آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں ضروری تھی
قانون و انصاف اور میرٹ کا ایک مستقل سلسلہ ہی اقوام کو دنیا میں دوسری قوموں سے ممتاز بناتا ہے
پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تعریف کرنا سورج کو گویا چراغ دکھانا ہے۔ یہ بات صرف ہم نہیں بلکہ پوری دنیا نہ صرف جانتی ہے بلکہ مانتی بھی ہے۔ بلاشبہ اس ماڈرن دور کے گلوبل ولیج کی کائنات میں کوئی ملک بڑا ہے تو کوئی چھوٹا ہے، کوئی ترقی یافتہ ہے تو کوئی پسماندہ اور کوئی ابھی ترقی کے زینے طے کررہا ہے۔ کوئی ایک زبان بولتا ہے تو کوئی دوسری۔ الغرض جو جہاں ہے جیسا ہے، آج کے اسے جدید دور میں چھوٹی یا بڑی فوج رکھنا اس کی ضرورت ہے۔
قدیم دور کے مقابلے میں آج کا دور ایک سخت مقابلے کا دور ہے جس میں نہ صرف افرادی قوت درکار ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس فوج کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کے چیلنجز سے مقابلہ کیا جاسکے۔ بیرونی جارحیت ہو یا اندرونی خلفشار، دونوں صورتوں میں افواج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے مقابلے کے دوران پاکستان کی افواج اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہتی ہے اور دیگر اداروں کے مقابلے میں قوم کا اعتبار اس ادارے پر غیر متزلزل رہتا ہے۔ یوں افواج پاکستان ہر قسم کے خطرے سے بلاخوف و خطر یوں ٹکرا جاتے ہیں جیسے یہ بہت ہی معمولی بات ہے۔ جان کی بازی لگانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ افواج پاکستان کا سب سے اہم کام اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے اور جارحیت پر اتر آنے والے دشمن کے دانت جنگ کے میدان میں کھٹے کرنا ان کا فریضہ ٹھہرتا ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران افسران اور جوانوں کی شجاعت و بہادری کے لازوال کارناموں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔
پاک فوج کے ادارے کو سول اداروں سے اگر کوئی چیز منفرد اور ممتاز بناتی ہے تو وہ ان کی اپنے شعبے میں مہارت، ٹریننگ اور ڈسپلن کے علاوہ ہر عہدے پر ترقی کا ایک مقررہ معیار ہے جس پر پرکھنے کے بعد ہی ایک جوان یا افسر ترقی کے اگلے زینے پر قدم رکھ سکتا ہے۔ اس طریقے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان آرمی ایک مکمل ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ جس میں کسی کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارا سلسلہ ایک نظام کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ایک جوان یا افسرترقی کے اگلے زینے پر قدم رکھتا ہے، پیچھے سے اس کا جونیئر پچھلا زینہ سنبھال لیتا ہے اور درمیان میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔ اسی طریقے سے جب پاکستان آرمی کا سربراہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے، اس کا منصب سنبھالنے کےلیے اس طرح کے آفیسرز بالکل تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں آرمی کے چیف کےلیے تین سال کا عرصہ مقرر ہے، جس کے بعد نئے آرمی چیف نے اپنی ذمے داریاں سنبھالنا ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے جب بھی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آتی جاتی ہے ملک میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مختلف چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس کی بحث میں دو گروپ سامنے آجاتے ہیں، جن میں سے ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کردیتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ہر لحاظ سے اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجاتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک آرمی چیف یا تو ریٹائر ہوکر گھر نہ چلے جائیں یا پھر حکومت وقت ان کو اپنے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے ملازمت میں توسیع نہ دے دے۔
