جلد کے ذریعے جسم کی خبر لینے والا اسٹیکر نما سینسر
ربڑ کی طرح لچک دار سینسر دل کی دھڑکن، خون کے بہاؤ اور نبض کی رفتار کے ساتھ کئی معاملات پر خبر رکھتا ہے
ماہرین نے جلد سے چپکنے والا ایک ایسا لچک دار سینسر بھرا اسٹیکر بنایا ہے جو ایک جانب تو غصے میں جلد پر آنے والی سرخی جیسے فعلیاتی عوامل پر نظر رکھتا ہے تو دوسری جانب دل کی دھڑکن کی تفصیلات کسی تار کے بغیر ڈاکٹر یا کپڑوں پر لگے ریسیور تک پہنچاتا ہے۔
یہ اہم ایجاد اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر زینان باؤ کی ہے جو کیمیائی انجینئرنگ کے ماہرہیں۔ اس کی افادیت جانچنے کے لیے انہوں ںے ایک مریض کی کلائی پر برقی اسٹیکر لگایا جس نے محض جلد کے سکڑنے، پھیلنے اور دیگر جسمانی اتار چڑھاؤ کی بنا پر نبض، سانس کی رفتار اور دل کی دھڑکن کو درست انداز میں نوٹ کیا۔
اسی طرح اگر اسے گھٹنے اور کہنی پر لگایا جائے تو یہ اطراف کے پٹھوں کے سکڑنے اور پھیلنے یا چلنے پھرنے کےدوران دیگر تبدیلیوں کو بھی نوٹ کرسکتا ہے۔ پروفیسر زینان کے مطابق اگرچہ طبی برقی اسٹیکر کو بہت سے کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے پہلے اسے صحت کے شعبے میں آزمایا جائے گا اور ایسے مریضوں میں لگایا جائے گا جو نیند کی کمی کی شکایت کرتے ہیں یا پھر امراضِ قلب کے شکار افراد جو دل کی دھڑکن سے پریشان رہتے ہیں۔
پروفیسر زینان باؤ پہلے ہی ایک ایسے طبی اسٹیکر پر کام کررہے ہیں جو پسینے کو دیکھتے ہوئے جسمانی درجہ حرارت اور ذہنی تناؤ کا پتا لگاسکتا ہے لیکن یہ ان کی منزل نہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ایسے کئی اسٹیکر بنائے جائیں جو جسم سے لگ کر کئی ایک جسمانی کیفیات کا اندازہ لگاسکیں اور اس کا ڈیٹا لباس پر حاصل کیا جاسکے جس کے بعد اسے اسمارٹ واچ اور فون پر بھی محفوظ رکھا جاسکے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ ایک روز پورے بدن کے لیے سینسر والے پیوند بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
زینان کی ٹیم گزشتہ تین برس سے اس پر دن رات کام کررہی ہے اور اس کے لیے کسی بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی سرکٹ اتنا سخت ہے کہ وہ جلد سے منسلک ہوکر بے آرامی یا تکلیف کی وجہ بنتا ہے اور نہ ہی اتنا نرم کہ وہ اپنی جگہ چھوڑدے۔
اس پورے نظام کو باڈی نیٹ اسٹیکر کا نام دیا گیا ہے اس میں ایک چھوٹا سا اینٹینا نصب ہے جو لباس میں لگے ریسیور سے وائرلیس سگنلوں کے ذریعے بجلی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح یہ عین آر ایف آئی ڈی ٹیگز کی طرح کام کرتا ہے۔ اس پر بنا سرکٹ دھاتی روشنائی کے ذریعے کاڑھا گیا ہے۔
پھر اس میں چھوٹے چھوٹے سینسر لگے ہیں جو حرکت اور اتار چڑھاؤ کو محسوس کرتے ہیں۔ دوسری جانب پسینے کی پیمائش کرنے والی مائیکرو سینسر بھی نصب ہیں تاہم یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے ہمارے ہاتھوں تک پہنچنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
یہ اہم ایجاد اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر زینان باؤ کی ہے جو کیمیائی انجینئرنگ کے ماہرہیں۔ اس کی افادیت جانچنے کے لیے انہوں ںے ایک مریض کی کلائی پر برقی اسٹیکر لگایا جس نے محض جلد کے سکڑنے، پھیلنے اور دیگر جسمانی اتار چڑھاؤ کی بنا پر نبض، سانس کی رفتار اور دل کی دھڑکن کو درست انداز میں نوٹ کیا۔
اسی طرح اگر اسے گھٹنے اور کہنی پر لگایا جائے تو یہ اطراف کے پٹھوں کے سکڑنے اور پھیلنے یا چلنے پھرنے کےدوران دیگر تبدیلیوں کو بھی نوٹ کرسکتا ہے۔ پروفیسر زینان کے مطابق اگرچہ طبی برقی اسٹیکر کو بہت سے کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے پہلے اسے صحت کے شعبے میں آزمایا جائے گا اور ایسے مریضوں میں لگایا جائے گا جو نیند کی کمی کی شکایت کرتے ہیں یا پھر امراضِ قلب کے شکار افراد جو دل کی دھڑکن سے پریشان رہتے ہیں۔
پروفیسر زینان باؤ پہلے ہی ایک ایسے طبی اسٹیکر پر کام کررہے ہیں جو پسینے کو دیکھتے ہوئے جسمانی درجہ حرارت اور ذہنی تناؤ کا پتا لگاسکتا ہے لیکن یہ ان کی منزل نہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ایسے کئی اسٹیکر بنائے جائیں جو جسم سے لگ کر کئی ایک جسمانی کیفیات کا اندازہ لگاسکیں اور اس کا ڈیٹا لباس پر حاصل کیا جاسکے جس کے بعد اسے اسمارٹ واچ اور فون پر بھی محفوظ رکھا جاسکے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ ایک روز پورے بدن کے لیے سینسر والے پیوند بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
زینان کی ٹیم گزشتہ تین برس سے اس پر دن رات کام کررہی ہے اور اس کے لیے کسی بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی سرکٹ اتنا سخت ہے کہ وہ جلد سے منسلک ہوکر بے آرامی یا تکلیف کی وجہ بنتا ہے اور نہ ہی اتنا نرم کہ وہ اپنی جگہ چھوڑدے۔
اس پورے نظام کو باڈی نیٹ اسٹیکر کا نام دیا گیا ہے اس میں ایک چھوٹا سا اینٹینا نصب ہے جو لباس میں لگے ریسیور سے وائرلیس سگنلوں کے ذریعے بجلی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح یہ عین آر ایف آئی ڈی ٹیگز کی طرح کام کرتا ہے۔ اس پر بنا سرکٹ دھاتی روشنائی کے ذریعے کاڑھا گیا ہے۔
پھر اس میں چھوٹے چھوٹے سینسر لگے ہیں جو حرکت اور اتار چڑھاؤ کو محسوس کرتے ہیں۔ دوسری جانب پسینے کی پیمائش کرنے والی مائیکرو سینسر بھی نصب ہیں تاہم یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے ہمارے ہاتھوں تک پہنچنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