قانون اور قانون کا اطلاق

ہر سیاسی یا بااثر مجرم دنیا کے کسی ملک کا بھی ہو، اس کا طریقہ کار ایک سا ہی ہوتا ہے

ہمارے ملک میں قانون کی عملداری اس طرح نہیں ہوسکی، جیسے ہونی چاہیے تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکا کا دنیا میں کیا غیر قانونی کردار ہے اور امریکا کے اندر قانون کیسے کام کرتا ہے؟ یہ دو الگ موضوع ہیں۔

ٹریسی ہنٹر امریکی اسٹیٹ اوہائیو میں ہملٹن کاؤنٹی کے اندر جووینائل کورٹ (نوعمر بچوں کی اسپیشل کورٹ) کی جج تھی۔ ہنٹر ایک اچھا کیریئر رکھتی تھی، اوہائیو بار ایسوسی ایشن کے علاوہ کئی ایک دوسرے اداروں کی ممبر یا بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل تھی۔ سب اچھا چل رہا تھا کہ اسی دوران2013 میں ہملٹن کاؤنٹی کے پبلک آفس نے ہنٹر کے خلاف اوہائیو کی ضلعی عدالت میں ایک سے زیادہ مقدمے درج کروا دیے۔

عدالت نے مقدمات سننے کے قابل سمجھے اور انویسٹی گیشن کے لیے مقرر کردیے۔ 2014 جنوری میں ہنٹر پر سنگین قسم کی فرد جرم عائد ہوگئی۔ اس پر ٹیمپرنگ کرنے، پبلک آفس کو غیرقانونی طریقے سے چلانے اور دفتر سے چوری کرنے کے کئی ایک چارجز لگے۔ ان سب کے علاوہ ہنٹر پر بیک ڈیٹ دستاویزات بنانے (جس پر اس نے سائن بھی کیے)، اپنے بھائی کو غیر قانونی طریقے سے اپنے ہی کورٹ میں نوکری دلانے، نیز اپنے بھائی کی فائل سے دستاویز چوری کرنے کےلیے اپنی پوزیشن کے استعمال کرنے کے الزامات بھی شامل تھے۔ اسٹیٹ کے قانون کے مطابق ہنٹر کو سپریم کورٹ نے فوری طور پر بطور جج ڈسکوالیفائی کردیا، جب تک کہ وہ ان الزامات سے بری نہ ہوجائے، لیکن اس کی 121,350 ڈالر تنخواہ جاری رکھی۔

17 جنوری2014 کو ہنٹر نے اپنے اوپر لگے نو سنگین قسم کے الزامات کو مسترد کرنے کےلیے عدالت سے رجوع کیا۔ اس کے ساتھ ہنٹر نے سیاسی طالع آزمائی بھی شروع کردی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کے خلاف عدالت میں ثبوت پیش کرتی، اس نے مختلف ایونٹس میں شرکت کرنا شروع کردی اور اپنے اوپر لگے الزامات کو سیاسی الزامات کہنا شروع کردیا۔ اس نے ایک پریڈ کے دوران، جو مارٹر لوتھر کنگ کے اعزاز میں دی جارہی تھی، ایک بینر کے ساتھ مارچ کیا جس میں اس نے اپنی تصویر کو ایک مشہور سول رائٹس ایکٹویسٹ کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔ اس نے اپنی افریقی نسل کا کارڈ بھی کھیلنا شروع کردیا تھا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ہملٹن کاؤنٹی کو افریقن امریکی اور جمہوری جج منظور ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس نے مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا بننے کی بھی دھمکی دے ماری۔

بہرحال، کیس پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ پڑا اور دسمبر 2104 میں ہنٹر کو نو میں سے ایک الزام پر چھ ماہ سزا ہوگئی اور باقی کا ٹرائل چلتا رہا۔ لیکن سپریم کورٹ میں ہنٹر کی دی گئی درخواست پر اسٹے ہوگیا، جس میں اس نے جج کو ہٹانے کی بھی درخوست دے دی۔ ان سارے معاملات کے باوجود کیس چلتا رہا اور 22 جولائی 2019 کو ہنٹر کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا۔ جس کی بنا پر پولیس نے ہنٹر کو عدالت سے گھسیٹتے ہوئے لے جاکر جیل منتقل کردیا۔

اس سارے واقعے سے کچھ چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر سیاسی یا بااثر مجرم دنیا کے کسی ملک کا بھی ہو، اس کا طریقہ کار ایک سا ہی ہوتا ہے۔ ہر بااثر اور وائٹ کالر مجرم اپنے آپ کو نیلسن منڈیلا یا مارٹن لوتھر کنگ سے کم نہیں سمجھتا۔ بجائے وہ چوری کے الزامات کے خلاف اپنا ثبوت عدالت میں دے، وہ پریس کانفرنس کرکے ججوں کی پرسنل ویڈیوز بناکر انہیں بلیک میل کرے گا، جو کہ خود ایک الگ جرم ہے۔ نت نئی دھمکیاں دے گا۔ اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کےلیے کسی بھی حد تک جائے گا۔ جج کو رشوت دے گا، نہیں تو دھمکی دے گا۔ پھراپنا ایک نہایت حسین چہرہ انسانی حقوق اور سول رائٹس کی بالادستی کا پیش کرے گا، جبکہ یہی چہرہ اندر سے نہایت بھیانک ہوگا۔

دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ امریکا کا رول دنیا میں چاہے جو بھی ہو، لیکن امریکا کے اندر جو بھی قانون کے راستے میں آئے گا، کرش ہوجائے گا۔ یہ بھی الگ بات ہے کہ اس کے قوانین بنانے کا طریقہ کار مختلف ہے۔

اب ہنٹر کے معاملے پر نہ تو امریکا کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوا، نہ اس کی جمہوریت اپنی جگہ سے ہلی اور نہ ہی کوئی انسانی حقوق پامال ہوئے۔ لیکن ہمارے ہاں ہر ایرا غیرا انسانی حقوق کا علمبردار بنا پھرتا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے اسے عدالت سے جس طرح گھسیٹا اس سے نہ تو کوئی فیمنسٹ تحریک چلی، جیسا کہ مغرب میں بار بار ایسا ہوتا ہے، اور نہ ہی گھر کی درو دیوار کا تقدس خراب ہوا۔


ایک کرپٹ سیاستدان عوام کی رائے بدلنے کےلیے ریلیاں کرے گا اور بینرز کےلیے نت نئے بیانیہ بنائے گا اور اپنے مخصوص میڈیا پرسنلز سے کچھ بھی ثابت کروائے گا۔ وہ مخصوص لکھنے والے کچھ بھی لکھ دیں گے۔ کبھی تو انہیں کوئی امپورٹڈ سگار پینے والا نت نئی مستقبل کی خبریں لاکر دے گا، جو کبھی سچ نہیں ہوتیں، مقصد لوگوں کی رائے بدلنا ہے، کبھی پورے کا پورا علاقہ (مثلاً پنجاب) ہی بے وفا بن جاتا ہے اور کبھی بڑے سے بڑا لیڈر بھی ان کی نظر میں تھوڑی بہت چوری کرلیتا ہے، جیسا بیانیہ گھڑ کر لاتے ہیں۔ اور بعض اوقات حد اس وقت ہوجاتی ہے جب وہ کسی تاریخی مستند کردار کو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ وہ کردار بھی حقائق سے ہٹ کر لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے بہت الگ ہوتی ہے، صرف لفظوں کے کھیل سے وہ اپنا نظریہ دے رہے ہوتے ہیں۔

پچھلے دور کی بات کرنا ان کےلیے گناہ ہے، احتساب رکوانا ان کا مقصد ہے۔ ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور افراط زر ڈبل فگر ہوگیا۔ بندہ پوچھے کہ آج سے ایک سال پہلے کون سا جہلم اور راوی میں دودھ بہہ رہا تھا۔ افراط زر بھی ہر سال ہوا، ڈالر کی قیمت بھی ہر سال بڑھی، ساتھ میں ہر جگہ رشوت اور لاقانونیت، بس لوگوں کو گمراہ کرنا ایک مقصد۔ خاص طور پر جب سے ایسے لوگ سیاست میں آئے قرضوں میں اضافہ ہی ہوا، اور ڈالر بڑھا، ورنہ 1980 تک ڈالر تقریباً مستحکم تھا، 1972 تک تو مکمل طور پر مستحکم تھا۔ پھر ایسا اچانک کیا ہوا جو ڈالر کو اڑان لگ گئی۔ ظاہر ہے جب قرضے لے کر ڈالر باہر بھیجا جائے گا تو یہی ہوگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسی پوائنٹ کو لے کر سیاست بھی کرتے رہے اور سادہ لوگوں سے ووٹ بٹورتے رہے۔ واہ رے جمہوریت تیرا حسن۔

اب تک ہمارے ملک میں قانون کی عملداری اس طرح نہیں ہوسکی، جیسے ہونی چاہیے تھی۔ لوگوں کی عمومی جمہوری رائے ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے، جج خریدنا، لکھاری خریدنا یا پھر کسی کو بھی دھونس دینا، بلیک میل کرنا یا پورے کا پورا سسٹم خریدنا، اگر کوئی خریدنے کی سکت رکھتا ہو۔

