پی ٹی آئی حکومت کا پہلا پارلیمانی سال شور شرابا عروج پر

احتجاج، گھیراؤ، پروڈکشن آرڈرز کی گونج رہی، ’’گو گو‘‘، ’’نونو ‘‘، ’’چور چور ‘‘کا شور

تبدیلی سرکار کا قومی اسمبلی میں پہلا سال ماضی کی لڑائیوں کو پیچھے چھوڑ گیا فوٹو:فائل

KARACHI:
پی ٹی آئی حکومت کا پہلا پارلیمانی سال ہنگامہ آرائی، احتجاج، گھیراؤ، پروڈکشن آرڈرز کا شکارہا۔

وزیراعظم کی تقریر سے شروع ہونے والا احتجاج پورا سال جاری رہا، قانون ساز ادارے میں ''گو گو''، ''نونو ''، ''چور چور ''کا شور ہی ہوتا رہا جبکہ قانون سازی نہ ہونے کے برابر رہی۔ اجلاس تو لازمی ایام سے زائد چل گیا لیکن فاٹا اصلاحات سمیت عوامی اہمیت کے صرف دو بلز ایکٹ آف پارلیمنٹ بن سکے۔پہلے سال 3 مشترکہ سیشن ہوئے،کورم پورا کرنا بہت بڑا مسئلہ رہا، وزیراعظم ایوان سے زیادہ تر غیر حاضر رہے، اپوزیشن لیڈر کی حاضریاں بھی 50 فیصد سے کمرہیں۔

قومی اسمبلی کے 150 ایام میں پورے342 ارکان ایک دن بھی حاضر نہ ہوئے،زیادہ سے زیادہ تعداد330 تک ہی پہنچ سکی۔تبدیلی سرکار کا قومی اسمبلی میں پہلا سال ماضی کی لڑائیوں اور ہنگامہ آرائیوں کو پیچھے چھوڑ گیا۔25 جولائی2018 کو انتخابات کے بعد تبدیلی کی ہوا چلی تو 13 اگست سے حلف اٹھانے والی اسمبلی کے وقت کا پہیہ بھی چل پڑا۔


وزیراعظم کا پہلا خطاب ہی اپوزیشن کے احتجاج کی نذر ہوا۔ قومی اسمبلی کے ایک سال میں 49 پرائیویٹ،19 حکومتی بل پیش ہوئے البتہ صرف اپوزیشن کا ایک اور 10 حکومتی بل ہی منظور ہوسکے۔ ان میں بھی سینیٹ کی منظوری کے بعد 7 بلز کو ہی صدر مملکت سے دستخطوں کا شرف حاصل ہوسکا۔

ارکان کی حاضری کیسے پوری ہوتی جب خود وزیر اعظم ہی پورے پارلیمانی سال میں صرف 14 مرتبہ اجلاس میں آئے، سب سے زیادہ حاضری رہی تو وہ ایم ایم اے کے رکن مولانا عبد الاکبر چترالی کی جو 81 دن ایوان میں موجود تھے، اپوزیشن لیڈر شہبازشریف 53، بلاول بھٹو زرداری 38 ،آصف علی زرداری 20 اور اختر مینگل 30 مرتبہ ایوان میں آئے۔ وزرائے مملکت علی محمد خان 75 جبکہ مراد سعید 70 مرتبہ ایوان میں آئے۔

آصف علی زرداری نیب حراست میں گئے تو اپوزیشن نے انہیں اپنے6 ارکان واپس لیکر 6 قائمہ کمیٹیوں کا رکن بنادیا۔کشمیر پر بلایا مشترکہ اجلاس جہاں پہلے دن370 اور35 اے یا پروڈکشن آرڈرز پر تقسیم کا پیغام دے گیا وہاں دوسرے روز اتحاد سے مودی کو سخت پیغام بھی دے گیا۔آخری دوروز مریم نواز کی گرفتاری کے باعث پھر تناو میں گزر گئے،پارلیمانی ذرائع کے مطابق نئے آنے والا پارلیمانی سال بھی تلخی سے بھرپور ہوگا۔
Load Next Story