مقبوضہ کشمیر بھارت کی چال الٹی پڑگئی
کیا آرٹیکل 370 کے خاتمے سے واقعتا مسئلہ کشمیر ختم ہوگیا؟
ہندوستان کے پارلیمنٹ میں آرٹیکل370 میں ترمیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو اب ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔
ترمیم میں جہاں کشمیر کے خصوصی قانون (پشتنی باشندگی قانون یا اسٹیٹ سبجیکٹ رول) کو ختم کیا گیا وہیں ریاست جموں و کشمیر کے اس حصے کو تقسیم کر کے مرکز (دہلی) کے زیرِ انتظام دو علاقے بنائے گئے ہیں جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہے اور ان اب دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔
جموں وکشمیر کا اپنا آئین اب ختم ہوجائے گا۔آرٹیکل 370کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ ہند تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلی کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔لداخ کو بھی مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔
اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کے بجائے پانچ برس ہو جائے گی۔ کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔ ہندوستان کے دونوں ایوانوں سے قانون پاس ہونے کے بعد ریاست میں انتظامی سطح پر فوری طور پر جو عملی اقدام دیکھنے کو ملا، وہ یہ تھاکہ سول سیکریٹریٹ ، صوبائی کمشنر، ضلع ترقیاتی کمشنر اور دیگر سرکاری دفاتر جہاں جہاں بھارت کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کا پرچم موجود تھاوہاں سے جموں وکشمیر کا پرچم اتار دیاگیاہے۔خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل جموں کشمیر کی ہند نواز سیاسی قیادت سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور انہیں سرکاری گیسٹ ہاؤس ہری نواس میں رکھا گیا ہے۔
دفعہ 370 میں ترمیم کے مسئلہ کشمیر پر اثرات
پاکستانی میڈیا میں یہ مفروضہ پھیلایا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم اور خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر ختم ہو کر رہ گیا ہے تاہم یہ موقف درست نہیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں موجود ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان قراردادوں کو ختم نہیں کرتی۔ اس وقت کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 27 سے زائد قراردادیں موجود ہیں ۔
آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ فیصلے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ وہ عالمی فورم پر ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر کا نظام چلانے کیلئے کوئی بھی نظام رائج کرسکتے ہیں۔ یک طرفہ قانون سازی سے ریاست کی جغرافیائی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے کوئی انہونا کام نہیں کیا، ان کی فورسز پہلے بھی موجود تھی اب بھی موجود رہیں گی۔ تحریک پہلے بھی جاری تھی اب زیادہ شدت سے ہو گی تاہم منظور گیلانی کو سٹیٹ سبجیکٹ کے خاتمے پر تشویش ہے۔ جس سے ریاست کا آبادیاتی تناسب تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے اور کبھی رائے شماری (جو ہوتی نظر نہیں آ رہی) ہوئی تو اس میں ہندوستان کشمیر میں اپنے لوگوں کو کشمیر بتا کر دھاندلی کر سکتا ہے۔
اسی طرح جسٹس (ر) مجید ملک کا کہنا ہے کہ جو آزادی پسند قوتیں ہیں انہوں نے اس آرٹیکل کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا کیونکہ یہ ہندوستان کے قبضے کا جواز تھا اور اب اس کے خاتمے سے ہندوستان کے قبضے کو جو آئینی شیلڈ حاصل تھی وہ بھی ختم ہو گئی اب یہ مکمل غیرقانونی قبضہ ہے۔ اب مسئلہ کشمیر 15 اگست 1947 والی پوزیشن پر آ چکا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق جموں وکشمیر پاکستان کا حصہ ہے نہ ہی ہندوستان کا۔ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس کا فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے۔ جب تک عوام اس کا فیصلہ نہیں کرتے اس کی حیثیت متنازعہ رہے گی۔
دفعہ 370 میں ترمیم سے مقبوضہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوںگے
دفعہ 370 کی ذیلی دفعہ 35 اے کو مکمل ختم کردیا گیا ہے جس سے ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں داخلی طور پر اثرانداز ہوگا اور کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ 35 اے جو مہاراجہ کے قانون کی توثیق تھی اس کے ختم ہونے سے مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ 45لاکھ سے زائد باشندگان کی خصوصی شہری حیثیت (اسٹیٹ سبجیکٹ)ختم ہو کر رہ گئی جو قابل تشویش بات ہے۔ اس قانون کے خاتمے سے بھارت کا ہر شہری اب کشمیر کا شہری ہوگا اور وہاں جائیداد بھی خرید سکے گا۔ 35 اے کے خاتمے کا سب سے پہلا اثر جموں پر ہوگا جہاں مغربی پاکستان کے مہاجرین (جنہیں شرنارتھی کہا جاتا ہے )جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور میانمار کے مہاجرین کو وہاں کے شہری حقوق ملیں گے جوا س سے قبل وہاں عارضی طور پر آباد تھے۔ اس سے قبل جموں میں 67 فیصد مسلمان تھے اور ان مہاجرین کی آبادکاری سے یہ تناسب 62 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اسی لیے انڈین حکومت انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ابھی تک کشمیر کے تعلیمی اداروں میں صرف کشمیر کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد وہاں باہر سے پڑھنے والے بچے آجائیں گے جو اپنی ثقافت ساتھ لائیں گے اور مقامی ثقافت پر اثرانداز ہوں گے۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا کی دوسری ریاستوں سے لوگ آکر کشمیر میں شہریت حاصل کرسکیں گے اور یہ باہر سے آنے والے کشمیر میں رہ کر اپنی آبادی بڑھائیں گے اور پھر وسائل پر قابض ہوںگے۔
دفعہ 35A کیا تھی؟
ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل تھی ۔یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں وکشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔ مذکورہ تین امور کے علاوہ آئین ہندوستان کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35Aکے مطابق ریاست جموں کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں ، غیر ریاستی باشندے جموں کشمیر میں نہ تو جائیداد بنا سکتے ہیں ، نہ وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔
دفعہ 35A در اصل اس قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے1927ء میں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا جن میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے انھیںکوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔
بھارت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرنے پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ میں عوامی ردعمل
بھارت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرنے پر پوری ریاست جموں و کشمیر اور لداخ میں کرفیو کے باوجود بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ وادی میں کمیونیکشن بلیک آؤٹ ہے وہاں ٹیلیفون، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ تاحال بند ہیں جس کی وجہ سے اصل صورتحال سامنے نہیں آ رہی ہے تاہم کچھ نشریاتی اداروں کے مطابق بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کشمیری عوام کرفیو کے باوجود سراپا احتجاج ہیں جبکہ جموںکے 12میں سے چھ اضلاع میں مکمل کرفیو ہے اور باقی چھ میں کرفیو جیسی صورتحال ہے۔ اسی طرح لداخ کے کرگل خطے میں لداخ کو مرکز کے انتظام میں دیے جانے کے خلاف ہڑتال ہے اور نقل وحمل کے سارے ذرائع معطل ہیںاور کرگل اس وقت مکمل بند ہے۔ ( یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے ہندوستان کو ردعمل آنے کی توقع نہیں تھی اور گزشتہ تیس سالوں میں وادی میں جاری عسکری تحریک سے مکمل لاتعلق تھے۔) میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع کرگل میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں نے دفعہ370کی منسوخی کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔ کل جماعتی ایکشن کمیٹی کرگل کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر تشکیل نوقانون 2019ء لانے سے حکومت ہندوستان کو سال1940جیسے پرآشوب ماحول میں دھکیل دیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا ہے کہ دفعہ370اور35Aکی بحالی کی جائے اور جموں وکشمیر تشکیل نوقانون2019کو جلد سے جلد ختم کیاجائے ۔
بی بی سی ہندی کے نامہ نگار کے مطابق کشمیر میں ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں اور پولیس موجود ہے ایک گھنٹے کے سفر میںانہیں10سے 12 مرتبہ روکا گیااور پوچھ تاچھ کی گئی جبکہ شمالی کشمیر اور جنوبی کشمیر کے حوالے سے بالکل کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں صورتحال کیا ہے۔بی بی سی کے مطابق ابھی تک وادی میں تمام لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
امیت شاہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اس کے خاتمے سے آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیریوں کو فائدہ ہوگا۔اس بات کی حقیقت اس سے واضح ہو جاتی ہے کہ انڈیا نے اس ترمیم کے اطلاق کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں، کتنے فوجی کشمیر میں لے آیا ہے، کرفیو لگا دیا ہے، انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، مواصلات کے تمام ذرائع بند ہیں۔ان سب اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔جب پابندیاں اور کرفیو ہٹے گا تو اس کا ردِعمل سامنے آئے گاجو پرتشدد ہو سکتا ہے۔
ہند نواز قیادت کا کہنا ہے کہ کشمیریوں سے دھوکہ ہوا ہے
