کرکٹ کمیٹی ارکان منصف بھی امیدوار بھی
ڈپارٹمنٹس کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا، وفاقی کابینہ نے بورڈ کے نئے ڈھانچے کی منظوری بھی دے دی۔
آخر کار وزیر اعظم عمران خان کے ویژن پر عمل کرتے ہوئے پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم میں تبدیلی کر ہی دی، ڈپارٹمنٹس کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا، وفاقی کابینہ نے بورڈ کے نئے ڈھانچے کی منظوری بھی دے دی۔
بظاہر فائدے کم اور نقصان زیادہ نظر آ رہے ہیں، سیزن شروع ہونے میں ایک ماہ رہ گیا اور ابھی تک نئے نظام کے خدوخال واضح نہیں ہو سکے، چونکہ وزیراعظم کی ہدایت تھی اس لیے پی سی بی کو بھی کوئی پرواہ نہیں اور اچانک ہی اعلان ہو جائے گا کہ ایسا ایسا کر دیا،ہونا یہ چاہیے تھا کہ اہم فیصلوں سے قبل جاوید میانداد، ظہیر عباس اور عبدالقادر جیسے سابق کرکٹرز سے رائے لی جاتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، میڈیا کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ نئے نظام میں کیا کچھ ہوگا، اب تک صرف قیاس آرائیاں ہی ہو رہی ہیں۔
کرکٹرز اور کوچز اپنے مستقبل پر تشویش کا شکار ہیں، شاید عید کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی،6ٹیموں کے مجوزہ نظام میں ایک بات طے ہے کہ کئی کھلاڑی بے روزگار ہوں گے، ڈپارٹمنٹل ٹیمیں بند ہونے سے وہ لگی بندھی آمدنی سے محروم ہو جائیں گے، پہلے غریب گھرانے کے لڑکے کرکٹ میں آتے تو انھیں پتا ہوتا تھا کہ ملازمت مل گئی تو مسائل کم ہو جائیں گے، اب ایسا نہیں ہو گا، گوکہ بورڈ کے بعض لوگ یہ دعوے ضرور کر رہے ہیں کہ نئے نظام میں کھلاڑیوں کو اچھے معاوضے ملیں گے لیکن ایسا صرف چند کے ساتھ ہی ہوگا، جو منتخب نہ ہو سکے انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق 30،35 سال سے زائد العمر کرکٹرز کو کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا، انھیں کوچنگ و دیگر شعبوں میں لانے کا ارادہ ہے،یہاں وہی بات آ جاتی ہے کہ بورڈ نے اپنے منصوبوں کا واضح اعلان نہیں کیا،جب ہوگا تب ہی معاملات کا درست اندازہ ہو سکے گا، وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ درست تھا یا غلط،اگر اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوا تو وسیم خان مسیحا کہلائیں گے، بصورت دیگر یہی کہا جائے گا کہ برطانیہ سے آئے ہوئے ایک شخص نے ملکی کرکٹ کا بیڑا غرق کر دیا۔
ان دنوں پاکستان کرکٹ میں اور بھی کئی اہم معاملات چل رہے ہیں، بورڈ نے سینٹرل کنٹریکٹ کا اعلان کردیا، اس میں کھلاڑیوں کی تعداد کم ہوگئی، بعض سینئرزبھی اے کیٹیگری میں شامل نہیں، صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے یاسر شاہ کو اے میں رکھا گیا ہے، شعیب ملک اور محمد حفیظ سے معاہدے نہیں کیے گئے، شعیب حال ہی میں ون ڈے کرکٹ بھی چھوڑ چکے، البتہ حفیظ نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہے،پاکستان میں یہی مسئلہ ہے کوئی کرکٹر عزت سے خود گھر نہیں جاتا۔
