لاہور میوزیم میں سکھ نوادرات کے لئے الگ گیلری بنانے کا فیصلہ
دسویں گورو گوبند سنگھ کا کلام دسم گرنتھ کے نام سے موسوم ہے
میوزیم میں سکھوں کی مقدس کتاب گورو گرنتھ صاحب کے 200 سال قدیم سروپ (نسخے ) کو سکھوں کے مذہبی رسم و رواج کے مطابق پالکی صاحب میں رکھ دیا گیا ہے جب کہ میوزیم میں سکھوں کے نوادرات پر مشتمل الگ گیلری بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
لاہور میوزیم میں بدھ مت ،ہندومت ،جین مت اورسکھ عہد کے سیکڑوں نوادرات محفوظ ہیں ان میں سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب جسے میں اپنا آخری زندہ گورو مانتے ہیں یعنی گورو گرنتھ صاحب کا ہاتھ سے لکھا ایک قدیم نسخہ بھی محفوظ ہے، یہ نسخہ 18 ویں صدی کے اوائل میں لکھا گیا تھا جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں محفوظ کیا گیا اور پھر یہ نادر اور نایاب نسخہ لاہور میوزیم کا حصہ بن گیا۔
سکھ عقیدے کے مطابق گورو گرنتھ صاحب کو رکھنے کے خاص آداب اور طریقے ہیں۔ لاہورمیوزیم نے سکھوں کی مذہبی روایات کا خیال رکھتے ہوئے گورو گرنتھ صاحب کو پالکی صاحب میں رکھا ہے۔ پالکی صاحب کا تحفہ مقامی سکھ سنگت کی طرف سے دیاگیا ہے۔ پالکی صاحب خاص طور پر تیار کروائی گئی ہے۔
لاہور میوزیم میں سکھ ،ہندواور بدھ مت گیلری کی انچارج علیزا رضوی نے بتایا کہ ہمارے پاس جو بھی نوادرات محفوظ ہیں ان میں جو نوادرات کسی مذہب کی مقدسات ہیں ان کو محفوظ رکھنے کے لئے اس مذہب کی رسم و رواج کا خیال رکھا گیا ہے۔ سکھ چونکہ گورو گرنتھ صاحب کو پالکی صاحب میں رکھتے ہیں تو ہم نے اس قدیم نسخے کو اب پالکی صاحب میں ہی رکھا ہے۔
علیزا رضوی نے بتایا کہ ان کے پاس سکھ عہد کی نوادرات کی تعداد کافی زیادہ ہے اس لئے ہم نے الگ سے سکھ گیلری بنانے کا فیصلہ کیا ہے اورآئندہ چند روز میں سکھ نوادرات پر مشتمل الگ گیلری بنادی جائے گی۔
گورنمنٹ کالج کے پروفیسرکلیان سنگھ نے بتایا کہ ان کے پانچویں گورو ، گوروارجن دیوجی نے 1603 میں گوروگرنتھ صاحب کی ترتیب وتدوین شروع کی تھی۔ اس میں سکھوں کے پہلے 4 گورو صاحبان کے علاوہ مسلمان صوفیا اور ہندو بھگتوں کا کلام بھی شامل کیا گیا اور 1604 میں گورو گرنتھ صاحب کی تدوین مکمل ہوئی، بعدازاں اس میں باقی 5 گورو صاحبان کی بانیاں شامل کی گئیں۔
دسویں گورو گوبند سنگھ کا کلام دسم گرنتھ کے نام سے موسوم ہے۔ سکھوں کے دسویں گورو نے اپنی وفات سے ایک سال قبل 1708 میں حکم نامہ جاری کیا کہ اب ان کے بعد کوئی گورو نہیں آئے گا اور گورو گرنتھ صاحب کو ہی رہبر و رہنما تسلیم کیا جائے۔
گورو گرنتھ صاحب 5894 منظوم حمدوں پر مشتمل ہے جس میں دس گوروؤں اور پندرہ مسلمان صوفیا اور ہندو بھگتوں کا کلام ہے۔ گرنتھ صاحب 18 مختلف راگوں میں تقسیم اور منظم کیا گیا ہے۔ گورو گرنتھ صاحب میں بہت سی زبانوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پنجابی اور سرائیکی کے علاوہ فارسی، پراکرت، ہندی اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بنیادی فہم کے لیے ہندی پنجابی کے علاوہ فارسی کی جانکاری لازمی ہے۔
گوروگرنتھ صاحب کا ایک اور قدیم نسخہ شاہی قلعہ لاہور کی سکھ گیلری میں بھی محفوظ ہے۔ 2016 میں اس وقت کے سکھ رکن پنجاب اسمبلی سردار رمیش سنگھ اروڑہ کی درخواست پر محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے اسمبلی میں جواب جمع کروایا تھا کہ ان کے پاس شاہی قلعہ لاہور کی سکھ گیلری میں گورو گرنتھ صاحب کا ایک ہی نسخہ محفوظ ہے تاہم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے مطابق سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ جی نے 1100 صفحات پر مشتمل اس گورو گرنتھ صاحب کو متروک کردیا تھا اور موجودہ گورو گرنتھ صاحب 1430 صفحات پر مشتمل ہے۔
لاہورم یوزیم میں محفوظ گورو گرنتھ صاحب کے سروپ (نسخہ) انتہائی قدیم اور ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بعض سکھوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ میوزیم میں محفوظ گورو گرنتھ صاحب کے سروپ کا پرکاش ہونا چاہیے (اسے پڑھنے اوراس کا غلاف تبدیل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے) تاہم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے لاہور میوزیم انتطامیہ کی درخواست پر اس کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ اس کو بار بار ہاتھ لگانے سے یہ قدیم نسخہ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی وجہ سے لاہور میوزم میں گوروگرنتھ صاحب کو پالکی صاحب میں رکھ کر شیشے کے پیچھے محفوظ کیا گیا تاکہ کوئی اسے ہاتھ نہ لگا سکے۔
