’’ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے‘‘
نریندر مودی ’’آر ایس ایس‘‘ کے اس نظریے پر کہ ’’ہندوستان صرف ہندوں کے لیے ہے‘‘ پر عمل کررہا ہے۔
ماہرین سیاسیات بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو محض وزیراعظم ہی نہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے ''ہندوتوا'' ہندو تعلیمات اور کلچر کا ایک ایسا علمبردار تصور کرتے ہیں جس نے ''BJP'' کے لبادے میں ''RSS'' کے نظریات کا پرچار اور ان پر عملدرآمد کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ بھارت کی سیاسی تاریخ میں نریندر مودی ہندو انتہا پسندی کی ایک ایسی علامت بن گیا ہے کہ جس نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سیکولرزم اور جغرافیائی اتحاد کو بھی اپنے نظریات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
نریندر مودی ''آر ایس ایس'' کے اس نظریے پر کہ ''ہندوستان صرف ہندوں کے لیے ہے'' پر عمل کررہا ہے۔ مودی کے طرز حکمرانی اور پالیسی کو سمجھنے کے لیے مودی کے نظریات اور اس کے سرچشمے ''آر ایس ایس'' کو سمجھنا ضروری ہے۔ نریندر مودی کی سیاسی جماعت بی جے پی ''بھارتیہ جنتا پارٹی'' افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ BJP فی الحقیقت آر ایس ایس کا ایک سیاسی روپ ہے جسے پہلی بار بھارت میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے اور وہ آر ایس ایس کے نظریات پر عملدرآمد کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرنا چاہتی۔ حقائق بتاتے ہیں کہ نریندر مودی ابتدا ہی سے بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کا بنیادی رکن رہا ہے اور بی جے پی میں شمولیت کے بعد سے اب تک وہ آر ایس ایس ایس کی پالیسی کا علمبردار ہے۔
آر ایس ایس کا پورا نام ''راشٹریا سوامی سیوک سنگھ'' ہے۔ یہ تنظیم 94 سال پہلے پہلے 27 ستمبر 1925 میں اٹلی کے فاشسٹ مسولینی سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ اڈولف ہٹلر اس تنظیم کا عظیم ہیرو ہے اور اس تنظیم کی کتابوں میں ہٹلر کا نمایاں ذکر ملتا ہے۔
اس تنظیم کی بنیاد بھارت کے شہر ناگپور میں ڈاکٹر ''کے بی حگیوار'' نے رکھی۔ (k.B.Hedgewar) ڈاکٹر حگیوار کا خیال تھا کہ ہندو اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں اور انگریزوں کی حکمرانی میں اس لیے رہے کہ وہ متحد نہ تھے، ان میں بہادری کا عنصر موجود نہ تھا اور وہ شعور سے بے بہرہ تھے۔
آر ایس ایس کے قیام کاابتدائی مقصد ہندوں کو متحد کرنا ، ان میں سیاسی شعور پیدا کرنا اور انھیں ایسی عسکری تربیت دینا کہ وہ لاٹھی تلوار خنجر اور بندوق چلانے اور اپنے مخالفین کو مارتے وقت خوف محسوس نہ کریں۔ آر ایس ایس ممبران کے لیے ایک مخصوص وردی بھی بنائی۔ جس میں خاکی نیکر اور سفید قمیض نمایاں پہچان تھی۔
تنظیم کے بانی رہ نما ڈاکٹرحگیوار کے بعد آر ایس ایس کی قیادت ''ایم ایس گول واکر'' کے پاس آئی گول واکر نے اپنے قائد ڈاکٹر حگیوار کی تعلیمات کو ایک کتاب کی شکل دی ان کی یہ کتاب ''ہم یا ہماری قومیت''(we or our nation hood defined) کو آر ایس ایس کا تظیم کی ''بائبل'' قرار دیا جاتا ہے۔آر ایس ایس نے ''گول واکر'' کو اپنے ''گرو''کا درجہ دیدیا۔
آر ایس ایس کے گرو، گول واکر کی کتاب ''ہم یا ہماری قومیت'' میں ایک جگہ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے '' اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے پہلی بار ہندوستان میں قدم رکھا، اس وقت سے لے کر اب تک ہندو قوم مسلمانوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ہندوں میں ان کی قومیت کا احساس جاگ رہا ہے۔ ہندوستان میں ہندو رہتے ہیں اور ہندو ہی رہنے چاہئیں۔ ہندوں کے علاوہ ہندوستان میں رہنے والے باقی سب غدار اور دشمن ہیں، یہ سب احمق ہیں۔