بھارتی آئین میں ترمیم کے فوری بعد ردعمل کے طور پر ٹویٹ آیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ''یہ بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے، کشمیری قیادت کا 1947میں دوقومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ بیک فائر کر گیا۔ آرٹیکل 370 کا خاتمہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، یہ فیصلہ برصغیر کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔ بھارت کشمیریوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گیا ہے'' جبکہ محبوبہ مفتی کی بیٹی ثنا کا خیال ہے کہ آرٹیکل 370کے تحت جموں کشمیر کو حاصل خاص ریاست کا درجہ چھن جانے سے کشمیری نوجوان بہت ناراض ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔
ایک کشمیری نوجوان کا کہنا ہے کہ کشمیری یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ درست ہے۔ کشمیری اسے نہیں مانتے۔اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو گیا ہے۔انڈیا کے ساتھ الحاق کچھ شرطوں پر ہوا تھا اور اس میں ہمارا خاص درجہ ایک بہت بڑی اور اہم چیز تھی۔اب اگر وہ خاص درجہ ختم کر دیا جاتا ہے تو انڈیا کے ساتھ الحاق میں ہمارا جو آرٹیکل آف فیتھ تھا، اس پر سوال اٹھنے شروع ہو جائیں گے اور اس پر جو ردِعمل مظاہروں کی صورت میں ہوگا وہ سبھی سٹیک ہولڈرز کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں لیے گئے فیصلے کے بعد پاکستان نے باضابطہ طور پر انڈین حکومت سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیں اور ساتھ ساتھ اسے اطلاع دی ہے کہ پاکستان اپنا نامزد ہائی کمشنر اب انڈیا نہیں بھیجے گا۔قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق پاکستان نے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے پر انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔قومی سلامتی کمیٹی کے پانچ نکاتی اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔اعلامیے کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو انڈیا کے یومِ آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلے بھی کیا گیا ہے۔
چین کا ردعمل
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد لداخ کے لوگ اپنے علاقے کے لیے قانون ساز اسمبلی کی طاقت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔انڈین حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے پر چین نے بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ چین نے کہا کہ انڈیا کو یکطرفہ طور پر متنازعہ سرحدی خطے کی موجودہ صورتحال میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہیے جو کشیدگی کو ہوا دے۔آرٹیکل 370 ختم کیے جانے پر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے چین کا موقف بہت واضح ہے۔ 'انڈیا اور پاکستان کو خطے کو کشیدگی سے بچانے کے لیے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے چاہئیں ۔'
موجودہ ترمیم پر قانونی ماہرین کی رائے
ہندوستان کے وکیل اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ یہ فراڈ کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کا معاملہ بہت واضح ہے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔اسے صرف قانون ساز اسمبلی ہی ختم کر سکتی ہے اور قانون ساز اسمبلی کو سنہ 1956میں ہی تحلیل کر دیا گیا تھا۔ اور اب مودی سرکار آرٹیکل 370 کو توڑ مروڑ کے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اے جی نورانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جموں اور کشمیر کو ایک ساتھ رکھنے کا مقصد چند لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا ہے۔ دراصل ان کی نیت شروع ہی سے آرٹیکل 370کو ختم کرنا تھی۔آرٹیکل 35اے کے خاتمے پر اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ اس کے کشمیر پر برے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ کشمیر کی خاص شناحت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدام سے کشمیر پر اقوام متحدہ کے مجوزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ اس کو اعلی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں علم کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ دے گی۔
ہندوستان کے دانشور طبقے کی رائے
موجودہ ترمیم پر ہندوستان کے دانشوروں اور صحافیوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صحافی رویش کمار نے اپنے پروگرام میں کہا کہ میں نہیں مانتا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی۔معیشت تبھی چلتی ہے جب امن ہو گا۔ آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیر میں امن نہیں آئے گا کیونکہ وہاں عسکریت کی بنیاد یہ آرٹیکل نہیں بلکہ ان سے کیا گیا وعدہ ہے جو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا جس ریاست میں ترقی لانی ہو گی اسے پہلے تقسیم کیا جائے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اقدام سے امن تو نہیں آئے گا حالات میں مزید بگاڑ ضرور پیدا ہو گا۔
