پانی کی قبر

تھوڑا ساغور کیجیے تو آپ میرے ساتھ متفق ہو جائیں گے کہ ہمارے ملک میں الفاظ اپنی حرمت اور معنی کھو چکے ہیں۔

raomanzar@hotmail.com

تھوڑا سا غور کیجیے تو آپ میرے ساتھ متفق ہو جائیں گے کہ ہمارے ملک میں الفاظ اپنی حرمت اور معنی کھو چکے ہیں۔ ہماری اکثر باتوں میں کوئی سنجیدگی، مطلب یا سچائی نہیں ہوتی۔منصف انصاف بیچتے ہیں، سرکاری عمال میرٹ فروخت کرتے ہیں، سیاستدان اپنی دکان پر لوگوں کو راحت کے نام پر تکلیف بیچتے ہیں اور مذہب کی دکان پر ہم لوگ خوش ہو کر جبر خریدتے ہیں۔بے یقینی قوم کی روح میں سرایت کر چکی ہے۔ وعظ نصیحت اور تقاریر اب صرف زخم لگاتے ہیں۔ اس کا لوگوں کی نفسیات پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ آپ کسی مستند اور صاحب علم ماہر نفسیات سے دریافت کریں تو وہ بتائے گا کہ نفسیاتی بیماریوں میں وبا کی طرح اضافہ ہوا ہے۔ سکون آور دوائیوں کی فروخت اور استعمال کی شرح ہمارے ملک میں باقی دنیا کے ممالک سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس صورت حال کا ایک اور رد عمل ہوا ہے کہ لوگ کثیر تعداد میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس میں امیر اور غریب دونوں طبقات شامل ہیں۔

محمد علی بہالپور میں مزدوری کرتا تھا۔ ٹھیکیدار نے اس کی محنت دیکھ کر اسے راج گیری کی طرف لگا دیا۔یہ ترقی کے زینے پراس کی پہلی کامیابی تھی۔ دو سال میں اس نے راج گیری کا مشکل کام سیکھ لیا۔ ایک دن اس کے ٹھیکیدار نے اسے مشورہ دیا کہ اب وہ اس قابل ہو چکا ہے کہ خود ٹھیکیداری کر سکتا ہے۔ ترقی کے زینے پر یہ اس کا دوسرا قدم تھا۔ اس نے قلیل سرمایہ سے کام شروع کر دیا۔ محنت اور ایمانداری کی برکت سے وہ جلد ہی اوسط درجہ کا ٹھیکیدار بن گیا۔

محمد علی نے 27 سال کی عمر میں شادی کر لی اور خدا نے اسے دو بیٹے عطا کیے۔ وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کرتا تھا۔ ان ہی دنوں میں اسے اسلام آباد سے اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک مزدور کا فون آیا اور اس نے شمس نامی ایک شخص سے بات کرائی۔ شمس پرانے گھر خرید کر مرمت کرتا تھا اور اچھے داموں پر بیچ دیتا تھا۔ اسے محمد علی جیسے تجربہ کار ٹھیکیدار کی ضرورت تھی۔ مگر محمد علی اپنے گھر سے دور جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے شمس کو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کے پاس بہالپور میں بہت کام ہے لہذا وہ اسلام آباد جیسے اجنبی شہر میں کام نہیں کر سکتا۔

شمس اسے لینے بہالپور آ گیا۔ اس نے محمد علی کو سمجھایا کہ اسلام آباد اس جیسے کاریگر اور ٹھیکیدار کے لیے بہتر شہر ہے۔ محمد علی قائل ہو گیا اورایک ماہ کے بعد اسلام آباد پہنچا تو شمس نے اسے ایک ریٹائرڈ افسر سے ملوایا۔ اس افسر کے دو عالیشان گھر تھے۔ ایک میں وہ خود رہتا تھا اور دوسرا گھر وہ مرمت کرا کے اپنی اکلوتی بیٹی کو دینا چاہتا تھا۔ شمس اپنے ساتھ بہالپور سے چھ سات مزدور لے کر آیا تھا۔ اس کے لیے اس گھر کا کام نہایت آسان تھا۔ اسلام آباد میں اجرت بہالپور سے دوگنی تھی۔ تین ماہ میں محمد علی نے اس گھر کی کایا پلٹ دی۔ محمد علی کے پاس پانچ لاکھ کا سرمایہ بھی جمع ہو گیا تھا۔اچانک جس مالک کا گھر وہ مرمت کر رہا تھا وہاںچوری ہو گئی۔ الزام محمد علی اور اس کے مزدوروں پرلگا۔ محمد علی کا اس ڈاکہ یا چوری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی رات کو محمد علی کو ایک سب انسپکٹراسے پکڑ کر لے گیا'وہ اسے بنی گالہ کے ایک خالی گھر میں لے گیا وہاں اس پر وحشیانہ تشدد کیاگیا۔ محمد علی کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ اور جبڑے کی ہڈی کئی جگہ سے ٹوٹ گئی۔ جب تک پولیس کو یقین آیا کہ وہ بے گناہ ہے اس کا جسم اور روح ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔

اس واقعہ نے محمد علی کو مکمل تبدیل کر دیا۔ وہ بہت مشکل سے بہالپور پہنچا۔ وہاں اسے ٹھیک ہونے میں پورا ایک سال لگا۔ اسی اثناء میں اسے ایک واقف ملا جس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ لاہور میں کچھ لوگوں کو جانتا ہے جو اسے آسٹریلیا بھجوا سکتے ہیں۔ محمد علی اپنے ملک کو نہیں چھوڑنا چاہتا تھا لیکن اُس واقعہ نے اُس کے جسم اور روح کو تار تار کر دیا تھا۔ چنانچہ لاہور کے ایک ایجنٹ سے ساری بات طے ہو گئی۔ آسڑیلیا بذریعہ انڈونیشیا پہنچنے کے سات ہزار ڈالر طے کیے گئے اور بچوں کی فیس 3500ڈالر مقرر ہوئی۔ محمد علی کو ان دونوں ملکوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ایجنٹ کے مطابق یہ سفرآرام دہ اور کسی مسئلہ کے بغیر ہو گا۔ محمد علی نے اپنے بچوں کے مستقبل کی بہتری اور اچھے روزگار کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ اس نے سارے اثاثے بیچ دیے، اپنے دوستوں رشتہ داروں سے ہر ممکن قرض لیا اوررقم ایجنٹ کو ادا کر دی۔تقریباََ ایک ماہ بعد اسے اور اس کے خاندان کو انڈونیشیا پہنچا دیا گیا۔ یہ سفر بذریعہ ہوائی جہاز تھا۔ وہاں اس کی ملاقات ایک پاکستانی ساجد حسن نور سے کرائی گئی جس نے محمد علی کو یقین دلایا کہ آسٹریلیا صرف چند دنوں کی مسافت پر ہے اور اسے کشتی کے ذریعہ جانا ہو گا۔

محمد علی کو پانی سے خوف تھا۔ لیکن ساجد حسن کے بقول کشتی بہت مضبوط ہے۔ایک رات محمد علی اپنے دو بچوں اور بیوی کے ہمراہ اس سفر پر روانہ ہو گیا۔ یہ کشتی تقریباََ 40 آدمیوں کے لیے بنی تھی۔ مگر اس میں 177 آدمی لاد دیے گئے۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ سترہ دن میں آسٹریلیا پہنچ جائیں گے اور وہاں ان کے لیے تمام بندوبست کر لیا گیا ہے۔


محمد علی بہت خوش تھا کہ اس کی زندگی بدلنے والی ہے لیکن حقیقت میں اس کی زندگی بدل چکی تھی۔ کشتی کا انچارج انھیں دن میں صرف ایک بار کھانا دیتا تھا ، سب لوگ خاموش رہتے تھے۔ بارہ دن بعد کشتی پر کھانا اور پانی ختم ہو گیا۔ محمد علی کی بیوی بت بن چکی تھی۔ دونوں بچے بالکل خاموش ہو چکے تھے۔ محمد علی کو ایسے لگتا تھا کہ اس نے ایک سنگین غلطی کر دی ہے مگر اب وقت گزر چکا تھا۔ پندرہ دن کے بعد لوگوں نے مرنا شروع کر دیا،مرنیوالے کی نعش کو سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ سولہ دن گزر گئے اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ صبح پتہ چلا کہ کشتی چلانے والا شخص غائب ہے اور ایندھن بھی ختم ہو چکا ہے۔

اس دن محمد علی کی بیوی نے پہلی بار اپنے لیے پانی مانگا کیونکہ اس کے دونوں بچے دم توڑ چکے تھے۔ دونوں بچوں کی نعشوںکو اس کی بیوی سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔دوپہر کو دو بجے کشتی میں پانی داخل ہونا شروع ہو گیا۔ قیامت آ چکی تھی۔ پانی کی ایک لہر نے کشتی کوالٹ دیا۔ محمد علی کی بیوی بچوں کو ایک لہر نے اس کی آنکھوں کے سامنے سے ہمیشہ کے لیے گم کر دیا۔ محمد علی کشتی کے ایک لکڑی کے بکس پر لیٹ گیا۔ وہ اب مرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ مر نہ سکا۔ تھوڑی دیر میں آسٹریلیا کی نیوی کی کشتیاں اس جگہ پر پہنچ گئیں اور حکام نے تقریباََ 30 لوگوں کو بچا لیا۔