ہندوستان میں رہنے والی تمام دوسری قوموں کو ہندوں کے ماتحت رہنا چاہیے بغیر کوئی حق یا مراعات مانگے اور نہ ہی ان کے کوئی شہری حقوق ہیں۔ ہمیں اپنے ہندو کلچر کی حفاظت اور تشخص کو قائم رکھنے کے لیے ہندوستان سے مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کو نکالنا اور پاک کر نا ہے۔ہمیں اپنی قومیت کا تحفظ اسی طرح کرنا ہے جس طرح ہٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکال کر اپنے ملک کو پاک کیا اور اپنی قومیت کا تحفظ کیا۔ ہمیں بھی اسی سبق پر عمل کرنا ہے''۔
آر ایس ایس کا بنیادی رکن ہونے کی حیثیت سے نریندر مودی کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ نریندر مودی جب سن 2002 ء میں گجرات کا چیف منسٹر تھا تو ان دنوں میں ایودھیا مسجد کی شہادت ہوئی۔ اس شہادت کے بعد جب زائرین کی ایک ٹرین ایودھیا آرہی تھی تو ایک سازش کے تحت آر ایس ایس کے ممبران نے اسے آگ لگا دی اور اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا، اس سا نحے میں 57 زائرین جل کر خاکستر ہو گئے۔ ان میں ہندو بھی تھے۔ اس کے ردعمل میں مودی کی زیرنگرانی گجرات میں ہندو شدت پسند جتھوں نے پاگل پن کی حد تک ہزاروں لوگوں کو جلایا ، قتل کیا اور سیکڑوں خواتین کو ریپ کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجرات شہر کی سڑکوں پر 2000 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور اور ایک لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کیا گیا اس قتل عام میں گجرات کی ہندو پولیس نے بلوائیوں کو تحفظ فراہم کیا۔
گجرات اسمبلی کے ایک ممبر احسان جعفری جنہوں نے مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کی جسارت کی تھی نے مسلمانوں کو قتل عام سے بچانے کے لیے اپنے گھر میں پناہ دی۔ بلوائیوں نے اس کے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق احسان جعفری نے 200 سے زائد مرتبہ ٹیلیفون کے ذریعے پولیس سے مدد طلب کی لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ احسان جعفری بلوائیوں سے مذاکرات کے لیے جب گھر سے باہر آیا اور اس نے اپیل کی کہ اس کے گھر میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں نے پناہ لی ہوئی ہے انھیں نکلنے کا موقع دے دیا جائے لیکن ان سفاک لوگوں نے پہلے تو احسان جعفری کے ہاتھوں اور ٹانگوں کو سرعام کاٹا پھر اس کے تڑپتے ہوئے جسم کو سڑک پر گھسیٹا، یہاں تک کہ اس کی شہادت ہوگئی۔اس عمل کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے اس کے گھر میں گھس کر وہاں موجود سیکڑوں افراد کا قتل عام کیا اور خواتین کی عصمت دری کی۔ جاتے ہوئے پورے گھر کو آ گ لگا دی دی۔
اس المناک سانحے پر جب چیف منسٹر مودی سے ردعمل لیا تو اس نے کسی قسم کی مذمت یا افسوس کا اظہار نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ جب ایکشن ہو گا تو اس کا ردعمل ہوگا۔یہ ہے وہ شخص جو اس وقت بھارت کا وزیراعظم ہے اور آر ایس ایسکی فلاسفی پر عمل کر رہا ہے۔
بطور وزیراعظم نریندر مودی ہندو تجارتی کمپنیوں کا محبوب ترین وزیراعظم بھی شمار کیا جاتا ہے کیونکہ مودی نے ہندو تجارتی کمپنیوں کو یہ اجازت دیدی ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کی تجارتی کمپنیوں میں قتل و غارت کرکے ان کے سرمائے پر قبضہ کر لیں تو حکومت اس پر چشم پوشی کریگی۔ اس پالیسی کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کو تجارت کرنے سے روکنا اور انھیں خوشحال نہ ہونے دینا ہے۔
یہ تمام حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اس وقت بی جے پی اور نریندر مودی ، آر ایس ایس ایس کی فاشسٹ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
علم سیاسیات اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار محققین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اس وقت ہندوستان کی حکومت جمہوریت اور سیکولرزم کے لبادے میں فاشسٹ فلاسفی پر عمل کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کے اس طرز عمل کو کب تک برداشت کیا جاتا اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور عالمی ضمیر کب جاگتا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتوں نے حالات کا نوٹس نہ لیا تو پاک و ہند کا یہ خطہ ایک ایسی جنگ کا شکار ہو گا جس کا اختتام ایٹمی جنگ پر ہو گا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف یہ کہ جنوبی ایشیا راکھ بنے گا بلک عالم انسانیت نے اب تک جو ترقی کی ہے وہ بھی راکھ کا ڈھیر بن جائے گی۔ پھر نہ تو اقوام متحدہ کی ضرورت رہے گی اور نہ اس دنیا میں کوئی خود کو سپر پاور کہلا سکے گا... رب کریم ہم سب کی رہنمائی کرے، اپنی رحمت نازل کرے اور فضل فرمائے۔ امین۔
