ایک پیج کی کہانی

قوم کو اس نہج پر پہنچانے کے لیے نصاب میں من گھڑت واقعات ، نکات اور زاویے تخلیق کیے گئے۔

خوش نصیب ہوتے ہیں وہ ملک جن کے عوام ، حکمران ، ریاستی ادارے اور سول و عسکری افسر شاہی ایک متفقہ قومی موقف یا بیانیہ رکھتے ہیں ۔ ایسے ملک کم وسائل ، کم آمدن ، معمولی جغرافیائی خطوط (Geo-Strategic Position) رکھنے کے باوجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جیسے عرب لیگ سمیت تمام مسلم ممالک دشمن ہونے کے باوجود اسرائیل دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں سر فہرست ہے۔

جیسے ملائیشیا و سنگاپور کی ترقی دیکھنے والے کی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے، جیسے چین بغیر کوئی عالمی جنگ لڑے دنیا کو اپنے آگے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرچکا ہے ، اور تو اور کیوبا جیسی چھوٹی ریاست کے آگے دنیا کا سپر پاور امریکا لاچار و بے بس نظر آتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ دور جانے کی بات نہیں ہم سے آزادی حاصل کرنے والا بنگلادیش آج سارک ممالک کے دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک بلکہ ہم سے بھی زیادہ مستحکم بن چکا ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا ملک 72سال سے کلمہ طیبہ کا ہم مطلب کہلانے اور ایک ہی بیانیہ رکھنے کے طویل دعوؤں کے باوجود ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے تنزلی کے زینے تیزی سے اترتا جا رہا ہے ؟اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے کہ ہمارے عوام ، حکمران ،ریاستی ادارے ، سول و عسکری افسر شاہی اور ملک کے دیگر اسٹیک ہولڈرادارے و شعبوں کے ایک ہی پیچ پر ہونے کے دعوے ببانگ دہل کرنے کے باوجود حقیقت میں ہم کبھی ایک پیج پر نہیں رہے ۔

یہاں کوئی بھی ''سیر'' نہیں ہر کوئی'' سوا سیر'' بننے کی کوشش کرتا ہے ، یہاں ملکی نظام چلانے کے لیے مقرر کردہ درجہ بندی (Hierarchy) پر ہی عمل نہیں کیا جاتا ۔ کونسا عہدہ اور کونسا ادارہ کس کے ماتحت ہے؟کسی کو خبر ہی نہیں ، یا شایدزیادہ ''خبر ''ہے ، اس لیے جس کو بھی اپنی طاقت کی خبر ہوتی ہے وہ سب کے سروں پر چڑھ بیٹھتا ہے ، اور نہ صرف خود بیٹھتا ہے بلکہ اپنے گروہ بھر کو اپنے ہمراہ وہاں مضبوط سے مضبوط تر کرتا جاتا ہے ۔پھر وہیں سے گروہی مفادات شروع ہوتے ہیں اور ہماری اس حالت کی وجہ یہی گروہی مفادات ہیں، جن کی تکمیل کے لیے ملک پر پرماری قوتوں کا قبضہ ہے ۔

ملک کے قیام سے ہی یہاں جمہوری روایات ، جمہوری ماحول اور قومی جمہوری موقف بننے ہی نہیں دیا گیا کہ جس پر تمام فریقین بطور قوم متفق و متحد ہوسکیں۔ قائد کے پاکستان کے بنیادی تصورات تبدیل کردیے گئے ، پانچ اکائیوں اور کثیر القومی ملک کو زبردستی دو اکائیوں اور دو اقوام میں بانٹ دیا گیا ، جس وجہ سے ملک کی اکثریتی بنگالی قوم ملک کی اقلیتی مخلوط قوم سے آزادی حاصل کرکے علیحدہ ہوگئی ۔ باقی ماندہ ملک کو دوبارہ 4اکائیوں میں بحال کردیا گیا ۔ ان تمام مراحل میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا ایک پیچ پر ہونا مشہور کیا گیا حالانکہ سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر عوام تو وقت کے حکمرانوں کی گولیوں کی زد میں اور مسلسل احتجاج میں تھے ۔لیکن ملک توڑنے والوں کو سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔

یہ اُسی جھوٹے بیانیے والے ایک پیج پر ہونے والی داستان کا ایک سیاہ ترین ورق ہے ۔ پھر ملک پر دنیا کی سیاہ ترین ضیائی مارشل لا نافذ کرکے قائد عوام کو عدالتی قتل کے ذریعے ہٹایا گیا ، ملک میں کلاشنکوف ، منشیات اور دہشت گردی کی بنیاد رکھی گئی لیکن اُس وقت بھی قوم کے ایک پیج پر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آمر ضیاء توغیر آئینی طور پر 11سال ملک پر مسلسل حکومت کرتا رہا لیکن آئینی طور پر منتخب ہونے والی کسی بھی جمہوری حکومت کو اپنی آئینی مدت 5سال بھی پوری کرنے نہیں دی گئی۔

