کشمیر کی آواز
قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر اب تک یہاں کے لوگوں کی زندگیاں عمومی طور پر ’’جہنم مثال‘‘ بن رہی ہیں۔
کشمیر پر پہلی نظم میں نے آج سے کوئی 45 برس قبل لکھی تھی اُس وقت بھی کشمیر اور کشمیری ایک ناجائز تسلط کا شکار تھے اور آج بھی وہ آزادی ، خود مختاری اور حقِ خودارادیت سے محروم ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک طرف اُن کی مزاحمت، احتجاج اور انصاف کی پکار میں شدت آتی ہے اور دوسری طرف بھارت نے ہر دس کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے ایک فوجی وہاں بھیج رکھا ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا، اس کی تفصیل کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ اور اس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کو چکر دے کر جس طرح سے آئین میں ترمیم اور ایک نئے قانون کے ذریعے کشمیر کو ایک مخصوص اور منفرد اسٹیٹس دے کر بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی اور اقوام متحدہ کی اُن قرار دادوں کے برعکس جن میں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا تھا اور جس کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو نے متعدد بار لکھ کر اور زبانی اقرار کیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف کشمیری عوام کی مرضی سے ہو گا لیکن اس کے باوجود نہ تو بھارت اور نہ ہی عالمی ضمیر کو یہ توفیق نصیب ہوتی ہے کہ وہ اس وعدے کی پاسداری اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حفاظت کرتے۔
65ء کی جنگ اور معاہدہ تاشقند سے بھی صورتِ حال میں کوئی معیاری یا مقداری تبدیلی پیدا نہ ہو سکی بلکہ عالمی سطح پر یہ مسئلہ مزید سرد خانے میں پڑتا چلا گیا، یہاں تک کہ شملہ معاہدے کے ذریعے اسے عالمی دراندازی سے علیحدہ کر کے دونوں ملکوں کا ایک اندرونی مسئلہ قرار دے دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ باہمی گفت و شنید سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے گا مگر تاریخ گواہ ہے کہ 47برس بعد اس ضمن میں جو واحد پیش رفت ہوئی ہے وہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کا یہ اعلان ہے کہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کر کے اُسے براہ راست بھارتی صدر کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔
یہ بات جتنی بھی غلط ، غیر قانونی اور ظالمانہ کیوں نہ ہو مگر غیر متوقع اس لیے نہیں تھی کہ بی جے پی اور مودی سرکار نے جو فضا پیدا کر دی تھی اور جن نعروں پر انتخاب جیتا تھا اُس کا لازمی نتیجہ اسی طرح کے کسی اقدام کی صورت میں نکلنا تھا۔ اب اس کے ردِّعمل کے تین ممکنہ پہلو ہیں 1۔ کشمیری اس کا جواب کیسے دیں گے؟ 2۔ پاکستان اپنی ذمے داری کیسے ادا کرے گا؟ اور عالمی ضمیر کس طرح سے اور کتنا جاگے گا؟ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے قبل مجھے فلسطین کے عظیم شاعر محمود درویش کے اُس شعری مجموعے کا نام بہت یاد آ رہا ہے جو میں نے چند برس قبل لندن کے ایک بک اسٹور میں دیکھا تھا جو کچھ یوں تھا:
Unfortunately, it was paradise
کشمیر کو وادی جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے لیکن قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر اب تک یہاں کے لوگوں کی زندگیاں عمومی طور پر ''جہنم مثال'' بن رہی ہیں بالخصوص اس کا وہ علاقہ جو وادی کہلاتا ہے بوجوہ اس ستم کا زیادہ نشانہ بنا ہے کہ اس کے ایک طرف جموں اور دوسری طرف لداخ کے علاقوں میں مسلمان آبادی نہ صرف نسبتاً کم ہے بلکہ فیصلہ کن پوزیشن میں بھی نہیں بلکہ وادی کی آبادی کا تقریباً 90% مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس