جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ
’’جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ محمد حسن عسکری مرحوم کے دو کتابچوں پر مشتمل کتاب ہے جو۔۔۔
''جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ'' محمد حسن عسکری مرحوم کے دو کتابچوں پر مشتمل کتاب ہے جو حال ہی میں راقم کے ایک بہت اچھے دوست نے دی ہے۔ ہمارے یہ دوست پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور مشرق ومغرب کے نظریات میں خوبیوں وخامیوں پر ان سے گفتگو کا موضوع رہتاہے۔ اس تناظر میں انھوں نے یہ کتاب مطالعے کے لیے ہمیں دی گو کہ اس کی اشاعت اول بہت پرانی ہے یعنی 1979کی ہے لیکن دور حاضر کے فکری اور علمی مسائل کے حوالے سے اس کی تازگی برقرار ہے۔
مذکورہ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد اجمل نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو دینی تعلیم وتعلم میں اس قدر منہمک ہیں کہ انھیں مغرب کی علمی تحریکوں کے مطالعے کا موقع نہیں ملتا۔ مطالعے کی اس کمی کی وجہ سے وہ دینی معاملات میں مغرب زدہ ذہن کے ساتھ مناظرے یا مباحثے میں ان کے سوالوں یا اعتراضوں کا صحیح جواب نہیں دے سکتے۔ مغرب کی تحریکوں میں دین کے متعلق جو غلطیاں پنپ رہی ہیں عسکری صاحب نے اپنی ان تحریروں کے ذریعے ان کا ازالہ کردیا ہے۔
ڈاکٹر اجمل مزید لکھتے ہیں کہ عسکری صاحب نے کتاب میں جن ادوار کا ذکر کیا ہے ان میں سے دو دور خصوصیت کے ساتھ اہم ہیں۔ ایک انیسویں صدی اور دوسرے بیسویں صدی۔ انیسویں صدی میں فلسفہ مادیت سے بیزاری تو پیدا ہوئی لیکن اس کا تدارک اس طرح نہیں کیا گیا کہ لوگ اصل دین کی طرف لوٹ آئیں بلکہ اس طرح کہ نت نئے خداؤں کی صنعت فروغ پا گئی۔ ایسے ایسے فلسفے تعمیر کیے گئے جو بظاہر مذہبی معلوم ہوتے تھے لیکن تحقیق کرنے پر ان کی بنیاد بھی مادیت ہی نکلتی تھی۔ برگساں ہو یا ولیم جیمز، وٹگنسٹائن ہو یا آئن سٹائن سب کے سب در حقیقت مادیت کے پرستار تھے لیکن انھوںنے نقاب روحانیت یا مذہب پہن رکھے تھے۔ بقول عسکری صاحب یہ مفکر زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے فکرکی جڑ تو مادیت ہی ہے لیکن دکان وہ مذہبی خیالات سے سجاتے ہیں۔
محمد حسن عسکری مرحوم نے مذکورہ تصنیف میں اختصار کے ساتھ یونانی عہد سے لے کر جدید عہد کے فلسفوں کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ کتاب بمشکل 140صفحات پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے اس اعتبار سے اس کی قیمت بھی زیادہ نہیں، مدارس اور جدید تعلیم مغربی تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے بھی یہ ایک شاندار کتاب ہے جس کا مطالعہ ان کے بند ذہن کو کھولنے اور مشرق ومغرب کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوتاہے۔ راقم کی کوشش ہے کہ یہاں اس کتاب کے مزید چیدہ چیدہ اقتباسات پیش کیے جائیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ آج کے طالب علموں کے لیے اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔
مصنف ابتدا میں لکھتے ہیں کہ ''اسلامی تاریخ میں بلکہ ہر مذہب کی تاریخ میں طرح طرح کی گمراہیاں، بدعتیں، شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، ہمارے علما فرماتے ہیں کہ مغربی تعلیم سے متاثر ہونے والے لوگ کوئی ایسا شبہ یا اعتراض نہیں لاسکتے جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو۔ یہ بات سو فیصد درست ہے گمراہی کی جتنی بھی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں یا آسکتی ہیں وہ بنیادی طورپر وہی ہیں جن سے اسلامی علما کو تاریخ میں پہلے بھی واسطہ پڑچکا ہے۔ علما کو ان کا جواب دینا بہت آسان ہے مگر نئی گمراہیاں چند باتوں میں اختصاص اور امتیاز رکھتی ہیں جن کو نظر میں رکھے بغیر علما کے جواب موثر نہیں ہوسکتے۔