یوں 1988سے 1999تک کے گیارہ سالوں میں 4جمہوری حکومتوں (حالانکہ وہ بھی مکمل جمہوری نہیں بلکہ نیم جمہوری حکومتیں تھیں) کو معزول کیا گیا اور قوم کے ایک پیج پر ہونے والی Termکی تشریح جاری رہی ۔ پھر آیندہ 9سال مشرف کی افغان پالیسی ، لال مسجد آپریشن اور ججزکی معطلی پر پرویز مشرف کے ساتھ قوم کے ایک پیج پر کھڑے رہنے کے شادیانے بجائے جاتے رہے ۔ ان پرماری قوتوںکو ان تمام اُمور پر قوم کے حقیقی بیانیے کی اہمیت پھر بھی سمجھ میں نہیں آئی اور محترمہ بینظیر بھٹو جیسی عالمی رہنما کو شہید کروادیا گیا ، جس سے ملک دوبارہ ٹوٹنے کے دہانے پر آکھڑا ہوا ۔


ان پرماری قوتوں نے ملک میں اپنے مفاد کے لیے جھوٹا بیانیہ تشکیل دیا اورقوم کو اُس جھوٹے بیانیے والے ایک پیج پر رکھنے کے لیے جھوٹی، من گھڑت اور متضاد تاریخ پر مبنی نصاب کی نشر و اشاعت کی ۔ یہ نصاب زبردستی مسلسل بچوں کو پڑھا پڑھا کرایسی نسلیں تیار کی گئی ہیں جو صرف گاڑی کی ونڈ اسکرین سے سامنے نظر آنیوالی اس جھوٹی شاہراہ کودیدے پھاڑے ہی دیکھنا چاہتی ہیں ،وہ گاڑی کے سائیڈمِرر (Side Mirror)اور بیک مِرر (Back Mirror) کودیکھ کر آس پاس منڈلاتے خطرات و اندیشوں کو دیکھنے کی جرأت و خواہش ہی نہیں رکھتیں۔

قوم کو اس نہج پر پہنچانے کے لیے نصاب میں من گھڑت واقعات ، نکات اور زاویے تخلیق کیے گئے۔ قائداعظم کی جائے پیدائش سے قائد کے 14نکات تک ، پھر قرار داد ِ پاکستان تک میں ہیرا پھیری کی گئی اور سب سے بڑی بات جھوٹے قومی ہیروز بھی پیدا کردیے گئے ۔ سورہیہ بادشاہ پیر پگاڑہ اور ہیموں کالانی جیسے مقامی حقیقی انقلابیوں کی جگہ محمود غزنوی جیسے ماضی کے متنازعہ کرداروں کو قومی ہیرو بناکر پیش کیا گیا ۔ ان سب کرداروں اور باتوں کو اپنے گروہی مفادانہ بیانیے کے تحت مربوط کیا گیا اور پھر اُسی گروہی مفاد والے بیانیے کو قومی بیانیہ قرار دیکر قوم کو زبردستی اُس بیانیے پر متحد و منظم کرنے پر ملکی وسائل لُٹائے جانے لگے، لیکن کہتے ہیں نا کہ لاکھ کوششوں کے باوجود سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا اور جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے مسلسل نت نئے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں مگر پھر بھی جھوٹ کی شکست ہوتی ہے ۔

ہماری ناکامی بھی اسی جھوٹے بیانیے والے ایک پیج پر قوم کو متحد کرنے کی وجہ سے ہے ۔ وقت کی بلی ہمیں کھانے کو تیار بیٹھی ہے لیکن ہم بطور قوم آنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ سمجھنے والے کبوتر بنے ہوئے ہیں۔ اسی پیرائیے کا تسلسل یہ بھی ہے کہ اس گروہی مفاد کے حامی بیانیے والے پیج پر نہ آنے والے سیاستدانوں ، صحافیوں ، ججوں اور ارادیت پسند کارکنان (Activists) کو زبردستی اس گروہی مفادات والے بیانیے پر لانے کے لیے نیب نیب اور جیل جیل کا کھیل شروع کرکے عوام کو تماشے سے لطف اندوز ہونے پر لگادیا گیا ہے ، ساتھ ہی اُنہیں ایک پیج پر ہونے کی لوری اس شدت سے سنائی جارہی ہے کہ اُنہیں برساتوں میں ڈوبے شہر اور کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی چیخیں بھی نہیں سنائی دیتیں ۔ بھوک سے بلکتے اور مرتے تھر کے بچے دکھائی نہیں دے رہے ۔ پانی کی قلت سے پریشان بدین کے عوام کی آوازیں بھی نہیں سنائی دے رہیں ۔ لائق و فائق ججز کی کردار کشی دکھائی نہیں دے رہی ۔

