تطہیر قلب اور اتحادِ امّت کا بے مثال مظہر

ایک مسلمان ہونے کے ناتے سرزمین بطحا کی زیارت انسانی قوت فکر کی معراج ہوتی ہے۔

ایک مسلمان ہونے کے ناتے سرزمین بطحا کی زیارت انسانی قوت فکر کی معراج ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

یوں تو ارکان اسلام میں ہر رکن اہمیت کے اعتبار سے اپنا ایک مقام رکھتا ہے اور یہ حیات انسانی کی روحانی بقاء اور فلاح دارین کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اس میں کلمے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

کوئی انسان اس وقت تک دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی وحدت و کبریائی اور حضور سیدالمرسلینؐ کی رسالت کا اقرار نہ کرے۔ اقرار توحید و رسالت کے بعد پانچ وقت نماز فرض ہوجاتی ہے، یہ اہم فرض ادا کرنے کے لیے غربت و امارت کی کوئی قید نہیں ۔ ہرکس و ناکس، شاہ و گدا، تنکوں سے بنے ہوئے آشیانے میں زندگی گزارنے والا اور قصر شاہی میں محو استراحت، سب پر فرض بھی ہے اور آسان بھی۔ روزہ بھی ہر مسلمان پر فرض ہے فقط مسافروں اور بیماروں کو استثنا حاصل ہے۔

زکوٰۃ، سماجی ناہمواری کی قباحت کو درست کرنے کے لیے اہل زر پر فرض ہے کہ وہ تطہیر دولت کے لیے غرباء و مساکین کی امداد کریں تاکہ ان کی دولت بھی پاک ہوجائے اور مفلوک الحال اور غربت زدہ لوگوں کی تشنگی اور اشتہاء کا مداوا بھی۔ ان میں حج وہ عظیم سعادت ہے جو اگرچہ صاحبان استطاعت پر فرض ہے لیکن یہ حامل لذت و لطافت عبادت کی تمنا ہر چھوٹا یا بڑا، امیر و غریب کرتا ہے۔

ایک مسلمان ہونے کے ناتے سرزمین بطحا کی زیارت انسانی قوت فکر کی معراج ہوتی ہے۔ مسلمان کے تخیل کی اڑان کی انتہاء بیت اللہ شریف کے وہ در و دیوار ہوتے ہیں جن میں اس کی طمانیت، فرحت و شادمانی کے اسرار مخفی ہوتے ہیں۔ اس کا طائر تخیل غلاف کعبہ کو اپنا نشیمن بنانے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ اس کے ہونٹ اس حجر اسود کو چومنے کے لیے بے قرار ہوتے ہیں جسے دست رسالت مآب ﷺ کے لمس اور لب مصطفیؐ کی مٹھاس اپنے اندر سمو لینے کا شرف حاصل ہے۔ وہ اس ملتزم سے چمٹ کر نالہ و شیون اور آہ و بکا سے اپنی فرد عصیاں کو طہارت و نجات اخروی میں بدلنا چاہتا ہے۔

وہ باب کعبہ سے لپٹ کر معصیت آلود قلب و نظر کو تقدس و تحرم کی زیبائی سے منور کرنا چاہتا ہے۔ وہ مقام ابراہیمؑ کے پاس کھڑا ہوکر حضور سیدالکونین ﷺ کے اسلاف مبارک کی مقدس یادوں کو اپنی ہر رگ میں بسانا چاہتا ہے۔ وہ طواف کعبہ سے اپنے دل میں سو ز و گداز کی وہ کیفیت پیدا کرنا چاہتا ہے جو اسے مدام یاد خدا میں عالم ازخود وارفتگی کی کیفیت میں اس طرح ڈبو دے کہ اس کے تمام گناہ آب رحمت سے دُھل جائیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے۔