ایک دانشور نے سوال اٹھایا کہ معیشت کی بہتری کے لیے سب سے اہم چیز ہوتی ہے سیاسی استحکام اور جب آپ کی ریاست سیاسی طور پر ہی غیر مستحکم ہو جائے تو باقی جتنے شعبے ہیں ان میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟ بھارت کے اس اقدام سے سیاحت پر اثر پڑنے والا ہے، کشمیریوں کی تعلیم اور کاروبار پر کافی اثر پڑنے والا ہے، یہ کہنا ہے اس آرٹیکل کے خاتمے سے آپ کی معیشت بہتر ہو جائے گی ایک دھوکا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ جو چیز ہو رہی ہے اس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں چاہے وہ معاشی حالات ہوں یا سیاسی۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالبہ شہلا رشید کے مطابق اس اقدام سے کشمیری سب سے زیادہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جس طرح سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے کشمیریوں کے سیاسی احساسات کو بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے۔اس کا خاتمہ شناخت کے مسائل تو پیدا کرے گا ہی، کیونکہ جموں اور کشمیر ایک ریاست تھی جس میں جموں و کشمیر اور لداخ جو تینوں علاقے ہیں ان میں الگ الگ مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ہم اس کلچر کے ساتھ پلے بڑھے ہیں اور اب یہ جو قدم اٹھایا گیا ہے ریاست کو تقسیم کرنے والا، یہ نہ صرف دو قومی نظریے کو فروغ دیتا ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑا ثقافتی دھچکا ہے۔اس طرح کے اقدامات سے کشمیر کے مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے، کشمیریوں کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔
دفعہ 370 کی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج
ایڈووکیٹ ایم ایل شرما نے ہندوستان کے آئین میں موجودہ ترمیم کو چیلنج کر دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سری نگر سے تعلق رکھنے والی شہلا رشید (جو دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں) نے بھی چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے فیصلہ لیا گیا ہے وہ کافی غلط ہے۔ میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہوں اور مجھے امید ہے سپریم کورٹ اس آرٹیکل کے خاتمے کے فیصلے کو غلط قرار دے گی اور ہمیں انصاف ملے گا۔
ہندوستان کا سیکولر چہرہ بے نقاب
1947 میں کشمیر کی مسلم شناخت برقرار رکھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دوقومی نظریے اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کو غلط ثابت کر سکیں اور سیکولر بھارت کا پرچار کرسکیں تاہم مودی حکومت نے کشمیر کی شناخت پر حملہ کر کے ثابت کیا کہ ہندوستان سیکولر نہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کی بنیاد رکھنے والی ریاست ہے۔
اب کیا ہو گا؟
ہندوستان کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر میں پائی جانے والی تفریق اور تقسیم کو ختم کر کے تمام خطوں کی عوام کو متحد کر دیا ہے۔ جس طرح جموں اور لداخ میں ردعمل سامنے آیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اب تحریک آزدی کو نئی جہت ملے گی۔ قانون دان منظور گیلانی کہتے ہیں کہ اب ہند نواز سیاست دان بھی آزادی کی بات کریں گے کیونکہ ہندوستان نے ان کے اعتماد کو توڑا ہے اور جس بنیاد پر وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے ہندوستان نے اس شناخت کو ختم کر دیا ہے اس لیے اب ردعمل کے طور پر عوام کے ساتھ ساتھ تمام سیاست دان بھی ہند مخالف کیمپ میں ہوں گے جو اس تحریک پر مثبت اثر ہو گا۔
یورپ اور بیرون ملک کشمیریوں کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟
اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے چھ ممبران موجود ہیں اسی طرح یورپی یونین میں درجنوںکشمیری اورپاکستانی قانون ساز موجود ہیں جو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مقیم کشمیری نژاد ایسے ہیں جنھیں مسئلہ کشمیر کی بنیادوں ہی کا علم نہیں اگر ان کی ذہن سازی کی جائے تو وہ انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ایک بنگالی لڑکے حمزہ کی مثال سامنے ہے جس نے گوانتاموبے میں قید اپنے بھائی کو چھڑانے کیلئے تحریک شروع کی اور اس میں کامیاب ہوا اس طرح کشمیریوں کو عوامی سطح پر کام کر کے آزادی کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔
کشمیری کیا کریں؟
اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں آرٹیکل 370 ہٹانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس دفعہ کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔یہ ایسا مطالبہ ہے جو ہند نواز لوگوں کا مطالبہ ہونا چاہیے۔مسئلہ کشمیر کی بنیاد دفعہ370نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ مسئلہ کشمیر دفعہ 370یعنی ہندوستان کا آئین بننے سے پہلے بھی موجود تھا اور اب 370کے ختم ہونے کے بعد بھی موجود ہے۔یہ اس وقت ختم ہو گا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان قراردادوں کو ختم نہیں کرتی۔ ایسے میں کشمیریوں کو خصوصی حیثیت کی بحالی کے بجائے حق خود ارادیت اور آزادی کی بات کرنی چاہئے۔