اوپر پیش کی گئی حقیقت کی روشنی میں یہ بات اچھنبے والی نہیں کہ جب موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کی مدت ملازمت اپنے اختتام کی طرف بڑھنا شروع ہوئی تو ہمیشہ کی طرح ان کی مدت میں توسیع کی بحث ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور سب کی نظریں حکومت کے اس فیصلے کی طرف اس طرح لگ گئیں جیسےکوئی عید کے چاند کےلیے اپنی نظریں آسمان پر لگا دیتا ہے۔ آج سے کچھ دنوں پہلے تک ہمارے ملک کا سب سے بڑ ا مسئلہ یہ بن گیا کہ کیا آرمی چیف کی مدت میں ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں۔ اسی کشمکش میں خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور وزیراعظم عمران خان نے اپنی تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال پورا ہوتے ہی اگلے دن آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں اس وقت نہ صرف ایک یا دو، بلکہ یکمشت تین سال کی توسیع کردی۔ جب کہ ابھی ان کی جاری مدت میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت باقی تھا۔
عمران خان کا فیصلہ حکومتی حمایت یافتہ طبقہ کےلیے تو عید کا چاند بن کر چمکا، جب کہ دوسری اپوزیشن کے حمایت یافتہ طبقہ پر یہ فیصلہ آسمانی بجلی بن کر گرا۔ اس فیصلے کے اعلان کے بعد ملک کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر صرف ایک ہی خبر کا راج تھا اور وہ خبر تھی وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی گئی۔
آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع حکومت کی طرف سے خطے میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہے۔ بلاشبہ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اس وقت بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں روا رکھے گئے اس کے مظالم اور پھر بھارتی آئین سے شق نمبر 370 اور 35A کے ختم کرنے سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان سے صحیح طریقے سے نمٹنے کےلیے بہت زیادہ ذہانت، تجربہ اور حکومت اور فوج کا ایک ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو آنے والے دنوں میں بہت اہم فیصلے کرنے پڑسکتے ہیں، جن میں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر ہم نے ایک قوم بن کر دکھانا ہے اور حکومت اور فوج کی پشت پر کھڑا ہونا ہے۔ حکومت نے مناسب سمجھا کہ خطے کی اس کشیدہ صورتحال میں پاک آرمی کی کمانڈ کو تبدیل نہ کرنا مناسب رہے گا۔
یہاں پر سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس صورتحال کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس بات کا شائبہ نظر آرہا تھا کہ موجودہ حکومت یہ فیصلہ کرتی نظر آرہی تھی۔ اس کے علاوہ بھی آرمی چیف کی موجودہ مدت میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت باقی تھا اور تیسری بات کہ تین سال کی توسیع تجزیہ نگاروں کی اس بات کو تقویت پہنچاتی ہے کہ عمران خان یہ فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے اور اب خطے کے حالات کو سامنے رکھ کر اس کا اعلان وقت سے پہلے ہی کردیا گیا ہے۔
اس صورتحال کو تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنے کے خاتمے کی وجہ کے ساتھ بھی جوڑا جارہا ہے جب تحریک انصاف اپنے دھرنے سے کچھ حاصل نہ کرسکی اور اس کے وہاں سے نکلنے کا راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا تو بدقسمتی سے آرمی پبلک اسکول میں جو سانحہ پیش آیا، اس کو سامنے رکھ کر تحریک انصاف دھرنا ختم کرسکی تھی۔ گویا ان دونوں فیصلوں میں بظاہر عمران خان نے سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی بچالی۔ یہ سو فیصد ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، لیکن حالات و واقعات بہرحال اس طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اب پورا سچ تو عوام کو نہ پہلے سمجھ آیا ہے اور نہ ہی اب آنے والا ہے۔ اسی لیے تو قیامت کا دن مقرر ہے، جس دن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
