کشمیر بحران اورامکانات
پاکستان کو اپنی روایتی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنے موقف کی تشکیل نو کرنا چاہیے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بی جے پی 370اور 35اے کی دفعات کو آئین سے نکال کر کشمیر کی خصوصی حیثیت حتمی طور پر ختم کرنے میں کام یاب ہوگی یا نہیں۔ کیا آئین میں اتنی بنیادی تبدیلی محض صدارتی حکم نامے کے ذریعے لائی جاسکتی ہے؟ اس اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ میں پہلے ہی چیلنج کیا جاچکا ہے۔
بھارت میں حزب اختلاف کی تقریباً ہر جماعت نے اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔ لیکن مودی کو یہ قدم اٹھاتے ہوئے حقیقی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سیاسی طور پر دیوالیہ ہوچکی کانگریس کی قیادت کو حالیہ انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی کی سیاست میں صرف طاقت ہی اصول ہے، ایسی صورت حال میں یہ ''رسمی بیانات'' کسی گنتی میں نہیں آتے۔ بی جے پی نے دوسری بار منتخب ہونے کے لیے جو منشور پیش کیا اس میں مذکورہ آئینی دفعات کا خاتمہ سر فہرست تھا یہی وجہ ہے کہ یہ اقدام ہرگز غیر متوقع نہیں تھا۔
فروری میں پاکستان پر جارحیت کی ناکام کوشش نے بھارت کی جنگی صلاحیتوں کا پول کھول دیا۔ اس میں انھیں جنگی طیارے سے ہاتھ دھونا پڑا جب کہ ایک جنگی پائلٹ گرفتار ہوگیا۔ اس کے بعد عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارتی جاسوس کو پاکستان کی فوجی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کی توثیق ہوگئی اور بھارت کو صرف جنیوا کنوینشن کے تحت ''قونصل رسائی'' کی رعایت ہی مل سکی۔
لائن آف کنٹرول پر مسلسل حملے اور پاکستانی شہریوں پر کلسٹر بموں کے استعمال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت اپنی ان ناکامیوں سے کتنا مضطرب ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان کے کام یاب دورۂ امریکا نے بھارت کی پاکستان مخالف پراپیگنڈے کی بیس سالہ کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے کشمیر میں ثالثی کی پیش کش کی کہ مودی نے ہی اس کے لیے ان سے آمادگی حاصل کی تھی۔ بظاہر یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے بی جی پی نے جلد بازی میں کشمیر کا ''حتمی حل'' کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
وادی کی آبادی 70 لاکھ سے بھی کم ہے جب کہ وہاں 5لاکھ فوجی تعینات ہیں، ان میں مزید تیس ہزار کا اضافہ کیا گیا، سیاحوں کو زبردستی کشمیر سے نکالا گیا اور پاک بھارت سرحد پر ہائی الرٹ جاری کیا گیا، یہ سبھی اقدامات کسی غیر معمولی پیش قدمی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن سے، جس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کررہا ہے، اگر دنیا کا کوئی ملک پریشان ہے تو وہ بھارت ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں بھارت کے ہاتھ سے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے کے آسان مواقع نکل جائیں گے۔
بھارت نے 80کی دہائی میں روس کے فوجیوں کی زندگیوں اور وسائل کے بل پر افغانستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس صدی کے آغاز سے وہ امریکا کا کندھا استعمال کررہا ہے۔ تو کیا یہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے کی ایک کوشش ہے؟ مودی کا اندازہ درست نکلا اور حالیہ بھارتی اقدام کے خلاف عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ نے آواز نہیں اٹھائی ، مختلف حلقوں نے محض ہلکی پھلکی تنقید ہی پر اکتفا کیا۔ ٹرمپ کی توجہ افغانستان اور یورپ کا دھیان اس وقت پناہ گزینوں اور بریگزیٹ کے مسائل پر ہیں۔