1۔ پہلے گمراہیاں خود مسلمانوں کے اندر ہی سے پیدا ہوتی تھیں، لیکن نئی گمراہیاں مغرب سے آئی ہیں، پھر ان کے پیچھے یورپ کے مال اور فوجی طاقت بھی رہی ہے علاوہ ازیں یہ گمراہیاں اپنے ساتھ سائنس کی ایسی ایجادات بھی لائی ہیں جو نفسانی خواہشات کو تسکین دینے والی ہیں اور عام لوگوں کو بھونچکا کردیتی ہیں چنانچہ لوگ ذہن سے کام نہیں لیتے۔ حسی مشاہدات کو عقلی دلیل سمجھتے ہیں، اس لیے جب علماء اعترافات کا جواب دیتے ہیں تو قرار واقعی اثر نہیں ہوتا۔
2۔ یورپ کا ذہن چودھویں صدی عیسوی سے بتدریج مسخ ہوتا رہا ہے اور صداقت کو سمجھنے کی صلاحیت کھوتا رہا ہے۔ یورپ نے چھ سوسال میں جتنی گمراہیاں پیدا کی ہیں ان سب نے ایک ساتھ ہمارے اوپر حملہ کیا ہے، اس لیے ایک عام مسلمان کا ذہن اسلام سے عقیدت کے باوجود اس ریلے کی تاب نہیں لاسکتا، ایک گمراہی سے نجات پاتاہے تو دوسری گمراہی میں پڑجاتا ہے۔ اس طرح خود ہمارے یہاں بھی پچھلے ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں عام لوگوں کا خصوصاً جدید تعلیم پانے والوں کا ذہن آہستہ آہستہ مسخ ہوتا چلا گیا ہے۔
3۔ پرانی گمراہیاں اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تصورات ہی کو غلط طریقے سے استعمال کرتی تھیں اس لیے انھیں دور کرنا نہایت آسان تھا مگر نئی گمراہیاں ایک نئی زبان اور نئی اصطلاحات لے کر آئی ہیں چنانچہ مہمل سے مہمل نظریہ بھاری بھرکم اصطلاحات کے پردے میں اس طرح چھپ جاتاہے کہ آدمی خواہ مخواہ مرعوب ہوجاتاہے چونکہ ہمارے علما کو اس نئی زبان اور ان نئی اصطلاحات کی نوعیت اور ان کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا پورا علم نہیں اس لیے بعض دفعہ ان کے جوابات نشانے پر نہیں بیٹھتے۔
یہ نئی اصطلاحات تین قسم کی ہیں... مغربی مصنفین کو نئی اصطلاحات اختراع کرنے کا اتنا شوق ہے کہ چاہے کوئی نئی بات کہی ہو یا نہ کہی ہو مگر نئی اصطلاحات ضرور ہوں۔ یہ نئی اصطلاحات بھی دو قسم کی ہیں ایک تو بھاری بھرکم اور پیچیدہ الفاظ ہیں جن کا بعض دفعہ کوئی مطلب نہیں ہوتا مگر علمیت ضرور ٹپکتی ہے۔ لکھنے والوں کی تحریروں میں ایسی اصطلاحات کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا کوئی مطلب اخذ نہیں کرسکتا اور اس کا ذہن معطل ہوجاتاہے۔ دوسرے وہ اصطلاحات ہیں جو بظاہر خوش نما ہوتی ہیں اور براہ راست جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں قسم کی اصطلاحات کا مقصد اصل میں یہ ہوتاہے کہ پڑھنے والا اپنے ذہن سے کام نہ لے سکے۔ ہمارے علماء کی تبلیغ اس وقت تک کار گر نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ موجودہ مغربی ذہن کی ساخت اور اس کے طریقہ کار سے آگاہ نہ ہوں۔
