غریبوں پر موت کے سائے

اگر بروقت موثر نظام نہ بنایا گیا گیا تو پھر غریبوں پر موت کے سائے ہمیشہ کی طرح منڈلاتے رہیں گے

معمولی جرم کا بہانہ بناکر موت صرف غریبوں کا ہی کیوں مقدر بن جاتی ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

DENVER:
بے بسی کے آنگن میں ناچتی غربت اور محرومیوں کے سیلاب میں بہہ جانے والے خواب، حالات کے طوفانوں میں اچھے مستقبل کی امید جگاتی ٹمٹماتے چراغ کی کرن، ایسی بے یقینی کی صورتحال میں بھی قدرت کی مہربانیوں کے سہارے زندگی میں اچھے دنوں کی امید اور پھر جب ان امیدوں پر معاشرتی بے حسی کا پانی پھر جائے، نہ صرف امیدیں ٹوٹیں بلکہ جسم وجاں کا تعلق ہی ٹوٹ جائے تو دیکھنے والوں کا بھی کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔

خبروں کے بازار میں شب و روز گزرتے ہیں تو کہیں سے کوئی اچھی خبر ملنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں اچھی خبر سے مراد وہ خبر جو طبعیت کو خوش کردے، حالانکہ ''غرفتہ الاخبار'' میں اچھی خبرسے مراد بڑی خبر لیا جاتا ہے۔ جو ٹاپ ہیڈ لائن بن سکے۔ چاہے اس میں لاشوں کے انبار ہوں، بارود کے ڈھیر ہوں یا جنگی خبروں میں زندگیاں نیست و نابود ہونے کی خبر ہو۔

کراچی کی کوکن سوسائٹی میں مبینہ چوری کے الزام میں کچھ شہریوں کے ہتھے چڑھنے والے پندرہ سالہ لڑکے ریحان کی تصویر میری نظروں سے ہٹ نہیں رہی۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے اس کی ٹی شرٹ کا سیاہ رنگ معاشرے کے کالے کرتوں سے پردہ ہٹارہا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی باتیں کرنے والے معاشرے کے بے حس افراد جب اس معصوم کو اس کی مبینہ غلطی کی سزا خود ہی سرعام دے رہے تھے، تو نجانے انہیں اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ اسے چاہے کمزور سہی مگر قانون تو ہے، کے حوالے کردیں۔ چاہے اسے پھانسی چڑھا دیتے مگر پہلے معاملے کی تہہ تک تو پہنچتے۔ ملزم کو مجرم ثابت تو کرلیتے، سرعام غریب کو بے شک مار دیتے، مگر کم ازکم اس معصوم کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بجائے متعلقہ اداروں کو ہی ان کا کام کرنے دیتے۔

ریحان کی شرٹ پر ''اپنا ٹائم آئے گا'' لکھا دیکھ کر کچھ تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محرومیوں کی دلدل میں تھا۔ وہ غربت سے نکلنے کی کوشش میں تھا، وہ اچھے مستقبل کےلیے پُرامید تھا۔ مگر کس کے سہارے؟ چاہے اپنی تگ ودو میں وہ بے سہارا تھا مگر وہ زندگی کی دوڑمیں پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس کے قاتل اگرٖ غور سے دیکھتے تو اس کے چہرے پر ''مجرم'' نہیں لکھا تھا۔ اس کے ماتھے پر ''چور، ڈاکو، لٹیرا'' نہیں لکھا تھا۔ پھر انہیں کس علم نجوم سے پتہ چل گیا کہ یہی ڈاکو ہے اور اسے سزائے موت دینا ان ہی کا ''فرض اولین'' ہے؟

کاش اس کی جان لینے سے پہلے ظلم کی انتہا کرنے والے ایک بار خود احتسابی کرلیتے۔ ایک بار اپنے گریبان میں جھانک لیتے تو شاید جسے وہ ریحان کی ذات میں دیکھ رہے تھے قریب ممکن تھا کہ وہ کردار ان کی اپنی ذات میں بھی اس سے بڑھ کر مل جاتا۔ جو مجرم انہیں معصوم کی ذات میں نظر آرہا تھا اس سے کہیں خوفناک مجرم ان کے اندر چھپا ہوتا۔ اگر وہ جان لیتے تو ریحان کی جان بخش کر خودکشی کرلیتے، مگر کسی کے لخت جگر کو یوں بے دردی سے مار مار کر لہولہان نہ کرتے، اسے برہنہ کرکے مرنے سے پہلے رسوا نہ کرتے۔ مگر معاشرے کے ایسے افراد خود کو تو دودھ سے دھلا ہوا سمجھتے ہیں اور سب جرم اور سب گناہ دوسروں کی ذات میں ہی نظر آتے ہیں۔


ایسے واقعات ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس نوعیت کے جرم نہیں ہوتے۔ کہیں بے گناہوں کو قتل کیا جارہا ہے تو کہیں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ غریبی اور امیری کی تقسیم کے خاتمے کےلیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ مگر اس جانب قابل ذکر پیشرفت نظر نہیں آتی۔ ایک ہی جرم اگر امیر کرتا ہے تو کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہیں۔ مگر وہی جرم غریب آدمی سے سرزد ہوجائے تو پھر معاشرہ جان لیے بغیر نہیں رہتا۔

معاشرے کے ان عناصر کے نزدیک اگر جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی مجرم کی سزا سرعام موت ہی ہے تو پھر امیر مجرم پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ٹانگیں کیوں کانپنا شروع ہوجاتی ہیں؟ سارے غم، ساری پریشانیاں، سارے دکھ اور سب مشکلات صرف غریبوں کےلیے ہی ہیں؟

جرم ثابت ہونے سے قبل ہی قانون کو ہاتھ میں لے کر سزا دینے کا معاملہ ہو یا پھر سزا کا نظام قانون کے تحت ہو، ہمیشہ بااثر مجرم ہی کیوں باعزت بری ہوجاتے ہیں اور معمولی جرم کا بہانہ بناکر موت صرف غریبوں کا ہی کیوں مقدر بن جاتی ہے؟ نہ ایسا کچھ اسلام میں ہے، نہ آئین پاکستان میں اس کا کوئی تصور، قانون کی کسی کتاب میں حوالہ ملتا ہے، نہ عقل اس تفریق کو تسلیم کرتی ہے۔

ضروری ہے کہ معاشرے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔ ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں سفارش کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہ ہو، جو ظلم کے ایسے واقعات پر خودبخود سکینڈز میں دادرسی کےلیے پہنچ جائے اور جہاں کہیں کوئی مظلوم کسی ظالم کے ظلم کا شکار ہورہا ہو تو اس کی جان چھڑائی جاسکے۔ اگر بروقت کچھ ایسا نہ کیا گیا تو پھر غریبوں پر موت کے سائے ہمیشہ کی طرح منڈلاتے رہیں گے، جو متعلقہ اداروں سمیت پورے معاشرے کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story