عالمی تنظیموں سے شکایت بے سود ہے۔ عالمی عدالت انصاف جانے سے کیا ہوگا؟ معزز جج صاحبان سے کسی واضح اور ٹھوس موقف کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ سات دہائیوں سے اس معاملے میں کچھ نہ کرنے والی سلامتی کونسل اب بھی مدد کو نہیں آئے گی۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریروں سے اتحاد و یگانگت کا پیغام تو خاک ملا ، سیاسی تقسیم کھل کر سامنے آگئی۔ بھارت کے اس اقدام کو بھارتی عوام اور کشمیری ہی تبدیل کرسکتے ہیں ، بھارت میں مقتدر قوتوں کے ہوتے اس کی امید بھی بہت کم ہے۔ کیا ہماری حکومت کشمیر کے لیے اعلان جنگ کردے؟اگر یہ غلطی کی گئی تو غربت کے خاتمے ، معیشت کے استحکام اور احتساب کے لیے تحریک انصاف کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائینگے۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ حکومت کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ وہ بھارت کے اس غیر معمولی اقدام سے بے خبر رہی اور گہرائی کے ساتھ صورت حال کا جائزہ نہیں لے سکی۔ خود کو تباہ کرلینے کے مشورے نری حماقت ہے۔پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکا ہے لیکن اس کے زیادہ حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے سبق سیکھنا شروع کردیا ہے کہ کشمیر اور افغانستان جیسے مسائل کا صرف سیاسی حل ہوسکتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں کارگل کی اپنی غلطی کو درست کرنے لیے مسئلہ کشمیر کا قدرے مختلف انداز میں حل نکالنے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے کشمیر کے لیے ''چار نکاتی حل'' پیش کیا۔ یہ ''بہترین خیال'' جنرل مشرف کے ذہن میں کہاں سے آیا۔ مختلف ذرایع سے اس کی تصدیق بھی ہوچکی ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کو بھی اصولی طور پر یہ حل قبول تھا، لیکن دستخط کی تقریب سے چند گھنٹے پہلے ہی معاملہ بگڑ گیا۔ مشرف نے افواج کے بتدریج انخلا، ایل او سی کے دونوں اطراف آزادانہ نقل و حرکت اور دونوں جانب آزاد ہونے کے بجائے خود مختار حکومت کے قیام سمیت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے غیر روایتی حل پیش کیے۔ یہ مؤثر اقدامات ہوسکتے تھے جو حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے۔ پاکستان میں آنے والی سویلین حکومتیں اس مسئلے کا کوئی غیر روایتی حل پیش کرنے میں ناکام رہیں۔
پاکستان کو اپنی روایتی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنے موقف کی تشکیل نو کرنا چاہیے۔ بھارتی فیصلے کے اثرات گلگت بلتستان پر بھی ہوں گے جسے اب پوری طرح پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ سمجھ لینے کے بعد کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں ہمیں ''بلند ترین جنگی محاذ'' سے فوج کم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ آخر میں، ایک بار پھر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا، ہندوستانی مسلمان ہندوؤں کے زیر نگیں رہنے کو تیار نہیں تھے اسی لیے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان کے برابر ہوچکی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی زندگی سنگین حالات سے دو چار رہی ہے اور اس میں مزید ابتری آئے گی۔ لیکن ہندو توا بنتے بھارت میں مسلمانوں کا مقدر کیا کشمیریوں سے مختلف ہوگا؟ اس لیے جب ان کے حقوق پر ضرب پڑے گی تو پاکستان فطری طور پر بھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے گا تاہم یہ حمایت سیاسی اور سفارتی سطح تک ہی ہوسکتی ہے۔ تجارتی و سفارتی تعلقات میں کمی لانے یا ختم کرنے جیسے اقدامات ہی ہم کرسکتے ہیں۔
زمینی حقائق میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ لیکن بھارتی اقدام سے امید کی ایک کرن یہ بھی پیدا ہوئی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ہمیں مودی نے ایک سنہرا موقع دیا ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پوری دنیا میں عوامی تاثر کو درست کرنے کے لیے ہمیں اپنے سابق سفیروں کی خدمات حاصل کرنی چاہیں اور انھیں تین سے چار ہفتوں کے لیے ایسے ممالک میں بھیجنا چاہیے جہاں وہ خدمات انجام دے چکے ہیں، اس دوران وہ اپنے پرانے رابطوں اور مقامی میڈیا کی مدد سے کشمیر کے بارے میں حقائق ان ممالک کے شہریوں کے سامنے لائیں۔