محمد علی ان دوسرے افراد کو ''کوکوس'' کے جزیرے پر لایا گیا(Cocos Island)۔ وہاں ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ پولیس کو دیکھ کر وہ ڈر گیا اور اس کے ذہن میں اسلام آباد کا وہ سب انسپکٹر آ گیا جس نے اس کی ٹانگیں توڑ دی تھیں۔ مگر آسٹریلیا کی پولیس نے کچھ نہیں کہا۔کھانا ، پانی اور دیگر اشیاء فوراََ مہیا کر دی گئیں۔ کوکوس جزیرے سے ان لوگوں کو کرسمس جزیرہ میں لایا گیا۔ جہاں ان کو ایک جیل میں بند کر دیا گیا۔ مگر وہ جیل بہالپور میں محمد علی کے گھر سے بہتر تھی۔

محمد علی کو شدید کھانسی اور سینہ میں درد شروع ہو گیا۔ جیل کے ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا۔ محمد علی کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پرتھ لایا گیا۔ جہاں ایک اسپتال میں اس کا مفت علاج کیا گیا۔ وہیں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس کی ٹانگ کا آپریشن بھی غلط کیا گیا تھا۔ لہذا اس کی ٹانگ کو سرجن نے چار گھنٹے کے بعد دوبارہ صحیح طرح جوڑا۔محمد علی ایک ماہ میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اسے دوبارہ کرسمس جزیرے کی جیل بھجوا دیا گیا۔ وہ وہاںچھ ماہ رہا، ایک سرکاری وکیل نے اس کی asylum کا کیس دائر کر دیا اور حکومت نے وکیل کی فیس ادا کی۔ جج نے اس کا کیس سنا، وہاں اسے اردو بولنے والے ایک مترجم کی خدمات بھی مہیا کی گئیں۔ ایک پیشی پر محمد علی نے جج کو اپنے بیوی بچوں کے پانی میں ڈوبنے کا واقعہ سنایا۔ جج کی آنکھوں میں نمی آ گئی اور اس نے اس دن محمد علی کو انسانی حقوق کی بنیاد پر asylum دے دی۔

محمد علی جیسے سیکڑوں پاکستانی آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔ Asylum ملنے کے بعد وہ وہاں معمولی کام شروع کر دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہیں مستقل رہ جاتے ہیں۔ آسڑیلیا کی حکومت اس معاملے پر بہت مشکل میں ہے کیونکہ بغیر ویزہ کے کشتی پر آنے والے یہ لوگ ان کے شہری بن جاتے ہیں۔ یہ کشتی والے لوگ موت کا انتہائی خطرناک سفر طے کرتے ہیں اور ان میں سے صرف چند فیصد یہاں زندہ پہنچ جاتے ہیں۔

مگر آج بھی پاکستان سے لوگ یہ خطرناک سفر کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کسی گلی محلہ گائوں یا شہر کو دیکھ لیں آپ کو ہر جگہ کئی محمد علی نظر آئیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں ظلم اور نا انصافی اتنے عروج پر ہیں کہ لوگ اس جان لیوا سفر پر خوشی خوشی قرضہ لے کر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اب تک سیکڑوں پاکستانی پانی میں تڑپ تڑپ کر جان دے چکے ہیں۔ موت کے سودا گر اتنے با اثر اور امیر ہیں کہ وہ نقب لگا کر ہر ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اپنے حصے کے پورے نظام کو خرید چکے ہیں۔ ہمارے ائیر پورٹس پر ان کی حکومت ہے اور ہمارے عمال حکومت ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ یہ سوداگر پاکستان کے مایوس شہریوں کو سہانے خواب بیچتے ہیں۔ بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔ انھیںکون روکے گا؟ ان سفاک لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کون بند کرے گا؟

میں کچھ نہیں کر سکتا، میری تو صرف ان لوگوں سے یہ اپیل ہے کہ یہ لوگوں کو پانی میں مرنے سے بچانے کے لیے مضبوط کشتیاں استعمال کریں جو زندگی کے ساحل پر لنگر انداز ہوں۔ سڈنی میں محمد علی کے کمرے میں بحر ہند کا ایک بڑا سا نقشہ ہے جس پر تین سرخ نشان لگے ہوئے ہیں، یہاں اس کی بیوی اور بچے ڈوبے تھے اور وہ ان جگہوں کو پانی میں اپنے خاندان کی قبریں بتاتا ہے۔ موت کے اس کاروبار میں ان لوگوں کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، شاید کوئی بھی نہیں؟ مگر کوئی تو ہونا چاہیے جو ڈوبتے ہوئے بچوں کی آخری ہچکیاں سنے اور ان سوداگروں کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ مجھے شدت سے یہ وہم ہے کہ کوئی تو خم ٹھونک کر میدان میں آئے گا۔ یا شاید اب ہم ذہنی طور پر ایک مردہ قوم ہیں، جس میں سے ہر ایک کو پانی کی قبر میں زندہ دفن کیا جا چکا ہے؟
Load Next Story