آج کا ہٹلر
کشمیرمیں آزادی کی تحریک تو شروع سے ہی چل رہی ہے مگراس کی ناکامی کی ایک وجہ بھارت نوازکشمیری سیاسی پارٹیاں بھی رہی ہیں۔
مودی تیرا شکریہ ! بلکہ بہت بہت شکریہ کہ تو نے اپنی بے وقوفی سے پل بھر میں مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا میں اجاگر کردیا۔ ماضی کی تمام بھارتی حکومتیں کشمیر کے خراب حالات اور خاص طور پر وہاں جاری تحریک آزادی کی پردہ پوشی کرتی رہی ہیں تاکہ یہ مسئلہ اس کا اندرونی معاملہ بنا رہے اور وہ شان سے کہہ سکیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
دوسری طرف ہر پاکستانی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کردیا ہے مگر کبھی ایسا ہوا ہی نہیں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستانی میڈیا تک ہی محدود رہا ہے۔
بھارتی وظیفہ نواز مغربی میڈیا تو ہمیشہ ہی کشمیر کے مسئلے پر خاموش ہی رہتا تھا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسے کشمیر کے نام سے ہی سانپ سونگھ جاتا تھا مگر اب جب سے مودی نے اپنی فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے کشمیریوں کے تمام انسانی حقوق غصب کرلیے ہیں اور کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے پورے عالمی میڈیا پر مسئلہ کشمیر چھایا ہوا ہے، اس لیے کہ اب سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا۔
دنیا کا ہر چھوٹا بڑا نیوز چینل اور اخبارات کشمیریوں کے ساتھ بھارت کی ظلم و زیادتی کی داستانیں بیان کر رہے ہیں۔ اس وقت کشمیری کئی دنوں سے پوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں تمام ذرائع مواصلات بند ہیں۔ کشمیری گھروں میں قید کردیے گئے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا اور دواؤں کی سخت قلت ہے۔ پھر بھارت کے ہزاروں فوجی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں ان کی طرف سے بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی کشمیری گھر سے باہر نکلا تو اسے گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ بقر عید کے دن بھی کرفیو میں کوئی نرمی نہیں کی گئی۔ مسجدوں پر تالے ڈال دیے گئے تھے۔
کشمیری نماز عیدالاضحی کے ساتھ ساتھ سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے بھی محروم رہے۔ ایسا ظلم تو ہٹلر نے بھی اپنی اقلیت سے نہیں کیا ہوگا۔ اس سے واضح ہوا کہ مودی ہٹلر سے بڑھ کر سفاک قاتل اور انسانیت کا دشمن ہے۔ مودی کا دعویٰ ہے کہ وادی میں مکمل امن ہے اور کشمیریوں نے کشمیر کے بھارت میں ضم ہونے کو قبول کرلیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر کرفیو کیوں لگایا گیا اور طویل عرصے بعد تک اسے کیوں ہٹایا نہیں جا رہا؟
بھارتی میڈیا جسے خود وہاں کے عوام مودی نواز میڈیا کا خطاب دے چکے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مودی کے اس کشمیر کش اقدام کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کشمیر سے متعلق جھوٹی خبریں سنا کر اور دکھا کر بھارتیوں کو بے وقوف بنا رہا ہے مگر میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا کشمیریوں پرکوئی اثر نہیں ہو رہا اس لیے کہ وہاں تو ٹی وی کیا ٹیلی فون اور انٹرنیٹ بھی بند ہیں مگر عالمی میڈیا تک کشمیر کی خبریں کسی طرح پہنچ رہی ہیں اور وہ اس سے دنیا کو برابر آگاہ کر رہا ہے۔
بی بی سی جو اس سے پہلے بھارت نوازی میں اپنی مثال آپ تھا اب حقیقت پسندی کا ثبوت دے رہا ہے اور کشمیر کی صحیح حالت زار کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کی کشمیر میں جاری سفاکانہ پالیسی کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ گزشتہ جمعہ 9 اگست کو کشمیریوں نے کرفیو توڑ کر جو بڑی ریلی نکالی تھی اس کی ویڈیو بھی بی بی سی کے ایک نمایندے نے بنائی تھی۔