تیری رحمت کے صدقے دھو دیا سارے گناہوں کو

معاصی کا نہیں ہے نام بھی اب فردِ عصیاں میں

حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کا مشتاق طواف کعبہ کے دوران حطیم میں بارگاہ رب ذوالجلال میں رکوع و سجود کی لذت سے اپنی بے چین جبیں کو جھکا کر معراج بندگی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اسی رکوع و سجود کو مومن کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ وہ آب زم زم سے تشنگیٔ قلب و جگر مٹانا چاہتا ہے۔ وہ زم زم، جو آداب فرزندی سے معمور و سرشار سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اس تشنہ کامی کا اعجاز ہے جس کا اظہار انہوں نے عہد طفولیت میں اپنی والدہ ماجدہ سے عالم بے قراری میں کیا تھا۔ اللہ کو فرزند ابراہیمؑ کی یہ معصومانہ ادا اتنی پسند آئی کہ ان کی پیاس کے اہتمام کے صدقے میں یہ زم زم آب شفا بن گیا۔

زم زم، صدیوں سے اُبَل رہا ہے اور طلوع آفتاب قیامت تک اُبَلتا رہے گا۔ زائرِ سرزمین بطحا و کعبہ سیدنا اسمعٰیلؑ کی والدہ ماجدہ حضرت حاجرہ کی سُنّت مقدسہ کی ادائی کے لیے صفا و مروہ کا رخ کرتا ہے۔ صفا و مروہ ازروئے قرآن شعائر اللہ میں سے ہے۔ اپنے عزیز ازجان و دل فرزند کے لیے بے قراری و تذبذب کے ساتھ ادھر اُدھر چکر لگانا اللہ کے بندوں کے لیے قیامت تک لازمی ٹھہرا دیا گیا۔ اس وقت تک حج و عمرہ کی تکمیل نامکمل ہوتی ہے جب تک اسی اضطراب کی کیفیت میں سات چکر نہ لگائے جائیں۔ یہ تمام ضوابط تزکیۂ نفس اور طہارت جسم و روح کا باعث بنتے ہیں۔ بیت اللہ شریف اور اس کے ملحق زیارات کی فیوض و برکات کو دل و نگاہ میں بسائے فرزندا ن اسلام عرفات کا رخ کرتے ہیں۔

جہاں پہنچ کر انسان حیرت و استعجاب کی وادی میں کھو جاتا ہے۔ عرفات وہ جگہ ہے جہاں آدم و حوا کی توبہ کو بارگہۂ خداوندی میں قبولیت کا شرف حاصل ہوا، جہاں جدائی کے بعد پھر سے انہیں وصل کی دولت سے بہرہ یاب کیا گیا۔ یہی وہ محترم و محتشم وادی ہے۔ جہاں محسن انسانیت آقائے دو جہاں نور اولین و آخریں حضور سید المرسلین ﷺ نے آخری حج کے موقع پر عالم انسانیت کو ایک حیات آفریں دستورالعمل اور ضابطۂ مساوات مرحمت فرمایا تھا۔

ایک ایسا دستورالعمل جس نے وقوع محشر تک کے انسانوں کی زندگی میں حیات بخش انقلاب برپا کردیا۔ حجاج وہاں جا کر اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ آقا کریم ﷺ کے نعلین مبارک کی چاپ سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے۔ صحابہ کرامؓ، آداب بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے قرینوں کو دل میں سجائے ہمہ تن گوش ہیں۔ آقا کریم ﷺ کی زبان گوہرفشاں سے ارشاد ہوتا ہے کہ کسی کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر، عجمی کو عربی اور عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں بہ جز تقویٰ کے۔

