا ہے۔ گنجان آبادی اس طرح پھیل گئی ہے کہ غریب و نادار باشندے بھی ندی، نالوں، فلائی اوورز کے نیچے اور کھلے میدانوں میں آباد ہوگئے ہیں، نہ انھیں اچھے ماحول کی فکر، نہ صاف پینے کے پانی کی فکر، نہ بچوں کی تعلیم و صحت کی فکر، بس انھیں فکر ہے تو یہی کہ مزدوری، روزگار مل جائے، چاہے دیہاڑی پر ہو یا ٹھیکیدار کے جبر و ظلم کے سائے میں ہو، تاکہ ان کا حقہ پانی چلتا رہے، ان کے بچے بھوکے نہ سوئیں۔ اسی طرح متمول خاندان، پڑھے لکھے نوجوان، بچے، بوڑھے، مزدور سب ہی اندرون سندھ و ملک بھر سے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
اس لیے کہ انھیں بھی یہاں روزگار، تعلیم و صحت ملے، کاروبار ملے، مکان و دکان ملے، یعنی رہائشی ہو یا کمرشل کسی طرح میسر آجائے کیونکہ کراچی صرف کراچی نہیں یہ پورے ملک کا ''معاشی حب'' ہے، یہ سونے کی چڑیا ہے۔ یہاں ہر کوئی مٹی سے سونا بنالیتا ہے۔ ہنرمندوں کو اپنے ہنر میں چار چاند لگانے کے لیے اس شہر میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اکثر لوگ یہی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ کراچی میں کوئی غریب ہو کہ امیر، نادار و مفلس بھوکا نہیں مرتا۔
واہ رے کراچی! شاباش ہے تجھ پر کہ تو نے ملک کے ہر باشندے کو اپنے اندر سمولیا ہے، کوئی غدر ہے نہ کوئی مسئلہ، سب خوش ہیں اور انشاء اﷲ سدا خوش رہیں گے، مگر تیری بدقسمتی یہ بھی تو ہے کہ تیری زمین پر کچھ ایسے فسادی بھی ہیں جن کا حال یہ ہے کہ ''جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کردیتے ہیں'' تاکہ ان کا اپنا تو پیٹ بھرگیا دوسرے کا نہ بھرے، اس لیے کسی نے صحیح کہا ہے کہ جب پیٹ بھر جاتا ہے تو آنکھوں پر چربی اور دماغ میں سستی چڑھ جاتی ہے۔ جب تک آنکھوں کی چربی نہ ہٹاؤ گے اور بدمستی کی عادت نہ چھوڑو گے، اس وقت تک کراچی کا حسن و خوبصورتی اور دل ربائی نہیں دیکھ سکوگے۔
کراچی کی خوبصورتی و دل ربائی کی کیفیت دیکھنا ہو تو جاؤ کیماڑی، منوڑہ، ڈاک یارڈ پر، ویسٹ وہارف پر، ریلوے اسٹیشنوں پر، کارخانوں میں، ملوں میں اور سمندر میں جہاں تمہیں ملیں گے کراچی کے اصل چاہنے والے قدیم باشندے، ان سے معلوم کرنا کراچی کا حسن، خوبصورتی، جسے چمکایا ہے ان ہی محنت کشوں، مزدوروں اور قدیم باشندوں نے۔ انھوں نے اپنا اوڑھنا، بچھونا، رہائش، تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی قربان کردیں صرف اور صرف کراچی کے حسن و خوبصورتی کو نکھارنے کے لیے۔ اس کے برعکس ہم تعلیم یافتہ، مہذب، بااخلاق اور سفید کالروں والے کیا کر رہے ہیں کراچی کے ساتھ؟ مال مفت دل بے رحم کے مترادف ان محنت کشوں اور مزدوروں کی آبیاری کے پھل کھا رہے ہیں۔ محنت مشقت وہ کر رہے ہیں اور مزے ہم لوٹ رہے ہیں ''دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں''۔
یہ شہر پڑھے لکھے باشعور شہریوں کا شہر ہے، جسے صرف اور صرف ''کراچی'' نے ہی باعزت و باوقار بنایا تاکہ وہ شہر کی تعمیروترقی کے لیے کام کریں، دن رات اس چمن کی رکھوالی کریں، ذاتی لگن اور دلچسپی سے اس کی آبیاری کریں۔ مگر سوچا کبھی کہ ہم اس شہر غریباں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔ اس شہر نے اپنے باسیوں کے لیے کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے اور صدق دل سے اس کا احترام کرنے کے کتنے مواقع دیے ہیں، لیکن ہم نے کیا کیا؟ ان مواقعوں سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے ان کو گنوا دیا۔ اور اب، اس کی بربادی پر ہاتھ ملنے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ مگر ناامیدی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اٹھو خود بھی جاگو دوسروں کو بھی جگاؤ۔ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا۔ اب بھی وقت ہے۔ اس شہر کو سنوارنے، اس کے دکھ درد بانٹنے کے لیے، بس نیک نیتی، سچائی، حب الوطنی کا جذبہ درکار ہے۔