آگے چل کر مصنف نے اس ضمن میں یورپ کی ذہنی تاریخ بلکہ یورپ کے ذہنی انحطاط کا مختصر خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ اس خاکے میں وہ کہتے ہیں کہ ...!1۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مشرق کے سارے ادیان کا انحصار زیادہ تر زبانی روایت پر ہے لکھی ہوئی کتابوں پر نہیں۔ ہمارے نزدیک کسی دین کے زندہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ روایت شروع سے لے کر آج تک کلی حیثیت سے سلسلہ بہ سلسلہ اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہو۔ پچھلے چھ سو یا کم سے کم چار سو سال سے یورپ اس تصور کو بھول چکا ہے۔ آج یورپ میں کسی قسم کی بھی کوئی روایت ایسی باقی نہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہو۔ یورپ اس قسم کی روایت کو قابل استناد بھی نہیں سمجھتا اور صرف ایسی شہادتوں کو قبول کرتاہے جو تحریری شکل میں موجود ہوں۔ اس ذہنیت کے مطابق یورپ کے لوگ عموماً اپنی تہذیب کی تاریخ یونان سے شروع کرتے ہیں، چنانچہ یورپ کی تاریخ کے ادوار کا خاکہ کچھ اس طرح بنتاہے۔ (1) یونانی دور (2) رومی دور (3) عیسوی دور یا ازمنہ وسطیٰ (4) نشاۃ ثانیہ (5) عقلیت کا دور (6) انیسویں صدی (7) بیسویں صدی یا عصرحاضری:
مصنف نے مندرجہ بالا ادوار پر نہایت جامع روشنی ڈالی ہے جس کا مطالعہ موجودہ دور میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بیسویں صدی کے خاکے میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی عقل جزوی کی پرستش کرتی تھی۔ انیسویں صدی میں جذبات پرستی کا غلبہ تھا جب کہ بیسویں صدی جبلت اور جسم کو پوجتی ہے اور اسی کو روح سمجھنا چاہتی ہے... آج کل مغرب کے بہت سے لوگ اور ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ پھر مذہب کی طرف واپس آرہاہے۔ بعض علما بھی یہ قول نقل کرنے لگے ہیں مگر یہ بہت خطرناک خیال ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی بے دینی بھی اصل دین کے لیے ایسی زہریلی نہیں تھی جیسی یہ نئی ''مذہبیت'' ہے لہٰذا تمام نئے فلسفوں سے اور نئی سائنس سے چوکنا رہنا لازمی ہے۔
آخر میں مصنف مزید لکھتے ہیں کہ ''ان نئے عیسوی مفکرین کے خیالات سے ہمارے بعض نوجوان بھی متاثر ہورہے ہیں اور اسلام کو بھی یہی رنگ دینا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ نئے سائنس اور نئے فلسفوں نے جتنے خیالات پیش کیے ہیں وہ نعوذ باﷲ عین اسلام ہیں''
راقم کے خیال میں مذکورہ بالا نظریات سے اگر کسی کو اختلاف بھی ہو تب بھی محمد حسن عسکری کی مذکورہ تصنیف کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
مذکورہ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد اجمل نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو دینی تعلیم وتعلم میں اس قدر منہمک ہیں کہ انھیں مغرب کی علمی تحریکوں کے مطالعے کا موقع نہیں ملتا۔ مطالعے کی اس کمی کی وجہ سے وہ دینی معاملات میں مغرب زدہ ذہن کے ساتھ مناظرے یا مباحثے میں ان کے سوالوں یا اعتراضوں کا صحیح جواب نہیں دے سکتے۔ مغرب کی تحریکوں میں دین کے متعلق جو غلطیاں پنپ رہی ہیں عسکری صاحب نے اپنی ان تحریروں کے ذریعے ان کا ازالہ کردیا ہے۔
ڈاکٹر اجمل مزید لکھتے ہیں کہ عسکری صاحب نے کتاب میں جن ادوار کا ذکر کیا ہے ان میں سے دو دور خصوصیت کے ساتھ اہم ہیں۔ ایک انیسویں صدی اور دوسرے بیسویں صدی۔ انیسویں صدی میں فلسفہ مادیت سے بیزاری تو پیدا ہوئی لیکن اس کا تدارک اس طرح نہیں کیا گیا کہ لوگ اصل دین کی طرف لوٹ آئیں بلکہ اس طرح کہ نت نئے خداؤں کی صنعت فروغ پا گئی۔ ایسے ایسے فلسفے تعمیر کیے گئے جو بظاہر مذہبی معلوم ہوتے تھے لیکن تحقیق کرنے پر ان کی بنیاد بھی مادیت ہی نکلتی تھی۔ برگساں ہو یا ولیم جیمز، وٹگنسٹائن ہو یا آئن سٹائن سب کے سب در حقیقت مادیت کے پرستار تھے لیکن انھوںنے نقاب روحانیت یا مذہب پہن رکھے تھے۔ بقول عسکری صاحب یہ مفکر زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے فکرکی جڑ تو مادیت ہی ہے لیکن دکان وہ مذہبی خیالات سے سجاتے ہیں۔
