’’عید جشن آزادی اور یوم سیاہ ‘‘
کسی کام کو صحیح طریقے سے انجام نہ دے سکنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کام ہی ’’غلط‘‘ تھا۔
شائد ہی کسی قوم کی تاریخ میں اس طرح کے تین دن ایک ساتھ آئے ہوں۔ علامہ صاحب نے یہ بات تو کسی اور تناظرمیں کہی تھی کہ ''خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی'' مگر جن مختلف النوع معانی میں اس کااطلاق بالخصوص گزشتہ ایک صدی سے عملی طور پر ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک خاصے کی چیز ہے کہ 1919 میں پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہونے کے باوجود اس کے نقشے میں ایک بھی ایسا مسلم اکثریت والا ملک موجود نہیں تھا جسے حقیقی تو کیا کسی بھی معنی میں آزاد کہا جاسکتا ہو۔
آج اللہ کے کرم سے 56 سے زیادہ ایسے ملک وجود میں آچکے ہیں جن کی غالب آبادی اسی قومِ رسولِ ہاشمی سے تعلق رکھتی ہے ان میں سے پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ترکی، مصر، شام ، سعودی عرب، ایران اور وسط ایشیائی اور خلیجی ریاستوں کے علاقے یقینا ایسے ہیں جن کا آبادی اور وسائل کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے پہلے تیس ممالک میں شمار ہوتا ہے (لیبیا، فلسطین اورعراق کے نام میں نے اس لیے نہیں کہ یہ اس وقت بوجوہ ہونے اور نہ ہونے کی کسی درمیانی حالت میں ہیں) حج اور عیدالاضحی کے موقعے پر ان ممالک سمیت دنیا بھر سے ہمارے دینی بھائی ایک جگہ جمع ہوتے اور سنتِ ابراہیمی کی تقلید میں ربِ کریم کی راہ میں قربانی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور یوں یہ اجتماع اہلِ حق کی طاقت اور عبودیت کا ایک ایسا روح پرور اظہار بن جاتا ہے جس سے ملتی جُلتی کوئی مثال دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتی۔
رسولِ کریمؐ نے اپنے آخری خطبہ حج میں امت کو جو سبق دیے اور جو وعدے لیے تھے اُن کی رُوح اُس اتحاد اور یک جہتی کا قیام تھا جس کی موجودگی میں کوئی بھی ہماری طرف بُری نظروں سے دیکھنے کی ہمت نہ کرسکتا تھا ۔ہر برس کی طرح اس بار بھی امامِ کعبہ نے بندے اور رب کے تعلق اور اخلاقیات کے حوالے سے بہت اچھی اچھی باتیں کہیں جو بلاشبہ بہت خوبصورت اور ضروری تھیں لیکن اگر وہ اُمت کے اتحاد براہ راست اور امتحانی صورتِ حال میں مبتلا اپنے بھائیوں بالخصوص کشمیر اور فلسطین کی بات بھی کرتے تو شائد ان کا یہ خطبہ زیادہ بامعنی اور روحِ عصر کا نمایندہ اور ترجمان ٹھہرتا کہ قربانی کی اصل روح ربِ دوجہاں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور اس وقت اُس کا بہترین طریقہ کشمیر، فلسطین سمیت اُن تمام مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی مدد ہے جہاں ہمارے بھائیوں کو اُن کے انسانی حقوق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ مودی اور نیتھن یاہو کون ہیں اور کیا اور کیوں کر رہے ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالمی ضمیر اور اُ س سے کہیں زیادہ اسلامی ملکوں کا اجتماعی ضمیر اس کے جواب میں کیا کررہا ہے؟ اور یہ بھی کہ اس ضمن میں روا رکھی جانے والی ہر غفلت کسی دن ایک ایسے دھماکے کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس میں شائد سب کچھ ہی ایک ساتھ ختم ہوجائے۔ سو یہ عیدِ قربان صرف پیروانِ سنتِ ابراہیمی کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری نسلِ آدم کے لیے ایک پیغام لے کر آئی ہے اور وہ یہ کہ ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ نہ دینے والا بھی نہ صرف یہ کہ ظالم کا ساتھی ہوتاہے بلکہ اُس کا انجام بھی بالآخر اُسی کے ساتھ ہوگا۔