بی بی سی کے مطابق اس احتجاجی اجتماع میں بیس ہزار سے زائد لوگ شریک تھے۔ اس ویڈیو نے بھارتی پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی ہے کہ وہاں مکمل امن و امان ہے اور کشمیری آرٹیکل 370 اور 35A کے ہٹنے سے جشن منا رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے علاوہ برطانیہ کے گارجین اور ٹائمز جیسے بڑے اخبارات کھل کر مودی کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں خبریں شایع کر رہے ہیں ساتھ ہی مضامین اور تصاویر بھی شایع کی جا رہی ہیں۔ کئی حکومتوں نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی ہے اور مسئلہ کشمیر کے مستقل حل پر زور دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک تجربہ کار اور کہنہ مشق وزیر خارجہ ہیں وہ کشمیر کی تازہ صورتحال کے پیش نظر کافی محنت کر رہے ہیں۔ ان کا چین کا دورہ بہت کامیاب رہا پہلے وہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھانے کے لیے چین کو راضی کرچکے ہیں اور یہ ہماری سفارت کاری کی بہت بڑی جیت ہے جب کہ بھارت ہماری اس کامیابی سے بہت صدمے میں ہے۔
وہ شاہ محمود قریشی کے دورے کے بعد اپنے وزیر خارجہ جے شنکر کو بھی چینی قیادت کو گمراہ کرنے کے لیے بیجنگ بھیج چکا ہے مگر اسے وہاں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ بھارت نے چین کے بھی کچھ علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ کشمیر اور لداخ کے بارے میں اپنے پرانے موقف پر قائم ہے۔ اس نے کشمیر کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مودی نے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھائے جانے کا خود ہی راستہ صاف کردیا ہے۔اب مسئلہ کشمیر پھر اقوام عالم کے سامنے جانے والا ہے اور کشمیر پر پاس کی گئیں قراردادوں کو اب عملی جامہ بھی پہنایا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت پر زور دیتے رہے ہیں اب انھوں نے واضح کردیا ہے کہ یہ مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا چاہیے البتہ انھوں نے شملہ معاہدے کا بھی ذکر کیا ہے مگر اس معاہدے میں بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کو دونوں ممالک سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کریں گے۔
کشمیر میں آزادی کی تحریک تو شروع سے ہی چل رہی ہے مگر اس کی ناکامی کی ایک وجہ بھارت نواز کشمیری سیاسی پارٹیاں بھی رہی ہیں۔ اگر وہ بھارت نوازی کا جوا پہلے ہی اتار پھینکتی تو کشمیر کبھی کا آزاد ہو جاتا مگر اب مودی کی تازہ بے وقوفی سے ہند نواز سیاسی پارٹیاں بھی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور وہ کھل کر کہہ رہی ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے بھارتی حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔
بھارت انھیں اپنا مستقل غلام بنانا چاہتا ہے انھیں افسوس ہے کہ کاش انھوں نے آزادی پسندوں کا ساتھ دیا ہوتا تو وہ آج پاکستانی بن کر آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ لگتا ہے اب تحریک آزادی کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بن چکی ہے چنانچہ اب مودی کے لیے کشمیریوں کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ وہ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی نیا ڈرامہ بھی رچا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر پر حملہ بھی کرسکتا ہے کیونکہ اس کی سات لاکھ فوج پہلے ہی کشمیر میں موجود ہے اب مزید ایک لاکھ فوج کشمیر میں بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟
چند دن قبل بھارتی اخباروں میں ایک جھوٹی خبر بھارت سرکار چھپوا چکی ہے کہ پاکستان کے چھ دہشت گرد مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوچکے ہیں جو کسی بھی وقت کوئی کارروائی کرسکتے ہیں ہماری حکومت کو مودی کی شیطانی ذہنیت سے خبردار رہنا چاہیے اور اپنی تیاری مکمل رکھنی چاہیے۔ اب پاکستان کو سلامتی کونسل میں کشمیریوں کا کیس پوری تندہی سے لڑنا ہوگا ہمیں اس نادر موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مگر کشمیر کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر ملک میں مکمل قومی یکجہتی کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے اسے حزب اختلاف سے اختلاف کے بجائے قربت کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے ایک بنگالی پروفیسر سانترابوس نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی اور امیت شاہ نے اپنی انتہا پسندانہ اور شاطرانہ سوچ سے اس مسئلے پر اپنے مفاد میں ایک ایسا جوا کھیلا ہے جو سراسر بھارت کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ لگتا ہے مودی میں ہٹلر کی روح حلول کرگئی ہے جب ہی وہ اس جیسے کام کر رہا ہے۔
