شاہ زیب زندہ رہے گا
یہ گزشتہ سال 24 اور 25 دسمبر کی شب کا واقعہ ہے جب ڈی ایچ اے میں رہائش پذیر پولیس آفیسر اورنگ زیب شادی کی تقریب سے...
KUND:
یہ گزشتہ سال 24 اور 25 دسمبر کی شب کا واقعہ ہے جب ڈی ایچ اے میں رہائش پذیر پولیس آفیسر اورنگ زیب شادی کی تقریب سے واپس گھر پہنچے تو ان کا نوجوان اکلوتا بیٹا شاہ زیب گاڑی پارک کرنے لگا جب کہ بیٹی اکیلی اوپر فلیٹ پر آگئی تو سامنے والے فلیٹ میں رہائش پذیر ایک بااثر فیملی کے نوکر نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ لڑکی کے بھائی شاہ زیب نے اسے ایسا کرنے سے روکا پھر اس کے والدین بھی آگئے بات بڑھ گئی پولیس آفیسر اورنگ زیب نے 15 پر کال کردی، پولیس کے آنے کے بعد بظاہر معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ لیکن جب شاہ زیب تھوڑی دیر بعد نیچے گیا تو مخالف گروپ کے مسلح افراد نے شاہ زیب کو گولیوں کا نشانہ بنایا ایک غیرت مند بھائی اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا جان کی بازی ہارگیا۔
آج کے تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا نے مذکورہ خبرکوکچھ اس انداز سے ''بریک'' کیا کہ شاہ زیب قتل کیس پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں ''ہاٹ کیک'' بن گیا پھر سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کے بھرپور احتجاج اور قاتلوں کو سزا دینے کے مطالبے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے شاہ زیب قتل کیس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ ملزم شاہ رخ جتوئی سندھ کے ایک بااثر خاندان کا چشم و چراغ ہے اس نے پہلے روپوشی اختیار کی اور پولیس ''کوشش'' کے باوجود اسے گرفتار نہ کرسکی۔ پھر اپنے والدین کے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پناہ کی تلاش میں بیرون ملک دبئی فرار ہوگیا، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں اور ملزم کتنا ہی چالاک اور ہوشیار کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن قانون کی گرفت میں آجاتا ہے۔ یہاں بھی عدل کی طاقت غالب آئی شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے پاکستان لایا گیا اور قانونی تقاضوں کے مطابق اس پر اور اس کے ساتھیوں پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلا پھر 7 جون 2013 کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ایک ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت اور جب کہ سجاد تالپور اور غلام مصطفیٰ کو عمر قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئیں۔
پورے عرصے میں شاہ زیب کے والدین مسلسل یہ کہتے رہے کہ وہ اپنے جواں سال اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلواکے رہیں گے تاکہ آیندہ کوئی اور شاہ رخ جتوئی اپنے خاندان کے اثرورسوخ اور دولت کی طاقت کے بل بوتے پر قوم کے کسی اور معصوم وبے گناہ شاہ زیب کا خون نہ کرسکے اس دوران پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور پوری سول سوسائٹی اور عوام شاہ زیب کے والدین کی پشت پر پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ شاہ زیب قتل کیس پر تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے، ہر انصاف پسند اور محب وطن چاہتا تھا کہ شاہ زیب کے قاتل اپنے انجام کو پہنچیں اور دولت، طاقت، اثرورسوخ اور بے گناہی، معصومیت اور حق و سچائی کے درمیان اسی جنگ میں انصاف کا پرچم بلند ہو لیکن جب سزائے موت کا فیصلہ سننے کے بعد شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی ہنستے مسکراتے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت سے باہر آئے تو موت کی سزا پانے کے باوجود مجرموں کو اس قدر ''خوش و خرم'' دیکھ کر ملک کے 18 کروڑ عوام ششدر رہ گئے کہ موت کی سزا پانے پر رنجیدہ و ملول ہونے کی بجائے مجرموں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیوں؟ اس پر چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پرنٹ والیکٹرانک میڈیا اور عوامی و سماجی حلقوں میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا کہ شاید فریقین کے درمیان کوئی خفیہ معاہدہ ہوگیا ہے اور شاہ رخ جتوئی قاتل ثابت ہونے کے باوجود پھانسی کی سزا سے بچ جائے گا۔ یہ خدشات اس وقت حقیقت کا روپ دھار گئے جب میڈیا نے یہ خبر بریک کی کہ غیر متوقع اور حیران کن انداز میں شاہ زیب کے والدین اور بہن نے اپنے اکلوتے اور جوان لخت جگر کا خون ''فی سبیل اللہ'' معاف کردیا ہے۔ قوم حیران اور پریشان تھی کہ ایسا کیوں کر ممکن ہے۔ کل تک جو ورثاء اپنے بیٹے کے قاتلوں کو ہر حال میں سزا دلانے کے لیے سرگرم تھے آج ''فی سبیل اللہ'' اسے کیسے معاف کردیا؟ پھر اس خبر نے میڈیا میں بھونچال پیدا کردیا کہ شاہ زیب کے ورثاء نے قصاص ودیت کے قانون کی رو سے شاہ رخ کے والدین سے کروڑوں روپے کی ''ڈیل'' کرکے اپنے بیٹے کا خون معاف کردیا ہے یہ اطلاعات بھی میڈیا کی زینت بنیں کہ ''ڈیل'' کے تحت مجرموں کے بااثر اور دولت مند باپ نے مقتول کے خاندان کو کروڑوں روپے دیے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک گھر اور مستقل سکونت کا ویزہ بھی دیا گیا ہے اور یہ خاندان عنقریب خاموشی سے بیرون ملک چلا جائے گا اور شاہ رخ جتوئی کو پھانسی کی سزا سے رہائی مل جائے گی۔
فریقین کے درمیان ''ڈیل'' کی خبروں کے بعد اب یہ عالم ہے کہ شاہ زیب کے والدین جو کبھی سول سوسائٹی اور میڈیا کے ہیرو تھے اب زیرو بن گئے۔ مبصرین اور تجزیہ نگار طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ کوئی یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ ممکن ہے کہ مجرموں کے دولت مند، طاقت ور اور بااثر خاندان نے مقتول کے لواحقین کو ڈرایا و دھمکایا ہو کہ وہ ان کے ساتھ ''ڈیل'' کرلیں ورنہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کا انجام بھی شاہ زیب کی طرح ''موت'' ہوگا۔ مجبور، بے بس اور لاچار والدین نے اپنی اور اہل خانہ کی جان بچانے کے لیے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر مجبوراً یہ ''سودا'' کیا ہو کہ جان سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں۔ کم ازکم میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس ''ڈیل'' کے پس پردہ ایسا بھی کچھ ہوا ہوگا اور اب پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں مبصرین و تجزیہ نگار، آئینی و قانونی ماہرین اور علمائے کرام و فقہائے کرام کے درمیان قصاص و دیت کے قانون، دولت کی طاقت، سیاسی اثرورسوخ، معاشرتی اقدار اور نظام انصاف کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
معاملہ نہایت سنجیدہ اور قصاص و دیت خالصتاً حساس شرعی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے علمائے کرام کی مختلف آراء سامنے آنے سے معاملہ الجھ گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی قانون کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ انھوں نے قتل پر فی سبیل اللہ معافی کو فساد فی الارض سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال ہو تو اللہ کا عذاب آتا ہے۔ چیف جسٹس کے بقول صلح مجبوراً بھی ہوسکتی ہے اور اس کے ذمے دار بھی ججز ہیں عدالت کو آنکھیں بند کرکے راضی نامے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل و چاروں پراسیکیوٹر جنرل سے آئین و قانون کی تشریح کے لیے رائے طلب کرلی ہے۔ قصاص و دیت کے حوالے سے عدالتی فیصلہ مستقبل کا مستند حوالہ بن جائے گا اور شاہ زیب ہمیشہ زندہ رہے گا۔