حفیظ کو وقار یونس نے بھی ریٹائرمنٹ کا مشورہ دے دیا مگر وہ اسے ماننے کو تیار نہیں، اب ان میں دم خم نہیں رہا، اچھا یہی ہوگا کہ کوچنگ کورسز وغیرہ کر لیں، وہ باتیں یہی کرتے ہیں کہ لیگز کی بہت آفرز ہیں مگر نظر بہت کم میں ہی آتے ہیں، بڑھتی عمر میں ان کا کھیل اب پہلے جیسا نہیں رہا، مجھے نہیں لگتا کہ اگلی سیریز کیلیے سلیکٹرز ان کا انتخاب کریں گے، یوں ایک اور تجربہ کار کرکٹر کا کیریئر افسوسناک انداز میں ختم ہو جائے گا،بورڈ حکام ویسے ہی ان دنوں سخت فیصلے کر رہے ہیں جیسے مکی آرتھر سمیت پورے کوچنگ اسٹاف کو گھر بھیج دیا۔
ورلڈکپ میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد یہ بالکل درست فیصلہ ہے،چیمپئنز ٹرافی کے سوا مکی کے کریڈٹ پر کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس پروہ فخر کر سکیں، انھیں پاکستان جیسی ٹیمیں ہی پسند ہیں جہاں سپراسٹارز نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی چلا سکیں اسی لیے معاہدے میں توسیع چاہتے تھے مگر بورڈ نے ارمانوں پراوس گرا دی، جاتے جاتے مکی آرتھر سرفراز کو بھی سبق سکھا گئے کہ کسی پر حد سے زیادہ اعتماد نہیں کرنا چاہیے، کپتان ہمیشہ کوچ کی بات سنتے رہے مگر انھوں نے اپنی کشتی ڈوبتی دیکھ کر شکستوں کا ملبہ ان پر گراتے ہوئے تبدیلی کا مشورہ دے دیا،سرفراز کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ شاید انھیں تبدیل کردیا جائے مگربورڈ نے تو کسی نائب کو گروم ہی نہیں کیا تو کسے ذمہ داری سونپیں گے؟
اچانک کسی نئے کھلاڑی کو کپتان بنا دیا تو فیصلہ بیک فائر کر سکتا ہے، اس وقت سرفراز کو ہٹانا مناسب نہیں ہوگا، پہلے کسی کو نائب بنا کر مستقبل کیلیے تیار کریں پھر تبدیلی کا سوچیں، نئے کوچ اور چیف سلیکٹر کے لیے کئی امیدوار سامنے آ چکے ہیں، مصباح الحق کا نام بھی بطور مکی آرتھر جانشین لیا جا رہا ہے، وہ اس کرکٹ کمیٹی کے رکن ہیں جنھوں نے آرتھر سمیت کوچنگ اسٹاف کو معاہدوں میں توسیع نہ دینے کی سفارش کی، اب اگر خودکوچ بن گئے تو یہ اچھا نہیں لگے گا، ویسے بھی ابھی انھیں ڈومیسٹک ٹیموں کے ساتھ کوچنگ کا تجربہ حاصل کرنا چاہیے پھر سینئرٹیم کے ساتھ منسلک ہوں تو مناسب رہے گا۔
کرکٹ کمیٹی کے پرانے سربراہ محسن خان کا نام چیف سلیکٹر، کوچ اور منیجر تینوں پوسٹ کیلیے سامنے آ چکا مگر نجانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ خالی ہاتھ رہ جائیں، عروج ممتاز ویمنز چیف سلیکٹر بن چکیں، مصباح کو کوچنگ سونپنے کی باتیں ہو رہی ہیں، کرکٹ کمیٹی والے ہی سب کام سنبھالیں لیں گے تو دوسرے کیا کریں گے،کوچنگ کیلیے لیول ٹو کی شرط سے واضح ہے کہ کسی مخصوص چہرے کو ذہن میں رکھ کر ہی اشتہار دیا گیا ہے۔
دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، فی الحال تو افواہوں کا بازار ہی گرم ہوچکا، وسیم اکرم کو ''ماضی'' کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کے معاملات سے دور رکھنا چاہیے تھا مگر ایم ڈی سب کچھ انہی کے مشوروں پر کر رہے ہیں، حال ہی میں کئی بڑے فیصلے ہوئے اوروہ چند افراد نے ہی کیے، یہ طریقہ درست نہیں،وہ لوگ تو سوٹ کیس پیک کر کے باہر چلے جائیں گے بھگتنا پاکستان کرکٹ کو پڑے گا، خیر ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں کہ سب اچھا ہو تاکہ کرکٹ مزید پیچھے نہ چلی جائے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