کراچی کے موجودہ حالات بڑے دردناک ہیں، پانی سر سے گزر چکا ہے، کشتی ہچکولے لے رہی ہے، ڈگمگا رہی ہے، کبھی الٹتی نظر آتی ہے کبھی سنبھلتی۔ اب بھی وقت ہے کچھ زیادہ بگڑا نہیں بس ہمت و استقامت کا حوصلہ چاہیے۔ لیکن مجبوری بھی تو ہے کہ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ گنگا کا پانی گندہ ہورہا ہے، اسے صاف کرے تو کون کرے، کیسے کرے؟ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ جس قوم کو خیال نہیں اپنی حالت بدلنے کا تو قدرت بھی اس کا حال نہیں بدلتی۔
کراچی کرچی کرچی ہوگیا پھر بھی سب متحد ہوکر اس کی مرمت یا صحتیابی کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے اپنی اپنی چوہدراہٹ جما رہے ہیں۔ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کی تمام ان دیکھی پالیسیاں بنانے سے کوئی فائدہ نہیں، اس شہر کو صرف اور صرف ان کے حقیقی نمایندے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کو ''آن بورڈ'' کیے بغیر کوئی اقدام کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے بندر کے ہاتھ جھنجھنا لگ گیا، وہ اس سے صرف ڈگڈگی بجانے کا کام لیتا ہے۔ حکومتی امور چلانے کے لیے بھی محض ڈگڈیاں بجاکر کام نہیں چلتا۔ عوام کو کچھ ہوتا نظر آنا چاہیے، کچھ ''ڈلیور'' ہونا چاہیے۔ خالی خولی نعروں و دعوئوں، دوسروں پر کیچڑ اچھال کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ عوام کو کچھ ''ڈلیور'' کیجیے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ مفاہمت و ہم آہنگی کی راہ اختیار کیجیے۔ دوسروں کی رائے پر اپنی رائے مقدم سمجھ کر مسلط نہ کیجیے۔ آئینی اور قانونی دائرے میں رہ کر کام کیجیے۔ کیا نہیں سنا آپ نے ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کہ ''ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے تو کوئی بدنظمی، بدعنوانی، کرپشن، اختیارات کا بے جا استعمال اور ان سے تجاوز کرجانا ہی سب سے بڑی خرابی ہے''۔ وفاق کے دائرے اختیار میں جو کچھ ہے اسے استعمال کرے اور صوبوں کے جو اختیارات ہیں ان سے کام لینے دیجیے۔
عدلیہ آزاد ہے اور شہری حقوق کی سلبی پر پاکستان کے شہریوں کو آواز اٹھانے یعنی اظہار رائے کی آزادی بھی ہے۔ اگر حکومتی رویہ اسی طرح صوبوں کے حقوق کی پامالی کرتا رہا تو پھر صوبوں کا بھی آئینی حق ہے کہ وہ آزاد عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ جب حکومتی ارکان کی طرف سے انصاف نہیں ملے گا تو سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ) ہی واحد ادارہ ہے جہاں سے انصاف کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ خدارا! کراچی کرچی کرچی ہوچکا۔ اب اس کے ساتھ مذاق نہ کریں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان خلیج پیدا نہ ہونے دیجیے بلکہ اگر کوئی خلا ہے تو اسے پاٹنے کی ترکیب کیجیے نہ کہ اسے مزید وسعت دے کر خلیج پیدا کردیں۔