اگرچہ بھارت کے حالیہ اقدامات ایک بہت بڑا چیلنج ہیں تاہم کیا ہم یہ حوصلہ اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس چیلنج کو کشمیر پر عالمی ضمیر جھنجوڑنے کے موقعے میں تبدیل کردیں؟ اس دوران میں ہمیں اپنی قوت مجتمع رکھنا ہوگی۔ ہم جنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے، اگر حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں تو یہ ہم پر مسلط ہوکر رہے گی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
بھارت میں حزب اختلاف کی تقریباً ہر جماعت نے اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔ لیکن مودی کو یہ قدم اٹھاتے ہوئے حقیقی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سیاسی طور پر دیوالیہ ہوچکی کانگریس کی قیادت کو حالیہ انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی کی سیاست میں صرف طاقت ہی اصول ہے، ایسی صورت حال میں یہ ''رسمی بیانات'' کسی گنتی میں نہیں آتے۔ بی جے پی نے دوسری بار منتخب ہونے کے لیے جو منشور پیش کیا اس میں مذکورہ آئینی دفعات کا خاتمہ سر فہرست تھا یہی وجہ ہے کہ یہ اقدام ہرگز غیر متوقع نہیں تھا۔
فروری میں پاکستان پر جارحیت کی ناکام کوشش نے بھارت کی جنگی صلاحیتوں کا پول کھول دیا۔ اس میں انھیں جنگی طیارے سے ہاتھ دھونا پڑا جب کہ ایک جنگی پائلٹ گرفتار ہوگیا۔ اس کے بعد عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارتی جاسوس کو پاکستان کی فوجی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کی توثیق ہوگئی اور بھارت کو صرف جنیوا کنوینشن کے تحت ''قونصل رسائی'' کی رعایت ہی مل سکی۔
لائن آف کنٹرول پر مسلسل حملے اور پاکستانی شہریوں پر کلسٹر بموں کے استعمال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت اپنی ان ناکامیوں سے کتنا مضطرب ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان کے کام یاب دورۂ امریکا نے بھارت کی پاکستان مخالف پراپیگنڈے کی بیس سالہ کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے کشمیر میں ثالثی کی پیش کش کی کہ مودی نے ہی اس کے لیے ان سے آمادگی حاصل کی تھی۔ بظاہر یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے بی جی پی نے جلد بازی میں کشمیر کا ''حتمی حل'' کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
وادی کی آبادی 70 لاکھ سے بھی کم ہے جب کہ وہاں 5لاکھ فوجی تعینات ہیں، ان میں مزید تیس ہزار کا اضافہ کیا گیا، سیاحوں کو زبردستی کشمیر سے نکالا گیا اور پاک بھارت سرحد پر ہائی الرٹ جاری کیا گیا، یہ سبھی اقدامات کسی غیر معمولی پیش قدمی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن سے، جس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کررہا ہے، اگر دنیا کا کوئی ملک پریشان ہے تو وہ بھارت ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں بھارت کے ہاتھ سے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے کے آسان مواقع نکل جائیں گے۔
بھارت نے 80کی دہائی میں روس کے فوجیوں کی زندگیوں اور وسائل کے بل پر افغانستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس صدی کے آغاز سے وہ امریکا کا کندھا استعمال کررہا ہے۔ تو کیا یہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے کی ایک کوشش ہے؟ مودی کا اندازہ درست نکلا اور حالیہ بھارتی اقدام کے خلاف عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ نے آواز نہیں اٹھائی ، مختلف حلقوں نے محض ہلکی پھلکی تنقید ہی پر اکتفا کیا۔ ٹرمپ کی توجہ افغانستان اور یورپ کا دھیان اس وقت پناہ گزینوں اور بریگزیٹ کے مسائل پر ہیں۔
عالمی تنظیموں سے شکایت بے سود ہے۔ عالمی عدالت انصاف جانے سے کیا ہوگا؟ معزز جج صاحبان سے کسی واضح اور ٹھوس موقف کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ سات دہائیوں سے اس معاملے میں کچھ نہ کرنے والی سلامتی کونسل اب بھی مدد کو نہیں آئے گی۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریروں سے اتحاد و یگانگت کا پیغام تو خاک ملا ، سیاسی تقسیم کھل کر سامنے آگئی۔ بھارت کے اس اقدام کو بھارتی عوام اور کشمیری ہی تبدیل کرسکتے ہیں ، بھارت میں مقتدر قوتوں کے ہوتے اس کی امید بھی بہت کم ہے۔ کیا ہماری حکومت کشمیر کے لیے اعلان جنگ کردے؟