محمد حسن عسکری مرحوم نے مذکورہ تصنیف میں اختصار کے ساتھ یونانی عہد سے لے کر جدید عہد کے فلسفوں کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ کتاب بمشکل 140صفحات پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے اس اعتبار سے اس کی قیمت بھی زیادہ نہیں، مدارس اور جدید تعلیم مغربی تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے بھی یہ ایک شاندار کتاب ہے جس کا مطالعہ ان کے بند ذہن کو کھولنے اور مشرق ومغرب کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوتاہے۔ راقم کی کوشش ہے کہ یہاں اس کتاب کے مزید چیدہ چیدہ اقتباسات پیش کیے جائیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ آج کے طالب علموں کے لیے اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔
مصنف ابتدا میں لکھتے ہیں کہ ''اسلامی تاریخ میں بلکہ ہر مذہب کی تاریخ میں طرح طرح کی گمراہیاں، بدعتیں، شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، ہمارے علما فرماتے ہیں کہ مغربی تعلیم سے متاثر ہونے والے لوگ کوئی ایسا شبہ یا اعتراض نہیں لاسکتے جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو۔ یہ بات سو فیصد درست ہے گمراہی کی جتنی بھی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں یا آسکتی ہیں وہ بنیادی طورپر وہی ہیں جن سے اسلامی علما کو تاریخ میں پہلے بھی واسطہ پڑچکا ہے۔ علما کو ان کا جواب دینا بہت آسان ہے مگر نئی گمراہیاں چند باتوں میں اختصاص اور امتیاز رکھتی ہیں جن کو نظر میں رکھے بغیر علما کے جواب موثر نہیں ہوسکتے۔
1۔ پہلے گمراہیاں خود مسلمانوں کے اندر ہی سے پیدا ہوتی تھیں، لیکن نئی گمراہیاں مغرب سے آئی ہیں، پھر ان کے پیچھے یورپ کے مال اور فوجی طاقت بھی رہی ہے علاوہ ازیں یہ گمراہیاں اپنے ساتھ سائنس کی ایسی ایجادات بھی لائی ہیں جو نفسانی خواہشات کو تسکین دینے والی ہیں اور عام لوگوں کو بھونچکا کردیتی ہیں چنانچہ لوگ ذہن سے کام نہیں لیتے۔ حسی مشاہدات کو عقلی دلیل سمجھتے ہیں، اس لیے جب علماء اعترافات کا جواب دیتے ہیں تو قرار واقعی اثر نہیں ہوتا۔
2۔ یورپ کا ذہن چودھویں صدی عیسوی سے بتدریج مسخ ہوتا رہا ہے اور صداقت کو سمجھنے کی صلاحیت کھوتا رہا ہے۔ یورپ نے چھ سوسال میں جتنی گمراہیاں پیدا کی ہیں ان سب نے ایک ساتھ ہمارے اوپر حملہ کیا ہے، اس لیے ایک عام مسلمان کا ذہن اسلام سے عقیدت کے باوجود اس ریلے کی تاب نہیں لاسکتا، ایک گمراہی سے نجات پاتاہے تو دوسری گمراہی میں پڑجاتا ہے۔ اس طرح خود ہمارے یہاں بھی پچھلے ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں عام لوگوں کا خصوصاً جدید تعلیم پانے والوں کا ذہن آہستہ آہستہ مسخ ہوتا چلا گیا ہے۔
3۔ پرانی گمراہیاں اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تصورات ہی کو غلط طریقے سے استعمال کرتی تھیں اس لیے انھیں دور کرنا نہایت آسان تھا مگر نئی گمراہیاں ایک نئی زبان اور نئی اصطلاحات لے کر آئی ہیں چنانچہ مہمل سے مہمل نظریہ بھاری بھرکم اصطلاحات کے پردے میں اس طرح چھپ جاتاہے کہ آدمی خواہ مخواہ مرعوب ہوجاتاہے چونکہ ہمارے علما کو اس نئی زبان اور ان نئی اصطلاحات کی نوعیت اور ان کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا پورا علم نہیں اس لیے بعض دفعہ ان کے جوابات نشانے پر نہیں بیٹھتے۔