دوسری طرف ہر پاکستانی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کردیا ہے مگر کبھی ایسا ہوا ہی نہیں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستانی میڈیا تک ہی محدود رہا ہے۔
بھارتی وظیفہ نواز مغربی میڈیا تو ہمیشہ ہی کشمیر کے مسئلے پر خاموش ہی رہتا تھا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسے کشمیر کے نام سے ہی سانپ سونگھ جاتا تھا مگر اب جب سے مودی نے اپنی فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے کشمیریوں کے تمام انسانی حقوق غصب کرلیے ہیں اور کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے پورے عالمی میڈیا پر مسئلہ کشمیر چھایا ہوا ہے، اس لیے کہ اب سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا۔
دنیا کا ہر چھوٹا بڑا نیوز چینل اور اخبارات کشمیریوں کے ساتھ بھارت کی ظلم و زیادتی کی داستانیں بیان کر رہے ہیں۔ اس وقت کشمیری کئی دنوں سے پوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں تمام ذرائع مواصلات بند ہیں۔ کشمیری گھروں میں قید کردیے گئے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا اور دواؤں کی سخت قلت ہے۔ پھر بھارت کے ہزاروں فوجی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں ان کی طرف سے بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی کشمیری گھر سے باہر نکلا تو اسے گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ بقر عید کے دن بھی کرفیو میں کوئی نرمی نہیں کی گئی۔ مسجدوں پر تالے ڈال دیے گئے تھے۔
کشمیری نماز عیدالاضحی کے ساتھ ساتھ سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے بھی محروم رہے۔ ایسا ظلم تو ہٹلر نے بھی اپنی اقلیت سے نہیں کیا ہوگا۔ اس سے واضح ہوا کہ مودی ہٹلر سے بڑھ کر سفاک قاتل اور انسانیت کا دشمن ہے۔ مودی کا دعویٰ ہے کہ وادی میں مکمل امن ہے اور کشمیریوں نے کشمیر کے بھارت میں ضم ہونے کو قبول کرلیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر کرفیو کیوں لگایا گیا اور طویل عرصے بعد تک اسے کیوں ہٹایا نہیں جا رہا؟
بھارتی میڈیا جسے خود وہاں کے عوام مودی نواز میڈیا کا خطاب دے چکے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مودی کے اس کشمیر کش اقدام کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کشمیر سے متعلق جھوٹی خبریں سنا کر اور دکھا کر بھارتیوں کو بے وقوف بنا رہا ہے مگر میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا کشمیریوں پرکوئی اثر نہیں ہو رہا اس لیے کہ وہاں تو ٹی وی کیا ٹیلی فون اور انٹرنیٹ بھی بند ہیں مگر عالمی میڈیا تک کشمیر کی خبریں کسی طرح پہنچ رہی ہیں اور وہ اس سے دنیا کو برابر آگاہ کر رہا ہے۔
بی بی سی جو اس سے پہلے بھارت نوازی میں اپنی مثال آپ تھا اب حقیقت پسندی کا ثبوت دے رہا ہے اور کشمیر کی صحیح حالت زار کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کی کشمیر میں جاری سفاکانہ پالیسی کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ گزشتہ جمعہ 9 اگست کو کشمیریوں نے کرفیو توڑ کر جو بڑی ریلی نکالی تھی اس کی ویڈیو بھی بی بی سی کے ایک نمایندے نے بنائی تھی۔
بی بی سی کے مطابق اس احتجاجی اجتماع میں بیس ہزار سے زائد لوگ شریک تھے۔ اس ویڈیو نے بھارتی پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی ہے کہ وہاں مکمل امن و امان ہے اور کشمیری آرٹیکل 370 اور 35A کے ہٹنے سے جشن منا رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے علاوہ برطانیہ کے گارجین اور ٹائمز جیسے بڑے اخبارات کھل کر مودی کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں خبریں شایع کر رہے ہیں ساتھ ہی مضامین اور تصاویر بھی شایع کی جا رہی ہیں۔ کئی حکومتوں نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی ہے اور مسئلہ کشمیر کے مستقل حل پر زور دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک تجربہ کار اور کہنہ مشق وزیر خارجہ ہیں وہ کشمیر کی تازہ صورتحال کے پیش نظر کافی محنت کر رہے ہیں۔ ان کا چین کا دورہ بہت کامیاب رہا پہلے وہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھانے کے لیے چین کو راضی کرچکے ہیں اور یہ ہماری سفارت کاری کی بہت بڑی جیت ہے جب کہ بھارت ہماری اس کامیابی سے بہت صدمے میں ہے۔