لاہور میوزیم میں بدھ مت ،ہندومت ،جین مت اورسکھ عہد کے سیکڑوں نوادرات محفوظ ہیں ان میں سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب جسے میں اپنا آخری زندہ گورو مانتے ہیں یعنی گورو گرنتھ صاحب کا ہاتھ سے لکھا ایک قدیم نسخہ بھی محفوظ ہے، یہ نسخہ 18 ویں صدی کے اوائل میں لکھا گیا تھا جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں محفوظ کیا گیا اور پھر یہ نادر اور نایاب نسخہ لاہور میوزیم کا حصہ بن گیا۔
سکھ عقیدے کے مطابق گورو گرنتھ صاحب کو رکھنے کے خاص آداب اور طریقے ہیں۔ لاہورمیوزیم نے سکھوں کی مذہبی روایات کا خیال رکھتے ہوئے گورو گرنتھ صاحب کو پالکی صاحب میں رکھا ہے۔ پالکی صاحب کا تحفہ مقامی سکھ سنگت کی طرف سے دیاگیا ہے۔ پالکی صاحب خاص طور پر تیار کروائی گئی ہے۔
لاہور میوزیم میں سکھ ،ہندواور بدھ مت گیلری کی انچارج علیزا رضوی نے بتایا کہ ہمارے پاس جو بھی نوادرات محفوظ ہیں ان میں جو نوادرات کسی مذہب کی مقدسات ہیں ان کو محفوظ رکھنے کے لئے اس مذہب کی رسم و رواج کا خیال رکھا گیا ہے۔ سکھ چونکہ گورو گرنتھ صاحب کو پالکی صاحب میں رکھتے ہیں تو ہم نے اس قدیم نسخے کو اب پالکی صاحب میں ہی رکھا ہے۔
علیزا رضوی نے بتایا کہ ان کے پاس سکھ عہد کی نوادرات کی تعداد کافی زیادہ ہے اس لئے ہم نے الگ سے سکھ گیلری بنانے کا فیصلہ کیا ہے اورآئندہ چند روز میں سکھ نوادرات پر مشتمل الگ گیلری بنادی جائے گی۔
گورنمنٹ کالج کے پروفیسرکلیان سنگھ نے بتایا کہ ان کے پانچویں گورو ، گوروارجن دیوجی نے 1603 میں گوروگرنتھ صاحب کی ترتیب وتدوین شروع کی تھی۔ اس میں سکھوں کے پہلے 4 گورو صاحبان کے علاوہ مسلمان صوفیا اور ہندو بھگتوں کا کلام بھی شامل کیا گیا اور 1604 میں گورو گرنتھ صاحب کی تدوین مکمل ہوئی، بعدازاں اس میں باقی 5 گورو صاحبان کی بانیاں شامل کی گئیں۔
دسویں گورو گوبند سنگھ کا کلام دسم گرنتھ کے نام سے موسوم ہے۔ سکھوں کے دسویں گورو نے اپنی وفات سے ایک سال قبل 1708 میں حکم نامہ جاری کیا کہ اب ان کے بعد کوئی گورو نہیں آئے گا اور گورو گرنتھ صاحب کو ہی رہبر و رہنما تسلیم کیا جائے۔
گورو گرنتھ صاحب 5894 منظوم حمدوں پر مشتمل ہے جس میں دس گوروؤں اور پندرہ مسلمان صوفیا اور ہندو بھگتوں کا کلام ہے۔ گرنتھ صاحب 18 مختلف راگوں میں تقسیم اور منظم کیا گیا ہے۔ گورو گرنتھ صاحب میں بہت سی زبانوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پنجابی اور سرائیکی کے علاوہ فارسی، پراکرت، ہندی اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بنیادی فہم کے لیے ہندی پنجابی کے علاوہ فارسی کی جانکاری لازمی ہے۔
گوروگرنتھ صاحب کا ایک اور قدیم نسخہ شاہی قلعہ لاہور کی سکھ گیلری میں بھی محفوظ ہے۔ 2016 میں اس وقت کے سکھ رکن پنجاب اسمبلی سردار رمیش سنگھ اروڑہ کی درخواست پر محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے اسمبلی میں جواب جمع کروایا تھا کہ ان کے پاس شاہی قلعہ لاہور کی سکھ گیلری میں گورو گرنتھ صاحب کا ایک ہی نسخہ محفوظ ہے تاہم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے مطابق سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ جی نے 1100 صفحات پر مشتمل اس گورو گرنتھ صاحب کو متروک کردیا تھا اور موجودہ گورو گرنتھ صاحب 1430 صفحات پر مشتمل ہے۔
لاہورم یوزیم میں محفوظ گورو گرنتھ صاحب کے سروپ (نسخہ) انتہائی قدیم اور ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بعض سکھوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ میوزیم میں محفوظ گورو گرنتھ صاحب کے سروپ کا پرکاش ہونا چاہیے (اسے پڑھنے اوراس کا غلاف تبدیل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے) تاہم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے لاہور میوزیم انتطامیہ کی درخواست پر اس کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ اس کو بار بار ہاتھ لگانے سے یہ قدیم نسخہ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی وجہ سے لاہور میوزم میں گوروگرنتھ صاحب کو پالکی صاحب میں رکھ کر شیشے کے پیچھے محفوظ کیا گیا تاکہ کوئی اسے ہاتھ نہ لگا سکے۔