کیا کشمیر بوسنیا بننے جارہا ہے

اصل فیصلہ کشمیر نے خود کرنا ہے کہ اسے یو این اور بڑی طاقتوں کی مدد چاہیے یا وہ اپنی مدد آپ کریں گے؟

سازش کے تحت بوسنیا کا سیاسی حل ان کی نسل کشی کرکے نکالا گیا، کشمیر بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ اسلام کا مساوی نظام ہی تھا جس نے موجودہ دنیا کے ''اسٹیٹس کو'' کو پہلی بار چیلنج کیا۔ یہ منفرد نظام ہی تھا جس کی بدولت آج سے 14 سو سال پہلے ایک آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد مسلم آرمی میں ترقی کرتا ہوا جنرل کے عہدے تک پہنچ جاتا ہے اور افریقہ کے بعد یورپ کی تہذیب اور لائف اسٹائل کو للکارتا ہے اور تنگ دست مردوں، عورتوں اور غلاموں کو یکساں نظام حیات دیتا ہے۔ یہ اسلام اور اس کا نظام ہی تھا، جس کی مدد سے مغربی رومن ایمپائر فتح ہوتی ہے اور مغربی غرور مٹی ہوجاتا ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس کے نظام پر عمل پیرا ہوکر عثمانی خلافت 1453 میں پورے روم کو خاک چٹاتے ہوئے ایک ایسا نظام تشکیل دیتی ہے جس میں ہر فرد احساس، رواداری اور مساوات کے اندر رہ کر ترقی کرتا ہے۔

لیکن یہ مساواتی حقوق، جمہوری انسانی حقوق سے مختلف ہوتے ہیں، اور یہی بات مغربیوں اور تمام غیر مسلموں کو کھٹکتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ آپس میں لاکھ اختلافات کے باوجود اسلام کے خلاف اکٹھا ہوجاتے ہیں۔ یہ امت کا تصور ہی انہیں جینے نہیں دیتا۔ یہ ملک در ملک قومیت پرستی میں تقسیم ہوتے ہیں، ملک کو اپنی ماں کہتے ہیں، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی رائے کا راگ الاپتے ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر نیٹو بنالیتے ہیں۔ اور نیٹو استعمال کہاں ہوتی ہے؟ اسی امت کے خلاف۔

بار بار شکست کھانے کے باوجود مغربی عیسائیوں نے موقع کی تلاش جاری رکھی اور بالٓاخر 1875 میں بوسنیا ہرزیگوینا پر قبضہ کرلیا۔ عثمانی خلافت تو چلی گئی لیکن اپنے پیچھے بوسنیا کے سلواکی مسلمان (مغربیوں کےلیے نسل پرستانہ استعمال ضروری ہے، صرف مسلمان ہونا کافی نہیں) چھوڑ گئی۔ جس کی وجہ سے یورپ کے بیچ میں انہیں بار بار اسلام کا نام لینا پڑتا تھا۔ پہلے پہل تو بوسنیا کے مسلمانوں کو حق خود ارادیت دینے اور استصواب رائے سے آزاد ریاست کا چکمہ دیا گیا، لیکن پھر نہایت پھرتی سے بڑی طاقتوں کی سفارتکاری کی کوششوں سے صرف تین سال بعد یعنی 1878 میں ہی ان کی آزادی کےلیے کیا گیا ڈیکلیئریشن پکڑ کر پھاڑ دیا گیا اور انہیں سربیا مونٹی نیگرو میں ضم کردیا گیا۔ یہ بھی پہلے ہی طے کرلیا گیا کہ بوسنیا ہرزیگوینا بعد میں آسٹریا کے ماتحت ایک کالونی کی طرز پر قائم رہے گا، کیونکہ آسٹریا اور ہنگری کی فوجوں نے ہی بوسنیا ہرزیگوینا پر قبضہ کرنے میں سربیا کا ہاتھ بٹایا تھا۔