بظاہر فائدے کم اور نقصان زیادہ نظر آ رہے ہیں، سیزن شروع ہونے میں ایک ماہ رہ گیا اور ابھی تک نئے نظام کے خدوخال واضح نہیں ہو سکے، چونکہ وزیراعظم کی ہدایت تھی اس لیے پی سی بی کو بھی کوئی پرواہ نہیں اور اچانک ہی اعلان ہو جائے گا کہ ایسا ایسا کر دیا،ہونا یہ چاہیے تھا کہ اہم فیصلوں سے قبل جاوید میانداد، ظہیر عباس اور عبدالقادر جیسے سابق کرکٹرز سے رائے لی جاتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، میڈیا کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ نئے نظام میں کیا کچھ ہوگا، اب تک صرف قیاس آرائیاں ہی ہو رہی ہیں۔
کرکٹرز اور کوچز اپنے مستقبل پر تشویش کا شکار ہیں، شاید عید کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی،6ٹیموں کے مجوزہ نظام میں ایک بات طے ہے کہ کئی کھلاڑی بے روزگار ہوں گے، ڈپارٹمنٹل ٹیمیں بند ہونے سے وہ لگی بندھی آمدنی سے محروم ہو جائیں گے، پہلے غریب گھرانے کے لڑکے کرکٹ میں آتے تو انھیں پتا ہوتا تھا کہ ملازمت مل گئی تو مسائل کم ہو جائیں گے، اب ایسا نہیں ہو گا، گوکہ بورڈ کے بعض لوگ یہ دعوے ضرور کر رہے ہیں کہ نئے نظام میں کھلاڑیوں کو اچھے معاوضے ملیں گے لیکن ایسا صرف چند کے ساتھ ہی ہوگا، جو منتخب نہ ہو سکے انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق 30،35 سال سے زائد العمر کرکٹرز کو کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا، انھیں کوچنگ و دیگر شعبوں میں لانے کا ارادہ ہے،یہاں وہی بات آ جاتی ہے کہ بورڈ نے اپنے منصوبوں کا واضح اعلان نہیں کیا،جب ہوگا تب ہی معاملات کا درست اندازہ ہو سکے گا، وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ درست تھا یا غلط،اگر اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوا تو وسیم خان مسیحا کہلائیں گے، بصورت دیگر یہی کہا جائے گا کہ برطانیہ سے آئے ہوئے ایک شخص نے ملکی کرکٹ کا بیڑا غرق کر دیا۔
ان دنوں پاکستان کرکٹ میں اور بھی کئی اہم معاملات چل رہے ہیں، بورڈ نے سینٹرل کنٹریکٹ کا اعلان کردیا، اس میں کھلاڑیوں کی تعداد کم ہوگئی، بعض سینئرزبھی اے کیٹیگری میں شامل نہیں، صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے یاسر شاہ کو اے میں رکھا گیا ہے، شعیب ملک اور محمد حفیظ سے معاہدے نہیں کیے گئے، شعیب حال ہی میں ون ڈے کرکٹ بھی چھوڑ چکے، البتہ حفیظ نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہے،پاکستان میں یہی مسئلہ ہے کوئی کرکٹر عزت سے خود گھر نہیں جاتا۔