ترمیم میں جہاں کشمیر کے خصوصی قانون (پشتنی باشندگی قانون یا اسٹیٹ سبجیکٹ رول) کو ختم کیا گیا وہیں ریاست جموں و کشمیر کے اس حصے کو تقسیم کر کے مرکز (دہلی) کے زیرِ انتظام دو علاقے بنائے گئے ہیں جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہے اور ان اب دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔
جموں وکشمیر کا اپنا آئین اب ختم ہوجائے گا۔آرٹیکل 370کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ ہند تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلی کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔لداخ کو بھی مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔
اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کے بجائے پانچ برس ہو جائے گی۔ کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔ ہندوستان کے دونوں ایوانوں سے قانون پاس ہونے کے بعد ریاست میں انتظامی سطح پر فوری طور پر جو عملی اقدام دیکھنے کو ملا، وہ یہ تھاکہ سول سیکریٹریٹ ، صوبائی کمشنر، ضلع ترقیاتی کمشنر اور دیگر سرکاری دفاتر جہاں جہاں بھارت کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کا پرچم موجود تھاوہاں سے جموں وکشمیر کا پرچم اتار دیاگیاہے۔خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل جموں کشمیر کی ہند نواز سیاسی قیادت سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور انہیں سرکاری گیسٹ ہاؤس ہری نواس میں رکھا گیا ہے۔
دفعہ 370 میں ترمیم کے مسئلہ کشمیر پر اثرات
پاکستانی میڈیا میں یہ مفروضہ پھیلایا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم اور خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر ختم ہو کر رہ گیا ہے تاہم یہ موقف درست نہیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں موجود ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان قراردادوں کو ختم نہیں کرتی۔ اس وقت کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 27 سے زائد قراردادیں موجود ہیں ۔
آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ فیصلے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ وہ عالمی فورم پر ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر کا نظام چلانے کیلئے کوئی بھی نظام رائج کرسکتے ہیں۔ یک طرفہ قانون سازی سے ریاست کی جغرافیائی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے کوئی انہونا کام نہیں کیا، ان کی فورسز پہلے بھی موجود تھی اب بھی موجود رہیں گی۔ تحریک پہلے بھی جاری تھی اب زیادہ شدت سے ہو گی تاہم منظور گیلانی کو سٹیٹ سبجیکٹ کے خاتمے پر تشویش ہے۔ جس سے ریاست کا آبادیاتی تناسب تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے اور کبھی رائے شماری (جو ہوتی نظر نہیں آ رہی) ہوئی تو اس میں ہندوستان کشمیر میں اپنے لوگوں کو کشمیر بتا کر دھاندلی کر سکتا ہے۔
اسی طرح جسٹس (ر) مجید ملک کا کہنا ہے کہ جو آزادی پسند قوتیں ہیں انہوں نے اس آرٹیکل کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا کیونکہ یہ ہندوستان کے قبضے کا جواز تھا اور اب اس کے خاتمے سے ہندوستان کے قبضے کو جو آئینی شیلڈ حاصل تھی وہ بھی ختم ہو گئی اب یہ مکمل غیرقانونی قبضہ ہے۔ اب مسئلہ کشمیر 15 اگست 1947 والی پوزیشن پر آ چکا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق جموں وکشمیر پاکستان کا حصہ ہے نہ ہی ہندوستان کا۔ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس کا فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے۔ جب تک عوام اس کا فیصلہ نہیں کرتے اس کی حیثیت متنازعہ رہے گی۔
دفعہ 370 میں ترمیم سے مقبوضہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوںگے
دفعہ 370 کی ذیلی دفعہ 35 اے کو مکمل ختم کردیا گیا ہے جس سے ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں داخلی طور پر اثرانداز ہوگا اور کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ 35 اے جو مہاراجہ کے قانون کی توثیق تھی اس کے ختم ہونے سے مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ 45لاکھ سے زائد باشندگان کی خصوصی شہری حیثیت (اسٹیٹ سبجیکٹ)ختم ہو کر رہ گئی جو قابل تشویش بات ہے۔ اس قانون کے خاتمے سے بھارت کا ہر شہری اب کشمیر کا شہری ہوگا اور وہاں جائیداد بھی خرید سکے گا۔ 35 اے کے خاتمے کا سب سے پہلا اثر جموں پر ہوگا جہاں مغربی پاکستان کے مہاجرین (جنہیں شرنارتھی کہا جاتا ہے )جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور میانمار کے مہاجرین کو وہاں کے شہری حقوق ملیں گے جوا س سے قبل وہاں عارضی طور پر آباد تھے۔ اس سے قبل جموں میں 67 فیصد مسلمان تھے اور ان مہاجرین کی آبادکاری سے یہ تناسب 62 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اسی لیے انڈین حکومت انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ابھی تک کشمیر کے تعلیمی اداروں میں صرف کشمیر کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد وہاں باہر سے پڑھنے والے بچے آجائیں گے جو اپنی ثقافت ساتھ لائیں گے اور مقامی ثقافت پر اثرانداز ہوں گے۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا کی دوسری ریاستوں سے لوگ آکر کشمیر میں شہریت حاصل کرسکیں گے اور یہ باہر سے آنے والے کشمیر میں رہ کر اپنی آبادی بڑھائیں گے اور پھر وسائل پر قابض ہوںگے۔