پھر یہ جو گذشتہ 5برس سے مسلسل اور گذشتہ ایک برس سے خاص طور پر پی ٹی آئی کے ساتھ تمام ریاستی اداروں سمیت پورے ملک بلکہ بیرون ِ ملک پاکستانیوں کے بھی ایک پیج پر ہونے کے دعوے بڑی شد و مد سے کیے جارہے ہیں ۔ اس دوران عوام پر مہنگائی کے بم گرانے کا سلسلہ جاری ہے ، جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اُن سے بھی زبردستی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے ۔ ملک کی معیشت و بجٹ آئی ایم ایف کے حوالے کردی گئی ہے اور مزے کی بات کہ آئی ایم ایف اس فتح پر فخر کا چرچا عام کررہا ہے ۔ عالمی سطح پر قومی مقدمات میںبھاری ہرجانے اور ریکارڈ رسوائیاں اُٹھانی پڑی ہیں ۔ پڑوسی ممالک حتیٰ کہ دوستوں کو دشمن بنانے میں تیزی آگئی ہے۔

پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم ،ق لیگ ، عوامی لیگ ، باپ، جی ڈی اے، بی این پی اور آزاد امیدواران کے آٹھ پیوندی حکومتی اتحاد اور ملکی اداروں کے ساتھ میڈیا کے ایک پیج پر ہونے کا اثر یہ ہے کہ راوی چین ہی چین بلکہ خوشحالی ہی خوشحالی لکھ رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کی بڑی جماعتوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہو اور پھر اعلانات کیے جارہے ہیں کہ ملک اس وقت ایک پیج پر ہے ۔ یہ ایک پیج پر آنے کی بات تبھی سچ ہوسکتی ہے جب ملک کی تمام جماعتیں اور ادارے باہمی رضاکارانہ تعاون اور باہمی مشوروںکے بعد یک بیانیہ نظر آئیں ۔ جس کا موقع ہمیں کشمیر معاملے پر پڑوسی ملک کے ناعاقبت اندیش وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندی نے فراہم کیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عملی طور پر ناعاقبت اندیش وہ ٹھہرتا ہے یا پھر ہم حسب ِ روایت یہ موقع بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھتے ہیں ۔

ایسا بھی نہیں کہ قوم کبھی حقیقی ملکی مفاد میں ایک پیج پر نہیں رہی بلکہ ایک پیج پر ہونے کے مثالی مواقع میںسب سے اہم موقع 1973کے آئین کی تشکیل کے وقت نظر آیا جب ملک سے ناراض جی ایم سید ، ولی خان ، عطاء اللہ مینگل اور نواب خیربخش مری جیسے رہنما بھی ملک و ملت کے حقیقی بیانیے کی وجہ سے ایک پیج پر نظر آئے ۔ پھر 1993کے ایٹمی تجربے کاوہ اعلیٰ منظر تھا جب عوامی جمہوری حکومت نے قوم کی اُمنگوں کے مطابق فیصلہ کرکے ملک کی سربلندی کو ثابت کیا ،یا پھر 2005میں ملک کے بالائی علاقوں میںآنیوالے زلزلے کے لمحات بھی ایک پیج پر ہونے کی اعلیٰ مثال تھے، جب پوری قوم نے بالائی علاقوں کا درد محسوس کیا ۔

پھر آج ملک و ملت کے لیے یہ سب سے اہم موڑ ہے کہپاکستان کی شہہ رگ قرار دیے گئے کشمیر پر بھارتی آئینی و جغرافیائی حملوں سے پیدا شدہ صورتحالمیں عوامی خواہشات کشمیری عوام کے دردوں کا درمان بننے والے بیانیے کے ساتھ ہیں ۔ اس وقت بظاہر تو تمام ادارے اور قوم ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں لیکن کئی ایسے زاویے سر اُٹھار ہے ہیں، جن سے ہولناک اندیشے اُبھر رہے ہیں کہ کشمیر جیسی ملکی بنیادی پالیسی پر ایسی بے عملی کیوں ؟ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس مرتبہ حقیقی معنوں میں ایک پیج پر ہونے کابھرم رکھنا چاہیے کیونکہ تاریخ ہمیں پھر ایسے دوراہے پر لے آئی ہے کہ جہاں پر ہمارا روایتی موقف نہ صرف قوم کے انتشار کا باعث ہوسکتا ہے بلکہ ملک کے جغرافیائی و ڈیموگرافی بھونچال کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

یہ اندیشے اس لیے بھی اُبھر اُبھر کر سامنے آرہے ہیں کہ 1970میں جب قوم کے ایک پیج پر ہونے کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا اور ملک دو ٹکڑے ہوا اور آج جب پھر قوم کے ایک پیج پر ہونے کے ڈرم زور شور سے بجائے جارہے ہیں۔ یہ ِ اتفاق ہے یا پھر پرماری قوتوں کی منصوبہ سازی، لیکن ملک کا حقیقی درد رکھنے والے محب وطن لوگ خدائے ذوالجلال کے در پر دعاگو ہیں کہ کشمیر سمیت پاکستان کا اللہ خیر کرے ۔
Load Next Story