اسی وادی مکرم (عرفات) میں آکر امت مسلمہ کی شان و شوکت، سطوت و شوکت اور اتفاق و اتحاد کا فقیدالمثال مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ احتشام اتفاق و اتحاد معاندین اسلام کے نشیمن پر بجلیاں گرا دیتا ہے۔ اس اجتماع عظیم کودیکھ کر ان پر وہ سطوت و جلال اور دبدبہ طاری ہوجاتا ہے جس کی ہیبت وہ سارا سال محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اسی میدان عرفات میں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے مسلمانوں میں من و تُو کا امتیاز مٹ جاتا ہے۔ رومی و ایرانی، شامی و افغانی، فلسطینی و عراقی ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر یوں فروکش ہوتے ہیں کہ کائنات رنگ و بُو اور عالم بالا کے مکین تبسم ریزی سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ کی رحمت ابرباراں کی صورت میں چھم چھم برس رہی ہوتی ہے۔ دامن خطا نوید مغفرت و نجات سے بھر جاتے ہیں۔


علامہ اقبال نے شاید اسی منظر کے پیش نظر فرمایا تھا:

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم

چمن زادیم وازیک شاخساریم

تمیز رنگ و بُو بر ماحرام است

کہ ما پروردۂ یک نوبہاریم

اسی جگہ مسجد نمرہ واقع ہے جہاں اما م صاحب حجاج کے عظیم اجتماع سے خطاب فرماتے ہیں۔ ان کے لہجہ تکلم میں بڑی تمکنت اور جلال ہوتا ہے۔ وہ مسلمانان عالم کو دشمنان اسلام کی عیارانہ سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں اور انہیں ایک صف میں کھڑے ہوجانے کی دردمندانہ ترغیب و تلقین کرتے ہیں۔ ان کو عظمت رفتہ اور شکوہ اسلاف کا سبق یاد دلاتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح جذب باہمی اور شاندار اتفاق سے صحرا سے نکل کر روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھی کائنات کو مسخر کرکے اپنے خاک نشین کملی والےؐ کی قدموں میں ڈال دیا تھا۔ یہاں شدید تمازت آفتاب کے باوجود بھی جس سکون و اطمینان سے بندگان خدا وقت گزارتے ہیں وہ فی الواقع نزول رحمت پروردگار کا مظہر ہوتا ہے۔

یہیں پہ سنت ابراہیمؑ ادا کرتے ہوئے شیاطین کو کنکریاں ماری جاتی ہیں اس سے فضلاء نے دو نتائج اخذ کیے ہیں ایک تو خلیل اللہ کا تتبع جو قیامت تک ہوتا رہے گا۔ دوسرے طاغوت سے شدید نفرت کا اظہار کہ جب بھی اور جہاں بھی طاغوتی قوتیں صراط مستقیم سے بھٹکانے کی کوشش کریں ان پرسنگ زنی کی جائے تاآں کہ وہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں اور آپ پیروی حق میں مصروف ہوجائیں۔

یہ عظیم و نجات آگیں سعادت حاصل کرنے کے بعد آخر میں قربانی کی جاتی ہے کہ یہاں جانوروں کا خون بہانا اللہ رب العزت کو مرغوب و محبوب ہے کہ یہاں حکم خداوندی میں جناب خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے جگر پارے کو زمین پر لٹا کر حکم رب سے وفاداری کی انتہا کردی۔ اور صلہ یہ ملا کہ قیامت تک لوگ اس کی تقلید میں جانوروں کا خون بہاتے رہیں گے۔ اور حضرت اسمٰعیلؑ کی شان فرزندی پر آج تک ارباب تک ارباب عقل و دانش محو حیرت ہیں کہ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی۔

یوں یہ فریضہ تطہیر قلب کا باعث بھی ہوتا ہے اور اتحاد ملت اسلامیہ کا مظہر بھی۔

یہاں سے فراغت کے بعد حجاج کرام تکمیل عقیدت و محبت کے لیے شہر محمد عربی ﷺ کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ اس ہستی ذیشان کے روضۂ اطہر کی زیارت کے لیے جس نے صراط توحید سے آشنا کیا، جس کے توسل سے دولت ایمان نصیب ہوئی۔

تو فرمودی رہ بطحا گرفتم

وگرنہ جز تومارا منزل نیست
Load Next Story