کی بہت بڑی کثرت اپنا حق خودارادیت استعمال کر کے اس اختیاری آزادی چاہتی ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق کر لے اور یہ بات تقسیم کے اُس فارمولے کے عین مطابق ہو گی جس کے تحت آزادی کے وقت ریاستوں کے عوام کو دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا حق اور موقع دیا گیا تھا، اب اگر ایک لمحے کے لیے اس معاملے کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے کہ کشمیری عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں اصل معاملہ اُن کے حق خودارادیت کا ہے اس بات کا امکان بھی ردّ نہیں کیا جا سکتا کہ اگر وادی کے عوام کو جموں اور لداخ کے باسیوں سمیت انتخاب کی آزادی دی جائے تو وہ دونوں جس کسی بھی ملک کا حصہ تھے کے بجائے ایک آزاد ریاست کے قیام کو ترجیح دیں سو اس وقت ہمیں ساری توجہ کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار، اُن کے حقِ خودارادیت کے احترام اور عالمی رائے عامہ کو ان کے جائز حق کی حفاظت کے لیے متحرک کرنے کی طرف ہونا چاہیے۔
مودی سرکار نے یہ قدم اُٹھایا تو اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے ہے مگر اس کی تمام تر برائیوں میں ایک خیر کا پہلو یہ بھی ہے کہ اب یہ مسئلہ علاقائی حد سے نکل کر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر زندہ اور متحرک ہو گیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان کی حکومت اور دانشور بھی اس موقع پر ہوشمندی کا ثبوت دیں گے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی اور اُن کے حقوق کی بحالی کے لیے ایسے اقدامات اٹھائیں گے جن سے یہ مسئلہ اپنے اُس حل کی طرف جائے جس پر پڑنے والی سات دہائیوں کی گرد نے اسے دنیا کی نگاہوں سے تقریباً اوجھل کر دیا تھا اور اپنی حکمت عملی سے بھارتی حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ کشمیریوں کو اُن کا وہ حق دیں جوہر انسان کا بنیادی حق ہے اور جس کے لیے خود بھارت کے اندر سے بھی ایسی بے شمار آوازیں اُٹھ رہی ہیں جن کی بنیاد حق و انسانیت کا وہ احساس ہے جو رب کریم نے ہر انسان کو رنگ ، نسل ، زبان اور مذہب کی تفریق سے بالاتر رکھتے ہوئے عطا کیا ہے ۔
تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ اور اس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کو چکر دے کر جس طرح سے آئین میں ترمیم اور ایک نئے قانون کے ذریعے کشمیر کو ایک مخصوص اور منفرد اسٹیٹس دے کر بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی اور اقوام متحدہ کی اُن قرار دادوں کے برعکس جن میں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا تھا اور جس کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو نے متعدد بار لکھ کر اور زبانی اقرار کیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف کشمیری عوام کی مرضی سے ہو گا لیکن اس کے باوجود نہ تو بھارت اور نہ ہی عالمی ضمیر کو یہ توفیق نصیب ہوتی ہے کہ وہ اس وعدے کی پاسداری اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حفاظت کرتے۔
65ء کی جنگ اور معاہدہ تاشقند سے بھی صورتِ حال میں کوئی معیاری یا مقداری تبدیلی پیدا نہ ہو سکی بلکہ عالمی سطح پر یہ مسئلہ مزید سرد خانے میں پڑتا چلا گیا، یہاں تک کہ شملہ معاہدے کے ذریعے اسے عالمی دراندازی سے علیحدہ کر کے دونوں ملکوں کا ایک اندرونی مسئلہ قرار دے دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ باہمی گفت و شنید سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے گا مگر تاریخ گواہ ہے کہ 47برس بعد اس ضمن میں جو واحد پیش رفت ہوئی ہے وہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کا یہ اعلان ہے کہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کر کے اُسے براہ راست بھارتی صدر کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔
یہ بات جتنی بھی غلط ، غیر قانونی اور ظالمانہ کیوں نہ ہو مگر غیر متوقع اس لیے نہیں تھی کہ بی جے پی اور مودی سرکار نے جو فضا پیدا کر دی تھی اور جن نعروں پر انتخاب جیتا تھا اُس کا لازمی نتیجہ اسی طرح کے کسی اقدام کی صورت میں نکلنا تھا۔ اب اس کے ردِّعمل کے تین ممکنہ پہلو ہیں 1۔ کشمیری اس کا جواب کیسے دیں گے؟ 2۔ پاکستان اپنی ذمے داری کیسے ادا کرے گا؟ اور عالمی ضمیر کس طرح سے اور کتنا جاگے گا؟ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے قبل مجھے فلسطین کے عظیم شاعر محمود درویش کے اُس شعری مجموعے کا نام بہت یاد آ رہا ہے جو میں نے چند برس قبل لندن کے ایک بک اسٹور میں دیکھا تھا جو کچھ یوں تھا:
Unfortunately, it was paradise
کشمیر کو وادی جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے لیکن قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر اب تک یہاں کے لوگوں کی زندگیاں عمومی طور پر ''جہنم مثال'' بن رہی ہیں بالخصوص اس کا وہ علاقہ جو وادی کہلاتا ہے بوجوہ اس ستم کا زیادہ نشانہ بنا ہے کہ اس کے ایک طرف جموں اور دوسری طرف لداخ کے علاقوں میں مسلمان آبادی نہ صرف نسبتاً کم ہے بلکہ فیصلہ کن پوزیشن میں بھی نہیں بلکہ وادی کی آبادی کا تقریباً 90% مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس کی بہت بڑی کثرت اپنا حق خودارادیت استعمال کر کے اس اختیاری آزادی چاہتی ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق کر لے اور یہ بات تقسیم کے اُس فارمولے کے عین مطابق ہو گی جس کے تحت آزادی کے وقت ریاستوں کے عوام کو دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا حق اور موقع دیا گیا تھا، اب اگر ایک لمحے کے لیے اس معاملے کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے کہ کشمیری عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں اصل معاملہ اُن کے حق خودارادیت کا ہے اس بات کا امکان بھی ردّ نہیں کیا جا سکتا کہ اگر وادی کے عوام کو جموں اور لداخ کے باسیوں سمیت انتخاب کی آزادی دی جائے تو وہ دونوں جس کسی بھی ملک کا حصہ تھے کے بجائے ایک آزاد ریاست کے قیام کو ترجیح دیں سو اس وقت ہمیں ساری توجہ کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار، اُن کے حقِ خودارادیت کے احترام اور عالمی رائے عامہ کو ان کے جائز حق کی حفاظت کے لیے متحرک کرنے کی طرف ہونا چاہیے۔
مودی سرکار نے یہ قدم اُٹھایا تو اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے ہے مگر اس کی تمام تر برائیوں میں ایک خیر کا پہلو یہ بھی ہے کہ اب یہ مسئلہ علاقائی حد سے نکل کر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر زندہ اور متحرک ہو گیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان کی حکومت اور دانشور بھی اس موقع پر ہوشمندی کا ثبوت دیں گے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی اور اُن کے حقوق کی بحالی کے لیے ایسے اقدامات اٹھائیں گے جن سے یہ مسئلہ اپنے اُس حل کی طرف جائے جس پر پڑنے والی سات دہائیوں کی گرد نے اسے دنیا کی نگاہوں سے تقریباً اوجھل کر دیا تھا اور اپنی حکمت عملی سے بھارتی حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ کشمیریوں کو اُن کا وہ حق دیں جوہر انسان کا بنیادی حق ہے اور جس کے لیے خود بھارت کے اندر سے بھی ایسی بے شمار آوازیں اُٹھ رہی ہیں جن کی بنیاد حق و انسانیت کا وہ احساس ہے جو رب کریم نے ہر انسان کو رنگ ، نسل ، زبان اور مذہب کی تفریق سے بالاتر رکھتے ہوئے عطا کیا ہے ۔