اس سب کے بعد آسٹریا ہنگری نے ایک نیا قانون پاس کیا، جس کی رو سے مسلمانوں کو عہدوں سے فارغ کیا گیا اور قوم پرست آسٹرینز اور کروشینز کو عہدے دیے گئے۔ اسی قانون کے تحت بوسنیا کے علاقے میں عیسائیوں کو آباد کیا گیا۔ جس سے مسلمانوں کے علاقے میں عیسائیوں کی نسبت 3.3 فیصد سے بڑھ کر 34.52 فیصد ہوگئی۔ مسلم آبادی نے اس کے خلاف بہت احتجاج ریکارڈ کروایا۔ فوجیوں کو پتھر مارے، ہاتھوں کی زنجیر بنائی، حریت رہنمائوں نے بھوک ہڑتالیں کیں وغیرہ۔ لیکن رزلٹ ندارد۔ اس سے بوسنیا آزاد ہونا تھا نہ ہوا۔ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں، اس لیے بوسنیا کے کروشین عیسائی نسل پرستوں نے اپنے ہم مذہب اور ہم خیال نو آبادی کو خوش آمدید کہا۔ اس سب کے باوجود بوسنیا کے مسلمانوں اور باقی نسل پرست اور قوم پرست عیسائیوں میں دو قومی نظریہ باقی رہا اور وہ کبھی ایک قوم نہ بن سکے۔ حالانکہ عیسائیوں کے دونوں فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں مسلمانوں کے خلاف یک جان دو قالب ہوگئے تھے، چاہے نسلاً وہ سرب تھے یا کروٹ۔

آسٹریا نے مزید کوشش کرتے ہوئے برلن میں عیسائی قوم پرستوں کی ایک کانفرنس بلائی، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سیاسی اور سفارتی طور پر مسلمانوں کو الگ رکھا جائے تاکہ یہ کوئی الائنس نہ بناسکیں اور ان کو دبانے میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس کے ساتھ عیسائی بشپس کو علاقے میں تعینات کیا گیا اور اسی طرح سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر انہیں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی گئیں۔

اس سب کے دوران بوسنیا میں کئی نسلیں آئی اور گئیں، معاملات کو سیاسی اور سفارتی طور پر حل کرنے کی متعدد کوششیں ہوتی رہیں، کئی سیاسی، کمیونسٹ اور جمہوری رہنما آئے اور گئے، لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔

اشتراکی روس کے ٹوٹنے کے بعد ایک بار پھر یورپ میں بوسنیا کی بازگشت سنائی دی۔ سب مغربی اور بڑی طاقتیں پھر اکٹھی ہو گئیں۔ نتیجہ 1991 سے 1995 کے دوران بوسنیا کے مسلمانوں کے اجتماعی قتل، اجتماعی زیادتی اور اجتماعی نسل کشی کی وہ مثال قائم کی گئی جس کا کوئی ثانی نہیں۔ جس کی مغربی دنیا خود گواہ ہے کیونکہ پھر ان ہی کی عدالتوں سے بعض فوجی جنگی مجرموں کو سزائیں بھی ہوئیں۔ لیکن ان کو جنگی جرائم کی اجازت دینے والے بھی یہ خود ہی تھے۔ ان کی ملی بھگت اور پلاننگ سے ہی یہ خطرناک جرائم ہوئے۔ حتیٰ کہ 1995 میں یو این کے ایک محفوظ کیمپ میں مسلمانوں پر حملہ کیا گیا اور حملہ کرنے والے کوئی اور نہیں مغربی عیسائیوں کی ڈچ اور سربین فوج ہی تھی، جو پچھلے سو سال سے زیادہ عرصے سے بوسنیا کے مسلمانوں کے درپے تھی۔

ڈچ فوج جو یو این کی امن فوج کے طور پر کیمپ کو محفوظ مقام بنانے کےلیے تعینات تھی، نے سربین فوج کےلیے مسلم لوگوں کو چن چن کر مارنے کا پورا بندوبست کیا اور نہتے لوگ جب وہاں سے نکل کر جنگل میں چھپ گئے تو اسی فوج نے ان کا پیچھا کیا اور جنگل سے ڈھونڈ کر گولیوں سے بھونا گیا، اور بعد میں انہیں زندہ یا مردہ اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔ ایسا لگا جیسے ان کا مسلمان ہونا کوئی بہت بڑی غلطی تھی۔


اس سب کے دوران یو این کا کردار ایک خاموش تماشائی کا تھا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جونہی امت کے سپاہیوں نے اپنے بوسنیائی بھائیوں بہنوں کےلیے سربوں کے خلاف اپنا آپریشن لانچ کیا، یہی یو این اور تمام بڑی طاقتیں امن کی آشا بن کر پہنچ گئیں اور جنگ بندی کروا کر مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کو کہنے لگیں۔