کہنے کو تو 72 برس قوموں کی زندگیوں کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوتے مگر یہ بات اب شائد اتنی درست نہیں رہی جیسی قرونِ وسطیٰ اور اُس کے کچھ بعد تک ہوتی تھی جب قومیں ایک دوسرے سے دُور، قدرے نا واقف اور اپنے اپنے جغرافیائی دائرے میں محدود رہا کرتی تھی۔ جب کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے national states کا تصور مستحکم ہوا ہے اُس کے نتیجے میں بننے والے ملکوں اور اپنا جداگانہ تشخص قائم کرنے والی قوموں کا تعلق ہے اُن پر تو علامہ صاحب کا یہ مصرعہ زیادہ صادق آتا ہے۔
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
ذاتی طور پر میں ایک رجائیت پسند یعنی optimist بندہ واقع ہوا ہوں سو میرے حساب میں غار کی تاریکی سے کہیں زیادہ اُس کے دوسرے کنارے پر لرزنے اور دکھنے والی روشنی اہمیت رکھتی ہے اور مجھے اُس کا اظہار کرنے میں بھی کوئی پریشانی درپیش نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے پاکستان جن مقاصد کے حصول کے لیے بنایا تھا اُن میں ہمیں اب تک کوئی بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن میں بہت سے منفی سوچ رکھنے یا پھیلانے والوں کی طرح اس بات کا قائل بھی نہیں ہوں کہ ہم بالکل ناکام ہوگئے ہیں۔
کسی کام کو صحیح طریقے سے انجام نہ دے سکنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کام ہی ''غلط'' تھا۔ یعنی پاکستان ہم نے بنایا ٹھیک تھا اُسے چلا ٹھیک نہیں پائے ہماری ساری کمزوریاں، کوتاہیاں، بے وقوفیاں اورغلط فیصلے اپنی جگہ، مہنگائی، غربت، تعلیم اور صحت سمیت بنیادی انسانی سہولتوں کے مسائل اور اُن کی کمی بھی درست 72 برسوں میں سیاسی بلوغت حاصل نہ کر سکنے کی الزام نما حقیقت بھی تسلیم مگر ان سب کے باوجود اس 21 کروڑ کی آبادی میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ کو حاظر ناظر جان کر پوری ایمانداری سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے حالات قیامِ پاکستان سے قبل اپنے بزرگوں کے حالات سے ہر اعتبار سے بہتر نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ یہاں بات دنیاوی وسائل کے حوالے سے ہورہی ہے۔ بلاشبہ ہماری پچاس فیصد آبادی اس وقت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے مگر زندگی کی سہولتوں کے اعتبار سے دیکھیے تو قیامِ پاکستان کے وقت ان کی تعداد کم از کم 80% تھی حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان پر تنقید بھی سب سے زیادہ یہی 30% لوگ کرتے ہیں جن کا معیارِ زندگی اپنے بزرگوں سے کئی گنا زیادہ بہتر ہُوا ہے، یقین نہ آئے تو اپنے سمیت اپنے جاننے والے سو پچاس لوگوں کے بارے میں تفتیش کرکے دیکھ لیجیے۔ ہم ہمہ وقت ''شکوے'' کی باتیں تو کرتے ہیں اور اُن میں سے بیشتر سچ بھی ہیں مگر کیا کبھی ہم نے ''شکر'' کی دو باتیں بھی کی ہیں جو ہم پر واجب تھیں اور ہیں۔ میرے خیال میں اس یومِ آزادی پر ذرا اس بات پر بھی غور کر لینا چاہیے ۔
اب جہاں تک 15اگست کو بطور ''یوم سیاہ'' بنانے کا خیال اور ارادہ ہے تو علامتی حوالے سے اسے منانے میں کوئی حرج نہیں لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ تقدیر اپنی تبدیلی کے لیے عمل اور تدبیر کی طلبگار ہوتی ہے اس وقت جس طرح سے نہ صرف عالمی رائے عامہ بھارت کے اس مذموم اقدام کی شدت سے مذمت کر رہی ہے بلکہ بھارت کی اسمبلی اور اہلِ دانش سمیت اس کے خلاف بہت اہم اور پُرزور آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یومِ سیاہ کے اس علامتی اظہار کو ایک ایسی تحریک کی شکل دینے کی کوشش کریں جس میں تمام ہمدرد اور انصاف پسند آوازیں یکجان ہوجائیں کہ فی الوقت تحریکِ آزادی کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تائید میں یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو پوری جنگ کے منظر کو تبدیل کر سکتا ہے ۔
