جذباتی ذہانت بہتر کیسے بنائیں
عام زندگی میں کامیابی کے لئے اموشنل انٹیلی جنس نہایت اہمیت کی حامل ہے
1905ء میں الفرڈ بینٹ (Alfred Binet) نے ذہانت کی پیمائش کے لئے آئی کیو (IQ) یعنی انٹیلی جنس کوشنٹ (Intelligence Quotient) کا تصور دیا اور پہلی بار ذہنی عمر کا نظریہ پیش کیا۔
اس نظریے کے بعد ثابت ہوا کہ انسان کی طبعی عمر کے علاوہ اس کا ذہن بھی عمر کی منازل طے کرتا ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت سے قطع نظر اس کی ذہنی عمر کی رفتار ہر انسان میں دوسرے سے مختلف پائی جاتی ہے۔ الفرڈ نے مختلف عمروں کے لحاظ سے ایسے سوالات کی فہرستیں ترتیب دیں جن کے ذریعے کسی بھی فرد کی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا اور یہ چیز IQ ٹیسٹ کہلائی۔ آسان الفاظ میں ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بسا اوقات کم عمر افراد اپنی عمر سے بڑے لوگوں کے برابر یا ان سے بھی زیادہ ذہین واقع ہوتے ہیں۔ اور انہی لوگوں کی ذہنی عمر طبعی عمر کے لحاظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذہنی اور طبعی عمر کے لحاظ سے ایک جیسا ہو گا تو اس ذہانت کو نارمل قرار دیا جا ئے گا، لیکن اگر وہ اپنی عمر کے مقابلے میں کم ذہین ہو تو اسے کند ذہن کہا جائے گا۔
1990ء کے وسط میں نفسیات کے ایک امریکی پروفیسر ڈینیل گولمین) (Daniel Goleman نے پہلی مرتبہ جذباتی ذہانت (EQ) یا اموشنل کوشنٹ (Emotional Quotient) کو متعارف کرایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی ملازمت میں آپ کی اعلیٰ کارکردگی کے لئے آپ کی تکنیکی ہنر مندی یا ذہنی قابلیت کے مقابلے میں آپ کا EQ دگنی اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرین نفسیات EQ کو عام ذہانت کے بجائے جذبات و احساسات سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔ ای کیو (EQ) کا تعلق انسان کی جذباتی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ یعنی IQ میں ذہنی جبکہ EQ میں جذباتی صلاحیتوں کا دخل ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور ذہین شخص جذباتی معاملات میں بھی ہمیشہ ذہین واقع ہو۔ ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جو بہت اچھا IQ رکھنے کے باوجود EQ میں مار کھا جاتے ہیں۔ اس کی مثال یوں لی جا سکتی ہے کہ ایک تجربہ کار بزرگ کسی کاروباری معاملے میں مشتعل ہو کر اپنا نقصان کرا لیتے ہیں جبکہ اسی معاملے کو ایک نوجوان پرسکون اور ٹھنڈے دل و دماغ سے حل کر کے بگڑنے نہیں دیتا اور فائد ے میں رہتا ہے، اس سے ثابت ہو گا کہ نوجوان کا EQ بزرگ کی نسبت بہتر ہے۔
اگر کوئی شخص زندگی کے دیگر معاملات میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور انہیں درست طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہے تو یقینا اس کا EQ بہت اچھا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق EQ دراصل شعور کی ایسی حالت ہے جس میں انسان دکھ سکھ' خوشی اور غم' غصہ اور نفرت' پیار و محبت اور دیگر تجربات سے گزرتا ہے۔ انسانی نفسیات کے ماہرین کے مطابق بہتر EQ نئی صدی میں کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ اس مقام تک پہنچ گئے تو آپ عام انسان کے مقابلے میں معاشرے میں کہیں زیادہ کامیاب اور مقبول سمجھیں جائیں گے۔ آپ کے تعلقات کا دائرہ بھی وسیع ہو گا۔ EQ نظریے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 21 ویں صدی میں EQ نہ صرف لوگوں کی ذاتی زندگی میں بلکہ ان کے کاروبار میں بھی نمایاں مقام حاصل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سمیت یورپی ممالک میں EQ آجکل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
