ملتان میں فوکر طیارے کے حادثے کے ذمے داروں کو 7 سال بعد بھی سزا نہ ملی

بدقسمت طیارے میں اہم شخصیات سوار تھیں،جائے حادثہ پر یادگار بھی نہیں بنائی گئی.

ملتان:10 جولائی 2006 کو حادثے کے بعد جہاز کی باقیات بکھری ہوئی ہیں۔ فوٹو: فائل

ملتان ائیرپورٹ پر فوکر طیارہ گرنے کے دلخراش حادثے کو7 برس بیت گئے ہیں۔

اس ضمن میں مختلف انکوائری رپورٹیں تو تیار کی گئیں لیکن کسی بھی افسر یا ملازم کو سزا نہیں دی گئی ہے۔ اس بدقسمت پرواز کے45 مسافر جاں بحق ہوئے۔ قابل افسوس صورتحال تو یہ ہے کہ ہر سال اس پرواز کے شہدأ کی یاد ان کے گھروں میں برسی اور دعائیہ تقریبات کے ذریعے تو منائی جاتی ہے لیکن پی آئی اے یا مقامی انتظامیہ کی طرف سے کوئی تقریب نہیں کی جاتی۔ طیارے کے پائلٹ کیپٹن حمید رضا، فلائٹ آفیسر ابرار چغتائی ائیرہوسٹس عمارہ سکندر اور ثمن جمیل کی برسی میں بھی پی آئی اے کی طرف سے کوئی شرکت نہیں کرتا۔ پرواز کے مسافروں کے لواحقین کو 25 لاکھ روپے فی کس دیے گئے لیکن تین مسافروں کے لواحقین کو تاحال رقم نہیں مل سکی۔



پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان مسافروں کے لواحقین میں وراثت کا تنازع پیدا ہوگیا تھا۔ ان کے معاملات عدالت میں ہیں وہاں سے جیسے ہی وراثتی سرٹیفکیٹ انہیں ملیں گے ان کے واجبات انہیں دے دیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ 10 جولائی 2006 کو پی آئی اے کے 42 سالہ بوڑھے فوکر ایف 28 نے ملتان ائیرپورٹ کے رن وے پر سرپٹ دوڑتے ہوئے اڑان بھری تو 400 فٹ کی بلندی پر جاکر انجن فیل ہوگیا اور وہ ائیرپورٹ سے ملحقہ آبادی سورج میانی کے ایک کھیت میں جاگرا۔


اسی جگہ شہدأ کی یاد گار بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ بدقسمت طیارے کے مسافروں میں جسٹس نذیر صدیقی، جسٹس نواز بھٹی، وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر نصیر احمد خان، زرعی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام گل، معروف نیورو سرجن سابق پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر افتخار علی راجہ، بریگیڈئیر آفتاب احمد، فرخ بشیر، پروفیسرز عبدالرئوف، عبدالرحمٰن، ڈاکٹر حمیدہ اشرف، نوبیاہتا جوڑا کنول اقبال ہاشمی، سلیم شاہ ہاشمی اور دیگر شامل تھے۔



سول ایوی ایشن، انٹرنیشنل ائیر ٹریفک کنٹرول اتھارٹی، پالپا، فوکر کمپنی جرمنی، امریکی، برطانوی، فرانسیسی ماہرین کی طرف سے مختلف انکوائریاں کی گئیں جن میں ذرائع کے مطابق کہا گیا کہ انجینئرنگ شعبے کی غفلت، پائلٹ کی تھکاوٹ اور اوور ٹائم، انسانی غلطی، مکینیکل سسٹم میں خرابی اور طیارے کو اچھی طرح چیک نہ کرنے جیسی وجوہات کی بنیاد پر یہ المناک حادثہ رونما ہوا کیونکہ عینی شاہدین کے مطابق جیسے ہی طیارے نے اڑان بھرنے کیلئے دوڑ لگائی تو اس کے ایک انجن میں چنگاریاں بھڑکنا شروع ہوگئیں، طیارہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور یہ اندوہناک حادثہ ہوگیا۔

یہ رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز اور پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کو بھی پیش کی گئیں لیکن اس حوالے سے کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی ہے۔ فوکر حادثہ کے وقت ہائیکورٹ بار ملتان بنچ کے صدر محمود اشرف کی طرف سے بھی ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی جس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ شعبہ انجینئرنگ کی غفلت، ناقص چیکنگ لاپرواہی، پائلٹ کی تھکاوٹ اور طیارے کی بوسیدگی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ اس رپورٹ پر بھی کسی کو سزا نہیں ملی۔ فوکر حادثہ کے بعد حکومت اور وزارت دفاع نے تمام فوکر طیاروں کو فوری طور پر گرائونڈ کردیا جس کی وجہ سے پی آئی اے کو طیاروں کو کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
Load Next Story