قندیل بلوچ کے والدین نے قتل میں نامزد بیٹوں کو معاف کردیا
عدالت سے استدعا ہے کہ وسیم اور اسلم شاہین کو بری کرے، والدین قندیل بلوچ
معروف ماڈل قندیل بلوچ کے والدین نے ایک بار پھر بیٹوں کو معاف کرنے کا بیان حلفی عدالت میں جمع کروا دیا۔
ماڈل کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں قندیل بلوچ کے والدین نے لکھا کہ قتل کے مقدمہ میں نامزد بیٹوں کو معاف کر دیا ہے لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ وسیم اور اسلم شاہین کو بری کر دیا جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قندیل بلوچ کے قتل میں غیرت کی کہانی بنائی گئی جو حقائق کے خلاف ہے، قتل کا مقدمہ 16 جولائی 2016 کو درج ہوا جبکہ غیرت کے قانون میں ترمیم 22 اکتوبر 2016 میں ہوئی، غیرت کے قانون 311 میں ترمیم بعد میں ہوئی لہذا اس کیس پر نئے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
ماڈل کورٹ کے جج نے صلح نامہ کے بیان حلفی پر بحث کے لیے پراسیکوشن اور وکلاء کو طلب کیا اور بعدازاں درخواست پر پراسیکیوشن کی جانب سے تحریری جواب جمع کروا دیا۔
جواب میں پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ 19 گواہان کی شہادتیں قلمبند ہونے کے بعد راضی نامہ کی درخواست کیس کو متاثر کرنے کے مترادف ہے، کریمنل ایکٹ 2004 میں ترمیم کے بعد غیرت کے نام پر قتل کرنا ناقابل راضی نامہ ہےاس لیے مدعی اور ملزمان مقتولہ قندیل کے ورثاء ہیں ان میں صلح نہیں کی جا سکتی۔
ماڈل کورٹ نے درخواست پر ملزمان کے وکلاء کے دلائل کے لیے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر متنازع ویڈیوز کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم اور مقتولہ کے سگے بھائیوں کو والدین نے پہلے بھی معاف کردیا تھا اور اس سلسلے میں 29 ستمبر 2018 کو والدین نے عدالت میں اپنا بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا۔
قندیل بلوچ 16 جولائی 2016 کی صبح مظفر گڑھ میں واقع اپنے گھر کے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ قتل کا مقدمہ قندیل کے والد عظیم کی مدعیت میں تھانہ مظفر آباد میں درج کیا گیا تھا۔ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ قتل میں اس کا اپنا بھائی وسیم ملوث ہے.
ماڈل کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں قندیل بلوچ کے والدین نے لکھا کہ قتل کے مقدمہ میں نامزد بیٹوں کو معاف کر دیا ہے لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ وسیم اور اسلم شاہین کو بری کر دیا جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قندیل بلوچ کے قتل میں غیرت کی کہانی بنائی گئی جو حقائق کے خلاف ہے، قتل کا مقدمہ 16 جولائی 2016 کو درج ہوا جبکہ غیرت کے قانون میں ترمیم 22 اکتوبر 2016 میں ہوئی، غیرت کے قانون 311 میں ترمیم بعد میں ہوئی لہذا اس کیس پر نئے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
ماڈل کورٹ کے جج نے صلح نامہ کے بیان حلفی پر بحث کے لیے پراسیکوشن اور وکلاء کو طلب کیا اور بعدازاں درخواست پر پراسیکیوشن کی جانب سے تحریری جواب جمع کروا دیا۔
جواب میں پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ 19 گواہان کی شہادتیں قلمبند ہونے کے بعد راضی نامہ کی درخواست کیس کو متاثر کرنے کے مترادف ہے، کریمنل ایکٹ 2004 میں ترمیم کے بعد غیرت کے نام پر قتل کرنا ناقابل راضی نامہ ہےاس لیے مدعی اور ملزمان مقتولہ قندیل کے ورثاء ہیں ان میں صلح نہیں کی جا سکتی۔
ماڈل کورٹ نے درخواست پر ملزمان کے وکلاء کے دلائل کے لیے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر متنازع ویڈیوز کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم اور مقتولہ کے سگے بھائیوں کو والدین نے پہلے بھی معاف کردیا تھا اور اس سلسلے میں 29 ستمبر 2018 کو والدین نے عدالت میں اپنا بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا۔
قندیل بلوچ 16 جولائی 2016 کی صبح مظفر گڑھ میں واقع اپنے گھر کے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ قتل کا مقدمہ قندیل کے والد عظیم کی مدعیت میں تھانہ مظفر آباد میں درج کیا گیا تھا۔ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ قتل میں اس کا اپنا بھائی وسیم ملوث ہے.