آج اللہ کے کرم سے 56 سے زیادہ ایسے ملک وجود میں آچکے ہیں جن کی غالب آبادی اسی قومِ رسولِ ہاشمی سے تعلق رکھتی ہے ان میں سے پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ترکی، مصر، شام ، سعودی عرب، ایران اور وسط ایشیائی اور خلیجی ریاستوں کے علاقے یقینا ایسے ہیں جن کا آبادی اور وسائل کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے پہلے تیس ممالک میں شمار ہوتا ہے (لیبیا، فلسطین اورعراق کے نام میں نے اس لیے نہیں کہ یہ اس وقت بوجوہ ہونے اور نہ ہونے کی کسی درمیانی حالت میں ہیں) حج اور عیدالاضحی کے موقعے پر ان ممالک سمیت دنیا بھر سے ہمارے دینی بھائی ایک جگہ جمع ہوتے اور سنتِ ابراہیمی کی تقلید میں ربِ کریم کی راہ میں قربانی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور یوں یہ اجتماع اہلِ حق کی طاقت اور عبودیت کا ایک ایسا روح پرور اظہار بن جاتا ہے جس سے ملتی جُلتی کوئی مثال دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتی۔
رسولِ کریمؐ نے اپنے آخری خطبہ حج میں امت کو جو سبق دیے اور جو وعدے لیے تھے اُن کی رُوح اُس اتحاد اور یک جہتی کا قیام تھا جس کی موجودگی میں کوئی بھی ہماری طرف بُری نظروں سے دیکھنے کی ہمت نہ کرسکتا تھا ۔ہر برس کی طرح اس بار بھی امامِ کعبہ نے بندے اور رب کے تعلق اور اخلاقیات کے حوالے سے بہت اچھی اچھی باتیں کہیں جو بلاشبہ بہت خوبصورت اور ضروری تھیں لیکن اگر وہ اُمت کے اتحاد براہ راست اور امتحانی صورتِ حال میں مبتلا اپنے بھائیوں بالخصوص کشمیر اور فلسطین کی بات بھی کرتے تو شائد ان کا یہ خطبہ زیادہ بامعنی اور روحِ عصر کا نمایندہ اور ترجمان ٹھہرتا کہ قربانی کی اصل روح ربِ دوجہاں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور اس وقت اُس کا بہترین طریقہ کشمیر، فلسطین سمیت اُن تمام مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی مدد ہے جہاں ہمارے بھائیوں کو اُن کے انسانی حقوق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ مودی اور نیتھن یاہو کون ہیں اور کیا اور کیوں کر رہے ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالمی ضمیر اور اُ س سے کہیں زیادہ اسلامی ملکوں کا اجتماعی ضمیر اس کے جواب میں کیا کررہا ہے؟ اور یہ بھی کہ اس ضمن میں روا رکھی جانے والی ہر غفلت کسی دن ایک ایسے دھماکے کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس میں شائد سب کچھ ہی ایک ساتھ ختم ہوجائے۔ سو یہ عیدِ قربان صرف پیروانِ سنتِ ابراہیمی کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری نسلِ آدم کے لیے ایک پیغام لے کر آئی ہے اور وہ یہ کہ ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ نہ دینے والا بھی نہ صرف یہ کہ ظالم کا ساتھی ہوتاہے بلکہ اُس کا انجام بھی بالآخر اُسی کے ساتھ ہوگا۔
کہنے کو تو 72 برس قوموں کی زندگیوں کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوتے مگر یہ بات اب شائد اتنی درست نہیں رہی جیسی قرونِ وسطیٰ اور اُس کے کچھ بعد تک ہوتی تھی جب قومیں ایک دوسرے سے دُور، قدرے نا واقف اور اپنے اپنے جغرافیائی دائرے میں محدود رہا کرتی تھی۔ جب کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے national states کا تصور مستحکم ہوا ہے اُس کے نتیجے میں بننے والے ملکوں اور اپنا جداگانہ تشخص قائم کرنے والی قوموں کا تعلق ہے اُن پر تو علامہ صاحب کا یہ مصرعہ زیادہ صادق آتا ہے۔