کراچی شہر (کیماڑی سے لے کر لانڈھی سے آگے سندھ کے دیہاتوں تک) کا کونہ کونہ آباد ہوگیا ہے، بقول شخصے تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، زمین تو زمین اطراف کے پہاڑ بھی پورے نہیں پڑ رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کراچی نے تمام آبادیوں (چاہے علاقائی ہوں یا سرحدی) کو اپنے دل میں سمو لیا ہے۔ گنجان آبادی اس طرح پھیل گئی ہے کہ غریب و نادار باشندے بھی ندی، نالوں، فلائی اوورز کے نیچے اور کھلے میدانوں میں آباد ہوگئے ہیں، نہ انھیں اچھے ماحول کی فکر، نہ صاف پینے کے پانی کی فکر، نہ بچوں کی تعلیم و صحت کی فکر، بس انھیں فکر ہے تو یہی کہ مزدوری، روزگار مل جائے، چاہے دیہاڑی پر ہو یا ٹھیکیدار کے جبر و ظلم کے سائے میں ہو، تاکہ ان کا حقہ پانی چلتا رہے، ان کے بچے بھوکے نہ سوئیں۔ اسی طرح متمول خاندان، پڑھے لکھے نوجوان، بچے، بوڑھے، مزدور سب ہی اندرون سندھ و ملک بھر سے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
اس لیے کہ انھیں بھی یہاں روزگار، تعلیم و صحت ملے، کاروبار ملے، مکان و دکان ملے، یعنی رہائشی ہو یا کمرشل کسی طرح میسر آجائے کیونکہ کراچی صرف کراچی نہیں یہ پورے ملک کا ''معاشی حب'' ہے، یہ سونے کی چڑیا ہے۔ یہاں ہر کوئی مٹی سے سونا بنالیتا ہے۔ ہنرمندوں کو اپنے ہنر میں چار چاند لگانے کے لیے اس شہر میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اکثر لوگ یہی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ کراچی میں کوئی غریب ہو کہ امیر، نادار و مفلس بھوکا نہیں مرتا۔
واہ رے کراچی! شاباش ہے تجھ پر کہ تو نے ملک کے ہر باشندے کو اپنے اندر سمولیا ہے، کوئی غدر ہے نہ کوئی مسئلہ، سب خوش ہیں اور انشاء اﷲ سدا خوش رہیں گے، مگر تیری بدقسمتی یہ بھی تو ہے کہ تیری زمین پر کچھ ایسے فسادی بھی ہیں جن کا حال یہ ہے کہ ''جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کردیتے ہیں'' تاکہ ان کا اپنا تو پیٹ بھرگیا دوسرے کا نہ بھرے، اس لیے کسی نے صحیح کہا ہے کہ جب پیٹ بھر جاتا ہے تو آنکھوں پر چربی اور دماغ میں سستی چڑھ جاتی ہے۔ جب تک آنکھوں کی چربی نہ ہٹاؤ گے اور بدمستی کی عادت نہ چھوڑو گے، اس وقت تک کراچی کا حسن و خوبصورتی اور دل ربائی نہیں دیکھ سکوگے۔
کراچی کی خوبصورتی و دل ربائی کی کیفیت دیکھنا ہو تو جاؤ کیماڑی، منوڑہ، ڈاک یارڈ پر، ویسٹ وہارف پر، ریلوے اسٹیشنوں پر، کارخانوں میں، ملوں میں اور سمندر میں جہاں تمہیں ملیں گے کراچی کے اصل چاہنے والے قدیم باشندے، ان سے معلوم کرنا کراچی کا حسن، خوبصورتی، جسے چمکایا ہے ان ہی محنت کشوں، مزدوروں اور قدیم باشندوں نے۔ انھوں نے اپنا اوڑھنا، بچھونا، رہائش، تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی قربان کردیں صرف اور صرف کراچی کے حسن و خوبصورتی کو نکھارنے کے لیے۔ اس کے برعکس ہم تعلیم یافتہ، مہذب، بااخلاق اور سفید کالروں والے کیا کر رہے ہیں کراچی کے ساتھ؟ مال مفت دل بے رحم کے مترادف ان محنت کشوں اور مزدوروں کی آبیاری کے پھل کھا رہے ہیں۔ محنت مشقت وہ کر رہے ہیں اور مزے ہم لوٹ رہے ہیں ''دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں''۔