ڈاکٹر گولمین نے 15 بین الاقوامی کمپنیوں کے کامیاب افراد کی پیشہ ورانہ زندگی کا تجزیہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ جس چیز نے انہیں اپنے شعبے میں کامیاب بنایا تھا وہ ان کی تکنیکی مہارت یا ذہنی قابلیت نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا EQ بہت اچھا تھا اور انہیں جذباتی معاملات سے نمٹنے میں عبور حاصل تھا۔ کسی بھی بہتر EQ والے فرد میں پانچ چیزوں کو خصوصاً دیکھا جا سکتا ہے۔
1۔ خود آگاہی (Self Awareness)
2۔ ضبط نفس (Self Control)
3۔ کام کی لگن یا تحریک (Motivation)
4۔ ایک دوسرے کا احساس کرنا (Empathy)
5۔ معاشرتی سمجھ بوجھ (Social Skills)
ان خصوصیات سے بہتر EQ والے افراد کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے اعلیٰ IQ کا ہونا ضروری نہیں۔ کوئی بھی نارمل ذہنیت کا حامل شخص یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے لیکن EQ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ دکھ یا غم ملنے پر افسردہ نہ ہوں یا خوشی کی بات پر خوش نہ ہوں یا غصے کا اظہار نہ کریں' بلکہ EQ ان حالات سے بہتر طور نمٹنے کا نام ہے۔ نرم اور محبت آمیز رویہ انسانی زندگی پر مثبت اثرات چھوڑتا ہے، اس لئے EQ میں تحمل مزاجی پر زور دیا جاتا ہے۔ EQ کی اہمیت صرف ہمارے عام معاملات زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تعلیم' سماجی و ازدواجی تعلقات' اولاد اور والدین کے معاملات سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے لئے مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
EQ کا تعلق صرف جذبات سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سماجی و اخلاقی اقدار کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ جو سماجی اقدار' اصول اور روایات آپ لازمی سمجھتے ہیں انہیں اپنی اولاد پر ضرور واضح کریں۔ بچوں کے مسائل حل کرنے کے لئے مشوروں کے ساتھ عملی طور پر بھی ان کی مدد کریں۔ معمولی لڑائی جھگڑوں پر سزا سے حتیٰ الامکان گریز کریں، صلح صفائی اور گفت و شنید سے معاملہ حل کریں۔ ان میں اتنی صلاحیتیں اور شعور پیدا کریں کہ وہ دوبارہ غلطی نہ کریں۔ ان کے نکتہ نظر کو اہمیت دیں، حوصلہ شکنی نہ کریں۔ عزت دے کر عزت لینے کے فارمولے کا اطلاق بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ EQ بہتر بنانے کے لئے دو یا تین دن کافی نہیں ہوتے اور نہ اس راستے میں کوئی شارٹ کٹ ہے، اس کے لئے سب سے زیادہ ا ہم خود آگاہی اور اپنی ذات کی تشخیص ہے، اور غلط رویوں کا کھوج لگا کر انہیں بدلنا ہے۔ اس کے لئے مضبوط قوت ارادی اور مستقل مزاجی بنیادی چیز ہے۔
مناسب عاجزی' لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنے اور اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ بزدل شخص ہیں اور نہ اس کا مقصد صرف دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا ہے۔ بلکہ اس میں خود اپنے اندر کے احساسات کو سمجھنا اور ان کو اہمیت دینا بھی شامل ہے، کیونکہ ایک حد سے زیادہ نرم مزاج شخص اکثر اوقات اپنی ترجیحات کو دوسروں کی خاطر قربان کر سکتا ہے، لیکن بہتر EQ کا مالک شخص اتنا بے وقوف نہیں ہوتا۔ وہ اپنے مؤقف اور مفادات کا دفاع کرنا بخوبی سمجھتا ہے۔ لہٰذا اختلاف رائے یا کسی مسئلے پر وہ بڑی مہارت سے دوسرے کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے اور اس صلاحیت کی مدد سے جذبات کی رو میں بہہ جانے کے بجائے معاملات کو بگاڑنے سے بچاتے ہوئے صورتحال کو اپنے حق میں کر لیتا ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بہتر EQ کے حامل افراد اپنے آپ اور اپنے جذبات پر نہ صرف کنٹرول رکھتے ہیں بلکہ حالات کو اپنے موافق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کو چاپلوس کہنا جائز نہیں۔ بہتر IQ ایک خداداد صلاحیت ہے مگر EQ بہتر کرنے کے لئے ذرا سی محنت اور متحمل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس نظریے کے بعد ثابت ہوا کہ انسان کی طبعی عمر کے علاوہ اس کا ذہن بھی عمر کی منازل طے کرتا ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت سے قطع نظر اس کی ذہنی عمر کی رفتار ہر انسان میں دوسرے سے مختلف پائی جاتی ہے۔ الفرڈ نے مختلف عمروں کے لحاظ سے ایسے سوالات کی فہرستیں ترتیب دیں جن کے ذریعے کسی بھی فرد کی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا اور یہ چیز IQ ٹیسٹ کہلائی۔ آسان الفاظ میں ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بسا اوقات کم عمر افراد اپنی عمر سے بڑے لوگوں کے برابر یا ان سے بھی زیادہ ذہین واقع ہوتے ہیں۔ اور انہی لوگوں کی ذہنی عمر طبعی عمر کے لحاظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذہنی اور طبعی عمر کے لحاظ سے ایک جیسا ہو گا تو اس ذہانت کو نارمل قرار دیا جا ئے گا، لیکن اگر وہ اپنی عمر کے مقابلے میں کم ذہین ہو تو اسے کند ذہن کہا جائے گا۔
1990ء کے وسط میں نفسیات کے ایک امریکی پروفیسر ڈینیل گولمین) (Daniel Goleman نے پہلی مرتبہ جذباتی ذہانت (EQ) یا اموشنل کوشنٹ (Emotional Quotient) کو متعارف کرایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی ملازمت میں آپ کی اعلیٰ کارکردگی کے لئے آپ کی تکنیکی ہنر مندی یا ذہنی قابلیت کے مقابلے میں آپ کا EQ دگنی اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرین نفسیات EQ کو عام ذہانت کے بجائے جذبات و احساسات سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔ ای کیو (EQ) کا تعلق انسان کی جذباتی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ یعنی IQ میں ذہنی جبکہ EQ میں جذباتی صلاحیتوں کا دخل ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور ذہین شخص جذباتی معاملات میں بھی ہمیشہ ذہین واقع ہو۔ ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جو بہت اچھا IQ رکھنے کے باوجود EQ میں مار کھا جاتے ہیں۔ اس کی مثال یوں لی جا سکتی ہے کہ ایک تجربہ کار بزرگ کسی کاروباری معاملے میں مشتعل ہو کر اپنا نقصان کرا لیتے ہیں جبکہ اسی معاملے کو ایک نوجوان پرسکون اور ٹھنڈے دل و دماغ سے حل کر کے بگڑنے نہیں دیتا اور فائد ے میں رہتا ہے، اس سے ثابت ہو گا کہ نوجوان کا EQ بزرگ کی نسبت بہتر ہے۔
اگر کوئی شخص زندگی کے دیگر معاملات میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور انہیں درست طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہے تو یقینا اس کا EQ بہت اچھا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق EQ دراصل شعور کی ایسی حالت ہے جس میں انسان دکھ سکھ' خوشی اور غم' غصہ اور نفرت' پیار و محبت اور دیگر تجربات سے گزرتا ہے۔ انسانی نفسیات کے ماہرین کے مطابق بہتر EQ نئی صدی میں کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ اس مقام تک پہنچ گئے تو آپ عام انسان کے مقابلے میں معاشرے میں کہیں زیادہ کامیاب اور مقبول سمجھیں جائیں گے۔ آپ کے تعلقات کا دائرہ بھی وسیع ہو گا۔ EQ نظریے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 21 ویں صدی میں EQ نہ صرف لوگوں کی ذاتی زندگی میں بلکہ ان کے کاروبار میں بھی نمایاں مقام حاصل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سمیت یورپی ممالک میں EQ آجکل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