اگر یہ غلطی کی گئی تو غربت کے خاتمے ، معیشت کے استحکام اور احتساب کے لیے تحریک انصاف کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائینگے۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ حکومت کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ وہ بھارت کے اس غیر معمولی اقدام سے بے خبر رہی اور گہرائی کے ساتھ صورت حال کا جائزہ نہیں لے سکی۔ خود کو تباہ کرلینے کے مشورے نری حماقت ہے۔پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکا ہے لیکن اس کے زیادہ حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے سبق سیکھنا شروع کردیا ہے کہ کشمیر اور افغانستان جیسے مسائل کا صرف سیاسی حل ہوسکتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں کارگل کی اپنی غلطی کو درست کرنے لیے مسئلہ کشمیر کا قدرے مختلف انداز میں حل نکالنے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے کشمیر کے لیے ''چار نکاتی حل'' پیش کیا۔ یہ ''بہترین خیال'' جنرل مشرف کے ذہن میں کہاں سے آیا۔ مختلف ذرایع سے اس کی تصدیق بھی ہوچکی ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کو بھی اصولی طور پر یہ حل قبول تھا، لیکن دستخط کی تقریب سے چند گھنٹے پہلے ہی معاملہ بگڑ گیا۔ مشرف نے افواج کے بتدریج انخلا، ایل او سی کے دونوں اطراف آزادانہ نقل و حرکت اور دونوں جانب آزاد ہونے کے بجائے خود مختار حکومت کے قیام سمیت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے غیر روایتی حل پیش کیے۔ یہ مؤثر اقدامات ہوسکتے تھے جو حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے۔ پاکستان میں آنے والی سویلین حکومتیں اس مسئلے کا کوئی غیر روایتی حل پیش کرنے میں ناکام رہیں۔
پاکستان کو اپنی روایتی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنے موقف کی تشکیل نو کرنا چاہیے۔ بھارتی فیصلے کے اثرات گلگت بلتستان پر بھی ہوں گے جسے اب پوری طرح پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ سمجھ لینے کے بعد کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں ہمیں ''بلند ترین جنگی محاذ'' سے فوج کم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ آخر میں، ایک بار پھر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا، ہندوستانی مسلمان ہندوؤں کے زیر نگیں رہنے کو تیار نہیں تھے اسی لیے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان کے برابر ہوچکی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی زندگی سنگین حالات سے دو چار رہی ہے اور اس میں مزید ابتری آئے گی۔ لیکن ہندو توا بنتے بھارت میں مسلمانوں کا مقدر کیا کشمیریوں سے مختلف ہوگا؟ اس لیے جب ان کے حقوق پر ضرب پڑے گی تو پاکستان فطری طور پر بھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے گا تاہم یہ حمایت سیاسی اور سفارتی سطح تک ہی ہوسکتی ہے۔ تجارتی و سفارتی تعلقات میں کمی لانے یا ختم کرنے جیسے اقدامات ہی ہم کرسکتے ہیں۔
زمینی حقائق میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ لیکن بھارتی اقدام سے امید کی ایک کرن یہ بھی پیدا ہوئی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ہمیں مودی نے ایک سنہرا موقع دیا ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پوری دنیا میں عوامی تاثر کو درست کرنے کے لیے ہمیں اپنے سابق سفیروں کی خدمات حاصل کرنی چاہیں اور انھیں تین سے چار ہفتوں کے لیے ایسے ممالک میں بھیجنا چاہیے جہاں وہ خدمات انجام دے چکے ہیں، اس دوران وہ اپنے پرانے رابطوں اور مقامی میڈیا کی مدد سے کشمیر کے بارے میں حقائق ان ممالک کے شہریوں کے سامنے لائیں۔
اگرچہ بھارت کے حالیہ اقدامات ایک بہت بڑا چیلنج ہیں تاہم کیا ہم یہ حوصلہ اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس چیلنج کو کشمیر پر عالمی ضمیر جھنجوڑنے کے موقعے میں تبدیل کردیں؟ اس دوران میں ہمیں اپنی قوت مجتمع رکھنا ہوگی۔ ہم جنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے، اگر حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں تو یہ ہم پر مسلط ہوکر رہے گی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)