نریندر مودی ''آر ایس ایس'' کے اس نظریے پر کہ ''ہندوستان صرف ہندوں کے لیے ہے'' پر عمل کررہا ہے۔ مودی کے طرز حکمرانی اور پالیسی کو سمجھنے کے لیے مودی کے نظریات اور اس کے سرچشمے ''آر ایس ایس'' کو سمجھنا ضروری ہے۔ نریندر مودی کی سیاسی جماعت بی جے پی ''بھارتیہ جنتا پارٹی'' افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ BJP فی الحقیقت آر ایس ایس کا ایک سیاسی روپ ہے جسے پہلی بار بھارت میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے اور وہ آر ایس ایس کے نظریات پر عملدرآمد کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرنا چاہتی۔ حقائق بتاتے ہیں کہ نریندر مودی ابتدا ہی سے بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کا بنیادی رکن رہا ہے اور بی جے پی میں شمولیت کے بعد سے اب تک وہ آر ایس ایس ایس کی پالیسی کا علمبردار ہے۔
آر ایس ایس کا پورا نام ''راشٹریا سوامی سیوک سنگھ'' ہے۔ یہ تنظیم 94 سال پہلے پہلے 27 ستمبر 1925 میں اٹلی کے فاشسٹ مسولینی سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ اڈولف ہٹلر اس تنظیم کا عظیم ہیرو ہے اور اس تنظیم کی کتابوں میں ہٹلر کا نمایاں ذکر ملتا ہے۔
اس تنظیم کی بنیاد بھارت کے شہر ناگپور میں ڈاکٹر ''کے بی حگیوار'' نے رکھی۔ (k.B.Hedgewar) ڈاکٹر حگیوار کا خیال تھا کہ ہندو اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں اور انگریزوں کی حکمرانی میں اس لیے رہے کہ وہ متحد نہ تھے، ان میں بہادری کا عنصر موجود نہ تھا اور وہ شعور سے بے بہرہ تھے۔
آر ایس ایس کے قیام کاابتدائی مقصد ہندوں کو متحد کرنا ، ان میں سیاسی شعور پیدا کرنا اور انھیں ایسی عسکری تربیت دینا کہ وہ لاٹھی تلوار خنجر اور بندوق چلانے اور اپنے مخالفین کو مارتے وقت خوف محسوس نہ کریں۔ آر ایس ایس ممبران کے لیے ایک مخصوص وردی بھی بنائی۔ جس میں خاکی نیکر اور سفید قمیض نمایاں پہچان تھی۔
تنظیم کے بانی رہ نما ڈاکٹرحگیوار کے بعد آر ایس ایس کی قیادت ''ایم ایس گول واکر'' کے پاس آئی گول واکر نے اپنے قائد ڈاکٹر حگیوار کی تعلیمات کو ایک کتاب کی شکل دی ان کی یہ کتاب ''ہم یا ہماری قومیت''(we or our nation hood defined) کو آر ایس ایس کا تظیم کی ''بائبل'' قرار دیا جاتا ہے۔آر ایس ایس نے ''گول واکر'' کو اپنے ''گرو''کا درجہ دیدیا۔
آر ایس ایس کے گرو، گول واکر کی کتاب ''ہم یا ہماری قومیت'' میں ایک جگہ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے '' اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے پہلی بار ہندوستان میں قدم رکھا، اس وقت سے لے کر اب تک ہندو قوم مسلمانوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ہندوں میں ان کی قومیت کا احساس جاگ رہا ہے۔ ہندوستان میں ہندو رہتے ہیں اور ہندو ہی رہنے چاہئیں۔ ہندوں کے علاوہ ہندوستان میں رہنے والے باقی سب غدار اور دشمن ہیں، یہ سب احمق ہیں۔
ہندوستان میں رہنے والی تمام دوسری قوموں کو ہندوں کے ماتحت رہنا چاہیے بغیر کوئی حق یا مراعات مانگے اور نہ ہی ان کے کوئی شہری حقوق ہیں۔ ہمیں اپنے ہندو کلچر کی حفاظت اور تشخص کو قائم رکھنے کے لیے ہندوستان سے مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کو نکالنا اور پاک کر نا ہے۔ہمیں اپنی قومیت کا تحفظ اسی طرح کرنا ہے جس طرح ہٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکال کر اپنے ملک کو پاک کیا اور اپنی قومیت کا تحفظ کیا۔ ہمیں بھی اسی سبق پر عمل کرنا ہے''۔