حفیظ کو وقار یونس نے بھی ریٹائرمنٹ کا مشورہ دے دیا مگر وہ اسے ماننے کو تیار نہیں، اب ان میں دم خم نہیں رہا، اچھا یہی ہوگا کہ کوچنگ کورسز وغیرہ کر لیں، وہ باتیں یہی کرتے ہیں کہ لیگز کی بہت آفرز ہیں مگر نظر بہت کم میں ہی آتے ہیں، بڑھتی عمر میں ان کا کھیل اب پہلے جیسا نہیں رہا، مجھے نہیں لگتا کہ اگلی سیریز کیلیے سلیکٹرز ان کا انتخاب کریں گے، یوں ایک اور تجربہ کار کرکٹر کا کیریئر افسوسناک انداز میں ختم ہو جائے گا،بورڈ حکام ویسے ہی ان دنوں سخت فیصلے کر رہے ہیں جیسے مکی آرتھر سمیت پورے کوچنگ اسٹاف کو گھر بھیج دیا۔
ورلڈکپ میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد یہ بالکل درست فیصلہ ہے،چیمپئنز ٹرافی کے سوا مکی کے کریڈٹ پر کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس پروہ فخر کر سکیں، انھیں پاکستان جیسی ٹیمیں ہی پسند ہیں جہاں سپراسٹارز نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی چلا سکیں اسی لیے معاہدے میں توسیع چاہتے تھے مگر بورڈ نے ارمانوں پراوس گرا دی، جاتے جاتے مکی آرتھر سرفراز کو بھی سبق سکھا گئے کہ کسی پر حد سے زیادہ اعتماد نہیں کرنا چاہیے، کپتان ہمیشہ کوچ کی بات سنتے رہے مگر انھوں نے اپنی کشتی ڈوبتی دیکھ کر شکستوں کا ملبہ ان پر گراتے ہوئے تبدیلی کا مشورہ دے دیا،سرفراز کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ شاید انھیں تبدیل کردیا جائے مگربورڈ نے تو کسی نائب کو گروم ہی نہیں کیا تو کسے ذمہ داری سونپیں گے؟
اچانک کسی نئے کھلاڑی کو کپتان بنا دیا تو فیصلہ بیک فائر کر سکتا ہے، اس وقت سرفراز کو ہٹانا مناسب نہیں ہوگا، پہلے کسی کو نائب بنا کر مستقبل کیلیے تیار کریں پھر تبدیلی کا سوچیں، نئے کوچ اور چیف سلیکٹر کے لیے کئی امیدوار سامنے آ چکے ہیں، مصباح الحق کا نام بھی بطور مکی آرتھر جانشین لیا جا رہا ہے، وہ اس کرکٹ کمیٹی کے رکن ہیں جنھوں نے آرتھر سمیت کوچنگ اسٹاف کو معاہدوں میں توسیع نہ دینے کی سفارش کی، اب اگر خودکوچ بن گئے تو یہ اچھا نہیں لگے گا، ویسے بھی ابھی انھیں ڈومیسٹک ٹیموں کے ساتھ کوچنگ کا تجربہ حاصل کرنا چاہیے پھر سینئرٹیم کے ساتھ منسلک ہوں تو مناسب رہے گا۔
کرکٹ کمیٹی کے پرانے سربراہ محسن خان کا نام چیف سلیکٹر، کوچ اور منیجر تینوں پوسٹ کیلیے سامنے آ چکا مگر نجانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ خالی ہاتھ رہ جائیں، عروج ممتاز ویمنز چیف سلیکٹر بن چکیں، مصباح کو کوچنگ سونپنے کی باتیں ہو رہی ہیں، کرکٹ کمیٹی والے ہی سب کام سنبھالیں لیں گے تو دوسرے کیا کریں گے،کوچنگ کیلیے لیول ٹو کی شرط سے واضح ہے کہ کسی مخصوص چہرے کو ذہن میں رکھ کر ہی اشتہار دیا گیا ہے۔
دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، فی الحال تو افواہوں کا بازار ہی گرم ہوچکا، وسیم اکرم کو ''ماضی'' کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کے معاملات سے دور رکھنا چاہیے تھا مگر ایم ڈی سب کچھ انہی کے مشوروں پر کر رہے ہیں، حال ہی میں کئی بڑے فیصلے ہوئے اوروہ چند افراد نے ہی کیے، یہ طریقہ درست نہیں،وہ لوگ تو سوٹ کیس پیک کر کے باہر چلے جائیں گے بھگتنا پاکستان کرکٹ کو پڑے گا، خیر ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں کہ سب اچھا ہو تاکہ کرکٹ مزید پیچھے نہ چلی جائے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)