اب رہی بات آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی، تو موجودہ آرمی چیف کی قابلیت، ملک کی خدمت اور خطے کی صورتحال سے آگاہی کے حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہوسکتا اور بلاشبہ وہ اپنے تجربے اور حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سےآئندہ بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور اگلے تین سال بھی اپنی ملازمت اپنی پوری محنت اور ملک کی ترقی کے حوالے سے ہی مکمل کریں گے۔
لیکن یہاں پر ایک سوال ہے جس میں باقی سارے سوالوں کے جواب سمٹ کر آجائیں گے اور وہ سوال یہ کہ اگر خدانخواستہ تین سال بعد خطے کےحالات بہتر نہ ہوئے یا اس سے بدتر ہوئے تو کیا ہوگا؟ کیا موجودہ چیف کو پھر توسیع دیں گے؟ کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت آج سے بھی زیادہ ہوگی کہ ان کے پاس آرمی کی قیادت کا تین نہیں بلکہ چھ سال کا تجربہ ہوگا اور خطے کی صورتحال سے آگاہی بھی آج سے زیادہ ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ایک ہی پیج پر بھی موجود ہوں۔
اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ یعنی کتنی بار توسیع دیں گے اور جتنی بار بھی دیں آخرکار تو آپ کو نیا آرمی چیف لینا ہی پڑے گا، تو کیوں نہ وہ کام آج ہی کرلیا جاتا۔
جیسا کہ اس تحریر کے تمہیدی پیراگراف میں اس بات کا ذکر کردیا گیا ہے کہ ہماری فوج ایک پروفیشنل، ڈسپلنڈ اور پروموشن کا ایک بہترین مروجہ طریقہ کار رکھتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا ہر جوان اور افسر معیار کی چھلنی سے گزر کر آتا ہے اور اس طرح جس درجہ پر وہ پہنچتا ہے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرکے پہنچتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ نیا آرمی چیف ویسے کام کو نہیں سنبھال سکے گا، جیسے موجودہ نے سنبھالا ہوا ہے تو یہ بات حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی۔
ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب غالباً 2010 میں ملک حالات خراب ہونے کی وجہ سے زرداری حکومت نے اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا تو جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی ان میں عمران خان بھی پیش پیش تھے اور انہوں نے ٹی وی کے کئی انٹرویوز میں ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے کو کوشش کی تھی کہ آرمی چیف کو توسیع نہیں دینی چاہیے، چاہے جنگ ہی کیوں نہ چل رہی ہو۔ قسمت کا کھیل کہ آج ان کو خود وہ فیصلہ کرنا پڑگیا جس کے وہ ساری زندگی ناقد رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی سب کو یاد ہے کہ جب باجوہ صاحب کے پیشرو جنرل راحیل شریف 2016 میں ریٹائرڈ ہونے والے تھے تو اس وقت قوم کے ہیرو بنے ہوئے تھے اور ان کی توسیع کی باتیں بھی سرعام ہورہی تھیں کہ شاید ان کے بغیر کام نہیں چل سکے گا۔ خیر اس وقت کی حکومت نے ان کو توسیع نہیں دی یا شاید جنرل راحیل شریف نے خود انکار کردیا۔
ان سب واقعات نے ثابت کیا کہ ملک و قوم کےلیے افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ جنرل کیانی گئے تو راحیل شریف آئے اور وہ گئے تو قمر باجوہ صاحب آئے اور سب نے اپنا فریضہ سرانجام دیا۔ اگر راحیل شریف کو توسیع ملتی تو باجوہ صاحب کی صلاحیتیں کیسے سامنے آتیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک آرمی ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ایک کے بعد کئی اور کیانی، ایک کے بعد کئی اور راحیل شریف اور ایک کے بعد کئی اور باجوہ صاحب موجود ہیں۔ بس ضرورت ان کو موقع دینے کی ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک آرمی چیف کو توسیع دی جاتی ہے تو اس فیصلے سے کتنے جنرلز کی ایک طرف ترقی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کی دنیا کی سب سے بہترین فوج کو کمانڈ کرنے کی ایک قیمتی خواہش بھی پوری ہونے سے رہ جاتی ہے، جس کا موقع ان کو اس لیے نہیں مل پاتا کہ ان کے حصے کا کام اس کے ذمے کردیا جاتا ہے جو پہلے ہی اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔
عمران خان کا تو خود یہ نظریہ رہا ہے کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ ملک افراد نہیں ادارے چلاتے ہیں۔ قانون و انصاف اور میرٹ کا ایک مستقل سلسلہ ہی اقوام کو دنیا میں دوسری قوموں سے ممتاز بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو، اسے دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔ (آمین)
پاک فوج زندہ باد... پاکستان پائندہ باد
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قدیم دور کے مقابلے میں آج کا دور ایک سخت مقابلے کا دور ہے جس میں نہ صرف افرادی قوت درکار ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس فوج کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کے چیلنجز سے مقابلہ کیا جاسکے۔ بیرونی جارحیت ہو یا اندرونی خلفشار، دونوں صورتوں میں افواج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے مقابلے کے دوران پاکستان کی افواج اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہتی ہے اور دیگر اداروں کے مقابلے میں قوم کا اعتبار اس ادارے پر غیر متزلزل رہتا ہے۔ یوں افواج پاکستان ہر قسم کے خطرے سے بلاخوف و خطر یوں ٹکرا جاتے ہیں جیسے یہ بہت ہی معمولی بات ہے۔ جان کی بازی لگانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ افواج پاکستان کا سب سے اہم کام اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے اور جارحیت پر اتر آنے والے دشمن کے دانت جنگ کے میدان میں کھٹے کرنا ان کا فریضہ ٹھہرتا ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران افسران اور جوانوں کی شجاعت و بہادری کے لازوال کارناموں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔
پاک فوج کے ادارے کو سول اداروں سے اگر کوئی چیز منفرد اور ممتاز بناتی ہے تو وہ ان کی اپنے شعبے میں مہارت، ٹریننگ اور ڈسپلن کے علاوہ ہر عہدے پر ترقی کا ایک مقررہ معیار ہے جس پر پرکھنے کے بعد ہی ایک جوان یا افسر ترقی کے اگلے زینے پر قدم رکھ سکتا ہے۔ اس طریقے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان آرمی ایک مکمل ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ جس میں کسی کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارا سلسلہ ایک نظام کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ایک جوان یا افسرترقی کے اگلے زینے پر قدم رکھتا ہے، پیچھے سے اس کا جونیئر پچھلا زینہ سنبھال لیتا ہے اور درمیان میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔ اسی طریقے سے جب پاکستان آرمی کا سربراہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے، اس کا منصب سنبھالنے کےلیے اس طرح کے آفیسرز بالکل تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں آرمی کے چیف کےلیے تین سال کا عرصہ مقرر ہے، جس کے بعد نئے آرمی چیف نے اپنی ذمے داریاں سنبھالنا ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے جب بھی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آتی جاتی ہے ملک میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مختلف چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس کی بحث میں دو گروپ سامنے آجاتے ہیں، جن میں سے ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کردیتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ہر لحاظ سے اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجاتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک آرمی چیف یا تو ریٹائر ہوکر گھر نہ چلے جائیں یا پھر حکومت وقت ان کو اپنے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے ملازمت میں توسیع نہ دے دے۔
