مسئلہ کشمیر اور حکومتی رویہ

وزیراعظم نے پہلی بار ہندو نفسیات کو سمجھتے ہوئے بھارت کے خلاف دفاعی انداز اپنانے کے بجائے جارحانہ اسٹائل اپنایا

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا انڈیا سمجھ بیٹھا ہے۔ (فوٹو: فائل)

میرا سفارتکار دوست مجھے بتا رہا تھا، امریکا، انگلینڈ اور جاپان سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی خاک چھان چکا ہوں، اپنے اس تجربے کی بنا پر کہتا ہوں کہ بھارت پاکستان کو زندگی کے ہر محاذ پر عالمی سطح پر تنہا کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو یا پانی کا تنازعہ، کھیلوں کے میدان ہوں یا تجارتی و سفارتی سمجھوتے، وہ ہر شعبے میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا نظر آئے گا۔ میری یہ بات لکھ لو مستقبل میں بھی پاکستان کا جہاں جہاں فائدہ ہوگا، بھارتی اس کی راہ میں رکاوٹ ضرور بنیں گے۔

اپنے دوست کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کیا تو واقعات کی کڑیاں ایک ایک کرکے ملنا شروع ہوگئیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، کشمیر کو ہی دیکھ لیں۔ ہندو انتہاپسند تنظیم کے سرکردہ لیڈر اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے کشمیریوں کے حقوق پرجس بھونڈے انداز میں ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔

حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کشمیر پاکستان ہے، پاکستان کشمیر ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، پاکستان کے بغیر کشمیر ایک ایسا لینڈ لاکڈ ملک ہوگا، جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ لیکن افسوس صد افسوس! ہمارے حکمران بھارتی عیاریوں، مکاریوں، چالبازیوں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی پالیسیوں کو اب تک سمجھ ہی نہ سکے اور بار بار بھارت سے دوستی اور پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے کی ناکام کوششیں کرتے رہے۔

کہتے ہیں کہ سیاست کے کھیل میں ایک فریق کی جیت اور دوسرے کی شکست ہوتی ہے۔ بعض مقابلے برابر بھی رہتے ہیں اور ہر فریق کو ایک ایک پوائنٹ مل جاتا ہے، کوئی بھی شکست خوردہ نہیں کہلاتا۔ لیکن بعض کھیل ایسے بھی ہوتے ہیں جو طاقتور اور کمزور کے درمیان کھیلے جاتے ہیں، جس میں کمزور کی کامیابی کے باوجود اصل فتح طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری کوئی عزت نہیں، کوئی وقار نہیں، کوئی آن بان شان نہیںَ؟ کیا ہم نے دل و دماغ میں بھارت کا غلبہ اور برتری کو تسلیم کرلیا ہے؟ کیا ہم نے مان لیا ہے کہ وہ ہماری عزت نفس مجروح کرتا رہے گا؟ ہمارا گلہ گھونٹتا رہے گا اور ہم اف تک نہیں کہیں گے۔ کیا ہم نے انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے خود کو ہندو بنیے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے؟

یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ بات دوسری دنیا کےلیے تو ٹھیک ہے، لیکن اس فارمولے، نظریے، آئیڈیا اور تھیوری کو پاکستان و بھارت پر اپلائی نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت پاکستان کو قریب آنے کا موقع اس وقت ہی دیتا ہے جب اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ وہ تجارتی، سفارتی، معاشی اور اسپورٹس ڈپلومیسی کی باتیں کرتا ہے، ویزہ میں نرمی لانے کے فریب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ راستے کھولو، تجارت شروع کرو، ثقافتی اور تجارتی وفود کا تبادلہ کرو، ساتھ مل کر ناچو، ساتھ مل کر گاؤ۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ سرحدیں کھول دی جاتی ہیں، بھارتی وی آئی پی شخصیات اور شہری بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں، پیار و محبت، دوستی اور امن کا پرچار کرتے ہیں، امن کی فاختائیں اڑائیں جاتی ہیں، چھوٹے بڑے بھائی کے راگ الاپے جاتے ہیں، لیکن پیار ومحبت کی پینگوں کے پیچھے بھارت کی نیک نیتی نہیں بلکہ دوستی کی آڑ میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا مقصود ہوتا ہے۔ اور ہم بھولے بادشاہ چالاک اور عیار دشمن کی چالوں میں آکر اس کی ہر بات، ہر وعدے کا یقین کرلیتے ہیں۔

چانکیہ نے کہا تھا کہ جو ڈر جائے اسے ہمیشہ کےلیے ڈرائے رکھو اور جو نہ ڈرے اس سے ہمیشہ ڈرے رہو۔ چانکیہ کا یہ قول بھارت کی نفسیات بھی ہے اور دفاعی پالیسی بھی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پہلی بار ہندو نفسیات کو سمجھتے ہوئے بھارت کے خلاف دفاعی انداز اپنانے کے بجائے جارحانہ اسٹائل اپنایا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد بھارتی ہائی کمشنر کو ملک بدر کرنے، تجارتی معاہدوں پر نظرثانی کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان کی اس پالیسی کی بدولت بھارتی حکام کو یہ بات یقینی طور پر سمجھ میں آچکی ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ بیٹھے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story