دفعہ 35A کیا تھی؟
ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل تھی ۔یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں وکشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔ مذکورہ تین امور کے علاوہ آئین ہندوستان کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35Aکے مطابق ریاست جموں کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں ، غیر ریاستی باشندے جموں کشمیر میں نہ تو جائیداد بنا سکتے ہیں ، نہ وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔
دفعہ 35A در اصل اس قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے1927ء میں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا جن میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے انھیںکوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔
بھارت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرنے پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ میں عوامی ردعمل
بھارت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرنے پر پوری ریاست جموں و کشمیر اور لداخ میں کرفیو کے باوجود بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ وادی میں کمیونیکشن بلیک آؤٹ ہے وہاں ٹیلیفون، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ تاحال بند ہیں جس کی وجہ سے اصل صورتحال سامنے نہیں آ رہی ہے تاہم کچھ نشریاتی اداروں کے مطابق بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کشمیری عوام کرفیو کے باوجود سراپا احتجاج ہیں جبکہ جموںکے 12میں سے چھ اضلاع میں مکمل کرفیو ہے اور باقی چھ میں کرفیو جیسی صورتحال ہے۔ اسی طرح لداخ کے کرگل خطے میں لداخ کو مرکز کے انتظام میں دیے جانے کے خلاف ہڑتال ہے اور نقل وحمل کے سارے ذرائع معطل ہیںاور کرگل اس وقت مکمل بند ہے۔ ( یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے ہندوستان کو ردعمل آنے کی توقع نہیں تھی اور گزشتہ تیس سالوں میں وادی میں جاری عسکری تحریک سے مکمل لاتعلق تھے۔) میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع کرگل میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں نے دفعہ370کی منسوخی کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔ کل جماعتی ایکشن کمیٹی کرگل کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر تشکیل نوقانون 2019ء لانے سے حکومت ہندوستان کو سال1940جیسے پرآشوب ماحول میں دھکیل دیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا ہے کہ دفعہ370اور35Aکی بحالی کی جائے اور جموں وکشمیر تشکیل نوقانون2019کو جلد سے جلد ختم کیاجائے ۔
بی بی سی ہندی کے نامہ نگار کے مطابق کشمیر میں ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں اور پولیس موجود ہے ایک گھنٹے کے سفر میںانہیں10سے 12 مرتبہ روکا گیااور پوچھ تاچھ کی گئی جبکہ شمالی کشمیر اور جنوبی کشمیر کے حوالے سے بالکل کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں صورتحال کیا ہے۔بی بی سی کے مطابق ابھی تک وادی میں تمام لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
امیت شاہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اس کے خاتمے سے آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیریوں کو فائدہ ہوگا۔اس بات کی حقیقت اس سے واضح ہو جاتی ہے کہ انڈیا نے اس ترمیم کے اطلاق کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں، کتنے فوجی کشمیر میں لے آیا ہے، کرفیو لگا دیا ہے، انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، مواصلات کے تمام ذرائع بند ہیں۔ان سب اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔جب پابندیاں اور کرفیو ہٹے گا تو اس کا ردِعمل سامنے آئے گاجو پرتشدد ہو سکتا ہے۔
ہند نواز قیادت کا کہنا ہے کہ کشمیریوں سے دھوکہ ہوا ہے