یہ نئی اصطلاحات تین قسم کی ہیں... مغربی مصنفین کو نئی اصطلاحات اختراع کرنے کا اتنا شوق ہے کہ چاہے کوئی نئی بات کہی ہو یا نہ کہی ہو مگر نئی اصطلاحات ضرور ہوں۔ یہ نئی اصطلاحات بھی دو قسم کی ہیں ایک تو بھاری بھرکم اور پیچیدہ الفاظ ہیں جن کا بعض دفعہ کوئی مطلب نہیں ہوتا مگر علمیت ضرور ٹپکتی ہے۔ لکھنے والوں کی تحریروں میں ایسی اصطلاحات کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا کوئی مطلب اخذ نہیں کرسکتا اور اس کا ذہن معطل ہوجاتاہے۔ دوسرے وہ اصطلاحات ہیں جو بظاہر خوش نما ہوتی ہیں اور براہ راست جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں قسم کی اصطلاحات کا مقصد اصل میں یہ ہوتاہے کہ پڑھنے والا اپنے ذہن سے کام نہ لے سکے۔ ہمارے علماء کی تبلیغ اس وقت تک کار گر نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ موجودہ مغربی ذہن کی ساخت اور اس کے طریقہ کار سے آگاہ نہ ہوں۔
آگے چل کر مصنف نے اس ضمن میں یورپ کی ذہنی تاریخ بلکہ یورپ کے ذہنی انحطاط کا مختصر خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ اس خاکے میں وہ کہتے ہیں کہ ...!1۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مشرق کے سارے ادیان کا انحصار زیادہ تر زبانی روایت پر ہے لکھی ہوئی کتابوں پر نہیں۔ ہمارے نزدیک کسی دین کے زندہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ روایت شروع سے لے کر آج تک کلی حیثیت سے سلسلہ بہ سلسلہ اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہو۔ پچھلے چھ سو یا کم سے کم چار سو سال سے یورپ اس تصور کو بھول چکا ہے۔ آج یورپ میں کسی قسم کی بھی کوئی روایت ایسی باقی نہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہو۔ یورپ اس قسم کی روایت کو قابل استناد بھی نہیں سمجھتا اور صرف ایسی شہادتوں کو قبول کرتاہے جو تحریری شکل میں موجود ہوں۔ اس ذہنیت کے مطابق یورپ کے لوگ عموماً اپنی تہذیب کی تاریخ یونان سے شروع کرتے ہیں، چنانچہ یورپ کی تاریخ کے ادوار کا خاکہ کچھ اس طرح بنتاہے۔ (1) یونانی دور (2) رومی دور (3) عیسوی دور یا ازمنہ وسطیٰ (4) نشاۃ ثانیہ (5) عقلیت کا دور (6) انیسویں صدی (7) بیسویں صدی یا عصرحاضری:
مصنف نے مندرجہ بالا ادوار پر نہایت جامع روشنی ڈالی ہے جس کا مطالعہ موجودہ دور میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بیسویں صدی کے خاکے میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی عقل جزوی کی پرستش کرتی تھی۔ انیسویں صدی میں جذبات پرستی کا غلبہ تھا جب کہ بیسویں صدی جبلت اور جسم کو پوجتی ہے اور اسی کو روح سمجھنا چاہتی ہے... آج کل مغرب کے بہت سے لوگ اور ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ پھر مذہب کی طرف واپس آرہاہے۔ بعض علما بھی یہ قول نقل کرنے لگے ہیں مگر یہ بہت خطرناک خیال ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی بے دینی بھی اصل دین کے لیے ایسی زہریلی نہیں تھی جیسی یہ نئی ''مذہبیت'' ہے لہٰذا تمام نئے فلسفوں سے اور نئی سائنس سے چوکنا رہنا لازمی ہے۔
آخر میں مصنف مزید لکھتے ہیں کہ ''ان نئے عیسوی مفکرین کے خیالات سے ہمارے بعض نوجوان بھی متاثر ہورہے ہیں اور اسلام کو بھی یہی رنگ دینا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ نئے سائنس اور نئے فلسفوں نے جتنے خیالات پیش کیے ہیں وہ نعوذ باﷲ عین اسلام ہیں''
راقم کے خیال میں مذکورہ بالا نظریات سے اگر کسی کو اختلاف بھی ہو تب بھی محمد حسن عسکری کی مذکورہ تصنیف کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