ایسا نہیں کہ یہ صرف پاکستان میں ہے، اچھے برے لوگ ہر ملک اور ہر سسٹم میں موجود ہوتے ہیں، بس انہیں قانون کی مدد سے کنٹرول کرنا ہر ملک اور ہر سسٹم کا اندرونی معاملہ ہے، وہ قانون پر عمل کرے یا قانون انہی لوگوں کے حوالے کردے۔ ایک بار ابراہام لنکن سے کوئی آدمی ملنے آیا، جب وہ مل کر جانے لگا تو لنکن باہر آیا اور غصے سے بولنے لگا اور اپنے دفتر والوں کو کہا کہ آئندہ اگر یہ شخص مجھ سے ملنے آئے تو بالکل منع کردینا۔ پوچھنے پر کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے؟ لنکن نے کہا کہ یہ مجھے امریکا کی کوئلے کی کانوں کے ٹھیکے کے بدلے رشوت دے رہا تھا، اور ایک موقع پر تو اس نے اتنی قیمت لگادی کہ مجھے شک ہونے لگا میں اقرار کردوں گا۔

ہمارا سسٹم موجود ہے لیکن کام دھیلے کا نہیں۔ اسٹیٹ بینک موجود لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ پبلک منی کہاں جاتی رہی ہے۔ پولیس موجود لیکن جرائم میں کمی نہیں۔ ٹریفک پولیس موجود لیکن گاڑی چلانا گدھا گاڑی چلانا ایک برابر۔ پی آئی اے نقصان میں لیکن پرائیوٹ ایئر کمپنی فائدے میں۔ ٹیکس کا ادارہ موجود لیکن ادارے میں کام کرنے والے کام کرکے راضی نہیں۔ سیاست کا سسٹم اتنا کمزور کہ ہر مجرم سیاستدان یا ہر سیاستدان مجرم بن گیا۔ اب بظاہر نظر یہ آتا ہے کہ ہمارے اداروں نے یہ چیز محسوس کرلی ہے کہ قانون کی عملداری ہی میں بہتری ہے، اور اسی میں ملک وقوم کا فائدہ ہے۔

اس کے ساتھ ملک ہر طرف سے گھرا ہوا، وہ سرحد ی حالات ہوں یا معاشی۔ پچھلوں نے معاشی حالات کی ایسی مت ماری کہ ابھی تک ملک میں قیمتیں اوپر کو جارہی ہیں، ڈالر روز چھلانگیں لگاتا ہے اور مارکیٹ کا عام کاروباری بدحال ہے، جبکہ تنخواہ دار طبقہ ہر طرف سے لاچار ہے، کیونکہ اس کی انکم فکسڈ ہوتی ہے، جبکہ اخراجات میں روزبروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سیونگز دور کی بات وہ اپنے اخراجات پورے کرلے، یہی بڑی بات ہوگی۔ ادھر مشرقی سرحد پر ہر وقت کشیدگی اور فوجی بھائیوں کی شہادتیں، کشمیر آج تک کی اپنی سب سے بری حالت میں پہنچ چکا۔ کشمیریوں کے مسائل کے حل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے، جس کو حکومت اور ہمارے دیگر ادارے سنجیدگی سے قانونی لحاظ سے کوئی ایسا حل مرتب کرسکتے ہیں جو پاکستان اور بھارت کے ساتھ کشمیریوں کےلیے بھی قابل قبول ہو اور ساتھ میں ہماری مشرقی سرحد پر بھی مناسب ایس او پیز قائم کیے جاسکیں، تاکہ ہمارے فوجی مالی اور جانی نقصانات ختم ہوسکیں۔

ان سب کے باوجو د ہمارے اداروں نے جو ایک مائنڈسیٹ بنایا ہے اس پر قائم رہیں اور جو قانون کے اندر فال کرتا ہے اس پر پوری عمل داری اور نیک نیتی سے قانون لاگو کریں۔ مجرموں کو ایسی کڑی سزائیں دی جائیں کہ آئندہ کوئی عوامی عہدوں کا غلط استعمال نہ کرسکے۔ نیز سسٹم ایسا بنایا جائے کہ ایسے لوگ بھی اوپر نہ آسکیں، اور نسل درنسل سیاست کا بھی خاتمہ ہو۔ اب جنگ لگے، افراط زر بڑھ کر بیس فیصد ہوجائے یا ڈالر دو سو کا ہوجائے، ہمارے اداروں پر لوگوں کا اعتماد بڑھنا چاہیے اور قانون کی عملداری ایسے ہونی چاہیے جیسے اس کا حق ہے۔ یہ تو پاکستان اور پاکستانی اداروں کو روگ اسٹیٹ جیسا بنائیں گے، ووٹ لیں گے اور باہر جائیدادیں بنائیں گے۔ یہ اب قانون نے خود سوچنا ہے اور اپنا رستہ خود بنانا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جرمن لندن پر بم برسا رہے تھے تو کسی نے وزیراعظم چرچل سے پوچھا کہ انگلینڈ کا کیا ہوگا؟ یہ جنگ ہار رہا ہے، اس کی اکانومی بیٹھ گئی ہے۔ چرچل نے پوچھا کہ کیا انگلینڈ کی عدالتیں انصاف سے کام کر رہی ہیں؟ جواب ہاں میں پا کر اس نے کہا، تھینک گاڈ! اگر عدالتیں اپنا کام ٹھیک کررہی ہیں تو پھر کچھ بھی غلط نہیں ہوا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story