بھارتی آئین میں ترمیم کے فوری بعد ردعمل کے طور پر ٹویٹ آیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ''یہ بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے، کشمیری قیادت کا 1947میں دوقومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ بیک فائر کر گیا۔ آرٹیکل 370 کا خاتمہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، یہ فیصلہ برصغیر کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔ بھارت کشمیریوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گیا ہے'' جبکہ محبوبہ مفتی کی بیٹی ثنا کا خیال ہے کہ آرٹیکل 370کے تحت جموں کشمیر کو حاصل خاص ریاست کا درجہ چھن جانے سے کشمیری نوجوان بہت ناراض ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔
ایک کشمیری نوجوان کا کہنا ہے کہ کشمیری یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ درست ہے۔ کشمیری اسے نہیں مانتے۔اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو گیا ہے۔انڈیا کے ساتھ الحاق کچھ شرطوں پر ہوا تھا اور اس میں ہمارا خاص درجہ ایک بہت بڑی اور اہم چیز تھی۔اب اگر وہ خاص درجہ ختم کر دیا جاتا ہے تو انڈیا کے ساتھ الحاق میں ہمارا جو آرٹیکل آف فیتھ تھا، اس پر سوال اٹھنے شروع ہو جائیں گے اور اس پر جو ردِعمل مظاہروں کی صورت میں ہوگا وہ سبھی سٹیک ہولڈرز کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں لیے گئے فیصلے کے بعد پاکستان نے باضابطہ طور پر انڈین حکومت سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیں اور ساتھ ساتھ اسے اطلاع دی ہے کہ پاکستان اپنا نامزد ہائی کمشنر اب انڈیا نہیں بھیجے گا۔قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق پاکستان نے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے پر انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔قومی سلامتی کمیٹی کے پانچ نکاتی اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔اعلامیے کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو انڈیا کے یومِ آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلے بھی کیا گیا ہے۔
چین کا ردعمل
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد لداخ کے لوگ اپنے علاقے کے لیے قانون ساز اسمبلی کی طاقت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔انڈین حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے پر چین نے بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ چین نے کہا کہ انڈیا کو یکطرفہ طور پر متنازعہ سرحدی خطے کی موجودہ صورتحال میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہیے جو کشیدگی کو ہوا دے۔آرٹیکل 370 ختم کیے جانے پر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے چین کا موقف بہت واضح ہے۔ 'انڈیا اور پاکستان کو خطے کو کشیدگی سے بچانے کے لیے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے چاہئیں ۔'
موجودہ ترمیم پر قانونی ماہرین کی رائے
ہندوستان کے وکیل اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ یہ فراڈ کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کا معاملہ بہت واضح ہے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔اسے صرف قانون ساز اسمبلی ہی ختم کر سکتی ہے اور قانون ساز اسمبلی کو سنہ 1956میں ہی تحلیل کر دیا گیا تھا۔ اور اب مودی سرکار آرٹیکل 370 کو توڑ مروڑ کے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اے جی نورانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جموں اور کشمیر کو ایک ساتھ رکھنے کا مقصد چند لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا ہے۔ دراصل ان کی نیت شروع ہی سے آرٹیکل 370کو ختم کرنا تھی۔آرٹیکل 35اے کے خاتمے پر اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ اس کے کشمیر پر برے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ کشمیر کی خاص شناحت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدام سے کشمیر پر اقوام متحدہ کے مجوزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ اس کو اعلی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں علم کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ دے گی۔
ہندوستان کے دانشور طبقے کی رائے
موجودہ ترمیم پر ہندوستان کے دانشوروں اور صحافیوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صحافی رویش کمار نے اپنے پروگرام میں کہا کہ میں نہیں مانتا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی۔معیشت تبھی چلتی ہے جب امن ہو گا۔ آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیر میں امن نہیں آئے گا کیونکہ وہاں عسکریت کی بنیاد یہ آرٹیکل نہیں بلکہ ان سے کیا گیا وعدہ ہے جو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا جس ریاست میں ترقی لانی ہو گی اسے پہلے تقسیم کیا جائے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اقدام سے امن تو نہیں آئے گا حالات میں مزید بگاڑ ضرور پیدا ہو گا۔