یہ گزشتہ سال 24 اور 25 دسمبر کی شب کا واقعہ ہے جب ڈی ایچ اے میں رہائش پذیر پولیس آفیسر اورنگ زیب شادی کی تقریب سے واپس گھر پہنچے تو ان کا نوجوان اکلوتا بیٹا شاہ زیب گاڑی پارک کرنے لگا جب کہ بیٹی اکیلی اوپر فلیٹ پر آگئی تو سامنے والے فلیٹ میں رہائش پذیر ایک بااثر فیملی کے نوکر نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ لڑکی کے بھائی شاہ زیب نے اسے ایسا کرنے سے روکا پھر اس کے والدین بھی آگئے بات بڑھ گئی پولیس آفیسر اورنگ زیب نے 15 پر کال کردی، پولیس کے آنے کے بعد بظاہر معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ لیکن جب شاہ زیب تھوڑی دیر بعد نیچے گیا تو مخالف گروپ کے مسلح افراد نے شاہ زیب کو گولیوں کا نشانہ بنایا ایک غیرت مند بھائی اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا جان کی بازی ہارگیا۔
آج کے تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا نے مذکورہ خبرکوکچھ اس انداز سے ''بریک'' کیا کہ شاہ زیب قتل کیس پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں ''ہاٹ کیک'' بن گیا پھر سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کے بھرپور احتجاج اور قاتلوں کو سزا دینے کے مطالبے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے شاہ زیب قتل کیس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ ملزم شاہ رخ جتوئی سندھ کے ایک بااثر خاندان کا چشم و چراغ ہے اس نے پہلے روپوشی اختیار کی اور پولیس ''کوشش'' کے باوجود اسے گرفتار نہ کرسکی۔ پھر اپنے والدین کے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پناہ کی تلاش میں بیرون ملک دبئی فرار ہوگیا، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں اور ملزم کتنا ہی چالاک اور ہوشیار کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن قانون کی گرفت میں آجاتا ہے۔ یہاں بھی عدل کی طاقت غالب آئی شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے پاکستان لایا گیا اور قانونی تقاضوں کے مطابق اس پر اور اس کے ساتھیوں پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلا پھر 7 جون 2013 کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ایک ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت اور جب کہ سجاد تالپور اور غلام مصطفیٰ کو عمر قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئیں۔
پورے عرصے میں شاہ زیب کے والدین مسلسل یہ کہتے رہے کہ وہ اپنے جواں سال اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلواکے رہیں گے تاکہ آیندہ کوئی اور شاہ رخ جتوئی اپنے خاندان کے اثرورسوخ اور دولت کی طاقت کے بل بوتے پر قوم کے کسی اور معصوم وبے گناہ شاہ زیب کا خون نہ کرسکے اس دوران پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور پوری سول سوسائٹی اور عوام شاہ زیب کے والدین کی پشت پر پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ شاہ زیب قتل کیس پر تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے، ہر انصاف پسند اور محب وطن چاہتا تھا کہ شاہ زیب کے قاتل اپنے انجام کو پہنچیں اور دولت، طاقت، اثرورسوخ اور بے گناہی، معصومیت اور حق و سچائی کے درمیان اسی جنگ میں انصاف کا پرچم بلند ہو لیکن جب سزائے موت کا فیصلہ سننے کے بعد شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی ہنستے مسکراتے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت سے باہر آئے تو موت کی سزا پانے کے باوجود مجرموں کو اس قدر ''خوش و خرم'' دیکھ کر ملک کے 18 کروڑ عوام ششدر رہ گئے کہ موت کی سزا پانے پر رنجیدہ و ملول ہونے کی بجائے مجرموں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیوں؟ اس پر چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پرنٹ والیکٹرانک میڈیا اور عوامی و سماجی حلقوں میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا کہ شاید فریقین کے درمیان کوئی خفیہ معاہدہ ہوگیا ہے اور شاہ رخ جتوئی قاتل ثابت ہونے کے باوجود پھانسی کی سزا سے بچ جائے گا۔ یہ خدشات اس وقت حقیقت کا روپ دھار گئے جب میڈیا نے یہ خبر بریک کی کہ غیر متوقع اور حیران کن انداز میں شاہ زیب کے والدین اور بہن نے اپنے اکلوتے اور جوان لخت جگر کا خون ''فی سبیل اللہ'' معاف کردیا ہے۔ قوم حیران اور پریشان تھی کہ ایسا کیوں کر ممکن ہے۔ کل تک جو ورثاء اپنے بیٹے کے قاتلوں کو ہر حال میں سزا دلانے کے لیے سرگرم تھے آج ''فی سبیل اللہ'' اسے کیسے معاف کردیا؟ پھر اس خبر نے میڈیا میں بھونچال پیدا کردیا کہ شاہ زیب کے ورثاء نے قصاص ودیت کے قانون کی رو سے شاہ رخ کے والدین سے کروڑوں روپے کی ''ڈیل'' کرکے اپنے بیٹے کا خون معاف کردیا ہے یہ اطلاعات بھی میڈیا کی زینت بنیں کہ ''ڈیل'' کے تحت مجرموں کے بااثر اور دولت مند باپ نے مقتول کے خاندان کو کروڑوں روپے دیے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک گھر اور مستقل سکونت کا ویزہ بھی دیا گیا ہے اور یہ خاندان عنقریب خاموشی سے بیرون ملک چلا جائے گا اور شاہ رخ جتوئی کو پھانسی کی سزا سے رہائی مل جائے گی۔
فریقین کے درمیان ''ڈیل'' کی خبروں کے بعد اب یہ عالم ہے کہ شاہ زیب کے والدین جو کبھی سول سوسائٹی اور میڈیا کے ہیرو تھے اب زیرو بن گئے۔ مبصرین اور تجزیہ نگار طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ کوئی یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ ممکن ہے کہ مجرموں کے دولت مند، طاقت ور اور بااثر خاندان نے مقتول کے لواحقین کو ڈرایا و دھمکایا ہو کہ وہ ان کے ساتھ ''ڈیل'' کرلیں ورنہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کا انجام بھی شاہ زیب کی طرح ''موت'' ہوگا۔ مجبور، بے بس اور لاچار والدین نے اپنی اور اہل خانہ کی جان بچانے کے لیے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر مجبوراً یہ ''سودا'' کیا ہو کہ جان سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں۔ کم ازکم میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس ''ڈیل'' کے پس پردہ ایسا بھی کچھ ہوا ہوگا اور اب پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں مبصرین و تجزیہ نگار، آئینی و قانونی ماہرین اور علمائے کرام و فقہائے کرام کے درمیان قصاص و دیت کے قانون، دولت کی طاقت، سیاسی اثرورسوخ، معاشرتی اقدار اور نظام انصاف کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
معاملہ نہایت سنجیدہ اور قصاص و دیت خالصتاً حساس شرعی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے علمائے کرام کی مختلف آراء سامنے آنے سے معاملہ الجھ گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی قانون کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ انھوں نے قتل پر فی سبیل اللہ معافی کو فساد فی الارض سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال ہو تو اللہ کا عذاب آتا ہے۔ چیف جسٹس کے بقول صلح مجبوراً بھی ہوسکتی ہے اور اس کے ذمے دار بھی ججز ہیں عدالت کو آنکھیں بند کرکے راضی نامے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل و چاروں پراسیکیوٹر جنرل سے آئین و قانون کی تشریح کے لیے رائے طلب کرلی ہے۔ قصاص و دیت کے حوالے سے عدالتی فیصلہ مستقبل کا مستند حوالہ بن جائے گا اور شاہ زیب ہمیشہ زندہ رہے گا۔