آر ایس ایس کا بنیادی رکن ہونے کی حیثیت سے نریندر مودی کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ نریندر مودی جب سن 2002 ء میں گجرات کا چیف منسٹر تھا تو ان دنوں میں ایودھیا مسجد کی شہادت ہوئی۔ اس شہادت کے بعد جب زائرین کی ایک ٹرین ایودھیا آرہی تھی تو ایک سازش کے تحت آر ایس ایس کے ممبران نے اسے آگ لگا دی اور اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا، اس سا نحے میں 57 زائرین جل کر خاکستر ہو گئے۔ ان میں ہندو بھی تھے۔ اس کے ردعمل میں مودی کی زیرنگرانی گجرات میں ہندو شدت پسند جتھوں نے پاگل پن کی حد تک ہزاروں لوگوں کو جلایا ، قتل کیا اور سیکڑوں خواتین کو ریپ کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجرات شہر کی سڑکوں پر 2000 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور اور ایک لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کیا گیا اس قتل عام میں گجرات کی ہندو پولیس نے بلوائیوں کو تحفظ فراہم کیا۔
گجرات اسمبلی کے ایک ممبر احسان جعفری جنہوں نے مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کی جسارت کی تھی نے مسلمانوں کو قتل عام سے بچانے کے لیے اپنے گھر میں پناہ دی۔ بلوائیوں نے اس کے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق احسان جعفری نے 200 سے زائد مرتبہ ٹیلیفون کے ذریعے پولیس سے مدد طلب کی لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ احسان جعفری بلوائیوں سے مذاکرات کے لیے جب گھر سے باہر آیا اور اس نے اپیل کی کہ اس کے گھر میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں نے پناہ لی ہوئی ہے انھیں نکلنے کا موقع دے دیا جائے لیکن ان سفاک لوگوں نے پہلے تو احسان جعفری کے ہاتھوں اور ٹانگوں کو سرعام کاٹا پھر اس کے تڑپتے ہوئے جسم کو سڑک پر گھسیٹا، یہاں تک کہ اس کی شہادت ہوگئی۔اس عمل کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے اس کے گھر میں گھس کر وہاں موجود سیکڑوں افراد کا قتل عام کیا اور خواتین کی عصمت دری کی۔ جاتے ہوئے پورے گھر کو آ گ لگا دی دی۔
اس المناک سانحے پر جب چیف منسٹر مودی سے ردعمل لیا تو اس نے کسی قسم کی مذمت یا افسوس کا اظہار نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ جب ایکشن ہو گا تو اس کا ردعمل ہوگا۔یہ ہے وہ شخص جو اس وقت بھارت کا وزیراعظم ہے اور آر ایس ایسکی فلاسفی پر عمل کر رہا ہے۔
بطور وزیراعظم نریندر مودی ہندو تجارتی کمپنیوں کا محبوب ترین وزیراعظم بھی شمار کیا جاتا ہے کیونکہ مودی نے ہندو تجارتی کمپنیوں کو یہ اجازت دیدی ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کی تجارتی کمپنیوں میں قتل و غارت کرکے ان کے سرمائے پر قبضہ کر لیں تو حکومت اس پر چشم پوشی کریگی۔ اس پالیسی کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کو تجارت کرنے سے روکنا اور انھیں خوشحال نہ ہونے دینا ہے۔
یہ تمام حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اس وقت بی جے پی اور نریندر مودی ، آر ایس ایس ایس کی فاشسٹ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
علم سیاسیات اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار محققین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اس وقت ہندوستان کی حکومت جمہوریت اور سیکولرزم کے لبادے میں فاشسٹ فلاسفی پر عمل کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کے اس طرز عمل کو کب تک برداشت کیا جاتا اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور عالمی ضمیر کب جاگتا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتوں نے حالات کا نوٹس نہ لیا تو پاک و ہند کا یہ خطہ ایک ایسی جنگ کا شکار ہو گا جس کا اختتام ایٹمی جنگ پر ہو گا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف یہ کہ جنوبی ایشیا راکھ بنے گا بلک عالم انسانیت نے اب تک جو ترقی کی ہے وہ بھی راکھ کا ڈھیر بن جائے گی۔ پھر نہ تو اقوام متحدہ کی ضرورت رہے گی اور نہ اس دنیا میں کوئی خود کو سپر پاور کہلا سکے گا... رب کریم ہم سب کی رہنمائی کرے، اپنی رحمت نازل کرے اور فضل فرمائے۔ امین۔