اوپر پیش کی گئی حقیقت کی روشنی میں یہ بات اچھنبے والی نہیں کہ جب موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کی مدت ملازمت اپنے اختتام کی طرف بڑھنا شروع ہوئی تو ہمیشہ کی طرح ان کی مدت میں توسیع کی بحث ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور سب کی نظریں حکومت کے اس فیصلے کی طرف اس طرح لگ گئیں جیسےکوئی عید کے چاند کےلیے اپنی نظریں آسمان پر لگا دیتا ہے۔ آج سے کچھ دنوں پہلے تک ہمارے ملک کا سب سے بڑ ا مسئلہ یہ بن گیا کہ کیا آرمی چیف کی مدت میں ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں۔ اسی کشمکش میں خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور وزیراعظم عمران خان نے اپنی تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال پورا ہوتے ہی اگلے دن آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں اس وقت نہ صرف ایک یا دو، بلکہ یکمشت تین سال کی توسیع کردی۔ جب کہ ابھی ان کی جاری مدت میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت باقی تھا۔
عمران خان کا فیصلہ حکومتی حمایت یافتہ طبقہ کےلیے تو عید کا چاند بن کر چمکا، جب کہ دوسری اپوزیشن کے حمایت یافتہ طبقہ پر یہ فیصلہ آسمانی بجلی بن کر گرا۔ اس فیصلے کے اعلان کے بعد ملک کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر صرف ایک ہی خبر کا راج تھا اور وہ خبر تھی وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی گئی۔
آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع حکومت کی طرف سے خطے میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہے۔ بلاشبہ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اس وقت بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں روا رکھے گئے اس کے مظالم اور پھر بھارتی آئین سے شق نمبر 370 اور 35A کے ختم کرنے سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان سے صحیح طریقے سے نمٹنے کےلیے بہت زیادہ ذہانت، تجربہ اور حکومت اور فوج کا ایک ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو آنے والے دنوں میں بہت اہم فیصلے کرنے پڑسکتے ہیں، جن میں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر ہم نے ایک قوم بن کر دکھانا ہے اور حکومت اور فوج کی پشت پر کھڑا ہونا ہے۔ حکومت نے مناسب سمجھا کہ خطے کی اس کشیدہ صورتحال میں پاک آرمی کی کمانڈ کو تبدیل نہ کرنا مناسب رہے گا۔
یہاں پر سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس صورتحال کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس بات کا شائبہ نظر آرہا تھا کہ موجودہ حکومت یہ فیصلہ کرتی نظر آرہی تھی۔ اس کے علاوہ بھی آرمی چیف کی موجودہ مدت میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت باقی تھا اور تیسری بات کہ تین سال کی توسیع تجزیہ نگاروں کی اس بات کو تقویت پہنچاتی ہے کہ عمران خان یہ فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے اور اب خطے کے حالات کو سامنے رکھ کر اس کا اعلان وقت سے پہلے ہی کردیا گیا ہے۔
اس صورتحال کو تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنے کے خاتمے کی وجہ کے ساتھ بھی جوڑا جارہا ہے جب تحریک انصاف اپنے دھرنے سے کچھ حاصل نہ کرسکی اور اس کے وہاں سے نکلنے کا راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا تو بدقسمتی سے آرمی پبلک اسکول میں جو سانحہ پیش آیا، اس کو سامنے رکھ کر تحریک انصاف دھرنا ختم کرسکی تھی۔ گویا ان دونوں فیصلوں میں بظاہر عمران خان نے سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی بچالی۔ یہ سو فیصد ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، لیکن حالات و واقعات بہرحال اس طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اب پورا سچ تو عوام کو نہ پہلے سمجھ آیا ہے اور نہ ہی اب آنے والا ہے۔ اسی لیے تو قیامت کا دن مقرر ہے، جس دن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
اب رہی بات آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی، تو موجودہ آرمی چیف کی قابلیت، ملک کی خدمت اور خطے کی صورتحال سے آگاہی کے حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہوسکتا اور بلاشبہ وہ اپنے تجربے اور حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سےآئندہ بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور اگلے تین سال بھی اپنی ملازمت اپنی پوری محنت اور ملک کی ترقی کے حوالے سے ہی مکمل کریں گے۔