ڈاکٹر گولمین نے 15 بین الاقوامی کمپنیوں کے کامیاب افراد کی پیشہ ورانہ زندگی کا تجزیہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ جس چیز نے انہیں اپنے شعبے میں کامیاب بنایا تھا وہ ان کی تکنیکی مہارت یا ذہنی قابلیت نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا EQ بہت اچھا تھا اور انہیں جذباتی معاملات سے نمٹنے میں عبور حاصل تھا۔ کسی بھی بہتر EQ والے فرد میں پانچ چیزوں کو خصوصاً دیکھا جا سکتا ہے۔
1۔ خود آگاہی (Self Awareness)
2۔ ضبط نفس (Self Control)
3۔ کام کی لگن یا تحریک (Motivation)
4۔ ایک دوسرے کا احساس کرنا (Empathy)
5۔ معاشرتی سمجھ بوجھ (Social Skills)
ان خصوصیات سے بہتر EQ والے افراد کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے اعلیٰ IQ کا ہونا ضروری نہیں۔ کوئی بھی نارمل ذہنیت کا حامل شخص یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے لیکن EQ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ دکھ یا غم ملنے پر افسردہ نہ ہوں یا خوشی کی بات پر خوش نہ ہوں یا غصے کا اظہار نہ کریں' بلکہ EQ ان حالات سے بہتر طور نمٹنے کا نام ہے۔ نرم اور محبت آمیز رویہ انسانی زندگی پر مثبت اثرات چھوڑتا ہے، اس لئے EQ میں تحمل مزاجی پر زور دیا جاتا ہے۔ EQ کی اہمیت صرف ہمارے عام معاملات زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تعلیم' سماجی و ازدواجی تعلقات' اولاد اور والدین کے معاملات سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے لئے مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
EQ کا تعلق صرف جذبات سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سماجی و اخلاقی اقدار کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ جو سماجی اقدار' اصول اور روایات آپ لازمی سمجھتے ہیں انہیں اپنی اولاد پر ضرور واضح کریں۔ بچوں کے مسائل حل کرنے کے لئے مشوروں کے ساتھ عملی طور پر بھی ان کی مدد کریں۔ معمولی لڑائی جھگڑوں پر سزا سے حتیٰ الامکان گریز کریں، صلح صفائی اور گفت و شنید سے معاملہ حل کریں۔ ان میں اتنی صلاحیتیں اور شعور پیدا کریں کہ وہ دوبارہ غلطی نہ کریں۔ ان کے نکتہ نظر کو اہمیت دیں، حوصلہ شکنی نہ کریں۔ عزت دے کر عزت لینے کے فارمولے کا اطلاق بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ EQ بہتر بنانے کے لئے دو یا تین دن کافی نہیں ہوتے اور نہ اس راستے میں کوئی شارٹ کٹ ہے، اس کے لئے سب سے زیادہ ا ہم خود آگاہی اور اپنی ذات کی تشخیص ہے، اور غلط رویوں کا کھوج لگا کر انہیں بدلنا ہے۔ اس کے لئے مضبوط قوت ارادی اور مستقل مزاجی بنیادی چیز ہے۔
مناسب عاجزی' لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنے اور اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ بزدل شخص ہیں اور نہ اس کا مقصد صرف دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا ہے۔ بلکہ اس میں خود اپنے اندر کے احساسات کو سمجھنا اور ان کو اہمیت دینا بھی شامل ہے، کیونکہ ایک حد سے زیادہ نرم مزاج شخص اکثر اوقات اپنی ترجیحات کو دوسروں کی خاطر قربان کر سکتا ہے، لیکن بہتر EQ کا مالک شخص اتنا بے وقوف نہیں ہوتا۔ وہ اپنے مؤقف اور مفادات کا دفاع کرنا بخوبی سمجھتا ہے۔ لہٰذا اختلاف رائے یا کسی مسئلے پر وہ بڑی مہارت سے دوسرے کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے اور اس صلاحیت کی مدد سے جذبات کی رو میں بہہ جانے کے بجائے معاملات کو بگاڑنے سے بچاتے ہوئے صورتحال کو اپنے حق میں کر لیتا ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بہتر EQ کے حامل افراد اپنے آپ اور اپنے جذبات پر نہ صرف کنٹرول رکھتے ہیں بلکہ حالات کو اپنے موافق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کو چاپلوس کہنا جائز نہیں۔ بہتر IQ ایک خداداد صلاحیت ہے مگر EQ بہتر کرنے کے لئے ذرا سی محنت اور متحمل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