یہ شہر پڑھے لکھے باشعور شہریوں کا شہر ہے، جسے صرف اور صرف ''کراچی'' نے ہی باعزت و باوقار بنایا تاکہ وہ شہر کی تعمیروترقی کے لیے کام کریں، دن رات اس چمن کی رکھوالی کریں، ذاتی لگن اور دلچسپی سے اس کی آبیاری کریں۔ مگر سوچا کبھی کہ ہم اس شہر غریباں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔ اس شہر نے اپنے باسیوں کے لیے کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے اور صدق دل سے اس کا احترام کرنے کے کتنے مواقع دیے ہیں، لیکن ہم نے کیا کیا؟ ان مواقعوں سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے ان کو گنوا دیا۔ اور اب، اس کی بربادی پر ہاتھ ملنے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ مگر ناامیدی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اٹھو خود بھی جاگو دوسروں کو بھی جگاؤ۔ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا۔ اب بھی وقت ہے۔ اس شہر کو سنوارنے، اس کے دکھ درد بانٹنے کے لیے، بس نیک نیتی، سچائی، حب الوطنی کا جذبہ درکار ہے۔
کراچی کے موجودہ حالات بڑے دردناک ہیں، پانی سر سے گزر چکا ہے، کشتی ہچکولے لے رہی ہے، ڈگمگا رہی ہے، کبھی الٹتی نظر آتی ہے کبھی سنبھلتی۔ اب بھی وقت ہے کچھ زیادہ بگڑا نہیں بس ہمت و استقامت کا حوصلہ چاہیے۔ لیکن مجبوری بھی تو ہے کہ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ گنگا کا پانی گندہ ہورہا ہے، اسے صاف کرے تو کون کرے، کیسے کرے؟ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ جس قوم کو خیال نہیں اپنی حالت بدلنے کا تو قدرت بھی اس کا حال نہیں بدلتی۔
کراچی کرچی کرچی ہوگیا پھر بھی سب متحد ہوکر اس کی مرمت یا صحتیابی کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے اپنی اپنی چوہدراہٹ جما رہے ہیں۔ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کی تمام ان دیکھی پالیسیاں بنانے سے کوئی فائدہ نہیں، اس شہر کو صرف اور صرف ان کے حقیقی نمایندے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کو ''آن بورڈ'' کیے بغیر کوئی اقدام کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے بندر کے ہاتھ جھنجھنا لگ گیا، وہ اس سے صرف ڈگڈگی بجانے کا کام لیتا ہے۔ حکومتی امور چلانے کے لیے بھی محض ڈگڈیاں بجاکر کام نہیں چلتا۔ عوام کو کچھ ہوتا نظر آنا چاہیے، کچھ ''ڈلیور'' ہونا چاہیے۔ خالی خولی نعروں و دعوئوں، دوسروں پر کیچڑ اچھال کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ عوام کو کچھ ''ڈلیور'' کیجیے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ مفاہمت و ہم آہنگی کی راہ اختیار کیجیے۔ دوسروں کی رائے پر اپنی رائے مقدم سمجھ کر مسلط نہ کیجیے۔ آئینی اور قانونی دائرے میں رہ کر کام کیجیے۔ کیا نہیں سنا آپ نے ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کہ ''ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے تو کوئی بدنظمی، بدعنوانی، کرپشن، اختیارات کا بے جا استعمال اور ان سے تجاوز کرجانا ہی سب سے بڑی خرابی ہے''۔ وفاق کے دائرے اختیار میں جو کچھ ہے اسے استعمال کرے اور صوبوں کے جو اختیارات ہیں ان سے کام لینے دیجیے۔
عدلیہ آزاد ہے اور شہری حقوق کی سلبی پر پاکستان کے شہریوں کو آواز اٹھانے یعنی اظہار رائے کی آزادی بھی ہے۔ اگر حکومتی رویہ اسی طرح صوبوں کے حقوق کی پامالی کرتا رہا تو پھر صوبوں کا بھی آئینی حق ہے کہ وہ آزاد عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ جب حکومتی ارکان کی طرف سے انصاف نہیں ملے گا تو سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ) ہی واحد ادارہ ہے جہاں سے انصاف کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ خدارا! کراچی کرچی کرچی ہوچکا۔ اب اس کے ساتھ مذاق نہ کریں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان خلیج پیدا نہ ہونے دیجیے بلکہ اگر کوئی خلا ہے تو اسے پاٹنے کی ترکیب کیجیے نہ کہ اسے مزید وسعت دے کر خلیج پیدا کردیں۔