ایک دانشور نے سوال اٹھایا کہ معیشت کی بہتری کے لیے سب سے اہم چیز ہوتی ہے سیاسی استحکام اور جب آپ کی ریاست سیاسی طور پر ہی غیر مستحکم ہو جائے تو باقی جتنے شعبے ہیں ان میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟ بھارت کے اس اقدام سے سیاحت پر اثر پڑنے والا ہے، کشمیریوں کی تعلیم اور کاروبار پر کافی اثر پڑنے والا ہے، یہ کہنا ہے اس آرٹیکل کے خاتمے سے آپ کی معیشت بہتر ہو جائے گی ایک دھوکا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ جو چیز ہو رہی ہے اس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں چاہے وہ معاشی حالات ہوں یا سیاسی۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالبہ شہلا رشید کے مطابق اس اقدام سے کشمیری سب سے زیادہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جس طرح سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے کشمیریوں کے سیاسی احساسات کو بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے۔اس کا خاتمہ شناخت کے مسائل تو پیدا کرے گا ہی، کیونکہ جموں اور کشمیر ایک ریاست تھی جس میں جموں و کشمیر اور لداخ جو تینوں علاقے ہیں ان میں الگ الگ مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ہم اس کلچر کے ساتھ پلے بڑھے ہیں اور اب یہ جو قدم اٹھایا گیا ہے ریاست کو تقسیم کرنے والا، یہ نہ صرف دو قومی نظریے کو فروغ دیتا ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑا ثقافتی دھچکا ہے۔اس طرح کے اقدامات سے کشمیر کے مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے، کشمیریوں کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔
دفعہ 370 کی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج
ایڈووکیٹ ایم ایل شرما نے ہندوستان کے آئین میں موجودہ ترمیم کو چیلنج کر دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سری نگر سے تعلق رکھنے والی شہلا رشید (جو دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں) نے بھی چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے فیصلہ لیا گیا ہے وہ کافی غلط ہے۔ میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہوں اور مجھے امید ہے سپریم کورٹ اس آرٹیکل کے خاتمے کے فیصلے کو غلط قرار دے گی اور ہمیں انصاف ملے گا۔
ہندوستان کا سیکولر چہرہ بے نقاب
1947 میں کشمیر کی مسلم شناخت برقرار رکھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دوقومی نظریے اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کو غلط ثابت کر سکیں اور سیکولر بھارت کا پرچار کرسکیں تاہم مودی حکومت نے کشمیر کی شناخت پر حملہ کر کے ثابت کیا کہ ہندوستان سیکولر نہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کی بنیاد رکھنے والی ریاست ہے۔
اب کیا ہو گا؟
ہندوستان کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر میں پائی جانے والی تفریق اور تقسیم کو ختم کر کے تمام خطوں کی عوام کو متحد کر دیا ہے۔ جس طرح جموں اور لداخ میں ردعمل سامنے آیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اب تحریک آزدی کو نئی جہت ملے گی۔ قانون دان منظور گیلانی کہتے ہیں کہ اب ہند نواز سیاست دان بھی آزادی کی بات کریں گے کیونکہ ہندوستان نے ان کے اعتماد کو توڑا ہے اور جس بنیاد پر وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے ہندوستان نے اس شناخت کو ختم کر دیا ہے اس لیے اب ردعمل کے طور پر عوام کے ساتھ ساتھ تمام سیاست دان بھی ہند مخالف کیمپ میں ہوں گے جو اس تحریک پر مثبت اثر ہو گا۔
یورپ اور بیرون ملک کشمیریوں کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟
اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے چھ ممبران موجود ہیں اسی طرح یورپی یونین میں درجنوںکشمیری اورپاکستانی قانون ساز موجود ہیں جو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مقیم کشمیری نژاد ایسے ہیں جنھیں مسئلہ کشمیر کی بنیادوں ہی کا علم نہیں اگر ان کی ذہن سازی کی جائے تو وہ انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ایک بنگالی لڑکے حمزہ کی مثال سامنے ہے جس نے گوانتاموبے میں قید اپنے بھائی کو چھڑانے کیلئے تحریک شروع کی اور اس میں کامیاب ہوا اس طرح کشمیریوں کو عوامی سطح پر کام کر کے آزادی کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔
کشمیری کیا کریں؟
اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں آرٹیکل 370 ہٹانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس دفعہ کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔یہ ایسا مطالبہ ہے جو ہند نواز لوگوں کا مطالبہ ہونا چاہیے۔مسئلہ کشمیر کی بنیاد دفعہ370نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ مسئلہ کشمیر دفعہ 370یعنی ہندوستان کا آئین بننے سے پہلے بھی موجود تھا اور اب 370کے ختم ہونے کے بعد بھی موجود ہے۔یہ اس وقت ختم ہو گا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان قراردادوں کو ختم نہیں کرتی۔ ایسے میں کشمیریوں کو خصوصی حیثیت کی بحالی کے بجائے حق خود ارادیت اور آزادی کی بات کرنی چاہئے۔