بوسنیائی مسلمانوں کی امت کو کال پر آنے والے مجاہدوں کا آپریشن روک دیا گیا اور سیاسی حل نکالا گیا۔ یورپ کو اپنے اندر ایک اسلامی ریاست جو ایک امت کا نام لے، برداشت نہ تھی۔ تو اس کےلیے ایک ایسی عالمی سرحد متعین کردی گئی کہ بوسنیا کے پاس سمندر ہونے کے باوجود اسے کوئی سمندری علاقہ نہ دیا گیا، بلکہ ایک ایسا لینڈ لاکڈ علاقہ بنادیا گیا جو چاروں طرف سے عیسائی قوم پرستوں سے گھرا ہوا ہے۔ اسے عالمی سیاحت اور نائٹ لائف کا حصہ بنادیا گیا، جبکہ اس کی آفیشل سیاحت کی ویب سائٹ پر آج بھی عثمانی خلافت کو اسلام کی وجہ سے تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے بیرونی حملہ آور کہا گیا ہے۔ بجائے وہ سربوں کو کہتے، اور ہوم پیج پر سامنے پوپ نظر آتا ہے۔ بوسنین مسلمانوں کا نہ تو تشخص قائم ہے اور نہ ہی ان کی ذاتی زندگی کی کوئی حیثیت ہے۔ سارے جمہوری اور انسانی حقوق انہوں نے اپنے لیے بنائے ہیں، مسلمانوں کے نہ یہ ہیں اور نہ ہی وہ ان کو دینے کے روادار۔

ایک سو چوالیس سال گزر گئے، بوسنیا کے مسلمانوں کو ان کا حق خود ارادیت نہ مل سکا۔ ملی تو کیا کرافٹڈ جمہوریت۔ کسی کی طے کردہ سرحد، کسی کی تہذیب، سیاحت اور لائف اسٹائل، کسی کا طے کردہ تشخص اور سیاسی حل۔ اس لحاظ سے کشمیر کی سیاسی جدوجہد کو تو صرف بہتر سال ہوئے ابھی اور جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ تو پھر حریت رہنما بھارت کی نسل کشی کےلیے کسے SOS کال دے رہے ہیں اور کیوں دے رہے ہیں؟ بڑی طاقتوں کو، یو این کو یا امت کو؟
اور تو اور، وہ مسلمان سیاسی رہنما جو بھارتی حکومت کی طے کردہ جمہوریت کی مدد سے باریاں لیتے رہے اور جن کے اپنے دور میں بھارتی فوج پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کو نابینا کررہی تھی اور وہ کورٹ میں اس معاملے کو کشمیر کا اندرونی معاملہ کہہ رہے تھے، جیسے اب مودی حکومت قانون کی تبدیلی کو انڈیا کا اندرونی معاملہ بتارہی ہے، وہ بھی بھارت میں ملنے کو غلطی اور دو قومی نظریے کو درست قرار دے رہے تھے۔ جبکہ ابھی تو بہت وقت باقی ہے۔ ابھی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ ابھی اور لوگ شہید کروائے جاسکتے ہیں، ابھی اور نہتے نوجوانوں کو نابینا کیا جاسکتا ہے، ابھی بہت سی خواتین ہیں جن کی عصمت محفوظ ہے۔ ابھی تاریخ کا سب سے بڑا genocide ہونا باقی ہے۔

تو کیوں آپ کال دے رہے؟ رکیں اور انتظار کریں آنے والے وقت کا۔ شاید کشمیر کا بارڈر بھی طے کرلیا جائے۔ اسے سیاحت کےلیے دنیا کے سامنے کھول دیا جائے اور کشمیر کو نائٹ لائف مل جائے۔ شاید ہندو آبادیاں قائم کی جائیں۔ شاید کشمیریوں کو چند مخصوص علاقے اور کرافٹڈ جمہوریت دے دی جائے۔ شاید کشمیر میں بالی ووڈ اور ہالی ووڈ آجائے۔ شاید ...۔
آپ ناامید نہ ہوں اور نہ اپنا ایمان جمہوریت سے کم کریں۔

اللہ رب تعالیٰ فرماتا ہے ''اور اکثر لوگ اگرچہ تم کتنی خواہش کرلو ایمان لانے والے نہیں'' (103، سورۃ یوسف) ایک جگہ اور فرمایا ''اور اگر زمین میں بسنے والے اکثر لوگوں کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں گے'' (116، سورۃالانعام)

اگر صرف بھوک ہڑتالوں، سیاسی و سفارتی محاذ فتح کرنے اور حریت رہنماؤں کی نظربندیاں جھیلنے سے آزادی ملنی ہوتی تو شاید دنیا کی حالت زار ایسے نہ ہوتی اور دنیا کے مسلمان بوسنیا، روہنگیا، عراق، فلسطین، یمن، شام اور کشمیر میں سسک نہ رہے ہوتے۔ وہ اب تک آزاد ہوچکے ہوتے۔

انڈیا نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے، پاکستان اپنی کوششیں کررہا ہے۔ لیکن اصل فیصلہ کشمیر کو خود کرنا ہے کہ اسے یو این اور بڑی طاقتوں کی مدد چاہیے یا وہ اپنی مدد آپ کریں گے؟ کشمیر بن جائیں یا پھر بوسنیا بنادیے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story