لیکن یہاں پر ایک سوال ہے جس میں باقی سارے سوالوں کے جواب سمٹ کر آجائیں گے اور وہ سوال یہ کہ اگر خدانخواستہ تین سال بعد خطے کےحالات بہتر نہ ہوئے یا اس سے بدتر ہوئے تو کیا ہوگا؟ کیا موجودہ چیف کو پھر توسیع دیں گے؟ کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت آج سے بھی زیادہ ہوگی کہ ان کے پاس آرمی کی قیادت کا تین نہیں بلکہ چھ سال کا تجربہ ہوگا اور خطے کی صورتحال سے آگاہی بھی آج سے زیادہ ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ایک ہی پیج پر بھی موجود ہوں۔
اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ یعنی کتنی بار توسیع دیں گے اور جتنی بار بھی دیں آخرکار تو آپ کو نیا آرمی چیف لینا ہی پڑے گا، تو کیوں نہ وہ کام آج ہی کرلیا جاتا۔
جیسا کہ اس تحریر کے تمہیدی پیراگراف میں اس بات کا ذکر کردیا گیا ہے کہ ہماری فوج ایک پروفیشنل، ڈسپلنڈ اور پروموشن کا ایک بہترین مروجہ طریقہ کار رکھتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا ہر جوان اور افسر معیار کی چھلنی سے گزر کر آتا ہے اور اس طرح جس درجہ پر وہ پہنچتا ہے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرکے پہنچتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ نیا آرمی چیف ویسے کام کو نہیں سنبھال سکے گا، جیسے موجودہ نے سنبھالا ہوا ہے تو یہ بات حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی۔
ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب غالباً 2010 میں ملک حالات خراب ہونے کی وجہ سے زرداری حکومت نے اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا تو جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی ان میں عمران خان بھی پیش پیش تھے اور انہوں نے ٹی وی کے کئی انٹرویوز میں ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے کو کوشش کی تھی کہ آرمی چیف کو توسیع نہیں دینی چاہیے، چاہے جنگ ہی کیوں نہ چل رہی ہو۔ قسمت کا کھیل کہ آج ان کو خود وہ فیصلہ کرنا پڑگیا جس کے وہ ساری زندگی ناقد رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی سب کو یاد ہے کہ جب باجوہ صاحب کے پیشرو جنرل راحیل شریف 2016 میں ریٹائرڈ ہونے والے تھے تو اس وقت قوم کے ہیرو بنے ہوئے تھے اور ان کی توسیع کی باتیں بھی سرعام ہورہی تھیں کہ شاید ان کے بغیر کام نہیں چل سکے گا۔ خیر اس وقت کی حکومت نے ان کو توسیع نہیں دی یا شاید جنرل راحیل شریف نے خود انکار کردیا۔
ان سب واقعات نے ثابت کیا کہ ملک و قوم کےلیے افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ جنرل کیانی گئے تو راحیل شریف آئے اور وہ گئے تو قمر باجوہ صاحب آئے اور سب نے اپنا فریضہ سرانجام دیا۔ اگر راحیل شریف کو توسیع ملتی تو باجوہ صاحب کی صلاحیتیں کیسے سامنے آتیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک آرمی ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ایک کے بعد کئی اور کیانی، ایک کے بعد کئی اور راحیل شریف اور ایک کے بعد کئی اور باجوہ صاحب موجود ہیں۔ بس ضرورت ان کو موقع دینے کی ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک آرمی چیف کو توسیع دی جاتی ہے تو اس فیصلے سے کتنے جنرلز کی ایک طرف ترقی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کی دنیا کی سب سے بہترین فوج کو کمانڈ کرنے کی ایک قیمتی خواہش بھی پوری ہونے سے رہ جاتی ہے، جس کا موقع ان کو اس لیے نہیں مل پاتا کہ ان کے حصے کا کام اس کے ذمے کردیا جاتا ہے جو پہلے ہی اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔
عمران خان کا تو خود یہ نظریہ رہا ہے کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ ملک افراد نہیں ادارے چلاتے ہیں۔ قانون و انصاف اور میرٹ کا ایک مستقل سلسلہ ہی اقوام کو دنیا میں دوسری قوموں سے ممتاز بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو، اسے دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔ (آمین)
پاک فوج زندہ باد... پاکستان پائندہ باد
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