وہ شاہ محمود قریشی کے دورے کے بعد اپنے وزیر خارجہ جے شنکر کو بھی چینی قیادت کو گمراہ کرنے کے لیے بیجنگ بھیج چکا ہے مگر اسے وہاں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ بھارت نے چین کے بھی کچھ علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ کشمیر اور لداخ کے بارے میں اپنے پرانے موقف پر قائم ہے۔ اس نے کشمیر کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مودی نے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھائے جانے کا خود ہی راستہ صاف کردیا ہے۔اب مسئلہ کشمیر پھر اقوام عالم کے سامنے جانے والا ہے اور کشمیر پر پاس کی گئیں قراردادوں کو اب عملی جامہ بھی پہنایا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت پر زور دیتے رہے ہیں اب انھوں نے واضح کردیا ہے کہ یہ مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا چاہیے البتہ انھوں نے شملہ معاہدے کا بھی ذکر کیا ہے مگر اس معاہدے میں بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کو دونوں ممالک سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کریں گے۔
کشمیر میں آزادی کی تحریک تو شروع سے ہی چل رہی ہے مگر اس کی ناکامی کی ایک وجہ بھارت نواز کشمیری سیاسی پارٹیاں بھی رہی ہیں۔ اگر وہ بھارت نوازی کا جوا پہلے ہی اتار پھینکتی تو کشمیر کبھی کا آزاد ہو جاتا مگر اب مودی کی تازہ بے وقوفی سے ہند نواز سیاسی پارٹیاں بھی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور وہ کھل کر کہہ رہی ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے بھارتی حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔
بھارت انھیں اپنا مستقل غلام بنانا چاہتا ہے انھیں افسوس ہے کہ کاش انھوں نے آزادی پسندوں کا ساتھ دیا ہوتا تو وہ آج پاکستانی بن کر آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ لگتا ہے اب تحریک آزادی کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بن چکی ہے چنانچہ اب مودی کے لیے کشمیریوں کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ وہ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی نیا ڈرامہ بھی رچا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر پر حملہ بھی کرسکتا ہے کیونکہ اس کی سات لاکھ فوج پہلے ہی کشمیر میں موجود ہے اب مزید ایک لاکھ فوج کشمیر میں بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟
چند دن قبل بھارتی اخباروں میں ایک جھوٹی خبر بھارت سرکار چھپوا چکی ہے کہ پاکستان کے چھ دہشت گرد مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوچکے ہیں جو کسی بھی وقت کوئی کارروائی کرسکتے ہیں ہماری حکومت کو مودی کی شیطانی ذہنیت سے خبردار رہنا چاہیے اور اپنی تیاری مکمل رکھنی چاہیے۔ اب پاکستان کو سلامتی کونسل میں کشمیریوں کا کیس پوری تندہی سے لڑنا ہوگا ہمیں اس نادر موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مگر کشمیر کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر ملک میں مکمل قومی یکجہتی کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے اسے حزب اختلاف سے اختلاف کے بجائے قربت کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے ایک بنگالی پروفیسر سانترابوس نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی اور امیت شاہ نے اپنی انتہا پسندانہ اور شاطرانہ سوچ سے اس مسئلے پر اپنے مفاد میں ایک ایسا جوا کھیلا ہے جو سراسر بھارت کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ لگتا ہے مودی میں ہٹلر کی روح حلول کرگئی ہے جب ہی وہ اس جیسے کام کر رہا ہے۔