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
ذاتی طور پر میں ایک رجائیت پسند یعنی optimist بندہ واقع ہوا ہوں سو میرے حساب میں غار کی تاریکی سے کہیں زیادہ اُس کے دوسرے کنارے پر لرزنے اور دکھنے والی روشنی اہمیت رکھتی ہے اور مجھے اُس کا اظہار کرنے میں بھی کوئی پریشانی درپیش نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے پاکستان جن مقاصد کے حصول کے لیے بنایا تھا اُن میں ہمیں اب تک کوئی بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن میں بہت سے منفی سوچ رکھنے یا پھیلانے والوں کی طرح اس بات کا قائل بھی نہیں ہوں کہ ہم بالکل ناکام ہوگئے ہیں۔
کسی کام کو صحیح طریقے سے انجام نہ دے سکنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کام ہی ''غلط'' تھا۔ یعنی پاکستان ہم نے بنایا ٹھیک تھا اُسے چلا ٹھیک نہیں پائے ہماری ساری کمزوریاں، کوتاہیاں، بے وقوفیاں اورغلط فیصلے اپنی جگہ، مہنگائی، غربت، تعلیم اور صحت سمیت بنیادی انسانی سہولتوں کے مسائل اور اُن کی کمی بھی درست 72 برسوں میں سیاسی بلوغت حاصل نہ کر سکنے کی الزام نما حقیقت بھی تسلیم مگر ان سب کے باوجود اس 21 کروڑ کی آبادی میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ کو حاظر ناظر جان کر پوری ایمانداری سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے حالات قیامِ پاکستان سے قبل اپنے بزرگوں کے حالات سے ہر اعتبار سے بہتر نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ یہاں بات دنیاوی وسائل کے حوالے سے ہورہی ہے۔ بلاشبہ ہماری پچاس فیصد آبادی اس وقت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے مگر زندگی کی سہولتوں کے اعتبار سے دیکھیے تو قیامِ پاکستان کے وقت ان کی تعداد کم از کم 80% تھی حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان پر تنقید بھی سب سے زیادہ یہی 30% لوگ کرتے ہیں جن کا معیارِ زندگی اپنے بزرگوں سے کئی گنا زیادہ بہتر ہُوا ہے، یقین نہ آئے تو اپنے سمیت اپنے جاننے والے سو پچاس لوگوں کے بارے میں تفتیش کرکے دیکھ لیجیے۔ ہم ہمہ وقت ''شکوے'' کی باتیں تو کرتے ہیں اور اُن میں سے بیشتر سچ بھی ہیں مگر کیا کبھی ہم نے ''شکر'' کی دو باتیں بھی کی ہیں جو ہم پر واجب تھیں اور ہیں۔ میرے خیال میں اس یومِ آزادی پر ذرا اس بات پر بھی غور کر لینا چاہیے ۔
اب جہاں تک 15اگست کو بطور ''یوم سیاہ'' بنانے کا خیال اور ارادہ ہے تو علامتی حوالے سے اسے منانے میں کوئی حرج نہیں لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ تقدیر اپنی تبدیلی کے لیے عمل اور تدبیر کی طلبگار ہوتی ہے اس وقت جس طرح سے نہ صرف عالمی رائے عامہ بھارت کے اس مذموم اقدام کی شدت سے مذمت کر رہی ہے بلکہ بھارت کی اسمبلی اور اہلِ دانش سمیت اس کے خلاف بہت اہم اور پُرزور آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یومِ سیاہ کے اس علامتی اظہار کو ایک ایسی تحریک کی شکل دینے کی کوشش کریں جس میں تمام ہمدرد اور انصاف پسند آوازیں یکجان ہوجائیں کہ فی الوقت تحریکِ آزادی کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تائید میں یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو پوری جنگ کے منظر کو تبدیل کر سکتا ہے ۔